اقبال ابن اقبال
محفلین
: رسول اللہ صلي اللہ عليہ و علي آلہ وسلم سے محبت کي نشانياں :::
::: رسول اللہ صلي اللہ عليہ و علي آلہ وسلم سے محبت کي نشانياں :::
::::::: رسول اللہ صلي اللہ عليہ و علي آلہ وسلم سے محبت کي نشانياں :::::::
الحَمدُ لِلَّہِ وَحدَہُ و الصَّلا?ُ و السَّلامُ عَلي? مَن لا نَبِيَّ وَ لا مَعصُومَ بَعدَہُ ، وَ عَلي? آلہِ وَ ازوَاجِہِ وَ اصَحَابِہِ وَ مَن تَبعَھُم باِحسَانٍ اِلي? يَومِ الدِين،
خالص اور حقيقي تعريف اکيلے اللہ کے ليے ہے ، اور اللہ کي رحمتيں اور سلامتي ہو محمد پر جِنکے بعد کوئي نبي اور معصوم نہيں ، اور اُن صلي اللہ عليہ وسلم کي آل پر ، اور مقدس بيگمات پر اور تمام اصحاب پر اور جو اُن سب کي ٹھيک طرح سے مکمل پيروي کريں اُن سب پر ،
رسول اللہ صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم سے محبت کي کچھ نشانياں ہيں جِن کي موجودگي ميں يہ اندازہ کيا جا سکتا ہے کہ کون واقعتا رسول اللہ صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم سے مُحبت کرتا ہے اور کون مجرد دعوي? مُحبت رکھتا ہے ،
پہلي نشاني ::: رسول اللہ صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم پر اپني جان و مال فِدا کرنا ::: جيسا کہ صحابہ رضي اللہ عنہم کيا کرتے تھے ، اور اِس کي کئي مثاليں ہيں ، جِن ميں سے ايک مثال ''' مثالي شخصيات ''' والے سلسلے ميں سے پہلي شخصيت ''' خبيب بن عدي رضي اللہ عنہُ''' کے واقعہ ميں ذِکرکي گئي ہے ، اور ايک ''' اُم عمار? نسيب? بنت کعب رضي اللہ عنہا ''' کے واقعہ ميں ہے ،
اور يہ ديکھيئے ، يہ ابو دجانہ رضي اللہ عنہُ ہيں ، کافروں اور مشرکوں کي طرف سے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم پر تير برسائے جا رہے ہيں اور ابو دجانہ رضي اللہ عنہُ اپنا چہرہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم کي طرف کيے ہوئے اُنہيں چھپائے کھڑے ہيں اور سارے تير اپني پُشت پر کھائے چلے جا رہے ہيں ، اور کوئي حرکت بھي نہيں کرتے کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم کو کوئي اذيت نہ ہو، يہ ہے محبتِ رسول صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم ،
اور يہ بھي ديکھيئے ، يوم اُحد ميں يہ ابو طلحہ الانصاري ہيں ، رضي اللہ عنہُ ، رسول اللہ صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم کے سامنے کھڑے ہو کر دشمنوں پر تير برسائے چلے جارہے ہيں اور کہے جا رہے ہيں ''' يا نَبِيَّ اللَّہِ بِابِي اَنت وَاُمِّي لَا تُشرِف لَا يُصِبکَ سَہمٌ من سِہَامِ القَومِ نَحرِي دُونَ نَحرِکَ ::: اے اللہ کے نبي ميرے ماں باپ آپ پر قُربان ہوں آپ اُدھر توجہ مت فرمائيے آپ کو دُشمنوں کے تيروں ميں کوئي تير نہيں لگے گا ، ميري شہ رگ آپ کي شہ رگ سے کم تر ہے ''' يعني اُن کے تير ميري شہ رگ پر آئيں گے آپ پر نہيں آنے دوں گا ، يہ ہے مُحبتِ رسول صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم ،
