اقتباسات رب کی نا فرمانی پر مجھے سزا ملی : اردو ڈائجسٹ سے انتخاب

سید زبیر

محفلین
’’رب کی نافرمانی پر مجھے سزا ملی‘‘
محمد اکرم رانجھا | سبق آموز واقعہ

میرا تعلق بنیادی طور پر سرگودھا کے دیہی علاقے سے ہے۔ میںجب کبھی لاہور آتا، جماعت اسلامی کے ممتاز رہنما سید اسعد گیلانی مرحوم یہ کہہ کر مجھے ہجرت پر اکساتے ’’سرگودھے والے باسی اخبارات پڑھتے اور باسی پھل کھاتے ہیں۔‘‘ پھر مجھے قائل کیا کرتے کہ چھوٹے شہر سے ہجرت کر کے بڑے میں آ بسنا سنتِ رسولؐ عربی ہے۔ ہجرت مکہ کے بعد نبی کریمؐ اور آپؐ کے ساتھی کسی ویرانے میں جا بستے تو وہی ویرانہ رشک صد فردوس بن جاتا۔ لیکن یثرب کو شرفِ ہجرت بخشا جانا یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ بڑے شہر اعصابی مراکز اور کسی تحریک سے وابستہ افراد کی کامیابی کا اولین زینہ ہوتے ہیں۔ بہر حال گیلانی صاحب کی ترغیب سے اور کچھ دنیاوی اغراض کی خاطر ۱۹۷۹ء میں لاہور آ بسا۔ یہاں آ کر مجھے دو ہزار ماہانہ کرائے کے مکان میں رہنا پڑا۔ میرے مالک مکان وہ پہلا کردار تھے جو مجھے باور کرا گئے کہ زمین پہ ایک سے ایک بڑھ کر اللہ کی مخلوق موجود ہے۔ نیز اللہ کے بندے زمین پر عاجزانہ چال چلنے والے ہیں۔وہ راتوں کو مصلوں کی زینت ہوتے اور دن کے وقت دیانت و امانت سے رزق حلال کی تلاش میںسرگرداں رہتے ہیں۔ میرے مالک مکان نے ۱۹۸۲ء میں وطن چھوڑا اور بسلسلہ ملازمت حرمین شریفین کی متبرک زمین کو وطن ثانی بنا لیا۔ میں ان کے مکان میں ۱۹۸۴ء سے ۱۹۹۴ ء تک مقیم رہا۔ مکان کا سالانہ کرایہ۲۴۰۰۰ سالانہ سے شروع ہو کر ۶۰۰۰۰ روپے سالانہ تک پہنچا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ انھوں نے کبھی کرایہ وصو ل نہیں کیا۔ دس برس کا تمام کرایہ میرے ہاتھوں مختلف خیراتی اداروں کو دیا گیا۔ میں رسیدیں حاصل کر کے مالک مکان کے حوالے کر دیتا۔ ہر شعبان میں ان کا خط بلکہ حکم نامہ مجھے موصول ہوجاتا ’’ دس ہزار جہادِ کشمیر فنڈ اور دس ہزار جہادِ افغانستان فنڈ میں جمع کرا دیں۔ بقایا چار ہزار جمعیت طلبہ عربیہ کے شہید فلاں نوجوان کی والدہ کو وہاڑی کے پتے پر منی آرڈر کر دیں۔‘‘ عطیات بھیجتے بھیجتے مجھے اسلامی تعلیمی مراکز کے پتے ازبر ہو گئے۔ بعض اوقات وہ اپنے قریبی اعزہ و اقارب کو بھی یاد رکھتے اور تاثر دیتے کہ یہ قرضِ حسنہ کی مد میں ہیں۔ ان کا ایک ہی تقاضا ہوتا کہ تقسیم عطیات کا سارا کام رمضان کے مقدس مہینے میں تکمیل پائے تا کہ وہ کم از کم ستر گنا اجرو ثواب کے مستحق ٹھہریں۔ میں اپنے مالک مکان کے جذبۂ انفاق پر حیران تھا اور خوش بھی۔ اکثر سوچتا کہ یا الٰہی! دنیا میں ایسے مخیّر لوگ بھی بستے ہیں۔ یہ خیال بھی آتا کہ میرے ممدوح مالک مکان سعودیہ میں ملازمت کر رہے ہیں۔ وہاں ریال کماتے ہیں، اس لیے تیس چالیس ہزار روپے فی سبیل اللہ خرچ کر ڈالنا ان کے لیے بڑی بات نہیں۔ میں ۱۹۸۵ء میں عمرے کی سعادت حاصل کرنے مکہ مکرمہ گیا، تو ان کے مکان پر پہنچا۔