واجدحسین
معطل
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
والعصر • ان الانسان لفی خسر • الاالذین امنو و عملو االصلحت و تواصو ا بالحق وا تواصوا بالصبر• (سورۃ العصر)
زمانے کی قسم تمام انسان خسارے میں ہیں۔سوائے ان لو گو ں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کر تےرہےاور باہم ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔
وقت کی اہمیت:۔حضوراکرمﷺنے فرمایا،، ہر شخص جب صبح اٹھتاہے تو اپنی جان کا سر مایہ تجارت میں لگاتاہے پھر کوئی اپنےسر مایہ کوخسارے سے آزاد کر الیتاہے اور کو ئی ہلاک کر ڈا لتاہے،،۔(مسلم شریف ) ہمارا قیمتی سر مایہ وقت ہی ہے جو بر ف کے پگھلنے کی طر ح تیز ی سے گزررہاہے جس نے اس کو ضائع کیاتو یہی انسان کا زبردست نقصان ہے اس دو دھاری تلو ار کو اگر انسان نے اپنے حق میں استعمال نہیں کیاتو یہ خود بخود اس کے ابدی دشمن شیطان کے حق میں استعمال ہو گا۔ اس کو بے کاراور فضول کا موں میں ضا ئع نہ کیا جائے۔
وقت کا صحیح استعمال:۔اللہ تعا لٰی فرماتاہے،، اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم کو وہ تجارت نہ بتاوًں جو تم کو عذاب الیم سے بچادے ؟ ایمان لاؤ ًاللہ اور اس کے رسو لﷺپر اور جہاد کر واللہ کی راہ میں اپنے مالو ں سے اور اپنی جانو ں سے یہی تمہارے لیے بہتر ہے۔اگر تم جانو،، (الصف۱۱ ۔۱۰ ) تجارت تو وہ چیز ہے جس میں آدمی اپنادل ، وقت ،مخنت ،ذہانت اور قابلیت اس لیے کھپا تاہے کہ اس سے نفع حاصل ہو ۔اللہ تعالٰی نے فر مایاہے کہ اپنی زند گی کے گر انقدر سر مائے کو جہاد فی سبیل ا للہ میں لگا کر اللہ تعالٰی کے مددگاربن جاوًتاکہ نفع میں اللہ کی رضا حاصل ہو۔جو ہر مو من کامقصود ہے ۔یہی وقت کا صحیح مصر ف ہے ۔
نجات کے لیے کم ازکم شر ائط:۔ پور ی نو ع انسانی کو کا مل تباہی سےبچنے کے لیے چار باتو ں کی ضرورت ہے۔ انفر ادی طور پر (۱) ایمان (۲) عمل صا لح اجتماعی طور پر (۳ ) ایک دوسر ے کو حق کی نصیحت کر نا(۴) ایک دوسر ے کو صبر کی تلقین کر نا۔
(۱) ایمان ۔ ایمان کے معنی ایسایقین جس میں کوئی شک وشبہ نہ ہو۔ محدثین کے نزد یک ایمان کے تین اجزا ہیں
(الف ) تصد یق بالقلب۔ یعنی اللہ عزوجل کی وحد انیت رسول اللہﷺکی رسالت 'دین اسلام کی حقانیت کادل سے یقین کر نااور اس یقین اور اعتماد پر دل ودماغ کااس قدر مطمئن رہناکہ دنیاکی کو ئی بھی طاقت کسی بھی طرح اس کو اس راہ سے ہٹانہ سکے چاہے حضر ت ابراہیم علیہ السلام کی طرح
آگ میں کیو ں نہ کود ناپڑے؟
(ب) اقرار باللسان۔یعنی اس دلی یقین واعتمادکازبان سے اظہاراعتراف اور اقر ار کرنا۔
(ج) اعمال بالجوار ح۔یعنی دین وشر یعت کے احکامات وہدایات کی جسمانی بجا آوری کے ذریعےاس دلی یقین واعتمادکا عملی مظاہر وکر نا۔ان تینوں اجزا سے مل کر ایمان کی تکمیل ہوتی ہے۔یعنی آدمی ایمان لانےکےفورابعد عملی اطا عت کے لیےتیار ہوجائے۔
