رشید حسن خاں صاحب سے کلیاتِ اقبال کے بارے میں خط کتابت۔۔حافظ صفوان محمد

مجھے کئی سال پہلے اور پھر ابھی چند ماہ پہلے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کی عنایت سے دوبارہ بھی، علامہ اقبال کے کلام کی تدوین کے سلسلے میں لکھا گیا رشید حسن خاں صاحب کا مقالہ کلامِ اقبال کی تدوین پڑھنے کا موقع ملا۔ میں نے 1995ء کے اواخر میں اقبال اکادمی لاہور سے شائع ہونے والے اقبال کے اردو اور فارسی کلیات خریدے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد (شاید 1997ء کے لگ بھگ کسی وقت میں، لیکن یہ بالکل یاد نہیں کہ کہاں) مذکورۂ بالا مقالہ پڑھنے کو ملا۔ کلیاتِ اقبال کے اِن نہایت دیدارو نسخوں پر ’’اقبال اکادمی کے پنچایتی کلیات‘‘ کی پھبتی کس کے خاں صاحب نے ایک ہی وار میں اقبال، کلیات اور اکادمی تینوں کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ اُن کے اِس قسم کے جملے:
’’یہ دونوں کلیات ایسی طرح طرح کی غلطیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔‘‘؛
’’ایسی دورنگی سے یہ کلیات بھرا ہوا ہے۔‘‘؛
’’اِس کلیات کا احوال اِس لحاظ سے بہت تباہ ہے۔‘‘؛
’’اگر کسی شخص کے سامنے کلامِ اقبال۔۔ یہ دونوں کلیات ہوں تو وہ نیرنگیِ اِملا پر حیران رہ جائے گا۔‘‘؛
’’کلیاتِ فارسی میں طرزِ کتابت کا احوال بیان کیا گیا [جو سراسر اقبال کے طریقِ نگارش کے خلاف ہے]۔‘‘؛
’’کیا ایسے ایڈیشن کو معتبر کہا جا سکتا ہے؟ اِس سے زیادہ اہتمام تو اب سے ڈیڑھ سو برس پہلے منشی نول کشور کے مطبعے میں ملحوظ رکھا جاتا تھا۔‘‘؛
’’اُسی صفحے کے نچلے حصے میں نمبر شمار… ہے۔ پڑھنے والا سمجھ ہی نہیں پائے گا کہ یہ ہُوا کیا ہے؟‘‘؛
’’اقبال اکادمی کے کلیاتِ فارسی میں جی بھرکے ایسی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔‘‘؛
’’ایسی مثالوں سے یہ کلیات بھرا ہوا ہے۔‘‘؛
’’دل چسپ بلکہ عبرت ناک مثال۔۔”
وغیرہ وغیرہ، پڑھنے کے بعد کلیاتِ اقبال سے جی اُوبھ گیا۔ اِسی پر بس نہیں بلکہ شیخ غلام علی کے شائع کردہ اُس نسخے سے بھی دل اُٹھ گیا جو اِس خریداری سے پہلے سے میرے پاس موجود تھا، کیوں کہ اِس مقالے میں اِس نسخے کی بھی ’’رَج کے‘‘ تواضع کی گئی ہے۔ سالہا سال گزر گئے اور مجھے کلامِ اقبال پھر پڑھنا نصیب نہ ہوا، اور یہ کلیات میرے پاس اُس طرح پڑے سڑتے رہے جیسے کفار کے ترجمہ کیے ہوئے قرآنِ پاک کے نسخے لائبریریوں میں رکھے ہوتے ہیں، یعنی صرف حوالے کے لیے۔ وہ تو اللہ بھلا کرے الحمراء والوں اور ڈاکٹر خواجہ عبد الحمید یزدانی صاحب کا، کہ اُنھوں نے آسان کلیاتِ اقبال شائع کرکے ادب کے میدان میں مجھ جیسی کوری تعلیمی استعداد کے حامل لوگوں پر احسان کیا؛ اِس کلیات کا اِملا بھی نہایت اچھا اور معیاری ہے۔ اب میں نے نہ صرف خود اقبال کو دوبارہ پڑھنا شروع کیا بلکہ اِس لمبے عرصے میں اللہ نے مجھے تین بچے دِیے جو اَب میرے ساتھ اقبال کی نظمیں پڑھتے ہیں۔

