ام اویس

محفلین
پیارے بچو! یہ کہانی ہے ایک چھوٹے سے مینڈک کی، جس کا نام ڈوڈو تھا۔ اس کا رنگ سبزی مائل بھورا تھا۔ اسے چھلانگیں لگانا اور اچھل اچھل کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا بہت پسند تھا، صبح ہوتے ہی وہ بستر سے نکلتا، دانت برش کرنے اور نہانے کی بجائے ادھر ادھر چھلانگیں لگانا شروع کر دیتا، ہر وقت اچھل کود کی وجہ سے بعض اوقات اسے اچھی خاصی ڈانٹ پڑتی لیکن وہ باز نہ آتا۔ ناشتے سے پہلے ہی اس کا دل چاہتا وہ گھر سے باہر نکل جائے اور جنگل میں گھومے پھرے۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا اس لیے ماما اور بابا اسے اکیلے گھر سے باہر نہیں جانے دیتے تھے۔ اس کے بابا کا نام ٹنگو تھا اور ماما کا نام اینا۔ پیارے بچو سائنس کی زبان میں مینڈک کو رانا ٹنگرینا کہا جاتا ہے اور پاکستان میں ان کی مختلف اقسام کے تین سو خاندان پائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے انہیں ایسے ناموں سے پکارے جانا اچھا لگتا ہے۔ ڈوڈو کا گھر ایک اونچے درخت کے نیچے تھا، گھر کے آس پاس اور بھی بہت سے درخت تھے، لمبی لمبی جھاڑیاں ، پتھریلی زمین اور اونچے نیچے کھڈے تھے، کہیں کہیں ان کھڈوں میں بارش کا پانی بھی جمع ہو جاتا تھا۔ زمین پر ہر طرف گھاس پھونس، مختلف جنگلی پھل ، پھول اور پودے لگے تھے۔
آج صبح بھی ایسا ہوا ڈوڈو نے آنکھیں کھولتے ہی بستر سے چھلانگ لگائی ،اور باہر کی طرف چل دیا۔ گھر کا دروازہ کھلا تھا ، صحن میں کوئی نہیں تھا، شاید سب ندی میں نہانے جا چکے تھے، یہی سوچ کر وہ چھلانگیں لگاتا باہر نکلا۔ وہ ندی کی طرف نہیں گیا، حالانکہ اس کے جسم سے بو آ رہی تھی اور وہ کئی دنوں سے نہایا بھی نہیں تھا۔ اس نے بائیں طرف درخت کی اونچی ٹہنی پر چھلانگ لگائی۔ دوسری چھلانگ اس سے اوپر والی شاخ پر لگائی ، پھر ایک اور چھلانگ لگا کر اس سے بھی اونچی شاخ پر پہنچ گیا، آج اس کا ارادہ درخت کی سب سے اونچی شاخ پر بیٹھ کر ناشتہ کرنے کا تھا۔ وہ یہ بھی دیکھنا چاہتا تھا کہ اوپر اسے کھانے کے لیے کیا کیا ملے گا۔
ڈوڈو ٹہنی پر چلتے ہوئے اس کے آخری کنارے پر آگیا اب وہ اس سے بھی اوپر جانا چاہتا تھا ۔ وہ پورا زور لگا کر اوپر کی طرف اچھلا، مگر شاخ تک نہ پہنچ سکا، بلکہ ٹہنیوں اور پتوں سے الجھتا نیچے کی طرف گرنے لگا ۔ ٹہنیوں سے ٹکرا کر اس کے جسم پر خراشیں پڑ گئیں۔ آج خیر نہیں، اس نے سوچا اور تیز رفتاری سے نیچے گرتے ہوئے زور زور سے ہاتھ پاؤں مارنے لگا۔ ابھی کسی پتھر پر ڈھم سے گروں گا اور میرا قیمہ بن جائے گا، خوف سے اس نے اپنی آنکھیں میچ لیں۔ اچانک کسی نے اسے اپنی گود میں بھر لیا اور پھر جھولے کی طرح اوپر اچھال دیا، ہائے یہ کیا ہوا؟اس نئی آفت سے ڈوڈو کا ذہن بھی ہوا میں اُڑ گیا، اس نے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی لیکن وہ حیران رہ گیا کہ اب وہ اپنے ہاتھ پاؤں بھی نہیں ہلا سکتا تھا ۔ اف کیا مصیبت ہے۔ ڈوڈو کو لگا کہ کسی نے اسے پکڑ کر رسیوں سے باندھ دیا ہے، اور اسے اوپر نیچے جھولے جھلا رہا ہے۔