(۲)عمل صالح:۔قرآن مجید کی روسے کوئی بھی عمل اس وقت تک عمل صا لح نہیں ہو سکتا جب تک اس کی جڑمیں ایمان مو جود نہ ہو اوروہ اس ہد ایت کی پیر وی میں نہ کیاجائےجس کااللہ تعالٰی اور اس کے اسو لﷺنے حکم دیاہے۔قر آن مجید میں ہر جگہ عمل صا لح سے پہلےایمان کاذکر کیاگیاہے اور عمل کااجر بھی ایمان کےساتھ مشر وط ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ایمان وہی معتبر ہے جس کے صادق ہونے کا ثبو ت انسان اپنے عمل سےپیش کر ے ورنہ ایمان بلاعمل محض ایک دعو یٰ ہے جس کی تر دیدآدمی خودہی اپنے رویہ سےکردیتاہے۔ایمان کےبغیرارکان اسلام کی ادائیگی نفاق ہے ۔ عمل صا لح کے بغیر محض ایمان آدمی کو خسارے سے نہیں بچا سکتا۔
(۳)حق کی نصیحت:۔ایک دوسر ے کو نیکی کی دعو ت دیتاحکم دینااور بدی سے منع کر نا'لو گوں کو مالک حقیقی کی معر فت حاصل کر نے'عبادت اختیار کر نے کی دعو ت دینا د ین کے غلبے کی جدو جہدکرنا' جہاد فی سبیل اللہ میں جانیں کھپانااور مال صر ف کر ناو عیر ہ حق کی نصیحت میں شامل ہیں۔
(0) صبر کی تلقین:۔حق کی پیر وی اور اس کی جمایت میں جو مشکلات پیش آتی ہیں اس راہ میں جن تکالیف 'جن 'شقتو ں'جن مصائب' جن نقصانات اور محر ومیو ں سے انسان کو سابقہ پیش آتاہے ان کےمقابلےمیں ایک دوسرے کو ثابت قدم رہنےکی تلقین کر تے رہیں'اس طر ح معاشر ے کا ہرفرددوسرےکی ہمت بندھاتارہے کہ وہ ان حالات کو صبر کےساتھ برداشت کرے اور مشکلات کا ڈٹ کر مقا بلہ کر ے ،ایک مجاھد کے لیے تربیت کے ابتدائی مراحل سے لے کر قتال کے آخری مراحل تک صبر کی صفت ھی ثابت قدم رکھ سکتی ہے، جس سے نصرت الٰہی یعنی اللہ تعالٰی کی مدد کا ظہور ہوتا ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم
والعصر • ان الانسان لفی خسر • الاالذین امنو و عملو االصلحت و تواصو ا بالحق وا تواصوا بالصبر• (سورۃ العصر)
زمانے کی قسم تمام انسان خسارے میں ہیں۔سوائے ان لو گو ں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کر تےرہےاور باہم ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔
وقت کی اہمیت:۔حضوراکرمﷺنے فرمایا،، ہر شخص جب صبح اٹھتاہے تو اپنی جان کا سر مایہ تجارت میں لگاتاہے پھر کوئی اپنےسر مایہ کوخسارے سے آزاد کر الیتاہے اور کو ئی ہلاک کر ڈا لتاہے،،۔(مسلم شریف ) ہمارا قیمتی سر مایہ وقت ہی ہے جو بر ف کے پگھلنے کی طر ح تیز ی سے گزررہاہے جس نے اس کو ضائع کیاتو یہی انسان کا زبردست نقصان ہے اس دو دھاری تلو ار کو اگر انسان نے اپنے حق میں استعمال نہیں کیاتو یہ خود بخود اس کے ابدی دشمن شیطان کے حق میں استعمال ہو گا۔ اس کو بے کاراور فضول کا موں میں ضا ئع نہ کیا جائے۔
وقت کا صحیح استعمال:۔اللہ تعا لٰی فرماتاہے،، اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم کو وہ تجارت نہ بتاوًں جو تم کو عذاب الیم سے بچادے ؟ ایمان لاؤ ًاللہ اور اس کے رسو لﷺپر اور جہاد کر واللہ کی راہ میں اپنے مالو ں سے اور اپنی جانو ں سے یہی تمہارے لیے بہتر ہے۔اگر تم جانو،، (الصف۱۱ ۔۱۰ ) تجارت تو وہ چیز ہے جس میں آدمی اپنادل ، وقت ،مخنت ،ذہانت اور قابلیت اس لیے کھپا تاہے کہ اس سے نفع حاصل ہو ۔اللہ تعالٰی نے فر مایاہے کہ اپنی زند گی کے گر انقدر سر مائے کو جہاد فی سبیل ا للہ میں لگا کر اللہ تعالٰی کے مددگاربن جاوًتاکہ نفع میں اللہ کی رضا حاصل ہو۔جو ہر مو من کامقصود ہے ۔یہی وقت کا صحیح مصر ف ہے ۔
