راز کی بات... قلم کمان ۔۔۔۔۔حامد میر

راز کی بات... قلم کمان ۔۔۔۔۔حامد میر
headlinebullet.gif

shim.gif

dot.jpg

shim.gif

247726_s.jpg

SMS: #HMC (space) message & send to 8001
hamid.mir@janggroup.com.pk
نیا پاکستان نجانے کب وجود میں آئے گا لیکن ہمارے ہمسائے میں ایک نیا اور نوکیلا ہندوستان وجود میں آ چکا ہے ۔ اس نئے ہندوستان میں جمہوریت نے سیکولرازم کا جنازہ نکال دیا ہے ۔ ہندو بنیاد پرستی کے علمبردار نریندر مودی کی مقبولیت نے خود انکی اپنی جماعت بی جے پی کو پریشان کر دیا ہے ۔ بی جے پی نے مہاراشٹرا اور ہریانہ کے حالیہ انتخابات میں محض خانہ پُری کیلئے کئی امیدوار کھڑے کئے تھے لیکن ان کمزور امیدواروں نے بھی کئی بڑے بڑے برج الٹ دیئے ۔ مودی کی مقبولیت کی دو بڑی وجوہات ہیں ۔ پہلی یہ کہ انہوں نے گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اپنے علاقے کی شکل بدل دی ۔ دوسری یہ کہ وہ پاکستان کے بارے میں بڑا سخت موقف رکھتے ہیں ۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن بھارتی ہندوئوں کی اکثریت نے آج تک پاکستان کی حقیقت کو تسلیم نہیں کیا اور مودی نئے ہندوستان میں پاکستان سے نفرت کی بڑی علامت بن کر ابھرے ہیں۔ مودی کے وزیر اعظم بننے کے فوراً بعد پاک بھارت ورکنگ بائونڈری اور لائن آف کنٹرو ل پر کشیدگی پیدا ہو چکی ہے ۔ مودی کا اگلا ہدف ریاست جموں و کشمیر کی اسمبلی کے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنا اور آئین کی دفعہ 370کو ختم کرنا ہے ۔ دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ہندوستان میں خصوصی حیثیت دی گئی تھی ۔ مودی ریاستی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرکے دفعہ 370 کیخلاف قرار داد منظور کرانا چاہتے ہیںاورپھر آئینی ترمیم کے ذریعے370 کو ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ بظاہر ریاست جموں و کشمیر میں بی جے پی کی حکومت قائم کرنے کا خواب ناقابل عمل لگتا ہے لیکن مودی نے اپنی پارٹی کے صدر امیت شا کو یہ مشن سونپ رکھا ہے کہ انہوں نے ہر قیمت پر ریاستی اسمبلی کی 87 میں سے 44 نشستوں پر کامیابی حاصل کرنی ہے ۔ امیت شاکہتے ہیں کہ 2014ء کے عام انتخابات میں لوک سبھا کیلئے جموں و کشمیر کی چھ میں سے تین نشستیں بی جے پی کو مل گئیں باقی تین محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی کو ملیں ۔ بی جے پی کو جموں، اودھم پور اور لداخ کی غیر مسلم اکثریتی علاقوں کی نشستیں ملیں۔ پی ڈی پی نے مسلم اکثریتی علاقوں میں کامیابی حاصل کی۔ ریاستی اسمبلی میں بی جے پی کے پاس اس وقت گیارہ نشستیں ہیں ۔ مزید 33 نشستوں کے حصول کیلئے بی جے پی نے یہ حکمت عملی بنائی ہے کہ ہندو ووٹروں کے ٹرن آئوٹ میں اضافہ کیا جائے ، وادی کشمیر میں مسلمان امیدوار کھڑے کئے جائیں اور کسی نہ کسی طرح 44 پلس کے مشن میں کامیابی حاصل کی جائے ۔ 44نشستیں مل جانے کے بعد بی جے پی جموں و کشمیر کو آئین کے ذریعہ ہندوستان کا اٹوٹ انگ بنا دیگی اور اپنے تئیں مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دیگی ۔
