الف نظامی

لائبریرین
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
راحت القلوب​
ملفوظات بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ
(اردو ترجمہ)​
از حضرت خواجہ نظام الدین اولیا محبوب الہی رحمۃ اللہ علیہ​
 

الف نظامی

لائبریرین
انتساب​
امام المشائخ حضرت خواجہ حسن نظامی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے نام
جن کی محبت کے اسیران ملفوظات کے مترجم حضرت ملا واحدی بھی تھے ، اور یہ راقم الحروف بھی
اگر سیاہ دلم داغ لالہ زار تو ام
وگر کشادہ جبینم گل بہار تو ام​
[align=left:31dbf01c6a]عابد نظامی
لاہور 27 رجب المرجب 1404 ھجری[/align:31dbf01c6a]
 

الف نظامی

لائبریرین
پیش لفظ
(از خواجہ عابد نظامی ، ایڈیٹر ماہنامہ ضیائے حرم لاہور)
“راحت القلوب“ حضرت شیخ الشیوخ العالم بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظاتِ طیبات پر مبنی مشہور کتاب ہے ، جسے ان کے محبوب مرید اور خیلفہ سلطان المشائخ حضرت خواجہ سید نظام الدین اولیا محبوب الہی زری زر بخش رحمۃ اللہ علیہ نے 656 ھجری میں مرتب فرمایا تھا۔ عجیب بات ہے کہ صوفیا کے حلقے میں اس کتاب کی جتنی شہرت ہے ، یہ اسی قدر نایاب بھی ہے۔امام المشاخ حضرت خواجہ حسن نظامی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ارشاد پر 1911 عیسوی میں ان کے محبوب مرید اور خلیفہ سید محمد ارتضی المعروف ملا واحدی ایڈیٹر ماہنامہ نظام المشائخ دہلی نے “بزم فرید“ کے نام سے اردو میں اس کتاب کا ترجمہ کرکے شائع کیا تھا غالبا اس کے بعد “راحت القلوب“ کا کوئی عمدہ ، معیاری اور عام ترجمہ شائع نہیں ہوا۔
میرے پا س “بزم فرید“ کا جو نسخہ تھا ، وہ مرور زمانہ سے انتہائی بوسیدہ ہوچکا تھا۔بعض مقامات سے تو اس کی عبارت بھی نہیں پڑھی جاتی تھی۔ ایک عرصہ سے میں اس تلاش مین تھا کہ کہیں سے “بزم فرید“ کا صحیح اور مکمل نسخہ دستیاب ہو ، لیکن یہ آرزو پوری نہ ہوئی۔ خوش قسمتی سے گذشتہ سال “راحت القلوب“ کا فارسی نسخہ دستیاب ہوگیا ۔ اس نسخہ کے ملتے ہی میں نے “بزم فرید“ کی تکمیل کا کام شروع کر دیا ، جو کئی ماہ کی محنت شاقہ کے بعد اس قابل ہوا ہے کہ آپ کی خدمت میں پیش کیا جائے۔
“راحت القلوب“ کا نیا ترجمہ میں نے اس لیے نہیں ‌کیا کہ پہلا ترجمہ ایک اہل دل اور اہل علم بزرگ کی شب و روز محنت کا حاصل ہے جس کا قائم رہنا ضروری ہے کیونکہ میرا ایمان ہے کہ بزرگوں نے جس محبت اور خلوصِ نیت سے ان کاموں کو سرانجام دیا ہے اس کی بدولت یہ دلوں کی تسخیر کا باعث بنیں گے اور اس سے رشد وہدایت کا نور پھیلے گا۔
“بزم فرید“ کے نسخے کی املا قدیم تھی جو آجکل ہمارے ہاں رائج نہیں ۔ پیش نظر نسخہ میں میں نے قدیم املا کو تبدیل کرکے اسے موجودہ زمانے کے مطابق کردیا ہے ، جس کے باعث قارئیں کو مطالعہ میں کوئی دشواری نہیں پیش آئے گی۔ نیز کتاب کے آغاز میں حضرت بابا صاحب قدس سرہ العزیز اور حضرت محبوب الہی قدس سرہ العزیز کے حالات طیبات بھی لکھ کرشامل کردیئے ہیں۔
حضرت ملا واحدی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات کے بارے میں صرف اس قدر لکھنا کافی ہے کہ وہ امام المشائخ حضرت خواجہ حسن نظامی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے علمی و ادبی کاموں میں ان کے رفیق و معاون تھے۔ 1908 عیسوی میں ان کے پیر و مرشد حضرت خواجہ صاحب نے حلقہ نظام المشائخ قائم کیا ، تو اس کے مقاصد کی تبلیغ کے لیے ماہنامہ نظام المشائخ بھی جاری کیا، جس کے مدیر خود حضرت خواجہ صاحب تھے اور نائب مدیر ملا واحدی ، نظام المشائخ کا پہلا شمارہ جولائی 1909 عیسوی میں شائع ہوا ، بعد میں جب یہ رسالہ خوب چل نکلا تو حضرت خواجہ صاحب نے اسے ملا واحدی صاحب کے سپرد فرما دیا جسے وہ برصغیر کی تقسیم کے بعد کراچی آ کر بھی باقاعدگی سے شائع کرتے رہے۔
1970 عیسوی میں ملا واحدی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو کراچی میں ملا تو دوران گفتگو انہوں نے فرمایا کہ ان کا خاندان شاہجہان بادشاہ کے زمانے سے دہلی میں آباد تھا۔ شاہجہان نے ان کے بزرگوں کو مدینہ منورہ سے دہلی محض اس غرض سے بلایا تھا کہ ان کے علم و فضل سے وہ خود اور اس کی رعایا مستفیض ہو۔
“راحت القلوب“ کی اشاعت نو سے مجھے دلی خوشی محسوس ہورہی ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اسے عوام و خواص میں‌مقبولیت عطا فرمائے ۔ بلاشبہ یہ ایسی مفید اور دلچسپ کتاب ہے کہ اولیا اللہ سے محبت اور عقیدت رکھنے والے اسے اپنے تبلیغی سلسلے کا حصہ بنائیں ۔ آج ضرورت ہے کہ ہر گھر اور ہر مجلس میں اس کو پڑھا جائے ۔ ان شا اللہ اس کی برکت سے پڑھنے والوں کی دنیا بھی سدھرے گی اور دین بھی،
آخر میں میں محترم صاحبزادہ حفیظ البرکات شاہ صاحب کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں جن کی ذاتی دلچسپی نے مجھے اس بابرکت کام کی طرف متوجہ کیا۔ ان کی حوصلہ افزائی اگر قدم بقدم میسر نہ آتی تو شاید یہ کتاب اتنی جلدی منصہ شہود پر نہ آتی۔
[align=left:9f16efe9d3]لاہور 15 جنوری 1984 عیسوی
خاکپائے اولیا اللہ
خواجہ عابد نظامی[/align:9f16efe9d3]
 

