رسوائی نہیں کچھ بھی تو شہرت بھی نہیں کچھ ۔ ابرار احمد

فرخ منظور

لائبریرین
رسوائی نہیں کچھ بھی تو شہرت بھی نہیں کچھ
دیکھو تو یہاں ذلّت و عزت بھی نہیں کچھ

ہر چند ہوے تنگ ہم اس شورشِ دل سے
پر نام سے تیرے ہمیں وحشت بھی نہیں کچھ

ہر چیز یہاں پر ہے فراموشی کی زد پر
تم بھول گئے ہم کو تو حیرت بھی نہیں کچھ

کچھ رات کا جادو بھی لیے پھرتا ہے ہر سو
اور ہم کو بہت سونے کی عادت بھی نہیں کچھ

کچھ کام ہمارے یہاں ہوتے بھی نہيں ہیں
کچھ یوں ہے کہ ہم کو یہاں عجلت بھی نہیں کچھ

ایسا بھی نہیں کچھ کہ کریں ترکِ تعلق
ورنہ تو یہ طے ہے کہ محبت بھی نہیں کچھ

وہ چشم ِ فسوں کار گریزاں بھی ہے ہم سے
اب لطف و عنایت کی ضرورت بھی نہیں کچھ

جینے میں وہ پہلی سی سہولت بھی نہیں ہے
زندہ ہیں اگر ، اس میں خجالت بھی نہیں کچھ

ہیں خاک تو پھر خاک سے نسبت تو رہے گی
پیوند ِ زمیں ہیں ، تو ہزیمت بھی نہیں کچھ

(ابرار احمد)
 

محمداحمد

لائبریرین
ہر چیز یہاں پر ہے فراموشی کی زد پر
تم بھول گئے ہم کو تو حیرت بھی نہیں کچھ

کچھ رات کا جادو بھی لیے پھرتا ہے ہر سو
اور ہم کو بہت سونے کی عادت بھی نہیں کچھ

ایسا بھی نہیں کچھ کہ کریں ترکِ تعلق
ورنہ تو یہ طے ہے کہ محبت بھی نہیں کچھ

وہ چشم ِ فسوں کار گریزاں بھی ہے ہم سے
اب لطف و عنایت کی ضرورت بھی نہیں کچھ

ہیں خاک تو پھر خاک سے نسبت تو رہے گی
پیوند ِ زمیں ہیں ، تو ہزیمت بھی نہیں کچھ

کچھ شعر انتخاب کرنے کا دل چاہا جو بہت پسند آئے۔
 
Top