اقتباسات رام دین

سیما علی

لائبریرین
پرانے زمانے میں جب انسان جنگی دور میں تھا ۔۔ تو غصہ ایک اندھا جزبہ ہوا کرتا تھا ۔۔ ہوتا یوں تھا کہ اگر آپ پر کسی نے پتھر پھینکا اور پھر بھاگ گیا ' اس پر آپ کو غصہ آجاتا ۔۔۔آپ اپنا تیر کمان اٹھا لیتے اور گھر سے نکل جاتے ۔ باہر کوئی بھی چلتا پھرتا نظر آتا ۔۔چاہے وہ انسان ہو یا پرندہ یا پڑوسی کی بھینس آپ اس پر تیر چلادیتے ۔۔ اور پھر اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کے بعد جھونپڑے میں داخل ہوکر آرام سے اپنے کام کاج میں مصروف ہوجاتے ۔۔ اس زمانے میں بدلے یا انتقام کاسوال نہ تھا ۔۔ صرف دل ٹھنڈا کرنے کی بات تھی ۔۔اس کے بعد انسان آہستہ آہستہ مہزب ہوتا گیا ،،اور اس کی سمجھ میں آگیا کہ غصّہ نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ غصّہ دلانے والے کو سزا دی جائے ۔۔۔
آج کی صورت حال دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہم پھر سے جنگلی دور میں جا داخل ہوئے ہیں۔۔ جب بھی ہم غصّے میں آتے ہیں تو جوش میں باہر نکلتے ہیں۔۔ سڑک پر چلتی بسوں کو روک کر انہیں آگ لگا دیتے ہیں ۔۔ چلتی گاڑیوں پر پتھر پھینکتے ہیں ۔۔ چار ایک نعرے لگاتے ہیں منہ سے جھاگ نکالتے ہیں ۔۔ اور یوں دل ٹھنڈا کرنے کے بعد اپنے کارنامے پر نازاں خوشی خوشی گھر لوٹتے ہیں ۔۔ سمجھ میں نہیں آتا دورِ جدید کے لوگ ہر وقت غصے میں کیسے رہتے ہیں ؟
بھئی غصّہ تو آنی جانی چیز ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اسے قائم کرلینا یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی ۔۔۔
سیانوں کا کہنا ہے ۔۔
" غصہ پہاڑ کی برفیلی چوٹی کی طرح ہے ۔۔ آپ چوٹی پر جاسکتے ہیں ' وہاں قیام نہیں کرسکتے ۔۔"

رام دین
ممتاز مفتی
 

ہانیہ

محفلین
صحیح بات۔ دراصل غصے میں عقل بند ہو جاتی ہے۔ اگر غصہ نہ کیا جائے تو دوسرے کی بات سمجھ آسکتی ہے۔ لیکن جب غصہ کر لیتے ہیں پہلے ہی تو اچھی بات سیکھنے سے بھی رہ جاتے ہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
واقعی!

غصے میں خود پر قابو پانا سیکھنا ہر شخص کے لئے ضروری ہے۔

جو شخص غصے پر قابو نہیں پا سکتا۔ اُسے آخر کار پچھتانا ہی پڑتا ہے۔
 
Top