رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پتہ کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟

رضا

معطل
اس مد میں یہ آیت دیکھئے اور غور فرمائیے کہ رسول اکرم صلعم کو بھی نہیں پتہ کہ بطور فرد ، ان کے ساتھ یا ہمارے ، تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟ لہذا اس ضمن میں‌ بندے کو معاف رکھئے اگر آپ کسی کو کچھ بھی سمجھتے ہیں تو میں‌کیا کہہ سکتا ہوں۔
[AYAH]46:9[/AYAH] [ARABIC]قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ[/ARABIC]
ان سے کہیے، نہیں ہوں میں کوئی نرالا رسول اور مجھے نہیں معلوم کہ کیا کیا جائے گا میرے ساتھ اور نہ (وہ جو کیا جائے گا) تمہارے ساتھ؟ نہیں پیروی کرتا میں مگر اس وحی کو جو بھیجی جاتی ہے میری طرف اور نہیں ہوں میں مگر صاف صاف خبردار کرنے والا۔
والسلام مع اکرام
اس آیت سے بعض لوگ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے علم کی نفی کرتےہیں۔یہ ان کی خام خیالی ہے۔
قرآن پڑھ کر لوگوں کا گمراہ ہونا۔قرآن سے ثابت ہے۔سورہ بقرہ،آیت نمبر26
[FONT="Noor_e_Quran"] يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ ﴿٢٦﴾[/FONT]اللہ بہتیروں کو اس سے گمراہ کرتا ہے (ف۴۷) اور بہتیروں کو ہدایت فرماتا ہے اور اس سے انہیں گمراہ کرتا ہے جو بے حکم ہیں-(ف ۴۸) (٢٦)
کسی نے بخاری شریف کے بارے میں کہا ہے۔
[frame="7 80"]بغیر عشق کے جو پڑھتے ہیں بخاری
آتا ہے بخار ان کو آتی نہیں‌ بخاری[/frame]
اعظم چشتی علیہ الرحمہ نے کہا تھا۔
[frame="5 80"]محبوبان اتے نقطی چینی کرنا کم نہیں ‏عاشقاں دا
جتھے دل لگ جاوے اعظم اوتھےعیب نظر نہیں‌آؤندا[/frame]
9.gif

ترجمہء کنزالایمان:تم فرماؤ میں کوئی انوکھا رسول نہیں (ف۲۲) اور میں نہیں جانتا میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا (ف۲۳) میں تو اسی کا تابع ہوں جو مجھے وحی ہوتی ہے (ف۲۴) اور میں نہیں مگر صاف ڈر سنانے والا
تفسیر خزائن العرفان:22-مجھ سے پہلے بھی رسول آچکے ہیں تو تم کیوں نبوّت کا انکار کرتے ہو۔23-اس کے معنی میں مفسّرین کی چند قول ہیں ، ایک تو یہ کہ قیامت میں جو میرے اور تمہارے ساتھ کیا جائے گا ؟ وہ مجھے معلوم نہیں ، یہ معنی ہوں تو یہ آیت منسوخ ہے ، مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو مشرک خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ لات و عزّٰی کی قَسم اﷲ تعالٰی کے نزدیک ہمارا اور محمّد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا یکساں حال ہے ، انہیں ہم پر کچھ بھی فضیلت نہیں ، اگر یہ قرآن انکا اپنا بنایا ہوا نہ ہوتا تو ان کا بھیجنے والا انہیں ضرور خبر دیتا کہ ان کے ساتھ کیا کرے گا تو اللہ تعالٰی نے آیت[FONT="Noor_e_Quran"] '' لِیَغْفِرَلَکَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ ''[/FONT]نازل فرمائی ، صحابہ نے عرض کیا یا نبی اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حضور کو مبارک ہو آپ کو تو معلوم ہوگیا کہ آپ کے ساتھ کیا کیا جائے گا ، یہ انتظار ہے کہ ہمارے ساتھ کیا