راز کی بات... قلم کمان ۔۔۔۔۔حامد میر
SMS: #HMC (space) message & send to 8001
hamid.mir@janggroup.com.pk
نیا پاکستان نجانے کب وجود میں آئے گا لیکن ہمارے ہمسائے میں ایک نیا اور نوکیلا ہندوستان وجود میں آ چکا ہے ۔ اس نئے ہندوستان میں جمہوریت نے سیکولرازم کا جنازہ نکال دیا ہے ۔ ہندو بنیاد پرستی کے علمبردار نریندر مودی کی مقبولیت نے خود انکی اپنی جماعت بی جے پی کو پریشان کر دیا ہے ۔ بی جے پی نے مہاراشٹرا اور ہریانہ کے حالیہ انتخابات میں محض خانہ پُری کیلئے کئی امیدوار کھڑے کئے تھے لیکن ان کمزور امیدواروں نے بھی کئی بڑے بڑے برج الٹ دیئے ۔ مودی کی مقبولیت کی دو بڑی وجوہات ہیں ۔ پہلی یہ کہ انہوں نے گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اپنے علاقے کی شکل بدل دی ۔ دوسری یہ کہ وہ پاکستان کے بارے میں بڑا سخت موقف رکھتے ہیں ۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن بھارتی ہندوئوں کی اکثریت نے آج تک پاکستان کی حقیقت کو تسلیم نہیں کیا اور مودی نئے ہندوستان میں پاکستان سے نفرت کی بڑی علامت بن کر ابھرے ہیں۔ مودی کے وزیر اعظم بننے کے فوراً بعد پاک بھارت ورکنگ بائونڈری اور لائن آف کنٹرو ل پر کشیدگی پیدا ہو چکی ہے ۔ مودی کا اگلا ہدف ریاست جموں و کشمیر کی اسمبلی کے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنا اور آئین کی دفعہ 370کو ختم کرنا ہے ۔ دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ہندوستان میں خصوصی حیثیت دی گئی تھی ۔ مودی ریاستی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرکے دفعہ 370 کیخلاف قرار داد منظور کرانا چاہتے ہیںاورپھر آئینی ترمیم کے ذریعے370 کو ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ بظاہر ریاست جموں و کشمیر میں بی جے پی کی حکومت قائم کرنے کا خواب ناقابل عمل لگتا ہے لیکن مودی نے اپنی پارٹی کے صدر امیت شا کو یہ مشن سونپ رکھا ہے کہ انہوں نے ہر قیمت پر ریاستی اسمبلی کی 87 میں سے 44 نشستوں پر کامیابی حاصل کرنی ہے ۔ امیت شاکہتے ہیں کہ 2014ء کے عام انتخابات میں لوک سبھا کیلئے جموں و کشمیر کی چھ میں سے تین نشستیں بی جے پی کو مل گئیں باقی تین محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی کو ملیں ۔ بی جے پی کو جموں، اودھم پور اور لداخ کی غیر مسلم اکثریتی علاقوں کی نشستیں ملیں۔ پی ڈی پی نے مسلم اکثریتی علاقوں میں کامیابی حاصل کی۔ ریاستی اسمبلی میں بی جے پی کے پاس اس وقت گیارہ نشستیں ہیں ۔ مزید 33 نشستوں کے حصول کیلئے بی جے پی نے یہ حکمت عملی بنائی ہے کہ ہندو ووٹروں کے ٹرن آئوٹ میں اضافہ کیا جائے ، وادی کشمیر میں مسلمان امیدوار کھڑے کئے جائیں اور کسی نہ کسی طرح 44 پلس کے مشن میں کامیابی حاصل کی جائے ۔ 44نشستیں مل جانے کے بعد بی جے پی جموں و کشمیر کو آئین کے ذریعہ ہندوستان کا اٹوٹ انگ بنا دیگی اور اپنے تئیں مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دیگی ۔