خوف سے اس کا دل تیز تیز دھڑکنے لگا ۔ دو ، تین بار اوپر نیچے ہونے کے بعد آہستہ آہستہ اس کا جسم ساکت ہوگیا۔ بڑی مشکل سے آنکھیں کھولیں تو باریک نرم و نازک رسیوں کا جال نظر آیا، ڈوڈو اس پر اوندھے منہ گرا ہوا تھا۔ اوہ ! یہ کیا بلا ہے ؟ میں نے ایسی چیز پہلے کبھی نہیں دیکھی ، اس نے پوری قوت سے منہ کھولنے کی کوشش کی، مگر کھول نا سکا،اس کا منہ بھی باریک رسیوں سے چپکا ہوا تھا۔ اس کی زبان ہی اس کا سب سے بڑا ہتھیار تھا جس سے وہ کیڑوں مکوڑوں اور مکھی وغیرہ کو جھپٹ کر منہ میں لے جاتا اور ہڑپ لیتا تھا ۔ وہ زہریلا نہیں تھا، البتہ اس کے خاندان میں ایسے زہریلے مینڈک بھی پائے جاتے تھے، جن کے زہر کو لڑائی کے دوران ، تیروں پر لگا کر جب تیر پھینکا جاتا تو جسے بھی لگتا وہ وہیں ہلاک ہو جاتا۔
ایک بار پھر اسے شدید دھچکا لگا۔اچانک کسی نے اسی طرح بندھے بندھے اسے گھما کر سیدھا کر دیا۔ اس کے سامنے لمبی لمبی آٹھ ٹانگوں والی ایک مخلوق تھی، جس کا چھوٹا سا گول جسم تھا سامنے ہی چھ آنکھیں چمکتی دکھائی دے رہی تھیں۔ شاید یہ مکڑی ہے اور میں اس کے جال میں پھنس گیا ہوں اسے اپنے بڑے بھائی فروگ کی بات یاد آئی :”کھیلتے ہوئے مکڑی کے جالے سے دور رہا کرو۔“۔ ڈوڈو نے غور سے اس کے چہرے کی طرف دیکھا ، لیکن اس کی آنکھیں دیکھ کر اسے محسوس ہوا کہ وہ اس کی آنکھوں میں نہیں دیکھ رہی۔ مجھے بھاگ جانا چاہیے کیونکہ میں اسے صاف دکھائی نہیں دے رہا، اس نے سوچا اور ایک بار پھر ہلنے کی کوشش کی مگر اس کے جسم کا ہر حصہ ایسی مضبوطی سے جکڑا ہوا تھا کہ وہ ذرا سی حرکت بھی نہ کر سکا۔
مکڑی نے جھک کر اپنا چہرہ اس کے بالکل قریب کیا اور اپنی ایک ٹانگ سے ہلا کر اسے غور سے دیکھنے لگی۔ ”پتہ نہیں یہ اس کی ٹانگ ہے یا بازو سب ایک جیسے لگ رہے ہیں ۔“ ڈوڈو ڈر گیا ، وہ سوچ رہا تھا، آج میں اس مکڑی کا ناشتہ بن جاؤں گا،تھوڑی ہی دیر میں یہ مجھے چیر پھاڑ کر کھا جائے گی۔ اس نے مکڑی کی آنکھوں میں دیکھا تو اس میں عجیب سی الجھن دکھائی دی ، چھ آنکھیں اسے ناپسندیدگی سے گھور رہی تھیں۔ مکڑی نے ایک بار پھر اپنی پچھلی ٹانگوں کی مدد سے اسے گھما کر الٹا دیا۔ تھوڑی دیر بعد ڈوڈو کو لگا کہ اس کی ایک ٹانگ رسیوں سے آزاد ہو کر نیچے لٹک گئی ہے ، پھر دوسری ٹانگ ، پھر ایک ہاتھ اور پھر دوسرا ہاتھ ۔ ڈوڈو سمجھ نہ سکا کہ آٹھ ٹانگوں والی اس بھیانک مخلوق کو ڈوڈو دی گریٹ پر غصہ آ رہا ہے یا پیار ۔ یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ مکڑی کو اس کے جسم کا رنگ اور بدبو اچھی نہیں لگی، اس لیے اس نے اسے اپنے جال سے نکال باہر کیا۔ جال سے نجات پاتے ہی ڈوڈو دھڑام سے نیچے بنے ایک گہرے کھڈے میں جا گرا ، جو کیچڑ سے بھرا ہوا تھا۔ اس کا جسم مکڑی کے لعاب سے چپ چپا ہو رہا تھا، کیچڑ میں گرنے سے اس پر مٹی بھی چپک گئی ۔ شکر ہے میں ناشتہ بننے سے بچ گیا اس نے خوش ہوتے ہوئے کہا، لیکن آج مجھے نہانا پڑے گا۔
وہ اونچی آواز سے چلایا : جان بچی سو لاکھوں پائے اور تیزی سے بڑی بڑی چھلانگیں لگاتا، نہانے کے لیے ندی کی طرف بھاگنے لگا۔
 