کرے گا ، اس پر اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی[FONT="Noor_e_Quran"] '' لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ'' [/FONT]اور یہ آیت نازل ہوئی [FONT="Noor_e_Quran"]'' بَشِّرِالْمُؤْمِنِیْنَ بِاَنَّ لَھُمْ مِّنَ اﷲِ فَضْلاً کَبِیْراً '' [/FONT]تو اللہ تعالٰی نے بیان فرما دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ کیا کرے گا اور مومنین کے ساتھ کیا ، دوسرا قول آیت کی تفسیر میں یہ ہے کہ آخرت کا حال تو حضور کو اپنا بھی معلوم ہے ، مومنین کا بھی ، مکذّبین کا بھی ، معنٰی یہ ہیں کہ دنیا میں کیا کیا جائے گا ؟ یہ معلوم نہیں ، اگر یہ معنٰی لئے جائیں تو بھی آیت منسوخ ہے ، اللہ تعالٰی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ بھی بتادیا[FONT="Noor_e_Quran"] '' لِیُظْہِرَہ عَلیَ الدِّیْنِ کُلِّہٖ '' اور '' مَاکَانَ اللہُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْ''[/FONT]بہرحال اﷲ تعالٰی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو حضور کے ساتھ اور حضور کی امّت کے ساتھ پیش آنے والے امور پر مطلع فرمادیا خواہ وہ دنیا کے ہوں یا آخرت کے اور اگر درایت بمعنٰی ادراک بالقیاس یعنی عقل سے جاننے کے معنٰی میں لیا جائے تو مضمون اور بھی زیادہ صاف ہے اور آیت کا اس کے بعد والا جملہ اس کا مؤیِّد ہے ، علامہ نیشا پوری نے اس آیت کے تحت میں فرمایا کہ اس میں نفی اپنی ذات سے جاننے کی ہے ، من جہت الوحی جاننے کی نفی نہیں۔24-یعنی میں جو کچھ جانتا ہوں اﷲ تعالٰی کی تعلیم سے جانتا ہوں ۔
 

رضا

معطل
آیت نمبر ٦ قُلْ مَا کُنتُ بِدْعاً مِّنْ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَلَا بِکُمْ (سورة احقاف، آیت ٩)
ترجمہ۔ آپ فرمادیں کہ میں کوئی نیا رسول تو ہوں نہیں مجھے'' معلوم نہیں'' کہ میرے اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ پیش آنے والا ہے۔
نبی پاک ۖ کی زبان مبارک سے یہ فرمان پیش کیا گیا ہے کہ ماادری مایفعل بی ولا بکم ، جس کا ترجمہ انہوں نے یہ کیا کہ مجھے معلوم نہیں کہ میرے اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ پیش آنے والا ہے، اس کے ساتھ ہی بعد میں دی جانے والی حدیث کو کو بھی شامل کردیا جائے تو بہتر ہوگا ۔
حدیث نمبر ١ میں ہے کہ ایک صحابیہ نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اﷲ عنہ کی وفات کے بعد یہ الفاظ کہے کہ میں گواہی دیتی ہوں اس بات کی کہ ضرور تحقیق اﷲ نے تیرا اکرام کیا ہے (بخاری) اس کے بعد نبی پاک ۖ نے فرمایا میں خدا کا نبی ہوں مگر درایت کی رو سے میں ایسا بیان جاری نہیں کرتا کہ میرے ساتھ کیا ہوگا اور تمہارے ساتھ کیا ہوگا، (مشکوٰة بحوالہ بخاری) ، آیت وحدیث ملا کر پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ مستقبل کے حوالے سے کوئی یقینی بات روایت کی رو سے کرنی چاہئے ، درایت(عقل وقیاس) کی رو سے نہیں، لیکن بادی النظر میں یوں لگتا ہے کہ جیسے نبی پاک ۖ کو اپنا اور دوسروں کا انجام معاذ اﷲ معلوم نہیں، یہی وجہ ہے کہ جب