رحمان فارس۔۔۔۔۔۔۔(نظم ) کُلُ من علیھا فان

فیصل عزیز

محفلین
کُلُ من علیھا فان

حالت_ بے حال پر آنسُو بہا

اے جمال_غم گزیدہ

اپنے بھولے بسرے خدو خال پر آنسُو بہا

دیکھ دست_وقت نے

ایک بھوکی، لالچی ، بے رحم مکڑی کی طرح

تیرے چشم و لب پہ کیسے زرد جالے بُن دیے

تیری آئینہ جبیں

قصہء پارینہ ہو کر رہ گئی

موجہء ایام میں

تیری ساری خوش مزاجی بہہ گئی

وقت کی اس شاطرانہ چال پر آنسُو بہا

اے شباب_زنگ خوردہ

تیری آب و تاب قائم عشق کے موسم سے تھی

تیرے تن سے پھُوٹتی خُوشبُو ہمارے دم سے تھی

تیری ہستی ہم سے تھی

ہم

جو اپنے خون کی شمعیں جلا کر

تیری آنکھوں کو مسلسل روشنی دیتے رہے

اپنی رگ رگ سے چُرا کر

چاندنی دیتے رہے

لیکن آخرکب تلک

رفتہ رفتہ داستان_لالہ و گُل ختم شُد

کیا ہوئی وہ کھنکھناتی سی ہنسی ? یادش بخیر

کیا ہوئی وہ تتلیوں اور خوشبوؤں اور آئنوں اور قمقموں سے دوستی ? یادش بخیر

اب نہ جانے ہم کہاں اور تُو کہاں

ہوگئی گُم دھیان کے آنگن سے وہ خوشبُو کہاں

کھو گیا تیرے لب و رُخسار کا جادُو کہاں

روز و شب اب زیست کا آزار کھینچ

اپنے دل کے چار جانب زرد پچھتاوے کی اینٹوں سے سیہ دیوار کھینچ

سانس کے بخیے اُدھیڑ

آنکھ میں پیوست غم کے خار کھینچ

آئنے میں خود کو دیکھ

اور اپنے حال پر آنسُو بہا

ہم نے جس پر کاڑھ رکھے تھے امیدوں کے سفید و سُرخ پھُول

آج یادوں کے اُسی رُومال پر آنسُو بہا

اے جمال_غم گزیدہ

یاد کر ہم کو اور اپنے حال پر آنسُو بہا

رحمان فارس
 
Top