رسوائیاں اور جگ ہنسائیاں

جوش

محفلین
رسوائیاں اور جگ ہنسائیاں!....نقش خیال…عرفان صدیقی

اجمل قصاب پاکستانی نہ ہوتا تو بھی نزلہ پاکستان پر ہی گرتا اور اگر وہ پاکستانی ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پاکستان کی حکومت یا کوئی ریاستی ادارہ اس میں ملوث ہے۔ نائن الیون کے انیس مبینہ ملزموں کا تعلق جن ممالک سے بتایا جاتا ہے ان سب کے ساتھ امریکہ کے قریبی دوستانہ تعلقات قائم ہیں اور کبھی کسی ایک کے بارے میں کوئی ناروا بات نہیں کی گئی۔ ان ملزمان میں سے کوئی ایک بھی افغانی تھا نہ عراقی لیکن دونوں ممالک امریکی قہر کی زد میں ہیں اور ساڑھے سات برس سے ان کم نصیب بستیوں کی گلیاں جوئے خوں بنی ہوئی ہیں۔ ان ملزموں میں سے کسی کا تعلق ایران اور پاکستان سے بھی نہیں تھا لیکن ایک کو شیطانی تکون کا حصہ قرار دیا جاچکا ہے اور دوسرے کو دہشت گردی کی سب سے بڑی آماجگاہ کا نام دے کر آئے روز خونخوار حملوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ درندہ خو لشکر پہلے اپنے ہدف کا تعین کرتے، پھر اس کے لئے منصوبہ تیار کرتے، پھر ایک جواز تلاش کرتے اور آخر میں اپنی توپوں کا رخ اپنے نشانے کی طرف موڑ دیتے ہیں۔
سو اجمل قصاب کی شہریت کوئی پیچیدہ مسئلہ نہیں۔ مسئلہ یہ بھی نہیں کہ ہمیں اپنا ہدف بنا لینے والے لشکر کس طرح کی منصوبہ بندی کرچکے ہیں اور انہیں ایک جواز تراشنے میں کتنی کامیابی نصیب ہوئی۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہمارے کماندار بوکھلائے ہوئے ہیں، صفیں کج ہیں اور نہ معاملے کی شدت و نزاکت کو محسوس کیا جارہا ہے، نہ کوئی مربوط حکمت عملی ترتیب دی جارہی ہے، نہ کوئی ٹھوس اور دو ٹوک موقف تشکیل پا رہا ہے اور نہ عمل اور ردعمل کے درمیان کوئی حکیمانہ تعلق قائم کیا جارہا ہے۔ بھارت اور امریکہ کی قیادت میں پاکستان کے شیطانی گھیراؤ کے مقابلے میں ہمارے ہاں شدید بکھراؤ اور ہرآن بڑھتی ہوئی یلغار کے مدمقابل افسوسناک انتشار کی کیفیت ہے۔ بلاشبہ پاکستان کو تر نوالہ نہیں سمجھا جانا چاہئے۔ وہ زبردست پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی حامل فوج رکھنے والا جوہری ملک ہے اور اسے افغانستان و عراق سمجھنا زبردست غلطی ہوگی لیکن اس تماشے سے کیسے آنکھیں چرائی جائیں جو سیاسی سرکس میں جاری ہے اور اس پہلو کو کیسے نظرانداز کردیا جائے کہ قومی سلامتی کو درپیش ایک بڑے چیلنج کے دنوں میں ہمارے حکمرانوں کی سیاسی بے بصری اور کم نظری انتہا کو پہنچی ہوئی ہے اور قوم پریشان ہے کہ کیا ہمارے ہاں روایتی اجزائے ترکیبی رکھنے والی کوئی حکومت ہے بھی یا نہیں؟
یہ سوال بھی کوئی معنی نہیں رکھتا کہ قومی سلامتی کے مشیر محمود علی درانی کو وزیر اعظم گیلانی نے برطرف کیا یا اصل محرک آصف زرداری تھے اور انہوں نے امریکیوں کی دلداری کے سبب خود کو پس منظر میں رکھتے ہوئے وزیر اعظم کو استعمال کیا۔ دیکھئے، غور کرنے اور شاید کڑھنے والا موضوع یہ ہے کہ کیا ملکی معاملات ملکی دستور کے مطابق چل رہے ہیں؟ کیا جمہوری پارلیمانی نظام کی روح اسی نوع کے بندوبست کا تقاضا کرتی ہے؟ ذوالفقار علی بھٹو کا آئین لاتعداد تجربات کی بھٹی سے گزر چکا ہے۔ ہر آمر نے اپنے اہداف و مقاصد کے لئے پہلے اس کا گریباں چاک کیا اور پھر اپنے شخصی مفادات کی خاطر بیسیوں ترامیم کی پیوندکاری کی۔ پرویز مشرف نے دوبار اس مقدس دستاویز کو تختہ مشق بنایا۔ آٹھویں ترمیم جسے بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے 1997ء میں آئین سے نکال پھینکا تھا، ایک بار پھر سترہویں ترمیم کی صورت میں حجلہ دستور میں آن بسی۔ رائج الوقت آئین صدر کو بے پناہ اختیارات دیتا ہے لیکن اس سب کچھ کے باوجود چیف ایگزیکٹو کا منصب وزیر اعظم ہی کے پاس ہے اور امور مملکت چلانے کی ذمہ داری اسی کے کندھوں پر ہے۔ آج بھی آئین کی رو سے صدر، وزیر اعظم کے مشورے پر عمل کرنے کا پابند ہے۔ آج بھی روزمرہ کے معاملات، تقرریوں، تبادلوں، اہم انتظامی فیصلوں اور پالیسیوں کی صورت گری سے صدر کا کوئی تعلق نہیں۔ صدر (سترہویں ترمیم کی رو سے) مسلح افواج کے سربراہوں کا تقرر کرسکتا ہے، گورنر لگا سکتا ہے، اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرسکتا ہے لیکن داخلی اور خارجی پالیسیوں کے نقوش نہیں تراش سکتا، اپنے طور پر بیرونی دورے نہیں کرسکتا، غیرملکی عمائدین سے نہیں مل سکتا اور کابینہ کے فیصلوں کی نفی نہیں کرسکتا۔ 58(2b) کے تحت وہ حکومت اور قومی اسمبلی کو گھر بھیج سکتا ہے لیکن وزیر اعظم یا کسی مشیر اور وزیر کو برطرف نہیں کرسکتا۔
ہمارے ہاں المیہ یہ رہا کہ ایوب خان سے پرویز مشرف تک ہر فوجی ڈکٹیٹر نے اپنے سر کے لئے صدارت کی دستار فضیلت پسند کی اور اس منصب کو بے کنار مطلق العنانی کی علامت بنادیا جو جمہوری پارلیمانی نظام میں وفاق کی ایک معتبر علامت کا آرائشی و زیبائشی استعارہ تھا۔ اس روایت کا نتیجہ یہ نکلا کہ بیشتر سیاسی یا سویلین صدور نے بھی اپنے آپ کو مطلق العنان فوجی آمروں کا جانشین سمجھا اور ہر ایک نے وزیر اعظم کو انگوٹھے کے نیچے رکھنے کی کوشش کی۔ یہیں سے ان تضادات نے جنم لیا جنہوں نے جمہوری نظام کو تماشا بنادیا، پارلیمینٹ غیرموثر ہوگئی، کابینہ مفلوج ہوکر رہ گئی، وزیر اعظم کارنس پہ دھری مورتی بن گیا، وزیر اور مشیر اپنے وزیر اعظم سے کنی کترا کر طاقت کے اصل سرچشمے کے گرد جھومر ڈالنے لگے، طاقتور حکومتی اہلکار بے مہار ہوگئے، ہر شخص اپنی حکمت عملی خود بنانے اور خود ہی اس کا اظہار کرنے لگا، فیصلہ سازی کا کوئی پروقار نظام باقی نہ رہا، ادارے تحلیل ہوگئے، کمزور ڈھانچہ غیرملکی جابروں کی کھرلی بن گیا اور منصوبوں، عہدوں اور نوکریوں کے حریص اپنے اپنے درباروں کی چوکھٹ پر سر رکھے اپنے اپنے تاجداروں کے قصیدے گاتے رہے۔
پاکستان آج بھی اسی آزار سے دوچار ہے۔ آئین عملاً معطل ہے اورر حکومتی نظام فوجی روایات کے چوکھٹے میں جڑا ہے۔ اس کا نہایت ہی عمدہ، جامع اور واضح نقشہ برطرف شدہ مشیر، جنرل (ر) محمود علی درانی نے کھینچا ہے۔ موصوف فرماتے ہیں۔ ”جو کچھ میں نے کہا وہ صدر، تمام ایجنسیوں اور متعلقہ افراد کے علم میں تھا اور طے پاگیا تھا کہ اجمل قصاب کو پاکستانی شہری تسلیم کرلینا ہے لیکن مجھے اس لئے نشانہ بنایا گیا کہ وزیر اعظم گیلانی کو اس فیصلے کی خبر نہ تھی“۔ تصور کیجئے کہ جو بات ہر متعلقہ شخص کو معلوم تھی اور جسے کوئی مشیر انٹرویو کی شکل میں بیان کررہا تھا اور کوئی وزیر ایس۔ایم۔ایس کے ذریعے کسی امریکی خبر رساں ایجنسی کو بتا رہا تھا، وہ بات وزیر اعظم کے دائرہ علم ہی سے خارج تھی۔
بھارت نے ممبئی دھماکوں کو نہایت عمدگی کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ وہاں ایک خاتون بستی ہے جس کا نام پراتیبھا پٹیل ہے۔ پاکستان میں شاید چند لوگ اس نام سے واقف ہوں۔ یہ خاتون بھارت کی صدر ہے۔ بھارتی مسلح افواج کی سپریم کمانڈر ہے لیکن ممبئی دھماکوں کے تناظر میں کسی نے اس کا ذکر تک نہیں سنا۔ فیصلے آئینی تقاضوں اور مسلمہ روایات کے تحت ایک مستحکم سیاسی نظام کے ذریعے صادر ہورہے ہیں۔ ہمارے ہاں رسوائیوں اور جگ ہنسائیوں کا سلسلہ اس لئے پھیلتا جارہا ہے کہ اس مسخ شدہ آئین کو بھی بروئے کار نہیں آنے دیا جارہا جو پرویز مشرف چھوڑ گیا ہے۔ رچرڈ باؤچر کے بعد جو بائیڈن کے سینے پر پہلے سے بھی بڑا تمغہ ”ہلال پاکستان“ سجا دیا گیا ہے۔ دلیل یہ ہے کہ اس نے پاکستان کی مالی امداد کا بل منظور کرانے میں مدد دی تھی۔ کسی کو فرصت ملے تو وہ یہ بھی بتائے کہ بائیڈن نے خارجہ کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر بھارت کے ساتھ جوہری معاہدے اور اسے خطے کا چوہدری بنانے میں کیا کردار ادا کیا ہے۔
 
Top