مشرکین نے یہ آیت سنی تو ہمارے دور کے کم فہموں والا مفہوم مراد لے بیٹھے اور خوشی سے پھولے نہ سمائے، پھر اﷲ تعالیٰ نے سورة فتح نازل فرمائی تو درایت سے پیدا ہونے والے ابہام کو توضیحی بیان سے دور فرمایااور صحابہ کرام کو سورة فتح کے نزول سے بہت زیادہ خوشی ہوئی، جس میں سورة الاحقاف کی مذکورہ زیر بحث آیت میں بیان شدہ خبر کے ابہام کو توضیح سے بدل دیا، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ سورة الاحقاف کی مذکورہ آیت کو سورة فتح نے منسوخ کردیا، جو اخبار میں نسخ کے قائل ہیں وہ یہی کہتے ہیں، اور دوسرے یہ کہتے ہیں کہ خبر کے ابہام کو بعد میں آنے والی توضیح نے منسوخ کردیا۔
ایک تو یہ لوگ ہیں جو سورة الاحقاف کے نزول تک بھی نبی پاک ۖ کو اپنے اور اپنے صحابہ کے انجام سے بے خبر بتاتے ہیں اور دوسری طرف ہم محبت کے مارے ہیں جو کہتے ہیں کہ جس قلم نے ماکان ومایکون کا علم لکھا وہ نور محمدی ۖ ہی ہے، اور آپ اُس وقت سے اپنے اور سب کے انجام سے واقف ہیں، تفصیل یہ ہے کہ ترمذی شریف میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اﷲ عنہ کی حدیث ابواب القدر کے باب نمبر ١٧ میں موجود ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو تخلیق فرمایا ، اسے فرمایا لکھ، اس نے عرض کیا کیا لکھوں، حکم ہوا کہ اکتب القدر ما کان وماھو کائن الی الابد(حدیث نمبر ٢١٥٥) ، یعنی لکھ تقدیر کو جو کچھ ہوا اور جوکچھ ابد تک ہونے ولا ہے۔ (مشکوٰة، ص٢١)
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اوّل الخلق کاتب تقدیر ذی شعور قلم ہے کون سا ؟ اس کا جواب بخاری ، کتاب القدر، حدیث نمبر٦٦٠٩، بخاری کتاب الایمان والنذور، حدیث نمبر ٦٦٩٤، ابودائود، کتاب الایمان، حدیث نمبر٣٢٨٨میں آچکا ، حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے ''لا یاتی ابن أدم النذر بشی لم أکن قدرتہ '' کہ ابن آدم کو نذر (منت) سے وہ چیز نہیں ملتی جو میں (نبی پاک ۖ) نے اُس کی تقدیر میں نہ لکھی ہو۔
یہاں سے معلوم ہوا کہ تقدیر لکھنے والے نبی پاک ۖ ہی ہیں اور قلم لا لفظ آپ ۖ کے لئے بطور استعارہ آیا ہے، عجب نہیں کہ ن والقلم (سورة قلم، آیت ١) میں نور محمدی بشکلِ قلم مراد ہو، ورنہ قلموں کی کیا مجال کہ وہ ماکان وما یکون جان سکیںلکھنا تو دُور کی بات ہے، (سورة لقمان، آیت ٢٧)، بعض عارفین نے کہا کہ اوّل الخلق نبی پاک ۖ ہیں، اوّل الخلق کے طور پر حدیثوں میں آنے والے سب نام آپ ۖ کے لئے استعارةً استعمال ہوئے ہیں۔(سر الاسرار، ص١٢، ١٤ ۔ مرصاد العباد، ص٣٠۔ تاریخ الخمیس،ج ١، ص١٩) ع
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
ماکان ومایکون کا علم تو نبی پاک ۖ کو اُس وقت بھی حاصل تھا، البتہ آپ ۖ کا علم مبارک تکمیلِ نزولِ قرآن تک ہر لمحہ اﷲ تعالیٰ بڑھاتا رہا، اور ہر لمحہ کا علم پچھلے لمحہ کی نسبت تفصیل بنتا چلا گیا اور ماضی والا علم اُس کی روشنی میں اجمالی نظر آیا، تاہم باقی تمام مخلوقات کے تفصیلی علوم کے مجموعے سے آپ ۖ کا اجمالی علم جو لوح نے قلم سے محفوظ کیا وہ زائد ہے، امیر مینائی نے کیا خوب کہا !