الف نظامی

لائبریرین
حالاتِ زندگی​
حضرت شیخ العالم خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ​
پاک و ہند میں اسلام صوفیائے کرام کی مساعی جمیلہ سے پھیلا ۔ اس خطے میں ان مردانِ باخدا کا وجود مسعود اللہ تعالی کا بہت بڑا انعام تھا (اور بفضلہ تعالی اب بھی ہے) ۔ برصغیر میں مسلمان سلاطین نے کم و بیش ایک ہزار سال تک حکومت کی ، اس دوران میں ہندووں نے اسلامی کلچر کو نقصان پہنچانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر صوفیا کرام کی مسلسل تبلیغی کوششوں کے سامنے وہ کبھی کامیاب نہ ہوسکے ۔ پروفیسر ایچ ار گب نے کتنا صحیح لکھا ہے:
تاریخ اسلام میں بارہا ایسے مواقع آئے کہ اسلام کے کلچر کا شدت سے مقابلہ کیا گیا ، لیکن بایں ہمہ وہ مغلوب نہ ہو سکا ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ صوفیا کا انداز فکر فورا اس کی مدد کو آ جاتا تھا اور اس کو اتنی قوت اور توانائی بخش دیتا تھا کہ کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہ کرسکتی تھی۔
(اسلامک کلچر مطبوعہ لندن)
صوفیا کرام کا ہاتھ ہمیشہ ملت کی نبض پر اور دماغ تجدید و احیا کی تدابیر سوچنے میں مصروف رہا ۔ مادیت کے سیلاب کو روکنے اور ذہنی انتشار کو ختم کرنے کا جو عظیم الشان کام اس جماعت نے سرانجام دیا وہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔
بلاشبہ ان بزرگوں نے جب کبھی قوم کا اخلاقی مزاج بگڑتا ہوا دیکھا تو اپنی تمام تر ذہنی اور عملی صلاحیتیں صحت مند عناصر کو ابھارنے میں صرف کردیں۔
حضرت خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کو جب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ نے دہلی میں تبلیغ و ہدایت کے منصب پر مامور فرمایا تو اس وقت حالات نہایت ہی نامساعد تھے ، سلطان التمش کی وفات ہوچکی تھی ، بڑے بڑے علما موقع سے فائدہ اٹھا کر میدانِ سیاست میں کود پڑے تھے ۔ لیکن حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے سیاسی بکھیڑوں سے بچ کر دینِ حق کی خاطر جو شاندار خدمات سر انجام دیں ، وہ آج بھی تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھی ہوئی نظر آتی ہیں۔
حضرت بابا صاحب دہلی میں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے سجادے پر بیٹھے تھے ، لیکن جب انہوں نے محسوس کیا کہ دارالسلطنت کا ماحول تبلغ و ترویج پر اثر انداز ہونے لگا ہے تو وہ دہلی چھوڑ کر ہانسی تشریف لے گئے ۔ بعض لوگوں نے اعتراض کیا کہ آپ کے پیر و مرشد نے یہی مقام آپ کو دیا تھا۔ اس پر آپ نے فرمایا “ میرے پیر نے جو نعمت مجھے عطا فرمائی وہ کسی خاص مقام سے وابستہ نہیں ہے“ (سیر الاولیا صفحہ 73)
حضرت بابا صاحب پہلے ہانسی اور بعد میں اجودھن تسریف لے گئے ۔ اجودھن پاک پتن کا پرانا نام ہے ۔ یہاں بابا صاحب نے اپنی تربیت خاس کے سانچے میں ڈھال کر جو لوگ تیا کئے ان میں شیخ جمال الدین ہانسوی ، شیخ بدر الدین اسحاق ، شیخ نظام الدین اولیا محبوب الہی ، شیخ علی احمد صابر کلیری اور شیخ عارف جیسے مردان حق شامل ہیں جو بابا ساحب کے مکتبِ صحبت سے فارغ ہونے کے بعد ملک کے طول و عرض میں پھیل گئے اور ہر طرف خدا کے دین کا بول بالا کردیا۔
بابا صاحب کا شجرہ نسب​
تمام تذکرہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت بابا صاحب رحمۃ اللہ علیہ صحیح النسل فاروقی ہیں ۔ حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے ان کا سلسلہ نسب اس طرح مل جاتا ہے؛
1۔حضرت شیخ جمال الدین سلیمان (والد)
2۔ شیخ شعیب
3۔ شیخ احمد
4۔ شیخ یوسف
5۔ شیخ محمد
6۔ شیخ شہاب الدین
7۔ شیخ احمد ( معروف بہ فرخ شاہ بادشاہ کابل )
8۔ شیخ نصیر الدین
9۔ محمود شاہ
10۔ سامان شاہ
11۔ شیخ شلیمان
12۔ شیخ مسعود
13۔ شیخ عبداللہ واعظ الاکبر
14۔ شیخ ابوالفتح
15۔ شیخ اسحاق
16۔ حضرت خواجہ ابراہیم شاہ بلخ
17۔ خواجہ ادھم
18۔ شیخ سلیمان
19۔ شیخ ناصر
20۔ حضرت عبداللہ
21۔ امیر المومنین حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ؛
 