انھوں نے انتہائی خندہ پیشانی سے میرا استقبال کیا۔ کچھ پوچھے بغیر میرا سامان خود اٹھا کر بالائی منزل پر لے گئے۔ میں دس روز ان کا مہمان رہا۔ غالباً دسمبر کے آخری ایام تھے۔ وہ صبح ناشتا، دو بجے ظہرانہ اور آٹھ نو بجے رات کا کھانا کھاتے۔ میرے لیے بھاری ناشتا پراٹھا وغیرہ تیار کراتے اور رات کا کھانا نمازِ مغرب کے فوراً بعد میرے کمرے میں پہنچا دیا جاتا۔ انھوںنے نہ صرف خود مجھے بے حد عزت و اکرام سے نوازا بلکہ ان کے چھوٹے چھوٹے بچوں نے بھی میری خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ جدہ روانگی کے وقت میرا بھاری سامان خود اٹھا کر ٹیکسی اڈے پر لے گئے اور مجھے محبت کے ساتھ روانہ کیا۔ قیامِ حرم کے دوران انھوں نے مجھے منیٰ، مزدلفہ، عرفات، جبل نور اور جبل ثور کی زیارت کرائی۔ خود کار چلاتے رہے۔ میں نے پوچھا ’’وطن واپسی کب ہو گی؟‘‘ مجھے یہ فکر کھائے جا رہی تھی کی مکان خالی کرنا ہو گا، اور مضافاتِ لاہور میں ان کی جو پچاس ایکڑ زمین مزارعت پر لے رکھی ہے، وہ بھی چھوڑنا ہو گی۔ وہ مسکرائے اور فرمایا: ’’خاطر جمع رکھو، واپسی کا ابھی کوئی ارادہ نہیں۔ بھلے آدمی، یہاں سے کوئی مسلمان از خود واپسی کا سوچ سکتا ہے؟ جب تک ممکن ہوا حرم پاک کی نمازوں اور سعادتوں سے فیض یاب ہوتا رہوں گا۔ جب ممکن نہ رہا تو یہاں کی پاکیزہ یادیں سینے سے لگائے آپ لوگوں کی خدمت میں آ جاؤں گا۔‘‘ سعودیہ میں برسوں قیام کے باوجود ان کا سازو سامان معمولی حیثیت والا تھا۔ غیر ملکی اشیا کی چمک دمک ان کے گھر میں نہیں تھی۔ وہ بہت کماتے لیکن راہِ خدا میں خر چ کر ڈالتے۔ میرے دس روزہ قیام کے دوران تین چار مہمان اور آئے اور میری طرح بے تکلفی سے اپنا گھر سمجھ کر ڈیرے ڈال دیے۔ بعد میں پاکستانی دوستوں نے بتایا کہ تمھارے مالک مکان کا گھر تو حج کے دنوں میں مدینۃ الحجاج کا منظر پیش کرتا ہے۔ مہمانوں کی خوراک و رہائش کا اہتمام تو درکنار، مالکہ مکان حاجیوں کے کپڑے دھونے اور استری کرنے کا فریضہ بھی خود انجام دیتیں۔ ایام حج میں ان کے ہاں اکثر اوقات پچاس ساٹھ حاجی قیام کرتے۔ تب مجھے یاد آیا کہ قیام عمرہ کے دوران روزانہ دھلے دھلائے کپڑے میرے تکیے پر کون رکھ دیتا تھا۔ میرے مالک مکان میری نگاہ میں ایک مثالی انسان ہیں۔ اب وہ پاکستان واپس آ گئے ہیں۔ اس کے بعد بھی دو تین عمرے کر چکے کیوں کہ ان کا دل انہی پُر نور فضاؤں میں اٹکا ہوا ہے۔ ان کی عمدہ صحت، نورانی چہرہ، متقیانہ زندگی اور امانت و دیانت، اس دنیا میںبھلائی اور آخرت کی یقینی بھلائی۔۔۔۔۔کس چیز کا تذکرہ کیا اور کس چیز کا چھوڑا جائے؟ اس عظیم اور انمول کردار کی عظمت کا یہ عالم ہے کہ میں ان کا نام اور پتا ظاہر نہیں کر سکتا کیوں کہ وہ اجرِ عظیم کی خاطر اللہ تعالیٰ کے ہاں گم نام محسنوں کی صف میں شامل ہو کر

حاضر ہونا چاہتے ہیں۔ تا ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ ملت مسلمہ کا ایک گراں قدر ہیرا ہیں۔ ملت کا عظیم وجود انہی جیسے ہیروں اور موتیوں کا مرہونِ منت ہے۔
