محمد حسین آزاد راگ

راگ ایک پر تاثیر شے چیز ہے۔ فلاسفہ یونان اور حکمائے سلف نے اسے ایک شاخِ ریاضی قرار دیا ہے۔ دل کو فرحت اور روح کو عروج دیتا ہے۔ اس واسطے اہل تصوف کے اکثر فرقوں نے اسے بھی عبادت میں شامل کیا ہے۔ اگرچہ شعر کا مجھے بچپن سے عشق ہے ، مگر ابتدا میں دنیا کی شہرت اور ناموری اور تفریحِ طبع نے مجھے مختلف کمالوں کے رستے دکھائے۔ چند روز موسیقی کا شوق ہوا۔ اور کچھ حاصل بھی کیا۔ مگر خاندیس سے ایک بڑا صاحب کمال گویا آیا۔ اس سے ملاقات کی ۔ باتوں باتوں میں اسے نے کہا کہ جو گانے کا شوق کرے اس کے لیے ٣٠٠ برس کی عمر چاہیے۔ ١٠٠ برس سیکھے ، ١٠٠ برس سنتا پھرے اور جو سیکھا ہے اس مطابق کرے ۔ پھر ١٠٠ برس بیٹھ کر اوروں کو سنائے اور اس کا لطف اٹھائے۔ یہ سن کر دل برداشتہ ہوگیا۔ اور یہ خیال بھی آیا کہ ابراہیم اگر بڑا کمال پیدا کیا تو ایک ڈوم ہو گئے۔ اس پر بھی جو کلاونت ہوگا ، وہ ناک چڑھا کر یہی کہے گا کہ اتائی ہیں۔ سپاہی زادے سے ڈوم بننا کیا ضرور۔۔

مولانا محمد حسین آزاد کی “آب حیات“ سے
 
Top