الف نظامی

لائبریرین
والدین کریمین​
بابا صاحب کے دادا حضرت شیخ شعیب کو اللہ تعالی نے تین فرزند عنایت فرمائے
1۔ خواجہ جمال الدین سلیمان
2۔ خواجہ احمد
3۔ خواجہ سعد حاجی
خواجہ جمال الدین سلیمان حضرت بابا صاحب کے والد تھے جو نہایت عالم و فاضل اور دیندار بزرگ تھے ۔ جن دنوں خواجہ شعیب کھتوال میں سکونت پذیر تھے ، انہی دنوں نواحِ کابل سے ایک خاندان ہجرت کرکے قصبہ کوٹ کروڑ (نواح ملتان) اقامت گزیں ہوا ۔ اس خاندان کے سربراہ مولانا وجیہہ الدین خجوندی تھے ، جو متبحر عالم اور نہایت متقی بزرگ تھے ۔ ان کا سلسلہ نسب حضرت عباس بن عبدالمطلب سے ملتا تھا ۔ ان کی صاحبزادی قرسم خاتون تھیں ۔ خواجہ شعیب نے مولانا وجیہہ الدین خجوندی سے اپنے فرزند خواجہ سلیمان کے لیے بی بی قرسم خاتون کے رشتے کی درخواست کی ۔ مولانا خجوندی فورا رضامند ہوگئے ۔ اس طرح خواجہ سلیمان اور بی بی قرسم خاتون کا عقد عمل میں آیا۔
خواجہ سلیمان کی طرح حضرت بی بی قرسم خاتون بھی نہایت عبادت گزار اور شب زندہ دار خاتون تھیں۔ اکثر تذکرہ نگاروں نے لکھا کہ وہ کثرتِ عبادت کی بدولت درجہ ولایت پر فائز تھیں۔
حضرت خواجہ نظام الدین اولیا محبوب اولہی فرماتے ہیں کہ ایک رات بی بی قرسم خاتون نماز تہجد میں مشغول تھیں کہ ایک چور گھر میں گھس آیا۔ جونہی بی بی صاحبہ کی نظر اس پر پڑی تو وہ بینائی سے محروم ہوگیا ۔ اس پر اس نے گریہ وزاری شروع کردی اور کہنے لگا کہ جس نیک بخت کی بددعا سے میری بینائی سلب ہوئی ہے میں اس سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر میری بینائی دوبارہ مجھے جائے تو میں عمر بھر چوری نہ کروں گا۔
بی بی صاحبہ کو اس کی فریاد اور گریہ زاری پر ترس آگیا اور انہوں نے بارگاہ الہی میں اس کی بینائی کے لیے دعا کی۔ چور کی بصارت عود کر آئی۔ اس وقت بی بی صاحبہ کے قدموں میں گر کر معافی اور رخصت ہوگیا۔
اگلی صبح وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ حاضر خدمت ہوا اور اہل و عیال سمیت مشرف باسلام ہوگیا ۔ حضرت بی بی صاحبہ نے اس کا اسلامی نام عبداللہ رکھا۔ عبد اللہ قبول اسلام کے بعد کثرت مجاہدات و ریاضات کی بدولت درجہ ولایت پر پہنچا اور اسے خاندانِ خواجہ شعیب کی طرف سے “چاولے مشائخ“ کا لقب عطا ہوا۔ بعد میں قصبہ کھتوال اسی کے نام سے “چاولے مشائخ“ سے مشہور ہوگیا۔
حضرت خواجہ شعیب اور خواجہ سلیمان کو اللہ تعالی نے تین فرزند اور ایک صاحبزادی عطا فرمائی جن کے نام یہ ہیں
1۔ حضرت عزیز الدین رحمۃ اللہ علیہ
2۔ بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ
3۔ حضرت نجیب الدین متوکل
4۔ حضرت بی بی ہاجرہ ملقب بہ جمیلہ خاتون (والدہ ماجدہ حضرت مخدوم سید علاوالدین علی احمد صابر کلیری)
 