بی جے پی نے وادی کشمیر کے ایک مشہور سیاسی خاندان کی خاتون ڈاکٹر حنا بھٹ، ایک کشمیری صحافی خالد جہانگیر اور ایک ریٹائرڈ پولیس افسر فاروق احمد خان سمیت کئی مسلمانوں کو اپنی پارٹی میں شامل کیا ہے ۔ بی جے پی کے ایک کشمیری لیڈر عاشق حسین ڈار نے وادی میں انتخابی مہم بھی شروع کر دی ہے لیکن نئی دہلی کے آزاد صحافتی ذرائع کا کہنا ہے کہ فیئر اینڈ فری الیکشن میں بی جے پی کا جموں و کشمیر میں 44 نشستیں حاصل کرنا بہت مشکل ہے ۔ یہ درست ہے کہ ہندوستان میں مودی کی لہر اپنے عروج پر ہے لیکن مودی ہندوئوں کا لیڈر ہے ۔ مودی نے 2014ء کے الیکشن میں لوگ سبھا کی سات نشستوں پر مسلمان امیدوار کھڑے کئے لیکن ان کا ایک بھی مسلمان امیدوار کامیاب نہ ہوا ۔ اس وقت 482 ارکان کی لوک سبھا میں صرف 23 مسلمان ہیں جو کل تعداد کا صرف 4فیصد ہیں ۔ حالانکہ مسلمانوں کی آبادی کہیں زیادہ ہے ۔ جموں و کشمیر کے مسلمان بی جے پی کی بجائے پی ڈی پی کی محبوبہ مفتی کو ترجیح دیں گے کیونکہ حریت کانفرنس انتخابات کا بائیکاٹ کریگی ۔ بعض بھارتی مبصرین کو خدشہ ہے کہ بی جے پی کی مرکزی حکومت، فوج اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر انتخابات میں دھاندلی کریگی اور 44 پلس کے مشن میں کامیابی حاصل کر لے گی لیکن اس کے بعد جموں و کشمیر 20 سال پیچھے چلا جائے گا اور عسکریت پسندی کو پھر سے فروغ ملے گا ۔ بی جے پی کے عزائم کو سامنے رکھا جائے تو یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا آنے والے وقت میں پاکستان کی حکومت اور عوام کشمیریوں کی کتنی مدد کر سکیں گے ؟ کیا پاکستان کشمیریوں کو بھارتی ریاست کے ظلم سے بچانے کیلئے عملی طور پر کچھ کر سکتا ہے ؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے کراچی سے خیبر تک نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان اندرونی خلفشار کا شکار ہے ۔ بھارت کی جمہوریت کشمیریوں کیلئے ایک خطرہ بن رہی ہے لیکن پاکستان کی جمہوریت کشمیریوں کی مدد کے قابل نہیں بلکہ یہ جمہوریت تو اپنی مدد کے لئے بھی اکثر باہر دیکھتی ہے۔ ہمارے سیاست دان کشمیریوں کیلئے لِپ سروس تو بہت کرتے ہیں قراردادیں بھی پاس کرتے ہیں لیکن اس مسئلے پر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے نہیں ہو سکتے ۔ 27اکتوبر کو ریاست جموں و کشمیر میں یوم سیاہ منایا جا رہا ہے ، لندن میں ایک بڑا جلوس نکالا جا رہا ہے لیکن نواز شریف ، آصف زرداری، عمران خان، مولانا فضل الرحمان، ڈاکٹر فاروق ستار، سراج الحق، اسفند یار ولی، محمود خان اچکزئی اور دیگر رہنما ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر 27اکتوبر کے دن جموں و کشمیر میں بی جے پی کے عزائم کی مذمت کرنے کیلئے تیار نہیں البتہ ایک دوسرے کی مذمت کیلئے یہ ہمیشہ تیار رہتے ہیں ۔ 