رسالہ اخبار اردو-ایک سیر آم کے بدلے دورسالے ۔۔۔ڈاکٹر ظہور اعوان

Dilkash

محفلین
رسالہ اخبار اردو-ایک سیر آم کے بدلے دورسالے
کچھ شاؤنسٹوں کا یہ خیال ہے کہ اردو زبان مرتی جا رہی ہے حالانکہ یہ نیک بخت اتنا نہیں جانتے کہ زبانیں ایک داخلی فعالیت و نشوونما رکھتی اور اپنے زور پر پھلتی پھولتی اور آگے بڑھتی رہتی ہیں‘ جس زبان کو جتنی کھلی زمین و آسمان ملے بولنے والوں کی اکثریت بڑھتی رہے گی‘ وہ اپنے راستے کی ہر رکاوٹ کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گی‘ زبان کی فعالیت کے ساتھ اس کی افادیت بھی ایک بڑا عنصر ہے‘ یہ کسی کے کہنے سننے سے چھوٹی بڑی نہیں ہوتی بلکہ اس کو پھیلانے کی حاجت‘ اس کی افادیت اور عوام کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہ بات ان شاؤنسٹوں کو یاد رہنی چاہئے کہ اردو زبان پاکستان سے زیادہ غیر ممالک میں اپنے جھنڈے گاڑ رہی ہے۔ امریکہ‘ یورپ‘ جاپان‘ آسٹریلیا‘ مشرق وسطیٰ میں اس پر رضاکارانہ طور پر کام ہو رہا ہے‘ ماسکو یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی ہو رہی ہے۔ ابھی حال ہی میں ایران کے اردو دوستوں نے ایک سہ روزہ عالمی اردو کانفرنس بنام علامہ اقبال منعقد کر ڈالی جس میں پاکستان کے بھی کئی نامور سکالروں نے حصہ لیا اور یہ کانفرنس نہ ایرانی حکومت نے منعقد اور نہ حکومت پاکستان کا سرکاری سطح پر کچھ بڑا عمل دخل تھا۔ ابھی حال میں اٹلی میں ایک اردو اخبار آزاد کے مطابق روم کمونے کی اردو لائبریری کا آغاز اٹلی میں ہو گیا ہے اور اردو زبان کو اٹلی کی لائبریریوں میں شامل کر دیا گیا ہے۔

اسی طرح جرمنی میں اردو کی دو تقاریب انعقاد پذیر ہوئیں‘ ہائیڈل برگ یونیورسٹی کی کانفرنس کی صدارت ایشیا کی نامور مستشرق ڈاکٹر کرسٹینا اوہیلڈا کی صدارت میں ہوئی جنہوں نے بتایا کہ جرمنی کے شعبہ اردو میں جرمنی نژاد طلباء و طالبات کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے‘ ڈاکٹر کرسٹینا خود ایسی اردو بولتی ہیں کہ ہم جیسے اردو دان ان کے سامنے گنگ ہو جاتے ہیں۔ دوسری تقریب جرمنی کے شہر بون میں اردو سوسائٹی آف یورپ کے زیر اہتمام ہوئی‘ اس کے علاوہ امریکہ میں اردو کے اتنے مشاعرے ہوتے ہیں‘ اتنی کتابیں چھپتی ہیں‘ اتنے رسائل نکلتے ہیں کہ خود پاکستان سے نہ نکلتے ہوں۔

مجھے آج ہی مقتدرہ قومی زبان کا رسالہ اخبار اردو ملا‘ یہ 27 برس سے جاری ہے‘ 32 بڑے صفحات پر مشتمل اس رسالے میں مقامی اور عالمی ادب کے بارے میں کیا نہیں ہوتا‘ اس میں گوشۂ ن م راشد پڑھنے کی چیز ہے‘ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے ایرانی سیمینار کی مفصل رپورٹ لکھی۔ اس کا سب سے عمدہ مضمون اطالوی مستشرق الیسا ندرو باؤسانی نے تحریر کیا ہے‘ اس کا موضوع ہے اردو زبان کی اہمیت ایک یورپی تاثر‘ کافی طویل ہے اور پڑھنے کے لائق ہے‘ اس میں ڈاکٹر باؤسانی کی اردو زبان پر گرفت دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ اردو خود اپنی جگہ بڑی عالمی زبانوں کی صف میں بنا رہی ہے‘ اسے کسی سرپرستی کی ضرورت نہیں۔