الف نظامی

لائبریرین
ابتدائی تعلیم​
حضرت بابا صاحب رحمۃ اللہ علیہ ابھی کم سن تھے کہ ان کے والد ماجد نے وفات پائی اور ان کی تعلیم و تربیت کی ساری ذمہ داری ان کی والدہ محترمہ کے سر پر آ پڑی ۔ وہ خود علم و فضل کے اعتبار سے بلند مقام رکتی تھیں ۔ انہوں نے نہایت توجہ سے اپنے لخت جگر کی پرورش اور تربیت کی ۔ بابا صاحب نے ابتدائی تعلیم کھتوال سے حاصل کی ۔ نہایت ذہین اور محنتی تھے ۔ جو سبق ایک دفعہ پڑھ لیتے ہمیشہ کے لیے ذہن نشین ہوجاتا۔
بابا صاحب بچپن میں ہی نہایت اعلی اخلاق کے مالک تھے۔ بدتمیز اور شرارتی بچوں کے ساتھ نہ کھیلتے ۔ انکی والدہ کی تربیت کا یہ عالم تھا کہ کم سنی میں ہی نماز کے سخت پابند ہوگئے تھے۔ سات سال کی عمر میں انہوں نے تمام ابتدائی دینی کتب ختم کرلیں تو والدہ کو ان کی مزید تعلیم کی فکر ہوئی۔ کھتوال میں کوئی ایسا عالم نہ تھا جو آپ کو علوم متداولہ کی تکمیل کراسکتا۔ ملتان ان دنوں علم و دانش کا مرکز تھا ، وہاں بڑے بڑے نامور علما موجود تھے ، چناچہ بابا صاحب کی والدہ نے انہیں مزید تعلیم کے لیے ملتان بھیج دیا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ملتان میں قیام​
ملتان پہنچ کر آپ نے ایک مسجد میں قیام کیا۔ یہ مسجد ایک سرائے میں واقع تھی ، جہاں اس دور کے ایک نامور عالمِ دین مولانا منہاج الدین ترمذی درس دیا کرتے تھے۔ بابا صاحب نے انہی سے علوم دینہ کی تعلیم شروع کی اور دو تین سال کے اندر اندر تفسیر ، حدیث ، اصول ، معانی ، فلسفہ ، منطق ، ریاضی اور ہیئت کی کتابیں ختم کرلیں ۔ ایک روایت ہے کہ انہوں نے قرآن مجید بھی اسی مسجد میں حفظ کیا (بعض تذکرہ نگاروں کے مطابق قرآن حکیم بابا صاحب نے کھتوال ہی میں حفظ کرلیا تھا)۔
اسی مسجد میں ایک روز بابا صاحب فقہ کی مشہور کتاب نافع پڑھ رہے تھے کہ قطب عالم حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ وہاں تشریف لائے ۔ انہوں نے بابا صاحب کو مصروف مطالعہ پا کر پوچھا ؛ میاں ! کیا پڑھتے ہو؟
آپ نے جواب دیا نافع! حضرت نے پھر سوال کیا : کیا اس کے مطالعہ سے تمہیں کچھ نفع حاصل ہوگا؟
اب جو بابا صاحب کی قطب عالم سے نظریں چار ہوئیں تو عجیب کیفیت ہوئی ، فورا قدموں پر سر رکھ دیا اور عرض کیا : حضرت نفع تو مجھے آپکی نگاہِ کیمیا اثر سے حاصل ہوگا!
اب کیا تھا ۔ بابا صاحب حضرت خواجہ قطب صاحب کے دامن دولت سے وابستہ ہوگئے۔ حضرت قطب صاحب جتنے روز ملتان مقیم رہے بابا صاحب ان کی صحبت سے مستفیذ ہوتے رہے ، جب قطب صاحب دہلی کے لئے روانہ ہونے لگے تو بابا صاحب بھی ان کے ساتھ چل دیئے ۔ ابھی چند میل ہی چلے ہوں گے کہ قطب صاحب نے ارشاد فرمایا:
“میرے عزیر! ابھی کچھ مدت اور علم ظاہری کی تحصیل میں صرف کرو۔ فارغ ہوجاو تو میرے پاس آجانا۔ ان شااللہ اپنی مراد کو پہنچو گے“ بابا صاحب نے پیر و مرشد کے اس ارشاد کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیا۔
ملتان سے تکمیلِ علوم کے بعد انہوں نے مزید پانچ سال تعلیم کے لیے خطہ قندھار ، غزنی ، بغداد ، سیوستان اور بدخشاں وغیرہ میں گزارے اور پھر دہلی میں آئے۔ جہاں حضرت قطب صاحب کے آستانے پر حاضری دی۔ قطب صاحب نے فرمایا : “ خوب ہوا۔ تم اپنا کام پورا کرکے میرے پاس آئے“
 

