رسم الخط کی تاریخ اور ہندکو زبان کا رسم الخط۔ عامر سہیل

فرخ منظور

لائبریرین
رسم الخط کی تاریخ اور ہندکو زبان کا رسم الخط

عامر سہیل

دنیا میں رسم الخط کا آغاز و ارتقا کب اور کیسے ہوا، یہ موضوع خاصا دقیق اور اُلجھا ہوا ہے۔ اس ضمن میں ماہرینِ آثارِ قدیمہ اور ماہرینِ لسانیات نے اپنی اپنی تحقیقات کی روشنی میں متنوع نظریات پیش کیے ہیں۔ تاریخی معلومات کے مطابق ماضی کی بیشتر تہذیبوں میں جہاں زبان کو دیوتاؤں کا عطیہ تسلیم کیا گیا، وہاں رسم الخط کو بھی انہی اصنام کی دین مانا گیا ہے۔ مشرق و مغرب میں تاریخ کے یہ زاویے مشترک خصوصیات رکھتے ہیں۔ تمام اساطیری روایات میں یہی بات دہرائی گئی ہے کہ دیوی دیوتاوں نے انسانوں کو لکھنا پڑھنا سکھایا۔مصری اساطیر کے مطابق ''Thoth'' وہ اہم دیوتا ہے جس نے اہلِ مصر کو ہیروغلافی رسم الخط سکھایا۔ہندوستان میں رسم الخط کی ایجاد کا سہرا برہما کی دھرم پتنی سرسوتی کے سر جاتا ہے۔ اسی طرح بابلی روایت میں ''EA'' نامی دیوتا سے فنِ تحریر منسوب چلا آ رہا ہے۔
رسم الخط کے ابتدائی نمونے پتھروں، مٹی کے برتنوں اور لکڑی کی تختیوں پر محفوظ ہیں۔ تہذیبی تاریخ کے ماہرین اور محققین کا خیال ہے کہ اِن نمونوں میں مصری، سُمیری، فُینیقی، کھروشٹی/خروشتی اور براہمی رسم الخط کی باقیات موجود ہیں۔ اگر ان دستیاب خطوں کی عمر کا تعین کیا جائے تو ایک محتاط اندازے کی مطابق ہمیں ۳۰۰۰ قبل مسیح کا زمانہ ذہن میں تازہ کرنا ہو گا۔ جدید تحقیق نے کنعان، مصر اور ایلم (جنوبی ایران اور خلیج فارس کا اوپری علاقہ) کو فنِ تحریر کا ابتدائی مرکز قرار دیا ہے۔ اگر رسم الخط کے تدریجی ارتقا کو دیکھا جائے تو اس کے چار واضح مراحل نظر آتے ہیں:
(۱) تصویری (Pictorial)
(۲) رمزیہ یا علامتی (Logo-geam)
(۳) منزل رکنی (Syllabic)
(۴) ہجائی (Alphabetic)

تصویری رسم الخط علامتوں کی دنیا سے ہوتا ہوا بالآخر حروف میں متشکل ہوا اور اب ساری دنیا میں اسی کا رواج ہے۔ رسم الخط کے باقاعدہ معیاری نمونے مصری تہذیب میں نظر آتے ہیں، جہاں اس کی تین صورتیں یا اسالیب مروج رہے:
(۱) ہیروغلیفی یا خطِ تمثال (۳۰۰۰ ق م تا تیسری صدی عیسوی)
(۲) ہیراطیقی یا ہیراتِک (خاص طبقے کا رسم الخط)
(۳) دیموطیقی (عوامی رسم الخط)