27اکتوبر 1947ء کو ریاست جموں و کشمیر کے ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ ایک جعلی الحاق کیا تھا۔ بھارت نے آج تک الحاق کی اس دستاویز کو اقوام متحدہ میں پیش نہیں کیا کیونکہ پاکستان کے پاس ریاست جونا گڑھ کے حکمرانوں کی طرف سے پاکستان کے ساتھ الحاق کی اصلی دستاویز موجود ہے جسے ہندوستان نے مسترد کر دیا تھا ۔ قانونی طور پر کشمیریوں کا مقدمہ بہت مضبوط ہے لیکن عالمی سطح پر کشمیریوں کی وکالت میں حکومت پاکستان نے اکثر کمزوری دکھائی ہے ۔ محض اقوام متحدہ میں کشمیر کا ذکر کر دینا کافی نہیں ہوتا پاکستان کے اندر کشمیر پر قومی اتفاق رائے قائم کرنا بھی ضروری ہے ۔ افسوس کہ آج بہت سے لبرل اور ترقی پسند حضرات کشمیر کے ذکر کو انتہا پسندی گردانتے ہیں حالانکہ فیض احمد فیض سے لیکر حبیب جالب تک انتہا پسندی کے سب دشمن کشمیریوں کی تحریک فیض احمد فیض سے لیکر حبیب جالب تک انتہا پسندی کے سب دشمن کشمیریوں کی تحریک آزادی کے حامی تھے ۔ ممبئی کے ایک مشہور وکیل اے جی نورانی نے مسئلہ کشمیر پر اپنی تحقیقی کتاب (THE KASHMIR DISPUTE) کا اختتام فیض احمد فیض کے ایک انٹرویو سے لئے گئے اقتباسات پر کیا ہے ۔ ساڑھے پانچ سو صفحات پر مشتمل اس کتاب میں فیض احمد فیض کا جو انٹرویو شامل ہے وہ 1969ء میں ایک کشمیری صحافی شمیم احمد شمیم نے لاہور میں لیا تھا ۔ یہ انٹرویو ’’آئینہ ‘‘ سرینگر میں شائع ہوا بعد ازاں ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ سرینگر میں طاہر محی الدین نے اسے 18اپریل 2011ء کو دوبارہ شائع کیا۔ اس انٹرویو میں فیض صاحب نے کہا تھا کہ وہ 15اگست 1947ء کے دن سرینگر میں تھے۔ وہ 24اگست کو سرینگر سے واپس پاکستان آئے۔ پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں نے کشمیر پر انتہائی سخت موقف اپنا کر اس معاملے کو بہت پیچیدہ بنا دیا ہے اور مسئلہ کشمیر کا بات چیت کے ذریعہ حل ہونا مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔ پاکستان مسئلہ کشمیر کا حل چاہتا ہے اور بھارت کشمیر کو کوئی مسئلہ نہیں سمجھتا ۔ اس مسئلے کا بہترین حل یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کشمیریوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں ۔ فیض صاحب نے کہا کہ کشمیریوں کو سیلف گورننگ کا اختیار دیدیا جائے ، کشمیری پاکستان اور بھارت سے اچھے تعلقات رکھیں ۔ فیض صاحب نے کہا کہ آخر میں ہونا تو یہی ہے لیکن یہ سب بہت تباہی کے بعد ہو گا۔ شمیم احمد شمیم نے لکھا کہ فیض صاحب نے کوئی نئی بات نہیں کہی تھی لیکن مجھے ایسے لگا کہ انہوں نے ایک بڑا راز افشا کر دیا۔
 