الف نظامی

لائبریرین
بعض تذکروں میں یہ بھی ہے کہ بابا صاحب نے دہلی آ کر حضرت قطب صاحب کی بیعت کی۔ خود “ فوائد السالکین“ میں بابا صاحب نے اپنی بیعت کا واقعہ اس طرح سے بیان کیا ہے ؛
جب اس بندہ حقیر خادمِ درویشاں کو حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کی نعمتِ قدمبوسی حاصل ہوئی ، تو آپ نے اسی وقت کلاہ چہار ترکی میرے سر پر رکھی۔ اس مجلس میں قاضی حمید الدین ناگوری رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا علاوالدین کرمانی ، سید نور الدین مبارک رحمۃ اللہ علیہ ، شیخ نظام الدین الموید ، مولانا شمش الدین ترک رحمۃ اللہ علیہ ، شیخ محمود موئنہ دوز اور بہت سے دوسرے درویش موجود تھے۔ اسی موقع پر حضرت خواجہ بختیار کاکی نے فرمایا : “اے فرید! مرشد میں اتنی قوت باطنی ضرور ہونی چاہیے کہ جو شخص اس سے بیعت کا طالب ہو اس کے سینے کی آلائش کو اپنے تصرفِ روحانی سے ایک ہی نگاہ میں دور کردے اور اس کے بعد اس سے بیعت لے کر واصل الی اللہ کردے۔ اگر مرشد میں اتنی قوت نہیں تو پیر اور مرید دونوں بادیہ ضلالت میں ہیں“
بعض تذکرہ نگاروں نے قیاسا لکھا ہے کہ قطب صاحب نے ملتان میں بابا صاحب سے رسمی بیعت لی اور جب وہ تعلیم و سیاحت سے فارغ ہوکر دہلی آئے تو ان کے سر پر کلاہ چہار ترکی رکھی اور باقاعدہ اپنے حلقہ ارادت میں شامل فرمایا۔
بابا صاحب نے دیکھا کہ دہلی میں ہجوم مرداں کی وجہ سے یکسوئی میسر نہیں تو مرشدِ کامل کی اجازت سے ہانسی چلے گئے ، لیکن وہاں سے دہلی آتے جاتے رہے۔
ایک دفعہ آپ دہلی آئے تو خواجہ خواجگاں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ بھی تشریف فرما تھے ۔ چناچہ آپ ان کی توجہ سے فیض یاب ہوئے۔ “سیر العارفین“ میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ اجمیری رحمۃ اللہ علیہ بابا صاحب کے ذوق و شوق اور روحانی استعداد سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے ان کے پیر و مرشد اور اپنے مرید و خلیفہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی سے فرمایا :
“بابا بختیار! شہباز عظیم بقید آوردہ کہ جز بہ سدرۃ المنتہے آشیاں نگیرد۔ این فرید شمعیست کہ خانوادہ درویشاں منور سازد“ (سیر العارفین صفحہ 23)
 