رسم الخط کے ابتدائی نمونے جانوروں، پرندوں اور درختوں کی تصویروں کی صورت میں ملتے ہیں۔ یہ تصویریں عموماً پہاڑوں، چٹانوں یا غاروں میں بنائی گئی تھیں۔ سمندری سیپیوں پر بھی اسی قسم کے نقوش بنانے کا عام رواج تھا۔ یہی تصویری عمل رفتہ رفتہ رسم الخط میں ڈھلتا گیا۔ دنیا کے قدیم ترین رسم الخط مصری، سُمیری اور چینی تہذیبوں سے یادگار ہیں۔ بعد میں آنے والی کئی زبانوں کے رسم الخطوط انہی تین سوتوں سے پھوٹتے نظر آتے ہیں۔ قدیم رسم الخط کے دیگر نمونوں میں فونیقی، آرامی، عبرانی، تدمری اور سریانی بھی شامل ہیں۔ زمانہء قدیم کے یہی رسم الخط آگے چل کر مختلف تہذیبوں اور اقوام میں اپنی ارتقائی صورتوں میں جلوہ گر ہوئے۔ دورِ جدید میں رسم الخط پر بات کرنا آسان نہیں رہا، بقول ڈاکٹر سلیم اختر:
’’رسم الخط کا مطالعہ اب اتنا وسیع ہے کہ یہ محض لسانیات تک محدود نہیں رہا بلکہ اس میں اساطیر، قدیم تاریخ، علم الانسان اور تہذیب و ثقافت اساسی ماخذ کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔اس حد تک کہ کسی بھی رسم الخط کے آغاز اور تشکیل کا مطالعہ ان کے تناظر کے بغیر ناممکن ہے۔‘‘ (اُردو زبان کیا ہے؟ سنگِ میل پبلیکیشنز، لاہور، طبع ۲۰۰۳، ص۲۲۸)

اگر ہندوستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہاں رسم الخط کے قدیم نمونے وہی ملتے ہیں جو موہن جو داڑو اور ہڑپا کی کھدائی کے بعد دستیاب ہوئے، ان نمونوں کو دیکھ کر ماہرین کو خاصی حیرت ہوئی کیوں کہ ان نمونوں کی مماثلت ہندوستان کی کسی رائج زبان کے ساتھ ظاہر نہیں ہو رہی تھی حتّیٰ کہ براہمی، کھروشتی (یا خروشتی) اور دراوڑی کے ساتھ بھی اِن کا کوئی رشتہ تلاش کرنا قریب قریب محال ہے۔ یہ سوال یقیناً تحقیق طلب ہے کہ پھر اِن کا رشتہ کس کے ساتھ جوڑا جائے اور کیسے جوڑا جائے؟ اس گھمبیر موضوع پر مولانا ابوالجلال ندوی کی تحقیقات راستہ دکھاتی ہیں مگر تفصیلی گفتگو علیحدہ مقالے کی متقاضی ہے۔

ہندکو کا شمار دنیا کی قدیم ترین زبانوں میں ہوتا ہے اور سنسکرت زبان میں ہندکو الفاظ کی موجودگی یہ ثابت کرتی ہے کہ زمانہء قدیم میں اِن کے آپسی رشتے خاصے مضبوط رہے ہیں۔ پاکستان میں بولی جانے والی علاقائی زبانوں میں ہندکو چھٹے نمبر پر آتی ہے، لیکن مقامِ حیرت دیکھیے کہ ہندکو رسم الخط پر تاحال کوئی قابلِ قدر تحقیقی کام سامنے نہیں آیا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض نادان دوستوں نے اس زبان کے بارے میں عجیب عجیب قیاس آرائیوں کو عام کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ یہاں تک بھی سننے میں آیا کہ ہندکو زبان کا کوئی رسم الخط نہیں ہے۔ اگر ایک لمحے کے لیے یہ بات درست تسلیم کر لی جائے کہ ہندکو زبان کا کوئی رسم الخط نہیں ہے تو پھر دوسرا سوال یہ پیدا ہو گا کہ ہندکو زبان و ادب کا موجود سرمایہ آخر کس رسم الخط میں لکھا گیا ہے ؟ معقول جواب یہی ہے کہ ہندکو زبان جس رسم الخط میں لکھی جا رہی ہے اسے ہر حوالے سے ہندکو رسم الخط ہی کہا جائے گا، اس کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے! البتہ ہندکو زبان کے موجودہ رسم الخط پر یہ اہم سوال اٹھایا جائے تو بات آگے بڑھ سکتی ہے کہ آیا یہ رسم الخط ہمیشہ ہندکو زبان کے ساتھ مخصوص رہا ہے یا نہیں؟ اگر اس سوال کا ٹھیک ٹھیک جواب مل جائے تو کسی حد تک مسئلے کی گرہ کشائی ہو سکتی ہے۔ بظاہر اس سادہ سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے محقق کو ہر قسم کے عقلی، نقلی اور قیاسی نظریات کے پُل صراط سے گزرنا ہو گا۔

