رحمت، مگر

عبدالجبار

محفلین
رحمت، مگر۔۔۔۔۔۔


خیر دین کے ہاں پہلی بیٹی کی پیدائش ہوئی تو اُس کے کچھ رشتہ داروں نے افسوس کا اظہار کیا۔ خیر دین جو خود بیٹے کی زبردست خواہش رکھتا تھا یہ کہہ کہ چُپ ہو گیا کہ بیٹیاں اللہ کی رحمت ہوتی ہیں، مگر جب اُس کے ہاں یکے بعد دیگرے دوسری اور تیسری بیٹی کی پیدائش ہوئی تو اُس کی بیوی بھی باقاعدہ طور پر رو دی، مگر خیر دین صابر و شاکر تھا، تاہم اُس کو یہ فِکر کھائے جا رہی تھی کہ اِن کی پرورش کیسے ہو گی؟

خیر دین، پیر عظمت اللہ خاں کی زمینوں پر مزارعہ تھا۔ پیر عظمت اللہ خاں علاقے کے سب سے بڑے زمیندار تھے اور اپنے آباؤاجداد کے دربار کے سجادہ نشین ہونے کے ناطے اس علاقے کے روحانی پیشوا بھی تھے، ان کی جاگیر ہزاروں ایکڑ پر پھیلی ہوئی تھی جبکہ باقی حصہ بیابان پڑا ہوا تھا مگر وہ کسی کو بِلااِجازت اس کے استعمال کی اِجازت نہیں دیتے تھے۔ ان کی آباد زمین میں سے پانچ ایکڑ زمین خیر دین کے زیرِ کاشت تھی۔ اس علاقے میں جو بھی انتظامی افسر آتا وہ دفتر میں رپورٹ کرنے کے بعد سب سے پہلا کام پیر صاحب کے ہاں حاضری دینے کا کرتا۔ جہاں ان افسران کو پیر صاحب کی زیارت نصیب ہوتی، وہاں تحفے بھی عطا ہوتے تھے۔

پیر صاحب ہر ہفتے شہر کے اس بازار کی رونقوں کو بھی دوام بخشتے جہاں دن سوئے اور راتیں جاگی جاتی ہیں۔ پیر صاحب نے کئی شادیاں بھی کر رکھی تھیں۔ ہر سال ایک آدھ طلاق بھی دے دیتے تا کہ دین اور دنیا ساتھ ساتھ چلتے رہیں۔ پیر صاحب عُرس سے کچھ دن پہلے اپنی زمینوں کے دورے پر نکلتے، علاقے کے افسران ان کے ساتھ علاقے کی سیر کو آ جاتے جبکہ شکار کے شوقین افسران پیر صاحب کے ساتھ شکار کی تاک میں رہتے۔

خیر دین نے اپنی تینوں بچیوں کی پرورش کسی نہ کسی طرح اپنے محدود وسائل میں کر ہی لی، لیکن وہ ان کو زیورِ تعلیم سے آراستہ نہ کر سکا۔ البتہ ان کی تربیت کچھ اس طرح سے کی کہ وہ انتہائی بااخلاق اور با حیا نِکلیں۔ خیر دین کو سب سے بڑی بیٹی کی شادی کی فِکر کھائے جا رہی تھی۔ اسے شادی کے اخراجات پورے کرنے کا بندوبست بھی کرنا تھا۔

اپنے اخراجات کے مدوجزر کی تسکین نے اسے 5 ایکڑ زمین کی کاشت تک محدود نہ رہنے دیا۔ اس نے ساتھ والی کچھ بنجر زمین بھی کاشت کر لی۔ یوں وہ اُمید کرنے لگا کہ اِس سال اپنی بیٹی کی شادی کے اخراجات پورے کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔

جوں جوں عُرس قریب آ رہا تھا اُس کی پریشانی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ پیر صاحب عُرس سے پہلے زمینوں کا دورہ بھی کرتے تھے اور خیر دین کو یہ ڈر تھا کہ اگر پیر صاحب کے علم میں ان کی اجازت کے بغیر زمین کاشت کرنے کی بات آ گئی تو اُن سے کچھ بعید نہیں۔

ہوا وہی جس کا ڈر تھا۔ اس سال جونہی پیر صاحب دورہ پر تشریف لائے، کُھلی کچہری ہوئی اور خیر دین کو 20 کوڑوں کی سزا دی گئی۔ خیر دین کی بیٹی فرطِ جذبات میں بے پردہ دوڑتی دوڑتی اپنے باپ سے لِپٹ گئی۔ اچانک پیر صاحب نے خیر دین کی سزا معاف کر دی، لوگوں نے پیر صاحب کے رحم و کرم کی بہت تعریف کی، نعرے بازی ہوئی، داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے گئے اور خیر دین سزا سے بچ گیا۔

عُرس کے موقعہ پر ہر سال پیر صاحب سجادہ نشین کی مخصوص کرسی پر بیٹھتے اور ان کے سَر پر ایک پگڑی رکھی جاتی جو بعد میں سونے کے تھال میں رکھ کر سب افسران اور دوسرے معزز مہمانوں کے سامنے سے گزاری جاتی جو بڑی عقیدت سے اس کو بوسہ دیتے، پھر یہ پگڑی اس سونے کے تھال سمیت پیر صاحب کی جاگیر میں واقع کسی ایسے گھر میں بھیج دی جاتی جہاں کوئی نوخیز جوانی موجود ہوتی اور اس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ پیر صاحب فی سبیل اللہ اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔

اس دن خیر دین گھر آیا، تو صدمے کے باعث اس کی ٹانگوں اور زبان پر فالج ہی تو گِر گیا۔ وہ دروازے میں ہی ڈھیر ہو گیا۔ صدمے سے پاگل اس کی بیوی کافی دیر واویلا کرنے کے بعد اپنے مفلوج شوہر کے پاس آ کر قہقہے لگاتے ہوئے اس کا گریبان پکڑ کر جھنجوڑنے لگی۔ “ تو چُپ کیوں ہے؟ تو ہی کہتا تھا بیٹیاں رحمت ہوتی ہیں۔ دیکھ سونے کا تھال نازل ہوا ہے۔“
 
Top