ربیع الاول ثُ

ام اویس

محفلین
انسان پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شمار اسی طرح محال ہے جیسے سورج کی روشنی میں ستارے گننا،مگر سب سے بڑھ کر جو احسان اللہ نے بالخصوص انسان پر اور بالعموم پوری کائنات پر فرمایا وہ اپنے محبوب ، رحمة للعالمین ،خیر الخلق اور اشرف الناس کو عالم دنیا میں مبعوث فرما کر کیا ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رب العزت نے ربیع الاول (موسم بہار)میں لوگوں کی فلاح کے واسطے دنیا میں بھیجا ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد ”بہار در بہار“کی مصداق ہے،ایک تو زمانہ بہار کا ،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد بھی حسین بہار۔

ربیع فی ربیع فی ربیع
نور فوق نور فوق نوری

تقریباً سوا چودہ سو برس پہلے عرب کے ریگستانوں میں ایسی بہار آئی کہ جس سے چہار سو پھیلی ظلمت چھٹ گئی ،ہر سمت چھائی گھٹائیں مٹ گئیں، ہر ذرے پر نور برسنے لگا اشجار سر سبز ہوئے اور زمین بھی شاداب ہوئی ،فضائیں مہکنے لگیں اور ہوائیں جھومنے لگیں ،کیوں کہ اس بہار میں شہنشاہِ اعظم، وجہ تخلیق آدم ،کائنات کے سردار ،زمینوں و آسماں کے سرتاج اور وہ ہستی تشریف لارہی تھی جس کے ثنا خواں زمین پر پتھر اور آسمان پر تارے تھے،جس کا فلک کو روز اول سے انتظار رہا تھا۔
زمانے کی گردش جب بھی ربیع الاول کا ہلال دکھاتی ہے دلوں میں حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لہریں موج زن ہو جاتی ہیں اور ایمان یک دم تازہ ہو جاتا ہے۔ ربیع الاول کی آمد ہر سال تجدید عہد و فا و سنت کا پیام دیتی ہے ،اس ماہ کا حق تو یہ ہے کہ اس میں کوئی خلافِ سنت کام نہ ہو،جودین ھادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم لائے اس کے خلاف کوئی عمل نہ ہو۔مگر افسوس ہے ان احسان فراموش انسانوں پر، جنہوں نے سب کچھ بھلادیا،جہالت کے جس گھٹا ٹوپ اندھیرے سے اس کریم ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے نکالا تھا آج اسی گڑھے میں کودنے کو دوڑ رہے ہیں ،ظلم در ظلم یہ مسلمان حبیبِ خدا کو ناراض کر کے بھی ان کی شفاعت کا امیدوار ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روشن ہدایت اور عمدہ شریعت لے کر آئے ،وہ ایک ایسی مبارک ملت لائے جس کی راتیں پر امن اور دن پر نور ہوتے ہیں ۔ہادی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں وہ راہ دکھلائی جس پر چل کر انسان دونوں جہاں میں کامیاب ہوتا ہے اور جس سے دلوں کا بگاڑ ختم ہو جاتا ہے ،انسان رحمن کو پہچان لیتا ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا و آخرت کی بھلائی کی طرف راہ نمائی کی اور غیب کی باتیں بتانے میں کبھی بخل سے کام نہ لیا۔﴿وَمَا ہُوَ عَلَی الْغَیْْبِ بِضَنِیْن﴾ ․(التکویر)
سو جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں اپنی آمد کے مقصد کو ادا کر چکے اور اللہ کی امانت (اسلام )کو لوگوں تک پورا پہنچا دیا تو راضیاً مرضیاً اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے اور اس دین کو قیامت تک کے لیے کامل و مکمل لوگوں کے درمیاں چھوڑا﴿الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُم﴾(المائدہ)اب اس دین میں نہ تو کسی زیادتی کی گنجائش ہے اور نہ کسی نقص کا تصور۔
میرے عزیز بھائیو!کچھ تو ہوش کے ناخن لیں اور غور کریں کہ اس مبارک مہینے میں کرنے کے کام کیا ہیں اور ہم کن کاموں میں پڑے ہوئے ہیں؟ جو عمل ہمارے حق میں مفید ہو اس کو اختیار کریں اور جو مضر ہو اس سے کنارہ کریں۔

نقش قدم نبی کے ہیں جنت کے راستے
اللہ سے ملاتے ھیں سنت کے راستے

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ،
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيد ٌ
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ،
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ

محمد وحید الرحمٰن
 
Top