اسی سے متصل دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر ہندکو زبان اُتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ سنسکرت یا دیگر آریائی زبانیں، تو پھر اس کا تحریری سرمایہ اُن کے مقابلے میں اتنا قلیل کیوں ہے؟ صرف سنسکرت زبان ہی کو دیکھا جائے تو وہاں مختلف علوم و فنون اور مذہبی تصانیف کا کثیر، وسیع اور وقیع سرمایہ موجود ہے جسے مشرق و مغرب کے حکما بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس علمی سرمائے پر دنیا کے عظیم اذہان دادِ تحقیق دے چکے ہیں او ریہ سلسلہ نجانے کب تک یونہی چلتا/ جاری رہے گا!

اس کے بر عکس ہندکو زبان و ادب کا علمی سرمایہ خاصا کم ہے۔ اس کمی یا قلت کی آخر کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ فوری طور پر ذہن میں آنے والا جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ سنسکرت کو روزِ اول ہی سے مذہبی زبان کا درجہ حاصل رہا کیونکہ ہندو دھرم کے تمام مقدس صحائف (اتھر وید، یجر وید، سام وید، رِگ وید) اسی زبان میں لکھے گئے ہیں۔ مذہبی تقدس کے اسی جذبے نے سنسکرت کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، گو کہ جدید عہد میں اسے مردہ زبان (Dead Language) کا درجہ حاصل ہے لیکن اس کا علمی سرمایہ زندگی سے بھرپور ہے۔ ہندکو زبان کی پشت پر ایسا کوئی مقدس جذبہ کار فرما نہیں رہا اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندکو ہر دور میں محض ’’بطور رابطہ زبان‘‘ مستعمل رہی ہے۔

اگر یہ قیاسی نظریہ پیش کیا جائے کہ ہندکو زبان کا رسم الخط تاریخ کے مختلف ادوار میں بدلتا رہا ہے تو کیا ہو گا؟ یا اگر کہا جائے کہ ہندکو زبان ایک ہی دور میں ایک سے زائد رسم الخطوط میں لکھی جاتی رہی ہے، تو محققین کا کیا ردِ عمل سامنے آئے گا؟ پہلے تو میں اس بات کی وضاحت کر دوں کہ زیرِ نظر تحریر میں ’’قیاس‘‘ کا لفظ ''Guess'' کے معنوں میں استعمال نہیں کیا بلکہ "Syllogism" کے معنی میں برتا ہے۔ (اس اصطلاح کی اپنی منطقی حدود ہیں اور اس کی بنیاد پس منظری حقائق پر اُستوار ہوتی ہے)۔ اپنے پیش کردہ قیاس کی مزید وضاحت میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اس وقت اُردو عالمی زبانوں کی فہرست میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہے اور عالمی سطح پر اس کے دو رسم الخط رائج ہیں:
(۱) عربی فارسی رسم الخط
(۲) دیوناگری رسم الخط۔

پنجابی زبان کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے کہ پاکستان میں اُس کے لیے وہی رسم الخط مستعمل ہے جس میں اُردو لکھی جا رہی ہے (یعنی نستعلیق میں) جبکہ بھارت میں یہی پنجابی گورمُکھی رسم الخط میں لکھی جا رہی ہے، یعنی ایک زبان ایک ہی عہد میں دو بالکل مختلف رسم الخطوں میں لکھی، پڑھی اور سمجھی جا رہی ہے اور اس ضمن میں نہ تو کوئی الجھن پیدا ہو رہی ہے اور نہ پریشانی، ہندکو رسم الخط بھی ایسے مسائل اور تغیّرات کا شکار رہا ہے۔ کیا ایسا ہونا ممکن نہیں کہ ہندکو کا علمی ادبی ذخیرہ مختلف رسم الخطوں میں اِدھر اُدھر بکھرا پڑا ہو؟ دنیا میں کئی ایسے رسم الخط دریافت ہو چکے ہیں جن کی پڑھت کا مسئلہ ہنوز حل نہیں ہوا۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ قدیم زمانے میں یہی ہندکو لکھنے کے لیے کھروشٹی یا خروشتی رسم الخط استعمال ہوتا رہا ہے۔ اس کا ایک نمونہ ہندکو زبان کی پہلی باضابطہ لغت ’’ہندکو اُردو لغت‘‘ (مرتبہ سلطان سکون، ناشر گندھارا ہندکو بورڈ پاکستان، پشاور، طبع ۲۰۰۲ء) میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

