راہ نجات اور ایمان باللہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم

والعصر • ان الانسان لفی خسر • الاالذین امنو و عملو االصلحت و تواصو ا بالحق وا تواصوا بالصبر• (سورۃ العصر)
زمانے کی قسم تمام انسان خسارے میں ہیں۔سوائے ان لو گو ں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کر تےرہےاور باہم ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔
وقت کی اہمیت:۔حضوراکرمﷺنے فرمایا،، ہر شخص جب صبح اٹھتاہے تو اپنی جان کا سر مایہ تجارت میں لگاتاہے پھر کوئی اپنےسر مایہ کوخسارے سے آزاد کر الیتاہے اور کو ئی ہلاک کر ڈا لتاہے،،۔(مسلم شریف ) ہمارا قیمتی سر مایہ وقت ہی ہے جو بر ف کے پگھلنے کی طر ح تیز ی سے گزررہاہے جس نے اس کو ضائع کیاتو یہی انسان کا زبردست نقصان ہے اس دو دھاری تلو ار کو اگر انسان نے اپنے حق میں استعمال نہیں کیاتو یہ خود بخود اس کے ابدی دشمن شیطان کے حق میں استعمال ہو گا۔ اس کو بے کاراور فضول کا موں میں ضا ئع نہ کیا جائے۔
وقت کا صحیح استعمال:۔اللہ تعا لٰی فرماتاہے،، اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم کو وہ تجارت نہ بتاوًں جو تم کو عذاب الیم سے بچادے ؟ ایمان لاؤ ًاللہ اور اس کے رسو لﷺپر اور جہاد کر واللہ کی راہ میں اپنے مالو ں سے اور اپنی جانو ں سے یہی تمہارے لیے بہتر ہے۔اگر تم جانو،، (الصف۱۱ ۔۱۰ ) تجارت تو وہ چیز ہے جس میں آدمی اپنادل ، وقت ،مخنت ،ذہانت اور قابلیت اس لیے کھپا تاہے کہ اس سے نفع حاصل ہو ۔اللہ تعالٰی نے فر مایاہے کہ اپنی زند گی کے گر انقدر سر مائے کو جہاد فی سبیل ا للہ میں لگا کر اللہ تعالٰی کے مددگاربن جاوًتاکہ نفع میں اللہ کی رضا حاصل ہو۔جو ہر مو من کامقصود ہے ۔یہی وقت کا صحیح مصر ف ہے ۔
نجات کے لیے کم ازکم شر ائط:۔ پور ی نو ع انسانی کو کا مل تباہی سےبچنے کے لیے چار باتو ں کی ضرورت ہے۔ انفر ادی طور پر (۱) ایمان (۲) عمل صا لح اجتماعی طور پر (۳ ) ایک دوسر ے کو حق کی نصیحت کر نا(۴) ایک دوسر ے کو صبر کی تلقین کر نا۔
(۱) ایمان ۔ ایمان کے معنی ایسایقین جس میں کوئی شک وشبہ نہ ہو۔ محدثین کے نزد یک ایمان کے تین اجزا ہیں
(الف ) تصد یق بالقلب۔ یعنی اللہ عزوجل کی وحد انیت رسول اللہﷺکی رسالت 'دین اسلام کی حقانیت کادل سے یقین کر نااور اس یقین اور اعتماد پر دل ودماغ کااس قدر مطمئن رہناکہ دنیاکی کو ئی بھی طاقت کسی بھی طرح اس کو اس راہ سے ہٹانہ سکے چاہے حضر ت ابراہیم علیہ السلام کی طرح
آگ میں کیو ں نہ کود ناپڑے؟
(ب) اقرار باللسان۔یعنی اس دلی یقین واعتمادکازبان سے اظہاراعتراف اور اقر ار کرنا۔
(ج) اعمال بالجوار ح۔یعنی دین وشر یعت کے احکامات وہدایات کی جسمانی بجا آوری کے ذریعےاس دلی یقین واعتمادکا عملی مظاہر وکر نا۔ان تینوں اجزا سے مل کر ایمان کی تکمیل ہوتی ہے۔یعنی آدمی ایمان لانےکےفورابعد عملی اطا عت کے لیےتیار ہوجائے۔