حضرت کا علم علمِ لدنی تھا اے امیر
دیتے تھے قدسیوں کو سبق بے پڑھے ہوئے
تعلیم جبرائیلِ امیں تھی برائے نام
حضرت وہیں سے آئے تھے لکھے پڑھے ہوئے
اس کلام کی روشنی میں قصیدہ بردہ کا وہ مصرعہ سمجھنا مشکل نہ رہا کہ'' ومن علومک علم اللوح والقلم '' ، لوح وقلم کا علم تو آپ کے علوم میں سے صرف ایک علم ہے، یہ محض عقیدت نہیں حدیثوں کو ملا کر دیکھنے سے ثابت ہے، یہ قرآن کے عجائب وغرائب ہیں جنہیں قیامت تک ظاہر ہوتے رہنا ہے، حاصل یہ ہوا کہ حضور ۖ کا یہ علم درایة پر مبنی نہیں ، قیاس کے گھوڑے دوڑا کر حاصل نہیں کیا گیا ، یہ قطعی یقینی تعلیم الٰہی پر مبنی ہے۔
حدیث نمبر ١۔ رسول اﷲ ۖ نے فرمایا کہ گو میں خدا کا نبی ہوں مگر مجھے یہ'' معلوم نہیں '' کہ میرے اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ پیش آنے والا ہے۔
اس کی وضاحت آیت نمبر ٦ کے ضمن میں پیش کی جاچکی ہے کہ میرے ساتھ کیا ہوگا اور تمہارے ساتھ کیا ہوگا، کے حوالے سے میرا علم ظن وتخمین اور درایت وقیاس پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس سلسلے میں میرا علم قطعی اور وحی الٰہی پر مبنی ہے۔
حدیث نمبر٢۔ ربیع بنت معوذ کا بیان ہے کہ چند بچیاں کچھ شعر پڑھ رہی تھیں ان میں سے کسی نے کہا وفینا نبی یعلم مافی غدٍ(ہم میں ایک ایسا نبی ہے جو آنے والی کل کی بات جانتا ہے) ، آپ نے فرمایا ایسا مت کہو جو شعر پہلے پڑھ رہی تھیں وہی پڑھتی رہو۔ (بخاری)
بچیوں نے شادی کی تقریب میں شہداء کا مرثیہ پڑھتے پڑھتے نبی پاک ۖ کو دیکھ کر اچانک موضوع بدلا اور نعتیہ کلام شروع کردیا، جس میں کہا گیا تھا وفینا نبی یعلم مافی غدٍ ، ہم میں وہ نبی ہے جو کل کی بات سے باخبر ہے، یہ مصرعہ کسی صحابی کی کہی گئی نعت کا ہی ہوسکتا ہے جو بچیوں تک کو یاد تھی، بچیوں نے منقبت صحابہ کو چھوڑ کر نبی پاک ۖ کی نعت شروع کی تو آپ ۖ نے اُنہیں منقبت صحابہ جاری رکھنے کا حکم دیا اور کسر نفسی اور تواضع سے کام لیا، اگریہ جملہ شرکیہ ہوتا تو آپ ۖ اُن بچیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے اور توبہ کی تلقین فرماتے، آپ نے صرف اتنا فرمایا اسے رہنے دو اور وہی کہو جو پہلے کہہ رہی تھیں، بلکہ اس مصرعہ سے ملتا جلتا مصرعہ حضرت مالک بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا تو نبی پاک ۖ نے اُس کو مصرعہ چھوڑنے کی بجائے انعام سے نوازا، مصرعہ یہ ہے ومتیٰ تشاء یخبرک عما فی غدٍ اور جب تو چاہے تو وہ تجھے بھی اس بات سے باخبر کردیں کہ کل کیا ہونے والا ہے(الاصابہ ، ابن حجر عسقلانی، ج٥، ص٥٥١) ۔