اپنے اس بے لوث محسن کی عظیم داستان کے ساتھ ساتھ ایک بد نصیب دوست کی دکھی کہانی سنانے کو بھی جی چاہتا ہے تا کہ نگاہِ عبرت کچھ تو دیکھ سکے۔ یہ صاحب میرے آبائی گاؤں سے ملحق ایک بڑے قصبے کے باسی اور اہم قبیلے کے فرد ہیں۔ ۱۹۹۱، ۱۹۹۲ء کی بات ہے۔ ایک دوپہر وہ میرے پاس منصورہ تشریف لائے۔ ان کے پاس ایف آئی آر کی نقل تھی۔ وہ ہوائی فائرنگ کے الزام میں ضمانت قبل از گرفتاری چاہتے تھے جو بڑی ہی آسان بات تھی۔ میرے پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ وہ براہِ راست ہائی کورٹ اس لئے آئے ہیں تا کہ ناکامی کی صورت میں گرفتاری کا خطرہ نہ رہے۔ میں نے بھاری فیس مانگی۔ انھوںنے بے پروائی سے نیلے سبز نوٹ میرے سامنے رکھ دیے اور فرمایا:’’ میں نے پانچ سال سعودی عرب میںخوب دولت کمائی ہے، اس لیے فیس ویس کوئی مسٔلہ نہیں۔ ضمانت لازمی طور پر ہونی چاہیے۔‘‘ نے اس نوجوان کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ درمیانہ قد، چھریرابلکہ پھرتیلابدن، گورا چٹّا رنگ، خوبصورت آنکھیں، ستواں ناک، خوبصورت چمکیلے دانت، سفید لٹھے کا کلف لگا تہبند، جو زمین پر ٹخنوں سے نیچے گھِسٹ رہا تھا۔ دو گھوڑا بوسکی کا کڑھائی والا کرتا، طلائی بٹن اور اسٹڈ، گلے میںطلائی زنجیر اور انگلیوں میں سونے کی مختلف نگوں سے مزیّن دو انگوٹھیاں۔ اس پر مستزاد ہاتھ میں نفیس رولڈ گولڈ لائٹر اور غیر ملکی سگریٹوں کا پیکٹ تھا۔ وہ سگریٹ کا کش بڑی دلجمعی لگاتا اور نیم وا آنکھوں کے ساتھ بڑے لا ابالی انداز سے دھوئیںکے مرغولے فضا میں بکھیرتا۔ مجھے بھاری فیس کے علاوہ بھی اس نوجوان سے دلچسپی ہو گئی کیوںکہ میں اس کے نام اورخاندان کو غائبانہ طور پر جانتا تھا۔ دور پار کی رشتے داری بھی تھی۔ میںنے بات بڑھائی اور سعودی عرب کے حوالے سے پوچھا:’’ پھر آپ تو بڑے خوش قسمت ہیںکہ دولت دنیا بھی حرمین شریفین کے جوار میںرہ کر کمائی۔ دو تین حج اور دو تین عمرے تو کہیں نہیں گئے۔ ہوسکتا ہے اس سے زیادہ بھی سعادت ملی ہو۔ پھر حرمین شریفین میں نمازِ پنجگانہ کا عظیم ثواب جو کسی نصیب والے کی قسمت میں ہوتا ہے!‘‘ نے بے خیالی سے میری گفتگو سنی اور ناگوار سا تاثر اس کے چہرے پر نمودار ہوا۔ اس نے سگریٹ سلگایا، جھٹکے سے لائٹر بند کیا، دیر تک دھواں منہ میں بند رکھا اور پھر مختصر جواب دیا: ’’میں نے کوئی حج نہیں کیا نہ کوئی عمرہ بلکہ نماز بھی شاید ہی کبھی پڑھی ہو! میں تو دولت کمانے گیا تھا، وہ ڈٹ کر کمائی اور بڑ ھ چڑھ کر خرچ کی!‘‘ یہ جواب سن کر ہکا بکا رہ گیا۔ بات کو بڑھانا مناسب نہ سمجھا، تا ہم اسے گوجرانوالہ کے خواجہ عبد العزیز کی داستانِ بد نصیبی زبردستی سنا ڈالی:
’’ خواجہ صاحب ساٹھ برس کی عمر میں قید کی سزا پا کر نیو سنٹرل جیل ملتان میں وارد ہوئے۔ وہ امیر کبیر، موٹے تازے انسان اندر سے ٹوٹ پھوٹ چکے تھے ۔اب ایک طرح سے نفسیاتی مریض تھے۔ انھوںنے مجھے بتایا کہ وہ ۵۵ اور ۱۹۹۶ء میں حج پر گئے۔ حج سے فارغ ہوت ہی اپنی عیاشانہ زندگی کی طرف لوٹ گئے۔ وطن واپسی کا انتظار بھی نہ کر سکے، وہیں جوارِ کعبہ کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں شباب و شراب کی محفلیں جم گئیں۔ وطن واپس آئے تو بد قسمتی کے اندھیرے سایوںنے آن گھیرا۔ دوسری نوجوان بیوی اور اس کے آشنا کو طیش میں آ کر قتل کر ڈالا۔ اس پر انھیں عمر قید کی سزا ہو گئی۔ پہلی بیوی سے ہونے والے جوان لڑکوں نے عیاش اور بد قماش باپ کی دولت اور جائداد پر قبضہ تو کر لیا مگر اس کی خبر لینی مناسب نہ سمجھی۔ ’’اب کروڑ پتی خواجہ صاحب لاوارث قیدی تھے۔ وہ اپنی سزا کے خلاف اپیل کے لیے وکیل بھی مقرر نہ کر سکے۔ میں نے بحیثیت قیدی منشی چیل سے ان کی اپیل دائر کی۔لیکن خواجہ صاحب اپیل کے فیصلے کا انتظار نہ کر سکے۔پہلے انھیں پاگل پن کے دورے پڑے۔ انھیںدماغی امراض کے اسپتال منتقل ہونا پڑا جہاں ان سے اچھا سلوک نہیں ہوا۔ وہ نازو نعم سے پلے ہوئے تھے، مشقت برداشت نہ کر سکے۔ ایک سال کے اندر انھیں دل کا جان لیوا دورہ پڑا او روہ راہیٔ ملکِ عدم ہوئے۔ عبرت کی بات یہ ہوئی کہ جوان اولاد اور پہلی بیوی نے ان کی لاش وصول کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ لاوارث قرار پا کر کسی گم نام قبر میں دبا دیے گئے۔نیم پاگل خواجہ صاحب نیو سنٹرل جیل ملتان کی بارک نمبر ۷ میں اونچی آواز سے کہا کرتے تھے :’’ کعبے کی بے حرمتی کرنے پر سزا ملی ہے مجھے۔‘‘
؎ حذر اے چیرہ دستاں، سخت ہیں فطرت کی تعزیریں نوجوان کہانی سن کر مسکرایا۔ اس نے پھربے پروائی کے ساتھ سگریٹ سلگایا اور دھوئیں کے مرغولے فضا میں چھوڑتے ہوئے کہا: ’’آپ میری ضمانت کی فکر کریں۔ ایسی داستانیں سنانے واے دنیا میں اور بہت لوگ موجود ہیں۔ آج دنیا بھر کے ایک ارب مسلمانوں میںسے شاید ہی ایک لاکھ نمازی ہوں۔ تو کیا باقی ایک لاکھ کم ایک ارب جیل چلے گئے، یا پاگل ہو گئے ہیں؟ یہ قسمت کے سودے ہیں۔ ’’مجھے دیکھیں، میں سعودی عرب پانچ سال من مانی زندگی بسر کر کے آیا اور اتنی دولت کما لایا ہوں کہ میرے اقربا اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ حالاں کہ وہ حاجی ہیں اور نمازی بھی۔آپ مہربانی فرما کر میری پکی ضمانت کروادیں کیوں کہ مجھے آیندہ بلدیاتی الیکشن لڑنا ہے۔ میرا منصوبہ یہ ہے کہ چیئر مین بلدیہ منتخب ہو جاؤں۔ یہ اخلاقی درس آپ کسی اور کو دیں۔‘‘
بات آئی گئی ہو گئی۔ میں نے ڈٹ کر فیس وصول کی۔ خرچہ درخواست اور عملے اور اہلکاروں کے نام پر مزید بہت کچھ لیا جو ملا کر فیس سے بھی زیادہ تھا۔ تا ہم ضمانت پختہ کروادی۔ بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ وہ نوجوان بھاری اکثریت سے جیت گیا کیوں کہ سعودیہ سے کمائی ہوئی دولت کے سامنے مد مقابل کی سب پیش بندیاں ریت کی طرح بہہ گئیں۔ تا ہم برادری میںایک مستقل مناقشت کا آغاز ہو گیا۔ چند روز بعد ہمارے نوجوان منتخب نمایندے کو مخالفین نے سرِ بازار جوتوں سے پیٹا۔ اس کے کپڑے پھاڑ دیے اور بال نوچ ڈالے۔ ایک ہفتہ بعد اس بپھرے نوجوان نے اسی بازار میں مد مقابل کو بندوق کے فائر سے قتل کر دیا۔ اس پر مقدمہ چلا اور اسے عمر قید کی سزا ہو گئی۔اب وہ غالباً اسی بارک نمبر ۷ بی کلاس وارڈ، نیو سنٹرل جیل ملتان میں قید ہے۔ مخالفین نے اس کے باپِ بھائی اور چچیرے بھائی کو انتقاماً قتل کر ڈالا۔ یوں دو خاندان مکمل طور پر تباہ و برباد ہو گئے۔ چند روز قبل مجھے نوجوان کا پیغام ملا کہ اس کی اپیل نہیں لگ رہی، لہٰذا میں ضمانت کے لیے کوشش کروں۔ پیغام بر سے پتا چلا کہ سعودی ریال ختم ہو چکے۔ اب فیس کی بات پاکستانی سکے کے مطابق ہو گی۔ قانون یہ ہے کہ دو سال تک اگر اپیل کی سماعت نہ ہو تو اپیل کنندہ کو ضمانت پہ رہا ہونے کا حق ہے۔ لیکن مجھے یقین تھا کہ اس کی ضمانت نہیںہو گی کیوں کہ خواجہ عبد العزیز کی ضمانت بھی نہیں ہوئی تھی حالاں کہ وہ گوجرانوالہ کا کروڑ پتی کاروباری تھا۔ اس لیے میںنے معذرت کر لی۔ آج بھی میں اپنے مالک مکان کے خوبصورت بنگلے کے سامنے سے گزر وں تو ہائی کورٹ پہنچنے تک میرے سامنے خوش بختی اور بد بختی کے متضاد مناظر کی فلم چلتی رہتی ہے۔ میرے مالک مکان اپنے محکمے سے گولڈن ہینڈ شیک کر کے خطیر رقم وصول کر چکے۔ بیوی بچے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں۔ بھر پور صحت اور ان کی دلکش زندگی قابلِ رشک ہے۔ہر گھڑی نیکیوں اور بھلائیوں کی تلاش میں رہنا انھیں برگزیدہ انسان کے مقام بلند کے قریب تر کرتا ہے۔ ان کی زرعی زمین لاہور کے مضافات میں شامل ہونے سے پانچ چھے گنا زیادہ قیمتی ہو گئی۔ وہ دین کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ اور دنیا ان کے پیچھے دوڑ رہی ہے۔ یہ وہ فضل ہے، اللہ جسے چاہے، اسی کو عطا کرتا ہے۔
دوسرے لمحے میرے سامنے ایک عبرت ناک منظر آ موجود ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ خواجہ عبد العزیز کی لاوارث لاش، غیروں کے ہاتھوں تدفین اور گم نام قبر۔ تیسرے لمحے خوبصورت اور بانکا نوجوان میری نظروں میںگھوم جاتاہے جس کے ریال ختم ہو چکے اور وہ جیل کی کال کوٹھڑی میںشاید عمر تمام کر دے۔ لیکن اس کے سامنے ابھی توبہ کا دروازہ چوپٹ کھلا ہے۔ اسے اپنا معاملہ اس رب غفور سے طے کرنا ہے جس کی رحیمی اور کریمی کا نقشہ میاں محمد نے یوں کھینچا ہے:
اک گناہ میرا ماں پیو دیکھے، دیوے دیس نکالا
لکھ گناہ میرا مولا دیکھے پردے دیون والا

تاہم توبہ کی توفیق بھی انہی کو ملتی ہے جو مقبول بارگاہ ہوں، ورنہ آخری ہچکی تک آدمی گورکھ دھندوں میںپھنسا بے ٹکٹ موت کی گاڑی میں سوار ہو جاتا ہے۔ حالاں کہ شاعر انتباہ کر چکا:
بے ٹکٹیاں گڈی مول نہ چڑھنا
اس گڈی جانا دیس بیگانے

(ٹکٹ کے بغیر گاڑی پر ہر گز سوار نہ ہونا کہ یہ گاڑی اجنبی دیس جانے والی ہے)۔
 
رونگٹے کھڑے کر دینے والی داستان
بہت عبرت کا مقام ہے کہ سعادت ملے اور اس کی قدر نہ کی جائے
شراکت کا شکریہ
اللہ آپ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے آمین
 
Top