پھر، جب سے میں نے رشید حسن خاں صاحب سے خط کتابت اور فون پر رابطہ رکھنا شروع کیا تو ایک بار میں نے فون پر اُن سے یہ اجازت لے کر اور اطمینان کرکے کہ وہ میری صاف صاف باتوں سے خفا نہیں ہوں گے، اُنھیں اُن کا مذکورہ مقالہ پڑھنے سے ہونے والے اِس ذاتی سانحے یعنی کلامِ اقبال سے برگشتہ خاطری کے بارے میں لکھا۔ میں نے لکھا کہ:

’’تنقید کا ایک انداز مشفق خواجہ صاحب کا ہے جن کا کالم پڑھتے ہی وہ کتاب پڑھنے کو جی چاہتا ہے جس پر وہ کالم لکھا گیا، حالاں کہ وہ نہایت بے رحمی سے اور ببانگِ بلند اصلاحِ احوال فرماتے ہیں۔ دوسرا انداز قاضی عبد الودود صاحب کا ہے جن کی تحریر پڑھ کر نہ صرف کتاب بلکہ صاحبِ کتاب کے بارے میں بھی تپاک کے جذبات ہمیشہ کے لیے ٹھنڈے ہوجاتے ہیں۔ …میرے والد صاحب نے ہم بچوں کو اقبال کے کلام کی ایک طرح سے گھٹی دی تھی، تو اقبال کے لیے محبت و عظمت کے شدید جذبات رکھنے والے ایک قاری کی حیثیت میں مجھے آپ کی تحریر سے یہی لگا کہ کلیاتِ اقبال کے یہ سب نسخے اغلاط کی کھتاؤنیاں ہیں جن میں ہر شعر بالکل غلط لکھا ہوا ہے، تو جیسے طباعتی اغلاط والے قرآنِ پاک کا احترام گو ضروری ہے لیکن اِس سے تلاوت گناہ ہے ویسے ہی اگر اِن مجموعوں سے اقبال کا کلام پڑھا گیا تو وقت اور صلاحیتوں کے ضیعان کے ساتھ ساتھ گناہ بھی ہوگا، اور اِن سب نسخوں کا صحیح مقام صرف پنواڑی کا کھوکھا ہے یا انگیٹھی۔۔جب کہ صحیح صورتِ حال یہ ہے کہ آپ کی ذکرکردہ چھوٹی بڑی غلطیاں، سب کی سب، اوسطاً ہر دسویں صفحے پر ایک کے حساب سے ملتی ہیں۔ اِس طرح آپ مجھے قاضی عبدالودود لگے۔

اور پھر جس انداز میں آپ نے اپنے اِس مقالے کے آخر میں اقبال کے لیے واوین کے اندر ’’شاعرِملت، شاعرِمشرق‘‘ اور ’’حکیم الامت‘‘ کے الفاظ لکھے ہیں، اُن سے تو خاکم بدہن مجھے آپ کے ہاں اُس خاص چیز کی موجودگی کا صاف پتہ ملتا ہے جو جوش کو اقبال سے تھی۔ اور میرے اِس گمان کو یقین میں یہ بات تبدیل کرتی ہے کہ اِتنی طویل ادبی زندگی (ادبی کیریر) کے باوجود کلامِ اقبال کی تحسین یا تجزیے پر آپ کی کوئی مستقل تحریر آپ کے مضامین کے کسی مجموعے میں موجود نہیں ہے۔ …میری نظر میں آپ نے یہ کچھ لکھ کر اقبال دوستی کا ثبوت نہیں دیا۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ غالب کے بارے میں تو آپ اِملائے غالب کی پیروی کا جواز بتاتے ہیں جب کہ اپنے اِس مضمون میں آپ اقبال کے معاملے میں ایسی رواداری کے رویے کی صراحت کے ساتھ نفی کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ’اگر اقبال کی کسی تحریر میں اُن کے قلم سے [کسی لفظ کا غلط اِملا] ملتا ہے، اُس صورت میں اِس کی بھی صراحت کی جائے گی۔ اِس سلسلے میں مرتِّبین کو اپنے طریقۂ کار کا تعین کرنا ہوگا کہ۔۔ایسے لفظوں کو کس طرح لکھا جائے گا۔‘ مٹھار مٹھار کر کی گئی اِن باتوں میں سے آپ کا منشا کشید کیا جائے تو یوں لکھا جائے گا کہ اقبال کی غلطی کی اصلاح کی جائے گی۔ صورت یہ بنی کہ غالب اگر دھڑلّے سے کسی لفظ کے غلط اِملا پر اِصرار کرے تو روا ہے، اقبال سے اگر چوک ہوجائے تو مجہول الاسم مرتِّبینِ متن کے پرے کے پرے اُن کے سہوِ قلم پر طویل اور ہمہ جہت شذرات لکھیں گے۔ بہ الفاظِ دیگر اگر غالب کا معاملہ سامنے آئے تو آپ کی اصلاحِ اِملا و قواعد کی توپیں رنجک چاٹ جاتی ہیں۔ جب کہ یہ بات ہر ایک کو معلوم ہے کہ غالب اپنی شاعری میں اظہارِ جذبات کے اعتبار سے بہت بڑے سہی، اُن کا علم اقبال جیسے کئی زبانوں کے گہرے آشنا عالم اور کئی ثقافتوں کے گرم و سرد چشیدہ مفکر کے سامنے بالکل یک رُخا اور فِروماندہ ہے۔

