رانا سعید دوشی

۔
عشق کے نام پہ خیرات بھی لے لیتے ہیں
یہ وہ صدقہ ہے جو سادات بھی لے لیتے ہیں
۔
مشکلوں میں مرے پلنے پہ تعجب کیسا
جڑ سے تھوڑی سی نمو، پات بھی لے لیتے ہیں
۔
یہ جو آتے ہیں تجھے روز دلاسا دینے
باتوں باتوں میں تری بات بھی لے لیتے ہیں
۔
دشت میں آئے ہیں تو، قیس سے بھی ملتے چلیں
خضر _ صحرا سے ہدایات بھی لے لیتے ہیں
۔
صرف گھر تک ہی نہیں گوشہ نشینی اپنی
میلوں ٹھیلوں میں اسے ساتھ بھی لے لیتے ہیں
۔
ان دنوں شعر میں بھی شعبدہ بازی ہے بہت
بعض تو اوروں کی خدمات بھی لے لیتے ہیں
 
Top