لندن: کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے ملین مارچ

27 اکتوبر 2014
news-1414371297-3695.jpg

لندن + اسلام آباد + لاہور (نوائے وقت رپورٹ+ خصوصی نامہ نگار+ نیوز ایجنسیاں) برطانیہ میں مقیم کشمیری برادری کے افراد نے مسئلہ کشمیر کو عالمی برادری کے سامنے اُجاگر کرنے اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کے حق میں شہر کے تاریخی ٹریفالگر سکوائر سے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی رہائش گاہ تک احتجاجی مارچ کیا اور برطانوی وزیراعظم کو ایک یادداشت پیش کی۔ شرکاء نے کتبے اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر بھارت کی مقبوضہ وادی میں جارحیت کے خلاف مختلف نعرے درج تھے۔ مارچ سے قبل جلسہ ہوا۔ مقررین نے تقاریر کرتے ہوئے کہاکہ جنوبی ایشیا میں حقیقی اور پائیدار امن مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر ممکن نہیں۔ مقررین نے مطالبہ کیا کہ بھارت کشمیریوں پر فوج کے ذریعے ڈھائے جانے والے مظالم بند کرے اور کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار دے۔ شرکاء نے برطانوی وزیراعظم اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو حل کرانے میں کردار ادا کریں۔ شرکاء نے اقوام متحدہ سے بھی مطالبہ کیا کہ مسئلہ کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق پرامن طریقے سے حل کیا جائے۔ ملین مارچ میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور آصفہ زرداری نے بھی شرکت کی۔ خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد بھی مارچ میں شریک ہوئی اور کشمیریوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا اور مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے کا مطالبہ کیا۔ ملین مارچ ٹین ڈائوننگ سٹریٹ پر پہنچ کر ختم ہوا۔ بیرسٹر سلطان محمود نے برطانوی وزیراعظم کو یادداشت پیش کی جس کے متن میں کہا گیا ہے کہ برطانوی وزیراعظم مسئلہ کشمیر حل کرانے کیلئے مداخلت کریں، مسئلہ کشمیر برطانیہ کا ہی پیدا کردہ ہے۔ بھارت کو کشمیریوں پر مظالم سے روکا جائے، مسئلہ کشمیر ایٹمی فلیش پوائنٹ ہے، مسئلہ کشمیر حل کرکے ہی دنیا میں امن قائم کیا جا سکتا ہے۔ برطانوی حکومت مسئلے کے حل کیلئے کردار ادا کرے، کشمیریوں کی رائے کے مطابق معاملہ حل کیا جائے، اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرایا جائے، برطانوی پارلیمنٹ میں بھی معاملہ زیربحث لایا جائے۔ دریں اثناء کل جماعتی حریت کانفرنس کی اپیل پر آج ریاست کے دونوں حصوں اور دنیا بھر میں کشمیری بھارت کے خلاف یوم سیاہ منائیں گے۔27اکتوبر 1947ء کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں فوج داخل کر کے قبضہ کر لیا تھا۔ بھارتی فوج کی مقبوضہ کشمیر آمد کے خلاف کشمیری ہر سال 27اکتوبر کو یوم سیاہ مناتے ہیں۔ یوم سیاہ کے موقع پر مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال جلسے جلوس اور مظاہرے ہوں گے۔ آزاد کشمیر میں بڑا جلسہ مظفرآباد میں منعقد ہوگا، تمام ضلعی ہیڈ کوارٹرز اور تحصیل ہیڈ کوارٹرز میں بھی جلوس اور ریلیاں نکالی جائیں گی۔ دوسری جانب حریت کانفرنس (گ) کے چیئرمین سید علی گیلانی نے مقبوضہ کشمیر میں نام نہاد بھارتی انتخابی عمل مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابات حق خود ارادیت کا متبادل نہیں ہیں۔ علی گیلانی نے لندن مارچ کو ایک بروقت قدم قرار دیا۔ وفاقی وزیر امور کشمیر وگلگت بلتستان برجیس طاہر نے کہا ہے کہ پوری پاکستانی قوم کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے (آج) 27اکتوبر کو بھارتی غاصبانہ قبضے کے خلاف یوم سیاہ منائے گی، بھارت مسائل کا مذاکرات کے ذریعے حل نہیں چاہتا، بھارت کھربوں ڈالر کا اسلحہ کس لئے خرید رہا ہے، وزیراعظم نے 26ستمبر کو جنرل اسمبلی میں بھارتی امیدوں پر پانی پھیرا تو 30ستمبر کو ورکنگ بائونڈری پر فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا، بھارت بعض نہ آیا تو اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔ پاکستان کشمیریوں کے اس موقف کی تائید ہر فورم پر کرے گا۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ پاکستان اپنے حقوق کیلئے آزادی کی تحریک لڑنے والے کشمیریوں کی اخلاقی، سیاسی و سفارتی حمایت کرتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانیوں کیلئے کشمیریوں کے ساتھ ہر دن یکجہتی کا دن ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نوازشریف نے جنرل اسمبلی میں واضح موقف اٹھایاکہ دنیا کو یاد بھی اور باور بھی کروایا کہ دنیا اپنے عہد کو یاد رکھے ،آج پوری دنیا بھارت کی طرف دیکھ رہی ہے کہ بھارت کب اپنا وعدہ پورا کرے گا۔ دریں اثناء مذہبی، سیاسی و کشمیری جماعتوں کے قائدین نے مقبوضہ کشمیر پر بھارتی غاصبانہ قبضہ کے67سال پورے ہونے پر کشمیری مسلمانوں کو بھارتی مظالم کے سامنے ڈٹ جانے پر خراج تحسین پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ کشمیریوں کی آزادی کی منزل دور نہیں۔ لندن میں کشمیر ملین مارچ سے تحریک آزادی کشمیر مزید مضبوط ہو گی۔ افغانستان سے امریکہ کے نکلنے کے بعد بھارت بھی کشمیر سے نکلے گا اور کشمیر پاکستان کا حصہ بنے گا۔ ان خیالات کا اظہار حافظ محمد سعید، حافظ عبدالرحمان مکی، حافظ عبدالغفار روپڑی، مولانا امیر حمزہ، مولانا عبدالعزیز علوی، مولانا شفیع جوش، قاری محمد یعقوب شیخ، مولانا ابوالہاشم، حافظ خالد ولید نے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ حافظ محمد سعید نے کہا کہ کشمیری پاکستان کی سالمیت کی جنگ لڑ رہے ہیں‘ انہیں کسی صورت بھارت کے ظلم و ستم کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستانی قوم تحریک آزادی میں کشمیریوں کے ساتھ قدم سے قدم اور کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہے، مظلوم کشمیریوں کو حق خودارادیت ملنے تک جنوبی ایشیا میں کسی صورت امن قائم نہیں ہو سکتا۔ انہوںنے کہاکہ ہم کشمیریوں کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ پاکستانی قوم انکی جدوجہد کو بھلانے والی نہیں ہے ۔کشمیریوں کی ہرممکن مددوحمایت کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ کشمیر ایک وادی کا نہیں بلکہ کرہ ارض پر سب سے بڑی جیل کا نام ہے جس میں لاکھوں لوگ قید ہیں اور بھارتی ظلم و بربریت کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کے استحکام اور بقاء کے لئے کشمیر کو بھارت کے غاصبانہ قبضہ سے چھڑانا بہت ضروری ہے ۔ کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق بلاول بھٹو اور آصفہ زرداری نے کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگائے۔ ملین مارچ میں سکھ برادری نے بھی شرکت کی۔ سابق وزیراعظم آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود نے ملین مارچ سے خطاب کرتے کہا کہ جلسہ سے ثابت ہو گیا کشمیری متحد ہیں۔ نریندر مودی جلد از جلد مسئلہ کشمیر کو حل کریں۔ بھارت کے حامیوں نے جلسہ سبوتاژ کرنے کی کوشش کی، یہ جدوجہد کشمیر کی آزادی تک جاری رہے گی۔ لارڈ نذیر نے کہا کہ کشمیریوں کو ان کے حقوق دیئے جائیں اور کشمیریوں کی خواہش کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کیا جائے۔ بی بی سی کے مطابق بھارتی حکومت کے اعتراض کے باوجود لندن میں ملین مارچ کے انعقاد سے کشمیریوں کے بارے میں بھارت کے رویہ میں مزید شدت آئے گی۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بھارتی حکومت نے حالیہ برسوں کے دوران امریکہ، اسرائیل، فرانس اور جرمنی سے گہرے تجارتی تعلقات قائم کئے ہیں جس کے بعد اب یورپ کے بعض ممالک کشمیر کے معاملہ میں سرگرم ہوئے ہیں۔ لندن مارچ سے بھارت کا کشمیر پر دعویٰ کمزور پڑ جائے گا اور یہاں ڈھائے جانے والے اس کے مظالم ایکسپوز ہو جائیں گے۔
 
Top