یہ رسالہ مقتدرہ کے صدر افتخار عارف صاحب سے پطرس بخاری روڈ سیکٹر ایچ 4/8 اسلام آباد سے دستیاب ہے‘ قیمت صرف 50 روپے ہے اور ان فون نمبرات پر رابطہ کر کے منگوایا جا سکتا ہے 9250312-13۔ جو لوگ مہنگی کتابوں اور رسالوں کا رونا روتے ہیں ان کے لئے یہ غنیمت ہے‘ 500 روپے سالانہ دے کر پورے سال کے لئے رسالہ جاری کروایا جا سکتا ہے‘ یہ اردو زبان و ادب کا گویا کیپسول ہے جس میں قدیم اور جدید ادب اور عالمی ادبی خبریں بھی مل سکتی ہیں۔ کسی بھی شہر کے چند اردو پسند دوست مل کر بھی یہ رسالہ منگوا سکتے ہیں‘ 50 روپے میں آئس کریم کا ایک کپ بھی نہیں ملتا‘ پڑھنے لکھنے کے شوقین یہ سستا رسالہ مشترکہ طور پر خرید کر اپنی علمی پیاس بجھا سکتے ہیں۔

ایک آدمی شوق بھی رکھتا ہو اور وہ اس شوق پر پیسے بھی خرچ نہ کرے تو اسے اس شوق سے دستبردار ہو جانا چاہئے‘ سو روپے سیر آم ہیں‘ ایک سیر آم کے بدلے دو ماہ کے رسالے مل سکتے ہیں مگر مسئلہ یہی ہے کہ شوق سچا ہو۔ میں نے بارہا لکھا ہے کہ پشاور یا لاہور کے کباڑی بازار سے کوئی بھی رسالہ دس پندرہ روپے میں مل سکتا ہے‘ ایک دفعہ گھر سے تو نکلیں اپنے شہر یا علاقے میں پتہ کروائیں کہ یہ رسالہ کہاں کہاں اور کس کس کے پاس آتا ہے‘ ان سے مانگ کر چھین اور چرا کر بھی پڑھا جا سکتا ہے بشرطیکہ شوق صحیح سلامت ہو۔
 

Dilkash

محفلین
اور تلوار ٹوٹ گئی
پشاور شہر کا ایک نامور اور دلیر سپوت صفوت غیور دہشت گردوں کے ہاتھوں شہادت کا جام پی کر اس دنیا سے رخصت ہوا‘ وہ ایک نامور سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتا تھا‘ سردار عبدالرب نشتر کا بھتیجا‘ غیور کا غیور بیٹا افسانوی کردار کا مالک تھا۔ گورنر سرحد جناب اویس غنی کا چچازاد‘ آفتاب شیرپاؤ اور جناب اعجاز رحیم کا برادر نسبتی‘ وہ پولیس کی دنیا کا شیر تھا‘ مشکل سے مشکل مشن اس کو سونپا جاتا تھا‘ اس کے کام کرنے کا عجب ڈھنگ تھا۔

وہ مجرموں کے تعاقب میں سب سے آگے ہوتا اور اسے للکارتا۔ اس کی ذات کے ساتھ بڑی بڑی داستانیں وابستہ ہیں‘ ہر سانحے کے وقت وہ سب سے پہلے پہنچتا اور ساری کمانڈ سنبھال کر آگے بڑھتا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے صوبے کے جیدار سپوتوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ سب سے پہلے عابد علی گیا پھر ملک سعد اور اب صفوت غیور مگر اس کے باوجود ہمارے بہادر سپاہیوں کے حوصلے بلند ہیں

شیر کے جبڑے میں ہاتھ ڈالنے والے یہ دلیر ہم سے ایک ایک کر کے رخصت ہوتے جا رہے ہیں۔ صفوت غیور آ بیل مجھے مار قسم کا جیدار آدمی تھا جس کی للکار سن کر بڑے بڑے مجرم سہم جاتے تھے‘ وہ اپنی ذاتی سیکیورٹی کا خیال نہیں کرتا تھا‘ ایسا فرض شناس کہ چوبیس گھنٹے اپنے آپ کو ڈیوٹی پر سمجھتا تھا۔ صفوت غیور کی شہادت کی خبر سن اور پڑھ کر نسیم حجازی کا یہ جملہ یاد آتا ہے اور تلوار ٹوٹ گئی۔