اقبال کے کلام کی تدوین کے سلسلے میں اہم ترین بات یہ ہے کہ اقبال کی شاعرانہ عظمتیں اردو سے بڑھ کر اُن کے فارسی کلام میں آشکارا ہوتی ہیں اِس لیے اُن کی اردو شاعری کو فارسی شاعری سے الگ کیا ہی نہیں جاسکتا۔ چناںچہ اقبال کے کلام کی تدوین صرف اور صرف اُسی مدوِّن کو سزاوار ہے جس کی نیک شہرت فارسی کے بڑے بڑے شعرا کے متون مدوَّن کرنے کے حوالے سے مسلَّم ہو، تاکہ وہ اقبال کے کلام کی تدوین کرے نہ کہ اِس متن پر تدوین کا کام سیکھے؛ اب مولوی محمد شفیع جیسا آدمی کہاں سے لایا جائے؟ حیرت ہے کہ کلامِ اقبال کے مدوِّنین کے لیے اہلیت کے کسی معیار کا حامل ہونے کا ذکر آپ نے اپنے بسیط مقالے میں کہیں اِشارۃً بھی نہیں کیا ہے۔ آپ جیسے پارِکھی محقق سے ایسی چوک ہوجانا ممکن نہیں، یقیناً آپ نے اِس موضوع کو کسی مستقل مقالے میں ذکر کرنے کے لیے الگ رکھ چھوڑا ہوگا؛ اِس کی تلافی بہرحال ہونی چاہیے۔ فارسی شعروادب کی روایت اور ثقافت کا راسخ علم اور فارسی شعری متون کی تدوین کے وسیع تجربے کے بغیر کی جانے والی اقبال کے اردو کلام کی تدوین صرف وسائل اور صلاحیتوں کا بے جا استعمال ہوگا اور ہوا کو مٹھی میں بند کرنے کی خواہش، اور تعریفُ المجہولِ بالمجہول کا نمونہ۔

اِسی طرح اقبال اکادمی کو آپ نے کاروباری ادارہ، تجارت زدہ ذہن، وغیرہ کہہ کہہ کر کوسنے دینے والے لہجے میں بات رکھی ہے۔ پُننے کا یہ انداز آپ کی اپنی تعلیم فرمودہ اخلاقیات برائے تحقیق کے خلاف چلتا ہے۔ آپ کو اِس امر کا خیال ضرور رکھنا چاہیے تھا کہ ایک سرکاری ادارے، اور وہ بھی ادبی ادارے، کی انتظامی مجبوریاں کیسی ہوتی ہیں اور اُن کے سربراہوں کا سُبھاؤ کیسا ہونا چاہیے۔ یہ بات آپ کے علم میں ہوگی کہ شہنشاہِ ایران نے اپنے دور میں قرآنِ مجید کو بھی اپنے پیش لفظ کے ساتھ شائع کیا تھا۔ اِس جرأت پر سوائے مختار مسعود صاحب کے آج تک کوئی ایک لفظ نہ بولا جب کہ اقبال اکادمی کے صدر نشین کا کلیاتِ اقبال پر ابتدائیہ نزلہ برعضوِ ضعیف کے مصداق آپ کے توسنِ تحقیق کی گرد بن گیا۔

تدوینِ متن کی بات کی تان کلیات کے نسخوں کی قیمتوں کے تقابل پر آکے توڑی گئی ہے جو بہت بے مزہ کرگئی ہے۔