اور يہ ديکھيئے ، طلحہ بن عبيد اللہ ، عشرہ مبشرہ ميں سے ايک ، اِسي يوم اُحد ميں رسول اللہ صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم کي طرف آنے والے تيروں کو اپنے ننگے ہاتھوں پر روک رہے ہيں ، زحم کھا رہے ہيں ، يہاں تک اِن زخموں کي وجہ سے اُن کا ہاتھ شل ہو گيا ، يہ ہے مُحبتِ رسول صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم ،
اور يہ ديکھيئے ، اِسي يوم اُحد ميں يہ ہيں سعد ابن الربيع رضي اللہ عنہُ ، آخري سانسيں ہيں ، زيد ابن ثابت رضي اللہ عنہُ اِن کے پاس رسول اللہ صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم کا سلام لے کر پہنچے ہيں جواب ميں کہتے ہيں ''' اللہ کي سلامتي ہو اللہ کے رسول پر ، اور تُم پر ، رسول اللہ صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم سے کہنا مجھے جنّت کي خوشبو آ رہي ہے ، اور ميري قوم انصار کو کہہ دينا کہ اگر رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کو کوئي تکليف پہنچي تو اللہ کے سامنے تُم لوگوں کے ليے کوئي عُذر نہ ہو گا ''' اور روح پرواز کر جاتي ہے ، يہ ہے مُحبتِ رسول صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم،
دوسري نشاني ::: کِسي ڈر اور خوف کے بغير رسول اللہ صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم کي لائي ہوئي شريعت کي خِلاف ورزي کا قلع قمع کرنا ::: جيسا کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم کي وفاتِ پُر ملال کے بعد ابو بکر الصديق رضي اللہ عنہُ نے زکو? دينے سے اِنکار کرنے والوں کے خِلاف اُسامہ ابن زيد رضي اللہ عنہما کے لشکر کو روانہ کر کے کِيا ،
تيسري نشاني ::: رسول اللہ صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم کے احکامات پر فورا عمل کرنا ::: جيسا کہ جِہاد اُحد سے فارغ ہو کر آتے ہي اگلے دِن رسول اللہ صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم نے صحابہ رضي اللہ عنہم کو ابو سُفيان کي فوجوں کے تعاقب ميں حمراء الاسد کي طرف روانگي کا حُکم فرمايا ، تو اُنہوں نے يہ نہيں کہا کہ ابھي کل ہي تو ہم واپس آئے ہيں ، اپنے مرنے والوں کي ياد ابھي بالکل تازہ ہے ، ابھي ہمارے زخموں سے خون بھي نہيںرُکا ، وغيرہ وغيرہ ، بلکہ حُکم ملتے ہي تيار ہو گئے اور نکل کھڑے ہوئے ، رضي اللہ عنہم اجمعين ، اور اللہ تعالي? اُن کي اِس عمل کي تعريف فرماتے ہوئے اور اُن کے ليے عظيم کاميابي کي خبر ديتے ہوئے اِرشاد فرمايا ( الَّذِينَ استَجَابُوا لِلّہِ وَالرَّسُولِ مِن بَعدِ مَا اصَابَہُمُ القَرحُ لِلَّذِينَ احسَنُوا مِنہُم وَاتَّقَوا اجرٌ عَظِيمٌ O الَّذِينَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَد جَمَعُوا لَکُم فَاخشَوہُم فَزَادَہُم اِيمَاناً وَقَالُوا حَسبُنَا اللّہُ وَنِعمَ الوَکِيلُ O فَانقَلَبُوا بِنِعمَ?