بی جے پی نے وادی کشمیر کے ایک مشہور سیاسی خاندان کی خاتون ڈاکٹر حنا بھٹ، ایک کشمیری صحافی خالد جہانگیر اور ایک ریٹائرڈ پولیس افسر فاروق احمد خان سمیت کئی مسلمانوں کو اپنی پارٹی میں شامل کیا ہے ۔ بی جے پی کے ایک کشمیری لیڈر عاشق حسین ڈار نے وادی میں انتخابی مہم بھی شروع کر دی ہے لیکن نئی دہلی کے آزاد صحافتی ذرائع کا کہنا ہے کہ فیئر اینڈ فری الیکشن میں بی جے پی کا جموں و کشمیر میں 44 نشستیں حاصل کرنا بہت مشکل ہے ۔ یہ درست ہے کہ ہندوستان میں مودی کی لہر اپنے عروج پر ہے لیکن مودی ہندوئوں کا لیڈر ہے ۔ مودی نے 2014ء کے الیکشن میں لوگ سبھا کی سات نشستوں پر مسلمان امیدوار کھڑے کئے لیکن ان کا ایک بھی مسلمان امیدوار کامیاب نہ ہوا ۔ اس وقت 482 ارکان کی لوک سبھا میں صرف 23 مسلمان ہیں جو کل تعداد کا صرف 4فیصد ہیں ۔ حالانکہ مسلمانوں کی آبادی کہیں زیادہ ہے ۔ جموں و کشمیر کے مسلمان بی جے پی کی بجائے پی ڈی پی کی محبوبہ مفتی کو ترجیح دیں گے کیونکہ حریت کانفرنس انتخابات کا بائیکاٹ کریگی ۔ بعض بھارتی مبصرین کو خدشہ ہے کہ بی جے پی کی مرکزی حکومت، فوج اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر انتخابات میں دھاندلی کریگی اور 44 پلس کے مشن میں کامیابی حاصل کر لے گی لیکن اس کے بعد جموں و کشمیر 20 سال پیچھے چلا جائے گا اور عسکریت پسندی کو پھر سے فروغ ملے گا ۔ بی جے پی کے عزائم کو سامنے رکھا جائے تو یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا آنے والے وقت میں پاکستان کی حکومت اور عوام کشمیریوں کی کتنی مدد کر سکیں گے ؟ کیا پاکستان کشمیریوں کو بھارتی ریاست کے ظلم سے بچانے کیلئے عملی طور پر کچھ کر سکتا ہے ؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے کراچی سے خیبر تک نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان اندرونی خلفشار کا شکار ہے ۔ بھارت کی جمہوریت کشمیریوں کیلئے ایک خطرہ بن رہی ہے لیکن پاکستان کی جمہوریت کشمیریوں کی مدد کے قابل نہیں بلکہ یہ جمہوریت تو اپنی مدد کے لئے بھی اکثر باہر دیکھتی ہے۔ ہمارے سیاست دان کشمیریوں کیلئے لِپ سروس تو بہت کرتے ہیں قراردادیں بھی پاس کرتے ہیں لیکن اس مسئلے پر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے نہیں ہو سکتے ۔ 27اکتوبر کو ریاست جموں و کشمیر میں یوم سیاہ منایا جا رہا ہے ، لندن میں ایک بڑا جلوس نکالا جا رہا ہے لیکن نواز شریف ، آصف زرداری، عمران خان، مولانا فضل الرحمان، ڈاکٹر فاروق ستار، سراج الحق، اسفند یار ولی، محمود خان اچکزئی اور دیگر رہنما ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر 27اکتوبر کے دن جموں و کشمیر میں بی جے پی کے عزائم کی مذمت کرنے کیلئے تیار نہیں البتہ ایک دوسرے کی مذمت کیلئے یہ ہمیشہ تیار رہتے ہیں ۔ 27اکتوبر 1947ء کو ریاست جموں و کشمیر کے ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ ایک جعلی الحاق کیا تھا۔ بھارت نے آج تک الحاق کی اس دستاویز کو اقوام متحدہ میں پیش نہیں کیا کیونکہ پاکستان کے پاس ریاست جونا گڑھ کے حکمرانوں کی طرف سے پاکستان کے ساتھ الحاق کی اصلی دستاویز موجود ہے جسے ہندوستان نے مسترد کر دیا تھا ۔ قانونی طور پر کشمیریوں کا مقدمہ بہت مضبوط ہے لیکن عالمی سطح پر کشمیریوں کی وکالت میں حکومت پاکستان نے اکثر کمزوری دکھائی ہے ۔ محض اقوام متحدہ میں کشمیر کا ذکر کر دینا کافی نہیں ہوتا پاکستان کے اندر کشمیر پر قومی اتفاق رائے قائم کرنا بھی ضروری ہے ۔ افسوس کہ آج بہت سے لبرل اور ترقی پسند حضرات کشمیر کے ذکر کو انتہا پسندی گردانتے ہیں حالانکہ فیض احمد فیض سے لیکر حبیب جالب تک انتہا پسندی کے سب دشمن کشمیریوں کی تحریک فیض احمد فیض سے لیکر حبیب جالب تک انتہا پسندی کے سب دشمن کشمیریوں کی تحریک آزادی کے حامی تھے ۔ ممبئی کے ایک مشہور وکیل اے جی نورانی نے مسئلہ کشمیر پر اپنی تحقیقی کتاب (THE KASHMIR DISPUTE) کا اختتام فیض احمد فیض کے ایک انٹرویو سے لئے گئے اقتباسات پر کیا ہے ۔ ساڑھے پانچ سو صفحات پر مشتمل اس کتاب میں فیض احمد فیض کا جو انٹرویو شامل ہے وہ 1969ء میں ایک کشمیری صحافی شمیم احمد شمیم نے لاہور میں لیا تھا ۔ یہ انٹرویو ’’آئینہ ‘‘ سرینگر میں شائع ہوا بعد ازاں ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ سرینگر میں طاہر محی الدین نے اسے 18اپریل 2011ء کو دوبارہ شائع کیا۔ اس انٹرویو میں فیض صاحب نے کہا تھا کہ وہ 15اگست 1947ء کے دن سرینگر میں تھے۔ وہ 24اگست کو سرینگر سے واپس پاکستان آئے۔ پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں نے کشمیر پر انتہائی سخت موقف اپنا کر اس معاملے کو بہت پیچیدہ بنا دیا ہے اور مسئلہ کشمیر کا بات چیت کے ذریعہ حل ہونا مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔ پاکستان مسئلہ کشمیر کا حل چاہتا ہے اور بھارت کشمیر کو کوئی مسئلہ نہیں سمجھتا ۔ اس مسئلے کا بہترین حل یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کشمیریوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں ۔ فیض صاحب نے کہا کہ کشمیریوں کو سیلف گورننگ کا اختیار دیدیا جائے ، کشمیری پاکستان اور بھارت سے اچھے تعلقات رکھیں ۔ فیض صاحب نے کہا کہ آخر میں ہونا تو یہی ہے لیکن یہ سب بہت تباہی کے بعد ہو گا۔ شمیم احمد شمیم نے لکھا کہ فیض صاحب نے کوئی نئی بات نہیں کہی تھی لیکن مجھے ایسے لگا کہ انہوں نے ایک بڑا راز افشا کر دیا۔





SMS: #HMC (space) message & send to 8001
hamid.mir@janggroup.com.pk
نیا پاکستان نجانے کب وجود میں آئے گا لیکن ہمارے ہمسائے میں ایک نیا اور نوکیلا ہندوستان وجود میں آ چکا ہے ۔ اس نئے ہندوستان میں جمہوریت نے سیکولرازم کا جنازہ نکال دیا ہے ۔ ہندو بنیاد پرستی کے علمبردار نریندر مودی کی مقبولیت نے خود انکی اپنی جماعت بی جے پی کو پریشان کر دیا ہے ۔ بی جے پی نے مہاراشٹرا اور ہریانہ کے حالیہ انتخابات میں محض خانہ پُری کیلئے کئی امیدوار کھڑے کئے تھے لیکن ان کمزور امیدواروں نے بھی کئی بڑے بڑے برج الٹ دیئے ۔ مودی کی مقبولیت کی دو بڑی وجوہات ہیں ۔ پہلی یہ کہ انہوں نے گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اپنے علاقے کی شکل بدل دی ۔ دوسری یہ کہ وہ پاکستان کے بارے میں بڑا سخت موقف رکھتے ہیں ۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن بھارتی ہندوئوں کی اکثریت نے آج تک پاکستان کی حقیقت کو تسلیم نہیں کیا اور مودی نئے ہندوستان میں پاکستان سے نفرت کی بڑی علامت بن کر ابھرے ہیں۔ مودی کے وزیر اعظم بننے کے فوراً بعد پاک بھارت ورکنگ بائونڈری اور لائن آف کنٹرو ل پر کشیدگی پیدا ہو چکی ہے ۔ مودی کا اگلا ہدف ریاست جموں و کشمیر کی اسمبلی کے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنا اور آئین کی دفعہ 370کو ختم کرنا ہے ۔ دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ہندوستان میں خصوصی حیثیت دی گئی تھی ۔ مودی ریاستی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرکے دفعہ 370 کیخلاف قرار داد منظور کرانا چاہتے ہیںاورپھر آئینی ترمیم کے ذریعے370 کو ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ بظاہر ریاست جموں و کشمیر میں بی جے پی کی حکومت قائم کرنے کا خواب ناقابل عمل لگتا ہے لیکن مودی نے اپنی پارٹی کے صدر امیت شا کو یہ مشن سونپ رکھا ہے کہ انہوں نے ہر قیمت پر ریاستی اسمبلی کی 87 میں سے 44 نشستوں پر کامیابی حاصل کرنی ہے ۔ امیت شاکہتے ہیں کہ 2014ء کے عام انتخابات میں لوک سبھا کیلئے جموں و کشمیر کی چھ میں سے تین نشستیں بی جے پی کو مل گئیں باقی تین محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی کو ملیں ۔ بی جے پی کو جموں، اودھم پور اور لداخ کی غیر مسلم اکثریتی علاقوں کی نشستیں ملیں۔ پی ڈی پی نے مسلم اکثریتی علاقوں میں کامیابی حاصل کی۔ ریاستی اسمبلی میں بی جے پی کے پاس اس وقت گیارہ نشستیں ہیں ۔ مزید 33 نشستوں کے حصول کیلئے بی جے پی نے یہ حکمت عملی بنائی ہے کہ ہندو ووٹروں کے ٹرن آئوٹ میں اضافہ کیا جائے ، وادی کشمیر میں مسلمان امیدوار کھڑے کئے جائیں اور کسی نہ کسی طرح 44 پلس کے مشن میں کامیابی حاصل کی جائے ۔ 44نشستیں مل جانے کے بعد بی جے پی جموں و کشمیر کو آئین کے ذریعہ ہندوستان کا اٹوٹ انگ بنا دیگی اور اپنے تئیں مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دیگی ۔
بی جے پی نے وادی کشمیر کے ایک مشہور سیاسی خاندان کی خاتون ڈاکٹر حنا بھٹ، ایک کشمیری صحافی خالد جہانگیر اور ایک ریٹائرڈ پولیس افسر فاروق احمد خان سمیت کئی مسلمانوں کو اپنی پارٹی میں شامل کیا ہے ۔ بی جے پی کے ایک کشمیری لیڈر عاشق حسین ڈار نے وادی میں انتخابی مہم بھی شروع کر دی ہے لیکن نئی دہلی کے آزاد صحافتی ذرائع کا کہنا ہے کہ فیئر اینڈ فری الیکشن میں بی جے پی کا جموں و کشمیر میں 44 نشستیں حاصل کرنا بہت مشکل ہے ۔ یہ درست ہے کہ ہندوستان میں مودی کی لہر اپنے عروج پر ہے لیکن مودی ہندوئوں کا لیڈر ہے ۔ مودی نے 2014ء کے الیکشن میں لوگ سبھا کی سات نشستوں پر مسلمان امیدوار کھڑے کئے لیکن ان کا ایک بھی مسلمان امیدوار کامیاب نہ ہوا ۔ اس وقت 482 ارکان کی لوک سبھا میں صرف 23 مسلمان ہیں جو کل تعداد کا صرف 4فیصد ہیں ۔ حالانکہ مسلمانوں کی آبادی کہیں زیادہ ہے ۔ جموں و کشمیر کے مسلمان بی جے پی کی بجائے پی ڈی پی کی محبوبہ مفتی کو ترجیح دیں گے کیونکہ حریت کانفرنس انتخابات کا بائیکاٹ کریگی ۔ بعض بھارتی مبصرین کو خدشہ ہے کہ بی جے پی کی مرکزی حکومت، فوج اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر انتخابات میں دھاندلی کریگی اور 44 پلس کے مشن میں کامیابی حاصل کر لے گی لیکن اس کے بعد جموں و کشمیر 20 سال پیچھے چلا جائے گا اور عسکریت پسندی کو پھر سے فروغ ملے گا ۔ بی جے پی کے عزائم کو سامنے رکھا جائے تو یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا آنے والے وقت میں پاکستان کی حکومت اور عوام کشمیریوں کی کتنی مدد کر سکیں گے ؟ کیا پاکستان کشمیریوں کو بھارتی ریاست کے ظلم سے بچانے کیلئے عملی طور پر کچھ کر سکتا ہے ؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے کراچی سے خیبر تک نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان اندرونی خلفشار کا شکار ہے ۔ بھارت کی جمہوریت کشمیریوں کیلئے ایک خطرہ بن رہی ہے لیکن پاکستان کی جمہوریت کشمیریوں کی مدد کے قابل نہیں بلکہ یہ جمہوریت تو اپنی مدد کے لئے بھی اکثر باہر دیکھتی ہے۔ ہمارے سیاست دان کشمیریوں کیلئے لِپ سروس تو بہت کرتے ہیں قراردادیں بھی پاس کرتے ہیں لیکن اس مسئلے پر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے نہیں ہو سکتے ۔ 27اکتوبر کو ریاست جموں و کشمیر میں یوم سیاہ منایا جا رہا ہے ، لندن میں ایک بڑا جلوس نکالا جا رہا ہے لیکن نواز شریف ، آصف زرداری، عمران خان، مولانا فضل الرحمان، ڈاکٹر فاروق ستار، سراج الحق، اسفند یار ولی، محمود خان اچکزئی اور دیگر رہنما ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر 27اکتوبر کے دن جموں و کشمیر میں بی جے پی کے عزائم کی مذمت کرنے کیلئے تیار نہیں البتہ ایک دوسرے کی مذمت کیلئے یہ ہمیشہ تیار رہتے ہیں ۔ 27اکتوبر 1947ء کو ریاست جموں و کشمیر کے ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ ایک جعلی الحاق کیا تھا۔ بھارت نے آج تک الحاق کی اس دستاویز کو اقوام متحدہ میں پیش نہیں کیا کیونکہ پاکستان کے پاس ریاست جونا گڑھ کے حکمرانوں کی طرف سے پاکستان کے ساتھ الحاق کی اصلی دستاویز موجود ہے جسے ہندوستان نے مسترد کر دیا تھا ۔ قانونی طور پر کشمیریوں کا مقدمہ بہت مضبوط ہے لیکن عالمی سطح پر کشمیریوں کی وکالت میں حکومت پاکستان نے اکثر کمزوری دکھائی ہے ۔ محض اقوام متحدہ میں کشمیر کا ذکر کر دینا کافی نہیں ہوتا پاکستان کے اندر کشمیر پر قومی اتفاق رائے قائم کرنا بھی ضروری ہے ۔ افسوس کہ آج بہت سے لبرل اور ترقی پسند حضرات کشمیر کے ذکر کو انتہا پسندی گردانتے ہیں حالانکہ فیض احمد فیض سے لیکر حبیب جالب تک انتہا پسندی کے سب دشمن کشمیریوں کی تحریک فیض احمد فیض سے لیکر حبیب جالب تک انتہا پسندی کے سب دشمن کشمیریوں کی تحریک آزادی کے حامی تھے ۔ ممبئی کے ایک مشہور وکیل اے جی نورانی نے مسئلہ کشمیر پر اپنی تحقیقی کتاب (THE KASHMIR DISPUTE) کا اختتام فیض احمد فیض کے ایک انٹرویو سے لئے گئے اقتباسات پر کیا ہے ۔ ساڑھے پانچ سو صفحات پر مشتمل اس کتاب میں فیض احمد فیض کا جو انٹرویو شامل ہے وہ 1969ء میں ایک کشمیری صحافی شمیم احمد شمیم نے لاہور میں لیا تھا ۔ یہ انٹرویو ’’آئینہ ‘‘ سرینگر میں شائع ہوا بعد ازاں ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ سرینگر میں طاہر محی الدین نے اسے 18اپریل 2011ء کو دوبارہ شائع کیا۔ اس انٹرویو میں فیض صاحب نے کہا تھا کہ وہ 15اگست 1947ء کے دن سرینگر میں تھے۔ وہ 24اگست کو سرینگر سے واپس پاکستان آئے۔ پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں نے کشمیر پر انتہائی سخت موقف اپنا کر اس معاملے کو بہت پیچیدہ بنا دیا ہے اور مسئلہ کشمیر کا بات چیت کے ذریعہ حل ہونا مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔ پاکستان مسئلہ کشمیر کا حل چاہتا ہے اور بھارت کشمیر کو کوئی مسئلہ نہیں سمجھتا ۔ اس مسئلے کا بہترین حل یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کشمیریوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں ۔ فیض صاحب نے کہا کہ کشمیریوں کو سیلف گورننگ کا اختیار دیدیا جائے ، کشمیری پاکستان اور بھارت سے اچھے تعلقات رکھیں ۔ فیض صاحب نے کہا کہ آخر میں ہونا تو یہی ہے لیکن یہ سب بہت تباہی کے بعد ہو گا۔ شمیم احمد شمیم نے لکھا کہ فیض صاحب نے کوئی نئی بات نہیں کہی تھی لیکن مجھے ایسے لگا کہ انہوں نے ایک بڑا راز افشا کر دیا۔