خروشتی رسم الخط کا شمار ہندوستان کے قدیم ترین خطوں میں ہوتا ہے،اور اس کا چلن جنوبی ایشیا کے اُس علاقے سے جا بنتا ہے جسے موجودہ عہد میں افغانستان اور پاکستان کہا جاتا ہے۔ اس کا زمانہ تیسری صدی قبل از مسیح کا ہے۔ خروشتی رسم الخط کی اصل ہندوی ہے، گندھارا تہذیب میں اسے بہت فروغ حاصل ہوا۔ گندھاری زبان لکھنے کے لیے بھی یہی رسم الخط استعمال ہوتا رہا ہے۔ ہندکو کی طرح گندھاری کا تعلق بھی پراکرت اور سنسکرت سے جا ملتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے اس کا زمانہ تیسری صدی قبل از مسیح کا ہے، پھر یہ زبان رفتہ رفتہ اپنے گھر کی چار دیواری ہی میں دم توڑ گئی تھی۔ اس اہم موضوع پر جیمز پرنسپ (James Prinsep) نے نئی تحقیقات بہم پہنچائی ہیں جن کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ درحقیقت یہ رسم الخط بھی براہمی رسم الخط کا ہم عصر ہے۔ براہمی اور خروشتی دونوں عوامی زبانیں تھیں جبکہ ان کی تیسری معاصر زبان سنسکرت ایک محدود دائرے میں سمٹ کر رہ گئی تھی۔ خروشتی رسم الخط دو انداز سے لکھا جاتا رہا: دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں۔ مگر زیادہ تر اس کا رواج دائیں سے بائیں تھا۔ پروفیسر خاطر غزنوی اس ضمن میں اپنی گراں قدر تصنیف ’’اُردو زبان کا ماخذ ہندکو‘‘ میں کہتے ہیں:
’’ٹیکسلا اور اس کے مضافات میں آج بھی ہندکو یا چھاچھی ہندکو زبان بولی جاتی ہے، یہ ایک واضح امر ہے کہ یہ زبان جو آج یہاں کے چپے چپے پر پھیلی عوام کی بولی ہے، صدیوں سے بولی جاتی رہی ہے اور مختلف النسل حکمرانوں کی حکومتوں کے اثرات کے باوجود برقرار ہے۔ یہاں سے جو کتبے برآمد ہوئے ہیں اُن میں خروشتی زبان و رسم الخط نمایاں ہے۔ ان خروشتی کتبوں میں ہندکو زبان پکار پکار کر اپنی قدامت کا ثبوت پیش کر رہی ہے۔‘‘ (ص ۱۲۸)

ان کتبوں کی تاریخی اہمیت اور متن خوانی کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے لیے ڈاکٹر سیف الرحمن ڈار کا مقالہ نئی راہیں دکھاتا ہے، اس کا نام "Epigraphical Evidence from Texila" ہے۔ یا پھر ڈاکٹر احمد حسن دانی کی تصنیف "Peshawar" راست سمت میں مسئلہ حاضرہ پر روشنی ڈالتی ہے۔
خروشتی رسم الخط میں دستیاب ہندکو زبان کے کتبے اس بات کو بھی ثابت کرتے ہیں کہ یہ اپنے دور کی مقبول ترین زبان رہی ہے ، کیونکہ کتبے صرف اُسی زبان میں لکھے جاتے ہیں جو وسیع حلقے میں سمجھی جاتی ہو۔ ایسے تمام شواہد کی روشنی میں یہ کہنا آسان ہو جاتا ہے کہ ہندکو زبان کا خاصا بڑا تحریری ذخیرہ اسی رسم الخط میں تصنیف ہوا جو یا تو دست بردِ زمانہ کی نذر ہو چکا ہے یا پھر نظروں سے اوجھل ہے اور کسی وقت کوئی فرہاد اُسے کھوج نکالے گا۔