ٍ مِّنَ اللّہِ وَفَضلٍ لَّم يَمسَسہُم سُوء ٌ وَاتَّبَعُوا رِضوَانَ اللّہِ وَاللّہُ ذُو فَضلٍ عَظِيمٍ ) ( جِنہوں نے اللہ اور رسول کي بات ماني اِس کے بعد بھي کہ اُنہيں زخم لگے ہوئے تھے اُن ميں سے جِنہوں نے نيکي کي اور تقوي? اختيار کيا اُن کے ليے بہت بڑا اجر ہے (يہ) وہ لوگ (ہيں) کہ جب اِن سے (مُنافق) لوگوں نے کہا کہ (کافر) لوگوں نے تُمہارے مُقابلے ميں (لشکر) جمع کر ليے ہيں ، تُم اُن سے ڈرو ، تو (منافقوں کي ) اِس بات نے اِن کو اِيمان ميں اور زيادہ کر دِيا اور اِنہوں نے کہا ہمارے ليے اللہ کافي ہے اور وہ سب سے اچھا کار ساز ہے ( اِس کا انعام اللہ نے يہ دِيا کہ ) يہ (اِيمان والے ) اللہ کي نعمت اور فضل (ميں سے کچھ ) حاصل کر کے واپس پلٹے اور اُنہيں کِسي پريشاني نے چُھوا نہيں اُنہوں نے اللہ کي رضامندي کي پيروي کي اور اللہ بہت زيادہ فصل (کرنے) والا ہے ) سورت آل عِمران / آيات 172 تا 174 ،
پس اگر کوئي رسول اللہ صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم کے احکامات پر عمل کرنے کي بجائے ، اُن کي تاويليں کرتا ہے ، يا بغير کِسي شرعي عذر کے عمل ميں دير کرتا ہے تو اگر ہم اُس کي مُحبتِ رسول صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم کا اِنکار نہ کريں تو بھي يہ بات کافي حد تک درست ہے کہ اُس کي مُحبتِ رسول صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم مطلوب درجہ تک نہيں پہنچتي?
مندرجہ ذيل مضمون کا بھي مطالعہ فرمائيے
::: رسول اللہ صلي اللہ عليہ و علي آلہ وسلم سے مُحبت کا تقاضا :::
__________________
اب نہ ہو گا کہيں کوئي نزول کتاب ::: بند کر ديا رب العالمين نے يہ باب
ہے جو بھي صحيح سنت رسالت مآب ::: بے شک ہے وحيء رب الارباب
::: رسول اللہ صلي اللہ عليہ و علي آلہ وسلم سے محبت کي نشانياں :::
::::::: رسول اللہ صلي اللہ عليہ و علي آلہ وسلم سے محبت کي نشانياں :::::::
الحَمدُ لِلَّہِ وَحدَہُ و الصَّلا?ُ و السَّلامُ عَلي? مَن لا نَبِيَّ وَ لا مَعصُومَ بَعدَہُ ، وَ عَلي? آلہِ وَ ازوَاجِہِ وَ اصَحَابِہِ وَ مَن تَبعَھُم باِحسَانٍ اِلي? يَومِ الدِين،
خالص اور حقيقي تعريف اکيلے اللہ کے ليے ہے ، اور اللہ کي رحمتيں اور سلامتي ہو محمد پر جِنکے بعد کوئي نبي اور معصوم نہيں ، اور اُن صلي اللہ عليہ وسلم کي آل پر ، اور مقدس بيگمات پر اور تمام اصحاب پر اور جو اُن سب کي ٹھيک طرح سے مکمل پيروي کريں اُن سب پر ،
رسول اللہ صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم سے محبت کي کچھ نشانياں ہيں جِن کي موجودگي ميں يہ اندازہ کيا جا سکتا ہے کہ کون واقعتا رسول اللہ صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم سے مُحبت کرتا ہے اور کون مجرد دعوي? مُحبت رکھتا ہے ،
پہلي نشاني ::: رسول اللہ صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم پر اپني جان و مال فِدا کرنا ::: جيسا کہ صحابہ رضي اللہ عنہم کيا کرتے تھے ، اور اِس کي کئي مثاليں ہيں ، جِن ميں سے ايک مثال ''' مثالي شخصيات ''' والے سلسلے ميں سے پہلي شخصيت ''' خبيب بن عدي رضي اللہ عنہُ''' کے واقعہ ميں ذِکرکي گئي ہے ، اور ايک ''' اُم عمار? نسيب? بنت کعب رضي اللہ عنہا ''' کے واقعہ ميں ہے ،