الف نظامی

لائبریرین
گنج شکر​
گنج شکر کی وجہ تسمیہ کے بارے میں تذکرہ نگاروں نے مختلف روایات لکھی ہیں یہاں پر صرف تین روایتیں درج کی جاتی ہیں۔
تاریخ فرشتہ میں مرقوم ہے کہ بابا صاحب کی والدہ ماجدہ بچپن میں نماز کی پابندی کرانے کے لئے ان کی جا نماز کے نیچے شکر کی پڑیا رکھ دیا کرتی تھیں اور ان سے فرماتی تھیں کہ جو نماز پڑھتے ہیں ، ان کی جا نماز کے نیچے سے روزانہ انکو شکر مل جاتی ہے ۔ ایک دن ایسا ہوا کہ والدہ شکر کی پڑیا رکھنا بھول گئیں۔ کچھ دیر بعد انہیں یاد آیا تو گھبرا کر پوچھا : مسعود ! تم نے نماز پڑھی؟ بابا صاحب نے ادب سے جواب دیا : ہاں امی جان ! نماز پڑھ لی اور شکر بھی کھا لی ۔ یہ جواب سن کر انکی والدہ بڑی حیران ہوئیں اور سمجھ گئیں کہ اس بچے کی غیب سے مدد ہوئی ہے ۔ چناچہ اس وقت سے انہوں نے اپنے بچے مسعود کو گنج شکر کہنا شروع کردیا۔
اخبار الاخیار ، خزینۃ الاصفیا اور گلزار ابرار میں لکھا ہے کہ ایک سوداگر گاڑی پر شکر لاد کر ملتان سے دہلی جا رہا تھا ، جب اجودھن پہنچا تو راستے میں حضرت شیخ کھڑے تھے آپ نے اس سے پوچھا کہ اس میں کیا لدا ہوا ہے؟ سوداگر نے ٹالنے کے لیے کہا: نمک ہے بابا اس ہر آپ نے فرمایا : اچھا نمک ہی ہوگا ۔ سوداگر نے منزل پر پہنچ کر جب دیکھا تو بوروں میں شکر کے بجائے نمک تھا۔ بہت پریشان ہوا اور پھر واپس منزل اجودھن حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور معافی طلب کی ۔ آپ نے فرمیا : جھوٹ بولنا بری بات ہے ۔ آئندہ کبھی جھوٹ نہ بولنا۔ پھر فرمایا : بوروں میں شکر تھی تو ان شا اللہ شکر ہی ہوگی۔
سوداگر نے جھوٹ سے توبہ کی اور جاکر بوروں کو دیکھا تو ان میں شکر بھری ہوئی تھی۔ بیرم خان خانخاناں نے اس واقعہ کو اس طرح نظم کیا ہے
کانِ نمک ، جہانِ شکر ۔ شیخ بحر و بر
آں کز شکر نمک کند داز نمک شکر
تیسری روایت اس طرح سے ہے کہ :
ایک دفعہ بابا صاحب نے اپنے پیر و مرشد حضرت قطب صاحب کے ارشاد کے مطابق تین دن کا روزہ رکھا ۔ تیسرے روز افطار کے وقت ایک شخص چند روٹیاں لایا۔ آپ نے غیبی امداد سمجھ کر ان سے روزہ افطار کرلیا۔ لیکن فورا ہی متلی ہونے لگی اور جو کچھ کھایا تھا قے کے ذریعے نکل گیا۔
تھوڑی دیر بعد پیر و مرشد کی خدمت میں پہنچ کر یہ واقعہ عرض کیا ۔ انہوں نے فرمایا وہ روٹیاں ایک شرابی جواری نے بھجوائی تھیں ۔ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ تیرے معدے نے اسے قبول نہیں کیا ۔ اب تین روزے اور رکھواور جو غیب سے میسر آئے اس سے افطار کرو۔
بابا صاحب نے تین دن کا روزہ رکھا ۔ لیکن تیسرے روز افطار کے وقت کچھ میسر نہ آیا ۔ رات کو بھوک نے بہت ستایا تو بابا صاحب نے چند کنکریاں اٹھا کر منہ میں رکھ لیں ۔ اللہ کی قدرت کہ وہ کنکریاں منہ میں جاتے ہی شکر بن گئیں۔ بابا صاحب نے یہ واقعہ اپنے مرشد کریم کی خدمت میں بیان کیا تو انہوں نے فرمایا:
“سبحان اللہ ، یہی غیب سے تھا ۔ ان شا اللہ تو شکر کی طرح ہمیشہ شیریں رہے گا اور گنج شکر کہلائے گا“
جعفر قاسمی نے اس ضمن میں بڑی اچھی بات لکھی ہے کہ حضرت بابا صاحب کو گنجِ شکر اس لئے بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا مزاج بہت میٹھا تھا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
مسندِ خلافت پر فائز ہونے کے بعد بابا صاحب پیر و مرشد کی اجازر ہانسی شریف تشریف لے گئے اور ہمہ وقت تبلیغ اسلام اور خدمت خلق میں مصروف رہنے لگے۔ آپ کو ہانسی میں آئے ابھی تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ ایک رات خواب میں دیکھا کہ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوگیا ہے۔ بیدار ہوتے ہی دہلی روانہ ہوگئے ۔
دہلی میں معلوم ہوا کہ پیر و مرشد نے وصال سے قبل اپنا خرقہ ، عصا، نعلین ، مصلی اور دیگر تبرکات حضرت قاضی حمید الدین ناگوری رحمۃ اللہ علیہ کے سپرد کیے اور وصیت کی کہ میرا جانشین فرید الدین مسعود ہوگا اور یہ سب تبرکات اسی کو دے دیے جائیں۔
