حالاتِ زندگی
حضرت شیخ العالم خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ
پاک و ہند میں اسلام صوفیائے کرام کی مساعی جمیلہ سے پھیلا ۔ اس خطے میں ان مردانِ باخدا کا وجود مسعود اللہ تعالی کا بہت بڑا انعام تھا (اور بفضلہ تعالی اب بھی ہے) ۔ برصغیر میں مسلمان سلاطین نے کم و بیش ایک ہزار سال تک حکومت کی ، اس دوران میں ہندووں نے اسلامی کلچر کو نقصان پہنچانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر صوفیا کرام کی مسلسل تبلیغی کوششوں کے سامنے وہ کبھی کامیاب نہ ہوسکے ۔ پروفیسر ایچ ار گب نے کتنا صحیح لکھا ہے:
تاریخ اسلام میں بارہا ایسے مواقع آئے کہ اسلام کے کلچر کا شدت سے مقابلہ کیا گیا ، لیکن بایں ہمہ وہ مغلوب نہ ہو سکا ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ صوفیا کا انداز فکر فورا اس کی مدد کو آ جاتا تھا اور اس کو اتنی قوت اور توانائی بخش دیتا تھا کہ کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہ کرسکتی تھی۔
(اسلامک کلچر مطبوعہ لندن)
صوفیا کرام کا ہاتھ ہمیشہ ملت کی نبض پر اور دماغ تجدید و احیا کی تدابیر سوچنے میں مصروف رہا ۔ مادیت کے سیلاب کو روکنے اور ذہنی انتشار کو ختم کرنے کا جو عظیم الشان کام اس جماعت نے سرانجام دیا وہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔
بلاشبہ ان بزرگوں نے جب کبھی قوم کا اخلاقی مزاج بگڑتا ہوا دیکھا تو اپنی تمام تر ذہنی اور عملی صلاحیتیں صحت مند عناصر کو ابھارنے میں صرف کردیں۔
حضرت خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کو جب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ نے دہلی میں تبلیغ و ہدایت کے منصب پر مامور فرمایا تو اس وقت حالات نہایت ہی نامساعد تھے ، سلطان التمش کی وفات ہوچکی تھی ، بڑے بڑے علما موقع سے فائدہ اٹھا کر میدانِ سیاست میں کود پڑے تھے ۔ لیکن حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے سیاسی بکھیڑوں سے بچ کر دینِ حق کی خاطر جو شاندار خدمات سر انجام دیں ، وہ آج بھی تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھی ہوئی نظر آتی ہیں۔
حضرت بابا صاحب دہلی میں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے سجادے پر بیٹھے تھے ، لیکن جب انہوں نے محسوس کیا کہ دارالسلطنت کا ماحول تبلغ و ترویج پر اثر انداز ہونے لگا ہے تو وہ دہلی چھوڑ کر ہانسی تشریف لے گئے ۔ بعض لوگوں نے اعتراض کیا کہ آپ کے پیر و مرشد نے یہی مقام آپ کو دیا تھا۔ اس پر آپ نے فرمایا “ میرے پیر نے جو نعمت مجھے عطا فرمائی وہ کسی خاص مقام سے وابستہ نہیں ہے“ (سیر الاولیا صفحہ 73)
حضرت بابا صاحب پہلے ہانسی اور بعد میں اجودھن تسریف لے گئے ۔ اجودھن پاک پتن کا پرانا نام ہے ۔ یہاں بابا صاحب نے اپنی تربیت خاس کے سانچے میں ڈھال کر جو لوگ تیا کئے ان میں شیخ جمال الدین ہانسوی ، شیخ بدر الدین اسحاق ، شیخ نظام الدین اولیا محبوب الہی ، شیخ علی احمد صابر کلیری اور شیخ عارف جیسے مردان حق شامل ہیں جو بابا ساحب کے مکتبِ صحبت سے فارغ ہونے کے بعد ملک کے طول و عرض میں پھیل گئے اور ہر طرف خدا کے دین کا بول بالا کردیا۔
بابا صاحب کا شجرہ نسب
تمام تذکرہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت بابا صاحب رحمۃ اللہ علیہ صحیح النسل فاروقی ہیں ۔ حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے ان کا سلسلہ نسب اس طرح مل جاتا ہے؛
1۔حضرت شیخ جمال الدین سلیمان (والد)
2۔ شیخ شعیب
3۔ شیخ احمد
4۔ شیخ یوسف
5۔ شیخ محمد
6۔ شیخ شہاب الدین
7۔ شیخ احمد ( معروف بہ فرخ شاہ بادشاہ کابل )
8۔ شیخ نصیر الدین
9۔ محمود شاہ
10۔ سامان شاہ
11۔ شیخ شلیمان
12۔ شیخ مسعود
13۔ شیخ عبداللہ واعظ الاکبر
14۔ شیخ ابوالفتح
15۔ شیخ اسحاق
16۔ حضرت خواجہ ابراہیم شاہ بلخ
17۔ خواجہ ادھم
18۔ شیخ سلیمان
19۔ شیخ ناصر
20۔ حضرت عبداللہ
21۔ امیر المومنین حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ؛