(۲)عمل صالح:۔قرآن مجید کی روسے کوئی بھی عمل اس وقت تک عمل صا لح نہیں ہو سکتا جب تک اس کی جڑمیں ایمان مو جود نہ ہو اوروہ اس ہد ایت کی پیر وی میں نہ کیاجائےجس کااللہ تعالٰی اور اس کے اسو لﷺنے حکم دیاہے۔قر آن مجید میں ہر جگہ عمل صا لح سے پہلےایمان کاذکر کیاگیاہے اور عمل کااجر بھی ایمان کےساتھ مشر وط ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ایمان وہی معتبر ہے جس کے صادق ہونے کا ثبو ت انسان اپنے عمل سےپیش کر ے ورنہ ایمان بلاعمل محض ایک دعو یٰ ہے جس کی تر دیدآدمی خودہی اپنے رویہ سےکردیتاہے۔ایمان کےبغیرارکان اسلام کی ادائیگی نفاق ہے ۔ عمل صا لح کے بغیر محض ایمان آدمی کو خسارے سے نہیں بچا سکتا۔
(۳)حق کی نصیحت:۔ایک دوسر ے کو نیکی کی دعو ت دیتاحکم دینااور بدی سے منع کر نا'لو گوں کو مالک حقیقی کی معر فت حاصل کر نے'عبادت اختیار کر نے کی دعو ت دینا د ین کے غلبے کی جدو جہدکرنا' جہاد فی سبیل اللہ میں جانیں کھپانااور مال صر ف کر ناو عیر ہ حق کی نصیحت میں شامل ہیں۔
(0) صبر کی تلقین:۔حق کی پیر وی اور اس کی جمایت میں جو مشکلات پیش آتی ہیں اس راہ میں جن تکالیف 'جن 'شقتو ں'جن مصائب' جن نقصانات اور محر ومیو ں سے انسان کو سابقہ پیش آتاہے ان کےمقابلےمیں ایک دوسرے کو ثابت قدم رہنےکی تلقین کر تے رہیں'اس طر ح معاشر ے کا ہرفرددوسرےکی ہمت بندھاتارہے کہ وہ ان حالات کو صبر کےساتھ برداشت کرے اور مشکلات کا ڈٹ کر مقا بلہ کر ے ،ایک مجاھد کے لیے تربیت کے ابتدائی مراحل سے لے کر قتال کے آخری مراحل تک صبر کی صفت ھی ثابت قدم رکھ سکتی ہے، جس سے نصرت الٰہی یعنی اللہ تعالٰی کی مدد کا ظہور ہوتا ہے۔


جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
اللہ:۔ یہ لفظ معبو د بر حق کے لیے خا ص ہے اور اس لفظ کا ا طلاق کسی اور ہستی کے لیے ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ ذاتِ کبر یا ئی کاذاتی نام ہے۔ اللہ واحدہے ۔ یکتاہے۔ اس کی کو ئی جمع نہیں۔ اللہ مذکر ہے'اس کا کو ئی موَنث نہیں ۔ اللہ کو ئی متر ادف نہیں۔
شر ک:۔اللہ تعالٰی کی ذات ' صفات' حقو ق اور اختیارات میں کسی دوسر ے کو شر یک کر ناشرک ہے جو سب سے بڑا ظلم اورنا انصافی ہے۔ شر ک واحد گناہ ہے جو معاف نہیں کیاجاتا۔ اللہ کے ہاں بس شر ک ہی کی بخشش نہیں اس کے سواسب کچھ جسے وہ چاہے معاف کر سکتا ہے (النساء ۱۱۶) مشر ک جہنمی ہے۔
تو حید ذات:۔اللہ تعا لٰی کانہ کو ئی باپ ہے'نہ بٹیا' نہ بٹیی او رنہ بیوی ہے۔ وہ و احد' یکتااور سب سے بےنیاز ہے۔(سور ہ اخلاص)
توحیدصفات:۔اللہ زندہ جاوید ہستی ہے۔اس کو موت نہیں آتی' کبھی نیندنہیں آتی اس پر نہ کبھی غفلت طا ری ہو تی ہے نہ تھکن لاحق ہوتی ہے۔ وہ کبھی بھو لتا نہیں ۔ ہر چیز کا علم صر ف اللہ تعالٰیٰ ہی کو ہے۔ وہ ہرجگہ ہمارے ساتھ ہے۔اللہ ہی غیب کا علم رکھتا ہے۔ صر ف اللہ تعا لٰی ہی حاضر وناظر ہے۔اللہ ہی ہر جگہ 'ہر وقت ہر کسی کی بات سن سکتا ہے۔ تمام کا مو ں کا اختیار صر ف اللہ تعا لٰی ہی کو ہے۔ وہ پو ر ی قو ت رکھتا ہے اور وہ جو کچھ چاہے کر ڈالنے والا ہے۔ وہ کسی کے سا منے جوا ب دہ نہیں ۔ بلکہ سب اس کے آگے جو اب دہ ہیں اللہ تعا لٰی کے فیصلے پر کو ئی نظرِ ثانی کر نے والانہیں صر ف وہی کا رساز اور بگڑی بنانے والاہے۔نفع اور نقصان پہنچانے والا صر ف اللہ ہی ہے تمام کا مو ں کی تدبیر کر نے والاصر ف اللہ تعا لٰی ہی ہے جو اللہ تعا لٰی چاہے و ہی ہو تا ہے۔ عزت و ذلت دینے والا صر ف اللہ تعا لٰی ہی ہے۔