بابا صاحب نے پیر و مرشد کے مزار اقدس پر حاضری دی ۔ بعد ازاں حضرت قظب صاحب کے سب خلفا اور ارباب صحبت جو دہلی میں موجود تھے جمع ہوئے اور سب نے حضرت بابا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو قطب عالم کا جانشین تسلیم کیا۔ اسی محفل میں تمام تبرکات بابا صاحب کے سپرد کیے گئے۔
دہلی میں بابا صاحب نے اپنے مرشد گرامی کی خانقاہ میں قیام فرمایا۔ رات دن عبادت الہی میں مشغول رہتے اور صرف نماز جمعہ کے لیے حجرہ سے باہر تشریف لاتے۔ ایک جمعہ کو حجرہ سے باہر نکلے تو دیکھا کہ ایک درویش باہر کھڑا ہے اس نے بابا صاحب کا دامن پکڑ لیا اور عرض کیا " شیخ عالم ! ہانسی کے لوگ آپ کی جدائی میں ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے ہیں، کرم فرمائیے اور ہانسی کو پھر اپنے قدوم میمنت لزوم سے مشرف فرمائیے"
بابا صاحب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے ہانسی جانے کے اپنے ارادے کا اظہار کیا۔ اس سے لوگوں میں سخت اضطراب پیدا ہوا اور انہوں نے آپ سے دہلی ہی میں قیام کرنے کی درخواست کی ۔ لیکن بابا صاحب نے فرمایا:
"دہلی کی نسبت ہانسی کو میری زیادہ ضرورت ہے ۔ اس لیے میرا وہاں جانا ضروری ہے"
یہ سن کر لوگ خاموش ہوگئے اور بابا صاحب ہانسی تشریف لے گئے۔
ہانسی میں ایک مدت تک قیام فرما رہے ۔ وہاں کے لوگوں نے بابا صاحب کے وجود مسعود سے خوب خوب فیض اٹھایا ۔ شیخ جمال الدین ہانسوی عرصہ سے وہاں مجاہدہ اور ریاضت میں مشغول تھے ۔ بابا صاحب نے اپنی باطنی توجہ سے انہیں درجہ کمال تک پہنچا دیا اور جب ہجوم خلق حد درجہ بڑھا تو شیخ جمال الدین ہانسوی کو اپنی سند خلافت دیکر انہیں ہانسی میں ٹھہرنے کی ہدایت فرمائی اور خود اجودھن (پاک پتن ) کی طرف چل پڑے جہاں کفر و شرک میں ڈوبی ہوئی مخلوق کا یہ علاقہ مدت سے باران رحمت کا منتظر تھا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
بابا صاحب پاک پتن میں​
ہانسی سے بابا صاحب کھتوال پہنچے اور اپنی والدہ ماجدہ کی خدمت میں رہنے لگے ، لیکن خلقت کا یہ عالم تھا کی ہر طرف سے ٹوٹی پڑتی تھی۔آپ طبعا عزلت پسند تھے ۔ جب ہجوم خلق سے بیزار ہوگئے تو ایک روز والدہ صاحبہ سے اجازت لے کر کھتوال سے چل پڑے ۔پھرتے پھراتے ایک غیر معروف قصبہ اجودھن میں پہنچے۔ اجودھن ان دنوں جنگلوں سے گھرا ہوا اور حشرات الارض کا دل پسند مسکن تھا۔ قصبہ کے اطراف میں دور دور تک کفار اور مشرکین کی بستیاں تھیں۔
بابا صاحب نے اپنے قیام کے لیے اس جگہ کو پسند فرمایا۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک شب خواب میں آپ کے مرشد گرامی حضرت قطب العالم رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ فرید! اس قصبہ میں مستقل طور پر اقامت اختیار کرلو اور مخلوق خدا کو راہ حق کی طرف بلاو۔
غرض اجودھن سے باہر مغرب کی سمت کریر کے ایک درخت کے نیچے بابا صاحب نے اپنا مصلی بچھایا اور یاد الہی میں مشغول ہوگئے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
مخالفت​
بابا صاحب کی شبانہ روز کوشش سے جب اجودھن کے در و دیوار جب قال اللہ و قال الرسول سے گونجنے لگے اور ہر طرف مسلمانوں کی چہل پہل ہوگئی تو بعض کوتاہ اندیش محض حسد و بعض کی وجہ سے بابا صاحب کی مخالفت کرنے لگے۔ ان مخالفوں میں سب سے پیش پیش اجودھن کی مسجد کا پیش امام اور قاضی تھا۔ جس نے پہلے تو حکومت کے کارندوں کو بابا صاحب کو ستانے پر اکسایا اور جب اس سے اس کا جی نہ بھرا تو بابا صاحب کے ذوق سماع پر طرح طرح کے اعتراضات کرنے لگا۔
ادھر بابا صاحب کی وسیع القلبی کا یہ عالم تھا کہ وہ مخالفوں کی حرکات کو مطلق خاطر میں نہ لاتے تھے اور اپنا دل میلا نہ کرتے تھے۔بابا صاحب کی اس شانِ بے اعتنائی سے قاضی کا غصہ اور بھڑک اٹھا اور اس نے سماع کے جواز اور عدم جواز کے مسلہ کی آڑ میں بابا صاحب کے خلاف سازشیں شروع کردیں۔ اس نے ملتان کے علما سے آپ کے خلاف فتوی حاصل کرنے کی کوشش کی اور اپنے ایک خط میں علمائے ملتان سے استفسار کیا کہ ایک شخص جو اہل علم میں سے ہے ۔ قوالی سنتا ہے اور وجد کرتا ہے ۔ اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