نجات کے لیے کم ازکم شر ائط:۔ پور ی نو ع انسانی کو کا مل تباہی سےبچنے کے لیے چار باتو ں کی ضرورت ہے۔ انفر ادی طور پر (۱) ایمان (۲) عمل صا لح اجتماعی طور پر (۳ ) ایک دوسر ے کو حق کی نصیحت کر نا(۴) ایک دوسر ے کو صبر کی تلقین کر نا۔
(۱) ایمان ۔ ایمان کے معنی ایسایقین جس میں کوئی شک وشبہ نہ ہو۔ محدثین کے نزد یک ایمان کے تین اجزا ہیں
(الف ) تصد یق بالقلب۔ یعنی اللہ عزوجل کی وحد انیت رسول اللہﷺکی رسالت 'دین اسلام کی حقانیت کادل سے یقین کر نااور اس یقین اور اعتماد پر دل ودماغ کااس قدر مطمئن رہناکہ دنیاکی کو ئی بھی طاقت کسی بھی طرح اس کو اس راہ سے ہٹانہ سکے چاہے حضر ت ابراہیم علیہ السلام کی طرح
آگ میں کیو ں نہ کود ناپڑے؟
(ب) اقرار باللسان۔یعنی اس دلی یقین واعتمادکازبان سے اظہاراعتراف اور اقر ار کرنا۔
(ج) اعمال بالجوار ح۔یعنی دین وشر یعت کے احکامات وہدایات کی جسمانی بجا آوری کے ذریعےاس دلی یقین واعتمادکا عملی مظاہر وکر نا۔ان تینوں اجزا سے مل کر ایمان کی تکمیل ہوتی ہے۔یعنی آدمی ایمان لانےکےفورابعد عملی اطا عت کے لیےتیار ہوجائے۔
(۲)عمل صالح:۔قرآن مجید کی روسے کوئی بھی عمل اس وقت تک عمل صا لح نہیں ہو سکتا جب تک اس کی جڑمیں ایمان مو جود نہ ہو اوروہ اس ہد ایت کی پیر وی میں نہ کیاجائےجس کااللہ تعالٰی اور اس کے اسو لﷺنے حکم دیاہے۔قر آن مجید میں ہر جگہ عمل صا لح سے پہلےایمان کاذکر کیاگیاہے اور عمل کااجر بھی ایمان کےساتھ مشر وط ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ایمان وہی معتبر ہے جس کے صادق ہونے کا ثبو ت انسان اپنے عمل سےپیش کر ے ورنہ ایمان بلاعمل محض ایک دعو یٰ ہے جس کی تر دیدآدمی خودہی اپنے رویہ سےکردیتاہے۔ایمان کےبغیرارکان اسلام کی ادائیگی نفاق ہے ۔ عمل صا لح کے بغیر محض ایمان آدمی کو خسارے سے نہیں بچا سکتا۔
(۳)حق کی نصیحت:۔ایک دوسر ے کو نیکی کی دعو ت دیتاحکم دینااور بدی سے منع کر نا'لو گوں کو مالک حقیقی کی معر فت حاصل کر نے'عبادت اختیار کر نے کی دعو ت دینا د ین کے غلبے کی جدو جہدکرنا' جہاد فی سبیل اللہ میں جانیں کھپانااور مال صر ف کر ناو عیر ہ حق کی نصیحت میں شامل ہیں۔
(0) صبر کی تلقین:۔حق کی پیر وی اور اس کی جمایت میں جو مشکلات پیش آتی ہیں اس راہ میں جن تکالیف 'جن 'شقتو ں'جن مصائب' جن نقصانات اور محر ومیو ں سے انسان کو سابقہ پیش آتاہے ان کےمقابلےمیں ایک دوسرے کو ثابت قدم رہنےکی تلقین کر تے رہیں'اس طر ح معاشر ے کا ہرفرددوسرےکی ہمت بندھاتارہے کہ وہ ان حالات کو صبر کےساتھ برداشت کرے اور مشکلات کا ڈٹ کر مقا بلہ کر ے ،ایک مجاھد کے لیے تربیت کے ابتدائی مراحل سے لے کر قتال کے آخری مراحل تک صبر کی صفت ھی ثابت قدم رکھ سکتی ہے، جس سے نصرت الٰہی یعنی اللہ تعالٰی کی مدد کا ظہور ہوتا ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