زبانوں کے ارتقائی مدارج کا مطالعہ کرنے سے علم ہوتا ہے کہ بسا اوقات کوئی زبان تاریخی جبر کے تحت اپنا رسم الخط تبدیل کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے، ہندکو زبان بھی اسی اصول کی زد میں رہی ہے۔ یہاں ایک بنیادی بات ہمارے ذہن میں تازہ رہنی چاہیے کہ ہندکو اصلاً ہند آریائی زبان ہے اور یہ صدیوں کا سفر طے کر کے ہم تک پہنچی ہے اور اس کے حصے میں وہی رسم الخط آیا جو اسی خاندان کی دوسری زبان اُردو کو نصیب ہو چکا ہے۔ اب ہندکو کا اصلی رسم الخط وہی ہے جس میں آج کل اسے لکھا جا رہا ہے۔

ہندکو رسم الخط کے بارے میں یہ کہنا کہ زید کا رسم الخط اپنا ہے اور بکر کا اپنا، محض لاعلمی پر منحصر ہے۔ زید اور بکر کے رسم الخط میں جو واضح فرق ہمیں دکھائی دیتا ہے وہ املائی تغیرات ہیں، اس کا رسم الخط کے ساتھ دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں بنتا۔ہمارے ہاں املا کے تمام چھوٹے بڑے مسائل کو رسم الخط کے ساتھ خلط ملط کر دیا گیا ہے، اس اُلجھن کا سبب صرف اتنا ہے کہ ہندکو زبان کی طرف محققین کی توجہ نہ ہونے کی وجہ سے اب تک اس کے املا کی اصول سازی نہیں ہو سکی۔ جس دن ہندکو املا کی اصول سازی ہو گئی، تمام مسائل خود بخود رفع ہو جائیں گے۔ یا پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تمام تغیرات دُھل دُھلا کر کوئی حتمی صورت نکال لیں گے، اور یہ کوئی اَنہونی بات نہیں ہے، ایسا ہر زبان کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔
عہدِ حاضر کی ایک روشن مثال دیکھے کہ ایرانی حکومت نے فارسی املا میں معیار اور یکسانیت قائم کرنے کے لیے ایسے ادارے بنائے جو عرصہء دراز سے املائی تبدیلیوں کو بدلتے تقاضوں سے ہم آہنگ کر نے میں مصروف ہیں۔ آج جدید فارسی میں نون غُنّہ (ں) اور بڑی یے (ے) کا استعمال ترک کر دیا گیا ہے، اسی نوع کی کچھ اور تبدیلیوں نے کلاسیکی فارسی میں ایسے ایسے نئے رنگ بھرے کہ آج اگر جامیؔ، حافظؔ، رومیؔ اور بیدلؔ دنیا میں واپس آ جائیں تو وہ بھی جدید فارسی میں اپنا ہی لکھا ہوا کلام شاید نہ پڑھ سکیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ املائی تغیرات کا کینوس اتنا وسیع ہے کہ بعض اوقات زبان نئے روپ میں سامنے آ جاتی ہے اور عام لوگ یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ شاید رسم الخط بدل گیا ہے جبکہ یہ سارے کھیل تماشے صرف املا دکھاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی فردِ واحد حتّٰی کہ بڑے سے بڑا ادارہ بھی رسم الخط نہیں بدل سکتا اور نہ اُس میں اصلاح کر سکتا ہے، البتہ اس میں تغیر کا امکان ضرور ہوتا ہے لیکن یہ تغیر نافذ نہیں کیا جاتا بلکہ رونما ہوتا ہے۔ رسم الخط یا تو رہتا ہے یا نہیں رہتا، اس کی درمیانی صورت کوئی نہیں بنتی۔ ہندکو زبان کا رسم الخط اب حتمی طور پر وضع ہو چکا ہے جو اسی طرح آگے بڑھتا رہے گا، جس طرح اُردو میں تغیر آتا رہتا ہے بالکل ایسے ہی ہندکو رسم الخط ارتقائی عمل سے گزرتا رہے گا۔