آخری تدوین:

ام اویس

محفلین
74-BBC630-7466-43-F4-9728-BC0-E1-D834-B8-A.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
بہت عمدہ ۔۔۔
بچوں کے لئے لکھنا مشکل کام ہے سلامت رہیے ۔۔بہت ضروری ہے ہم جب بھی بچوں کو انگریزی کہانی کی کتابیں لاکر دیتے ہیں تو اُردو کی کہانیاں بھی ضرور لاتے ہیں تاکہ اُنکواُردو پڑھنے کا شوق بھی پیدا ہو ۔۔
جیتی رہیے آپ کی لکھی ہوئی کہانیاں بچوں کو پڑھائیں۔۔۔
 

ام اویس

محفلین
بہت عمدہ ۔۔۔
بچوں کے لئے لکھنا مشکل کام ہے سلامت رہیے ۔۔بہت ضروری ہے ہم جب بھی بچوں کو انگریزی کہانی کی کتابیں لاکر دیتے ہیں تو اُردو کی کہانیاں بھی ضرور لاتے ہیں تاکہ اُنکواُردو پڑھنے کا شوق بھی پیدا ہو ۔۔
جیتی رہیے آپ کی لکھی ہوئی کہانیاں بچوں کو پڑھائیں۔۔۔
جی بالکل! بچوں کو اپنی زبان سے جوڑنے کے لیے اردو کتابیں پڑھنی بہت ضروری ہیں۔
دعا کے لیے شکر گزار ہوں۔
یہ بھی بتائیے بچوں کو کہانیاں کیسی لگیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
جی بالکل! بچوں کو اپنی زبان سے جوڑنے کے لیے اردو کتابیں پڑھنی بہت ضروری ہیں۔
دعا کے لیے شکر گزار ہوں۔
یہ بھی بتائیے بچوں کو کہانیاں کیسی لگیں۔
بہت اچھی بہت خوشی سے پڑھی یاسم نے خود پڑھیں اور صارم کو پڑھ کے سنانا پڑتی ہے یہ دونوں ہماری بڑی بیٹی سبین کے بیٹے ہیں ۔۔۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ماشاءاللہ۔ بہت عمدہ لکھتی ہیں آپ ام اویس بہنا۔
آپ کی کہانیاں بچپن کی یاد دلا تی ہیں۔ جب ہم بازارسے بچوں کے رسالے بڑے شوق سے خرید کر پڑھا کرتے تھے۔ بہت سے تو ابھی تک ہمارے پاس محفوظ ہیں۔
خوش رہیں۔ یونہی لکھتی رہیے۔ اللہ آپ کے قلم اور سوچ کا رشتہ یونہی سدا قائم رکھے۔ آمین۔
 
Top