توحید عباد ت:۔عبادت کے معنی مر اسم بند گی'اطاعت وفر مانبرداری اور غلامی یعنی محکو میت کے ہیں۔ بند گی صر ف اللہ تعا لٰی کی ہی کر نی چاہیے۔ مدد صر ف اللہ تعا لٰی سے مانگی جائے۔نذر صرف اللہ تعالٰی ہی کے لیے جائز ہے۔ رکوع اور سجدہ صرف اللہ تعالٰی کو ہی کرنا چاہیے۔نیک کام صرف اللہ کی رضا (خوشنودی کے لیے ) کیے جائیں ۔ قسم صر ف اللہ تعا لٰی کی کھائی جائے ۔ خو ف و خشیت کا صرف اللہ ہی کا ہے۔ یعنی صر ف اللہ تعا لٰی ہی سے ڈرناچا ہیے ۔ بھر وسہ صر ف اللہ تعا لٰی ہی پر کر نا چاہیے۔شد یدتر ین محبت صرف اللہ تعا لٰی سے ہو نی چا ہیے۔دعااور پکار کا مستحق صر ف اللہ تعالٰی ہی ہے۔ تمہارا رب کہتاہے (اُدُعو نیُ اَسُتجِبُ لکُمُ)'' مجھے پکا رومیں تمہاری دعائیں قبول گا"(المؤمن۶۰)
توحیداستعاذہ:۔اللہ عزوجل ہی تمام مشکل مصائب وآفات میں پناہ دینے والا ہے۔وہی صرف جائے پناہ ہے۔
توحیدملوکیت:۔ حکمرانی،اقتدار اور بادشاہت اللہ ہی کے لیے ہے۔
توحیدحاکمیت:۔حاکمیت صرف اللہ تعالٰی ہی کی تسلیم کی جائے۔ شریعت ساز اور قانون ساز صرف اللہ تعالٰی ہی کی ذات پاک ہے۔
اللہ تعالٰی پر ایما ن لا نے کا مطلب:۔ ایک بار حضر ت معا ذبن جبلؓ حضو را کر م ﷺکے پیچھے سو اری پر بیٹھے ہو ئے تھے تو حضو رﷺنے ان کو بار بار متو جہ کر نے کے بعد فرمایا"اللہ تعالٰی کا حق بندوں پر یہ ہےکہ وہ اس کی بندگی کریں ۔اور بندگی میں کسی غیرکو ذرا سا بھی ساجھی یا شر یک نہ بنا ئیں " اور پھر فر ما یا "اللہ تعا لی کی بند گی کرنے و الے بند وں کا اللہ تعا لی پر یہ حق ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ دے "(متفق علیہ)بند گی سے مر اد پر ستش؛اطاعت اور غلامی ہے ؛اللہ کا فرمان ہے "پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امید وار ہو ا سے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور بند گی میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شر یک نہ کرے"(سو رہ کہف ۱۱۰)
ایمان اور مجاہد:۔قران حکیم میں جہاد کا حکم ایمان والوں کو دیا گیاہے کیونکہ جہاد کی بنیاد ہی ایمان کامل ہے اور جہاد جیساعظیم عمل ایمان والے ہی پوری طرح ادا کرسکتے ہیں اور جہاد خود بھی ایمان کی تکمیل اور بلندی کا ایک بڑا ذریعہ ہے جو ایک ایمان والے کے سچا اور پکامؤمن ہونے کا پختہ اور قوی ثبوت ہے۔اللہ تعالٰی پر ایمان سے مراد وہ مضبوط اور پائیدار یقین ہے جو دل کی گہرائیوں میں پیوست ہو اور اس کی حلاوت اور مٹھاس انسان کی رگ وپے میں محسوس ہو اور اس ایمان کے اثرات انسان کی عبادات معاملات اور معاشرت میں پوری طرح نظر آتے ہوں۔مجاھد کو ایسا ہی ایمان درکار ہے جو حرص و ہوس کے طوفان مشکلات و مصائب کے گرد اب میں پہاڑوں سے زیادہ اٹل ہو ۔شیطان اس کو دیکھ کر اپنا راستہ بدل لے۔


جاری ہے ۔۔۔
 
Top