کلامِ اقبال کے یہ کلیات جس انداز میں شائع کیے گئے ہیں اِسی ڈھب اور پیمانے پر 1969ء میں وطنِ عزیز کے مایۂ ناز خطاط سید نفیس رقم صاحب کے قلم اور عبدالرحمٰن چغتائی صاحب کی مصوری کے ساتھ دیوانِ غالب شائع ہوا تھا جس کی تحقیقِ متن و ترتیب کا کام محنتِ شاقہ، حسنِ ذوق اور مضبوط علمی اِستدلالات کے ساتھ مولانا حامد علی خاں صاحب نے کیا تھا، اور اُن کی ’’کاوش و کاہش‘‘ پر قارئینِ دیوان اُن کے ممنون رہے۔ مولانا مرحوم کی عدیم الفرصتی کے سبب سے کچھ چیزیں تشنۂ ابلاغ رہ گئی تھیں جن کی طرف ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب نے اپنے مقالے دیوانِ غالب پر مولانا حامد علی خاں کے حواشی میں توجہ دِلائی ہے۔ اُن کا ابتدائی جملہ ہے۔”مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اِس وقت، بصد ادب، چند گزارشات کی جسارت، اِس درخواست کے ساتھ، کی جائے گی کہ اگر وہ قصورِفہم کا نتیجہ ہوں تو معاف فرمائی جائیں اور اگر کسی قابل نظر آئیں تو، مولانا کی اجازت سے، اشاعتِ دوم میں ضروری ترمیم کا اہتمام ہوسکے۔‘ غالب کے کلام کی تدوین پر تنقید کا ایک انداز یہ ہے، اِس کے مقابلے میں اقبال کے کلام کی تدوین پر آپ کے تنقیدی مقالے کی tone کو کیا نام دیا جائے؟‘‘

اپنے تفصیلی جواب میں رشید حسن خاں صاحب نے لکھا کہ:
’’آپ نے اپنے جذبات کا اظہار بہت دیانت داری سے کیا ہے۔… اِس تحریر سے میرا مقصد اہلِ علم اور اربابِ نظر کی توجہ اِس طرف منعطف کرانا تھی کہ کلامِ اقبال کی تدوین پر توجہ دینا بہت ضروری ہے۔‘‘

میں نے جواب الجواب میں لکھا کہ:
’’اپنی بنت میں ایک انتہائی اختصاصی چیز ہونے کی وجہ سے اِس مقالے کے موضوع اور مندرجات کو عوامی چیز نہیں بننا چاہیے۔ اِس صورت میں آپ کو اپنا مقالہ کم سے کم رسالوں میں شائع نہیں کرانا چاہیے تھا۔ آپ خود اِس رویے کے نقیب ہیں کہ دوبدو اور محاذی ہونے کے بجائے دھیمے انداز اور دل سوزی کے ساتھ توجہ دلائی جائے تو اصلاح ہوگی۔یہ مقالہ جو بہت ہی اہم نوعیت کی معلومات اور بحثوں کا جامع ہے، کسی کتاب ہی میں شائع ہوتا تو بہتر تھا-کسی ایسی کتاب جو یا تو آپ کے ذاتی مقالات کا مجموعہ ہوتی یا اقبال سے متعلق سنجیدہ تکنیکی تحریروں کے کسی انتخاب میں۔‘‘

میں نے رشید حسن خاں صاحب کے بارے میں ایک جگہ لکھا ہے کہ اُن کی بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ دوسروں کو اختلافِ رائے کا حق دیتے ہیں۔ یہ اُن کی ایسی اعلیٰ خوبی تھی کہ جس کی وجہ کر میدانِ ادب میں مجھ ایسا اُتھل ’’پانچواں سوار‘‘ بھی مہینوں تک اُن سے اِس قدر اَٹ پٹ، کھردری گفتگو کرتا رہا۔ سوچتا ہوں کہ اب دنیا میں ایسے کتنے باوقار اور متین رجالِ رشید ہوں گے جو، اُن کے اپنے الفاظ میں، ’’علمی اختلاف کو خندہ پیشانی سے قبول کریں۔‘‘ واحسرتا!

ربط
رشید حسن خاں صاحب سے کلیاتِ اقبال کے بارے میں خط کتابت۔۔حافظ صفوان محمد | مکالمہ
 
Top