جو آدمی بھی صفوت غیور سے ایک بار ملا بے دریغ بہادری کا ایک نقشہ و نشان لے کر اٹھا‘ وہ عام زندگی میں سادہ‘ کم گو اور ملنسار آدمی تھا‘ ہر ایک سے تپاک سے ملتا‘ کسی نے آج تک یہ شکایت نہیں کی کہ اس کے اندر تکبر و غرور موجود ہے۔ وہ مخصوص Typical پشاوری تھا اور اپنے شہر کی آن تھا‘ اس کو دیکھ کر لوگ فخر کرتے تھے‘ ٹھیٹھ ہندکو میں بات کرتا تھا۔ ایک مرتبہ ملاقات ہوئی تو ایسا لگا جیسے صدیوں سے جانتا ہے‘ مجھے کہا دل پشوری دل کیسا ہے‘ وہ شہر کے سب لوگوں کو جانتا تھا مگر کم آمیز تھا اور اپنے کام سے غرض رکھتا تھا۔ زندگی اس کیلئے ایک مشن تھی‘ وہ شیر کی طرح جیا اور شیر کی طرح مرا‘ پشاور کی ہر آنکھ اس کیلئے پرنم ہے۔

میں جب بھی اس بارے میں سوچتا ہوں یہی خیال آتا ہے کیسا ہیرا ہم نے کھو دیا ہے۔ صفوت غیور متواضع‘ حلیم الطبع اور اپنی شہری روایات اور وضعداری کا پابند تھا۔ اس کے متعلق مشہور تھا کہ وہ دل کا غنی تھا‘ جہاں تک ممکن ہوتا اپنی بساط کے مطابق غریبوں کی مدد کرتا‘ سرکاری ملازمت تو بہت لوگ کرتے ہیں مگر سرکاری ملازمت کو عبادت سمجھنے والے لاکھوں میں ایک ہوتے ہیں اور صفوت غیور واقعی لاکھوں میں ایک تھا۔

ملک سعد سے تو یاد اللہ تھی اور شہر کی کئی محافل میں ملاقات ہو جاتی‘ عابد علی سے ملنے میں بنوں گیا تھا مگر صفوت غیور پشاور میں ہونے کے باوجود ہاتھ نہیں آتا تھا‘ وہ رسمی ملاقاتوں کا قائل نہ تھا‘ شہری تقاریب میں بھی اسے کم ہی دیکھا گیا۔ میرے شہر پشاور کی ہر آنکھ آج اپنے ایک دلیر بیٹے کیلئے پرنم ہے‘ ایسے لوگ روز پیدا نہیں ہوتے‘ پولیس میں رہ کر صاف ستھری اور بدعنوانی سے پاک زندگی گزارنے والا یہ شخص درحقیقت درویش تھا

اس نے کسی جگہ دہشت نہیں پھیلائی تھی بس کام ملا اسے مشن کے طور پر اپنا لیا‘ آدھی رات کو شیر کی طرح اپنے شکار پر جھپٹا۔ کسی کو نہیں پتہ وہ سوتا کب تھا‘ وہ نام و نمود کا ہرگز شائق نہ تھا نہ اسے اخبارات میں اپنی تصویریں چھپوانے اور فیتے کاٹنے سے کوئی غرض تھی۔ وہ کہتا تھا میں کون سا تیر مار رہا ہوں بس وہی کام کر رہا ہوں جس کی مجھے تنخواہ ملتی ہے۔

صفوت غیور کی زندگی نہ صرف پولیس والوں بلکہ عام شہریوں کیلئے بھی مشعل راہ تھی‘ بہت کم لوگوں نے اس کی تصویر شہادت سے پہلے دیکھی ہو گی۔ اب بہت سے پشاوریوں کے سامنے اس کی جسمانی صورت سامنے آئی ہے‘ وہ پورے پشاور کو رلا گیا‘جب بھی اس کی یاد آئے گی رونے والی آنکھیں پرنم ہوتی رہیں گی۔
 
Top