اور يہ ديکھيئے ، يہ ابو دجانہ رضي اللہ عنہُ ہيں ، کافروں اور مشرکوں کي طرف سے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم پر تير برسائے جا رہے ہيں اور ابو دجانہ رضي اللہ عنہُ اپنا چہرہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم کي طرف کيے ہوئے اُنہيں چھپائے کھڑے ہيں اور سارے تير اپني پُشت پر کھائے چلے جا رہے ہيں ، اور کوئي حرکت بھي نہيں کرتے کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم کو کوئي اذيت نہ ہو، يہ ہے محبتِ رسول صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم ،
اور يہ بھي ديکھيئے ، يوم اُحد ميں يہ ابو طلحہ الانصاري ہيں ، رضي اللہ عنہُ ، رسول اللہ صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم کے سامنے کھڑے ہو کر دشمنوں پر تير برسائے چلے جارہے ہيں اور کہے جا رہے ہيں ''' يا نَبِيَّ اللَّہِ بِابِي اَنت وَاُمِّي لَا تُشرِف لَا يُصِبکَ سَہمٌ من سِہَامِ القَومِ نَحرِي دُونَ نَحرِکَ ::: اے اللہ کے نبي ميرے ماں باپ آپ پر قُربان ہوں آپ اُدھر توجہ مت فرمائيے آپ کو دُشمنوں کے تيروں ميں کوئي تير نہيں لگے گا ، ميري شہ رگ آپ کي شہ رگ سے کم تر ہے ''' يعني اُن کے تير ميري شہ رگ پر آئيں گے آپ پر نہيں آنے دوں گا ، يہ ہے مُحبتِ رسول صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم ،
اور يہ ديکھيئے ، طلحہ بن عبيد اللہ ، عشرہ مبشرہ ميں سے ايک ، اِسي يوم اُحد ميں رسول اللہ صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم کي طرف آنے والے تيروں کو اپنے ننگے ہاتھوں پر روک رہے ہيں ، زحم کھا رہے ہيں ، يہاں تک اِن زخموں کي وجہ سے اُن کا ہاتھ شل ہو گيا ، يہ ہے مُحبتِ رسول صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم ،
اور يہ ديکھيئے ، اِسي يوم اُحد ميں يہ ہيں سعد ابن الربيع رضي اللہ عنہُ ، آخري سانسيں ہيں ، زيد ابن ثابت رضي اللہ عنہُ اِن کے پاس رسول اللہ صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم کا سلام لے کر پہنچے ہيں جواب ميں کہتے ہيں ''' اللہ کي سلامتي ہو اللہ کے رسول پر ، اور تُم پر ، رسول اللہ صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم سے کہنا مجھے جنّت کي خوشبو آ رہي ہے ، اور ميري قوم انصار کو کہہ دينا کہ اگر رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کو کوئي تکليف پہنچي تو اللہ کے سامنے تُم لوگوں کے ليے کوئي عُذر نہ ہو گا ''' اور روح پرواز کر جاتي ہے ، يہ ہے مُحبتِ رسول صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم،
دوسري نشاني ::: کِسي ڈر اور خوف کے بغير رسول اللہ صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم کي لائي ہوئي شريعت کي خِلاف ورزي کا قلع قمع کرنا ::: جيسا کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم کي وفاتِ پُر ملال کے بعد ابو بکر الصديق رضي اللہ عنہُ نے زکو? دينے سے اِنکار کرنے والوں کے خِلاف اُسامہ ابن زيد رضي اللہ عنہما کے لشکر کو روانہ کر کے کِيا ،