رسم الخط کی کہانی بھی عجیب ہے۔ آخر اس بات کا فیصلہ کس نے کیا تھا کہ ہندکو زبان لکھنے کے لیے اُردو کا رائج رسم الخط استعمال کیا جائے؟ میرے خیال میں اس کا جواب اتنا آسان نہیں کیونکہ کس زبان نے کون سا رسم الخط کب اور کہاں استعمال کرنا ہے، اس کا فیصلہ تاریخ خود کرتی ہے۔ دنیا کا ہر رسم الخط ارتقائی اُصولوں کا پابند ہوتا ہے۔ ہندکو اس کلیّے سے آزاد نہیں ہے۔ ہندکو نے جو رسم الخط اپنے لیے پسند کیا ہے وہ اس زبان کی تمام ضروریات کے لیے کافی و شافی ہے۔ اُردو میں وہ تمام آوازیں اور حروف موجود ہیں جو ہندکو کے لیے لازمی ہیں۔ اُردو رسم الخط کی وسعت کا یہ عالم ہے پاکستان کی بیشتر علاقائی زبانیں (معمولی ردوبدل کے ساتھ) اسی رسم الخط میں لکھی جا رہی ہیں کیونکہ اُردو ان تمام زبانوں کی کفایت بآسانی کر سکتی ہے۔ ہم جتنی سہولت کے ساتھ اُردو زبان نستعلیق میں لکھ رہے ہیں، اسی سہولت کے ساتھ ہندکو زبان کے لیے نستعلیق کا استعمال عام ہے۔ اس تحریری روش کا اضافی فائدہ یہ بھی ہے کہ ہندکو زبان کمپیوٹر پر بھی لکھی جا رہی ہے، گویا وہ زبان جس کا عرصہ قبل از مسیح کا ہے وہ عہدِ جدید میں بھی اپنا وجود پوری آب و تاب سے قائم رکھے ہوئے ہے۔ اس وقت دنیا میں کئی ایسی زبانیں بھی ہیں (پاکستان میں بھی اسی زبانیں ہو سکتی ہیں) جو صرف بولی جا رہی ہیں اور اُن کا رسم الخط موجود نہیں، لیکن ہماری ہندکو اس زمرے میں شامل نہیں ہے۔ اب تازہ شعور کی بدولت ایسی تمام زبانوں کے لیے رسم الخط تلاش کیے جا رہے ہیں۔

مقتدرہ قومی زبان نے ہائیہ آوازوں مثلاً جھ، دھ، کھ، نھ، لھ وغیرہ کو بھی باقاعدہ حروفِ تہجی میں شامل کر کے اُردو حروفِ تہجی کی تعداد باون (۵۲) تک پہنچا دی ہے۔ ان اصوات کی مدد سے ہندکو زبان کے تمام علاقائی لہجے استفادہ کر سکتے ہیں۔ خواہ اُس کا تعلق مانسہرہ، ایبٹ آباد، بالاکوٹ، مظفر آباد، ہری پور، تربیلہ، پشاور، کوہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان، غرض کسی بھی خطے سے ہو۔ یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے ہندکو زبان کا اب اپنا ایک مستقل رسم الخط ہے جو جدید اور قدیم ہندکو میں مضبوط پُل کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔
 
آج جدید فارسی میں نون غُنّہ (ں) اور بڑی یے (ے) کا استعمال ترک کر دیا گیا ہے، اسی نوع کی کچھ اور تبدیلیوں نے کلاسیکی فارسی میں ایسے ایسے نئے رنگ بھرے کہ آج اگر جامیؔ، حافظؔ، رومیؔ اور بیدلؔ دنیا میں واپس آ جائیں تو وہ بھی جدید فارسی میں اپنا ہی لکھا ہوا کلام شاید نہ پڑھ سکیں۔
فارسی میں نون غنہ کا وجود تھا ہی نہیں۔ یہ تو خالصتاََ برِصغیر کی ایجاد ہے۔ یائے معکوس (بڑی یے) بھی حروفِ تہجی کا حصہ نہیں تھے۔ فقط خطاطی میں اس کو بعض جگہوں پر ی کی جگہ لکھا جاتا تھا۔ یعنی بعض جگہوں پر سعدی کو سعدے لکھا جاتا ہے تو اس کو سعدی ہر پڑھا جاتا تھا۔بلکہ برِصغیر میں اردو کی شروع کی کتب میں بھی بڑی یے آپ نہیں پائیں گے۔
 
Top