حدیث نمبر ٣۔ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے غیوب خمسہ کے حوالے سے منقول ہے کہ جو شخص تمہیں کہے کہ نبی پاک ۖ یہ پانچ غیب جانتے تھے تو وہ شخص بڑا جھوٹا ہے(بخاری شریف) ۔
اُم المومنین سے دوسری جگہ یہ الفاظ یوں منقول ہیں کہ جو شخص کہتا ہے کہ نبی پاک ۖ کل کیا ہوگا سے باخبر ہیں، اُس نے جھوٹ بولا انہ یعلم ماغدٍ (بخاری ، کتاب التفسیر سورة النجم، حدیث ٤٨٥٥) ۔
تیسری جگہ الفاظ یوں ہیں انہ یعلم الغیب یعنی جو کہتا ہے کہ آپ ۖ غیب کا علم رکھتے ہیں تو وہ کذب کا مرتکب ہے۔
اب روایتیں ملا کر دیکھیں تو پورا مفہوم یہ ہوا کہ جو شخص کہتا ہے کہ آپ ۖ کو کل کی بات کا علم ہے اور آپ ۖ سورة لقمان کے آخر والے پانچوں غیب جانتے ہیں اور آپ ۖ کو غیب کا علم حاصل ہے تو وہ کذب کا مرتکب ہوتا ہے، اُم المومنین رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے دو باتیں اور بھی اپنے اس فتوے میں ارشاد فرمائی ہیں(ترمذی، کتاب التفسیر سورة النجم،حدیث نمبر٣٢٧٨ )سے پتہ چلتا ہے کہ اُم المومنین حضرت عبداﷲ ابن عباس اور بنو ہاشم کی طرف اشارہ فرمارہی ہیں کہ محمد ۖ نے اپنے رب کو دیکھا، اُم المومنین اُن کا ردّ کرتے ہوئے فرمارہی ہیں کہ جو تجھے کہے کہ(ا) حضرت محمد ۖ نے اپنے رب کو دیکھا ، (٢) یا حضرت محمد نے اسرار مخفی رکھے، (٣) یا حضرت محمد ۖ کو غیوب کا علم حاصل ہے تو وہ جھوٹ کا مرتکب ہے، یہ واضح بات ہے کہ نبی پاک ۖ کے اِن فضائل کا قائل اُس دَور کا کوئی کافر ومشرک تو نہیں تھا، وہ جو بھی تھا مسلمانوں میں سے تھا، اور اُم المومنین اُس دور کے کسی مسلمان کے اِن نظریات کی عبارت اور تعبیر میں خطا کو کذب سے تعبیر کررہی ہیں،تو یہ اُم المومنین کا اُن سے اجتہادی اختلاف ہے، اُم المومنین نفی ادراکِ باری سے نفی رویتِ باری کا مفہوم نکال رہی ہیں، تو اُن کا قیاس ہے ورنہ احادیث نبویہ میں رویت باری کا ثبوت ہر دو جہاں میں ملتا ہے، اسی طرح تبلیغی احکام نہ چھُپانے کا مطلب یہ نہیں کہ اسرار بھی کسی سے نہ چھپائے ، اور علم غیب کے حوالے سے حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضرت خضر علیہ السلام کی بابت بیان فرماتے ہیں کان رجلاً یعلم علم الغیب''وہ مرد تھے جو علمِ غیب جانتے تھے'' (تفسیر ابن جریر۔ تفسیر ابن کثیر) ، بلکہ بخاری شریف میں تو حدیث مرفوع میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تین اقوال پر بھی لفظِ کذب استعمال کیا گیا ہے، ظاہر ہے کہ وہ بھی صورتاً کذب ہے نہ کہ حقیقتاً۔
 
Top