تيسري نشاني ::: رسول اللہ صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم کے احکامات پر فورا عمل کرنا ::: جيسا کہ جِہاد اُحد سے فارغ ہو کر آتے ہي اگلے دِن رسول اللہ صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم نے صحابہ رضي اللہ عنہم کو ابو سُفيان کي فوجوں کے تعاقب ميں حمراء الاسد کي طرف روانگي کا حُکم فرمايا ، تو اُنہوں نے يہ نہيں کہا کہ ابھي کل ہي تو ہم واپس آئے ہيں ، اپنے مرنے والوں کي ياد ابھي بالکل تازہ ہے ، ابھي ہمارے زخموں سے خون بھي نہيںرُکا ، وغيرہ وغيرہ ، بلکہ حُکم ملتے ہي تيار ہو گئے اور نکل کھڑے ہوئے ، رضي اللہ عنہم اجمعين ، اور اللہ تعالي? اُن کي اِس عمل کي تعريف فرماتے ہوئے اور اُن کے ليے عظيم کاميابي کي خبر ديتے ہوئے اِرشاد فرمايا ( الَّذِينَ استَجَابُوا لِلّہِ وَالرَّسُولِ مِن بَعدِ مَا اصَابَہُمُ القَرحُ لِلَّذِينَ احسَنُوا مِنہُم وَاتَّقَوا اجرٌ عَظِيمٌ O الَّذِينَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَد جَمَعُوا لَکُم فَاخشَوہُم فَزَادَہُم اِيمَاناً وَقَالُوا حَسبُنَا اللّہُ وَنِعمَ الوَکِيلُ O فَانقَلَبُوا بِنِعمَ?ٍ مِّنَ اللّہِ وَفَضلٍ لَّم يَمسَسہُم سُوء ٌ وَاتَّبَعُوا رِضوَانَ اللّہِ وَاللّہُ ذُو فَضلٍ عَظِيمٍ ) ( جِنہوں نے اللہ اور رسول کي بات ماني اِس کے بعد بھي کہ اُنہيں زخم لگے ہوئے تھے اُن ميں سے جِنہوں نے نيکي کي اور تقوي? اختيار کيا اُن کے ليے بہت بڑا اجر ہے (يہ) وہ لوگ (ہيں) کہ جب اِن سے (مُنافق) لوگوں نے کہا کہ (کافر) لوگوں نے تُمہارے مُقابلے ميں (لشکر) جمع کر ليے ہيں ، تُم اُن سے ڈرو ، تو (منافقوں کي ) اِس بات نے اِن کو اِيمان ميں اور زيادہ کر دِيا اور اِنہوں نے کہا ہمارے ليے اللہ کافي ہے اور وہ سب سے اچھا کار ساز ہے ( اِس کا انعام اللہ نے يہ دِيا کہ ) يہ (اِيمان والے ) اللہ کي نعمت اور فضل (ميں سے کچھ ) حاصل کر کے واپس پلٹے اور اُنہيں کِسي پريشاني نے چُھوا نہيں اُنہوں نے اللہ کي رضامندي کي پيروي کي اور اللہ بہت زيادہ فصل (کرنے) والا ہے ) سورت آل عِمران / آيات 172 تا 174 ،
پس اگر کوئي رسول اللہ صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم کے احکامات پر عمل کرنے کي بجائے ، اُن کي تاويليں کرتا ہے ، يا بغير کِسي شرعي عذر کے عمل ميں دير کرتا ہے تو اگر ہم اُس کي مُحبتِ رسول صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم کا اِنکار نہ کريں تو بھي يہ بات کافي حد تک درست ہے کہ اُس کي مُحبتِ رسول صلي اللہ عليہ وعلي آلہ وسلم مطلوب درجہ تک نہيں پہنچتي?
مندرجہ ذيل مضمون کا بھي مطالعہ فرمائيے
::: رسول اللہ صلي اللہ عليہ و علي آلہ وسلم سے مُحبت کا تقاضا :::
__________________
اب نہ ہو گا کہيں کوئي نزول کتاب ::: بند کر ديا رب العالمين نے يہ باب
ہے جو بھي صحيح سنت رسالت مآب ::: بے شک ہے وحيء رب الارباب