علمائے ملتان نے قاضی کو تحریر کیا کہ اس شخص کا نام لکھو۔ قاضی نے بابا صاحب کا نام لکھ بھیجا۔ علمائے ملتان نے حضرت کے خلاف فتوی جاری کرنے سے صاف انکار کردیا اور قاضی کو لکھا کہ تم نے ایک ایسے درویش خدا مست کا نام لکھا ہے جو تمام علوم شریعت کا منتہی ہے ۔ ہماری کیا مجال کہ اس کے قول و فعل پر اعتراض کریں۔
قاضی کا یہ حربہ ناکام ہوا تو اس نے ایک آوارہ گرد لالچی قلندر کو بابا صاحب کے قتل پر آمادہ کیا۔ یہ شخص کپڑوں کے نیچے اپنی کمر میں ایک تیز دھار چھرا چھپا کر آپ کے آستانے پر پہنچا۔ بابا صاحب اس وقت عبادت میں مشغول تھے اور سجدہ میں پڑے ہوئے تھے ۔ صرف سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ آپ کے پاس موجود تھے۔ بابا صاحب نے حالت سجدہ ہی میں فرمایا:
"یہاں کوئی موجود ہے"
حضرت سلطان المشائخ نے جواب دیا:
"آپ کا غلام نظام الدین حاضر ہے"
بابا صاحب نے فرمایا: یہاں ایک قلندر کھڑا ہے جو کانوں میں سفید رنگ کے مندرے پہنے ہوئے ہے۔
سلطان المشائخ نے اثبات میں جواب دیا تو بابا صاحب نے فرمایا:
"اس شخص کی کمر کے ساتھ چھرا بندھا ہے اور یہ میرے قتل کے ارادے سے آیا ہے اور اس سے کہدو کہ اپنی عاقبت خراب نہ کرئے اور یہاں سے چلا جائے"
اس سوال و جواب سے قلندر پر ایسی دہشت طاری ہوئی کہ وہ بھاگ اٹھا اور سیدھا قاضی کے پاس جاکر دم لیا اور اسے کہا : " ایسے مرد خدا کو قتل کرنا میرے بس میں نہیں"
اب قاضی نے ایک پٹواری کو اکسایا ۔ جس نے بابا صاحب کے فرزندوں کو ناحق ستانا شروع کیا۔ جب اس کا ظلم حد سے بڑھ گیا تو صاحبزادوں نے بابا صاحب سے فریاد کی بابا صاحب جلال میں آگئے اور اپنا عصا زور سے زمین پر پٹکا اور فرمایا :
"اب وہ تمہیں تنگ نہیں کرئے گا"
اسی وقت ظالم پٹواری کے پیٹ میں درد اٹھا ۔ اسے بابا صاحب کے فرزندوں پر اپنی زیادتیاں یاد آئیں۔ اس نے لوگوں سے کہا ، مجھے بابا صاحب کی خدمت میں لے چلو لوگ اسے چارپائی پر ڈال کر بابا صاحب کی خدمت میں لارہے تھے کہ راسے ہی میں اس کا انتقال ہوگیا۔
اللہ تعالی نے آپ کے خلاف قاضی کی تمام سازشوں کو ناکام بنا دیا اور رفتہ رفتہ آپ کے تمام دشمن اور حاسد خائب و خاسر ہوکر بیٹھ گئے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
مریدوں کی تربیت​
ایک روز مولانا جمال الدین ہانسوی جنگل سے ڈیلے اور مولانا بدر الدین اسحاق لکڑیاں لائے۔ حضرت سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیا نے انکو ابالنے کے لیے چولہے پر چڑھا دیا۔ اتفاق سے اس روز لنگر خانے میں نمک موجود نہ تھا۔ سلطان المشائخ بازار جاکر بقال سے نمک قرض لائے اور ڈیلوں میں ڈالا۔ جس وقت دسترخوان بچھایا گیا اور سب فقرا جمع ہوگئے، تو دعا پڑھنے کے بعد حضرت بابا صاحب نے لقمہ اٹھایا مگر فورا ہی واپس رکھ دیا اور فرمایا :
"لقمہ گراں ہے ، کوئی شبہ والی بات معلوم ہوتی ہے"
یہ سن کر حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کھڑے ہوگئے اور عرض کیا : حضور ! لکڑیاں تو حضرت مولانا سید بدر الدین اسحاق لائے ہیں اور ڈیلے مولانا جمال الدین لائے ہیں ، پانی مولانا حسام الدین نے بھرا ہے اور ان کو جوش میں نے دیا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ لقمہ کس سبب سے گراں ہے۔
حضرت بابا صاحب نے ایک لمحہ تامل کے بعد فرمایا:
"نمک کہاں سے آیا؟"
اتنا سننا تھا کہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا حیران رہ گئے اور ہاتھ جوڑ کر عرض کیا:
حضور کی ذات کاشفِ حالات ہے ۔ یہ خطا مجھ سے سرزد ہوئی ہے ۔ یہ ڈیلے کڑوے کسیلے ہوتے ہیں ، اگر ان میں نمک نہ ہو تو پھر یہ کیسے کھائے جائیں گے ۔ محض اس خیال سے میں نے اس میں نمک قرض لے کر ڈال دیا ہے۔ حضرت نے یہ سن کر فرمایا: اچھا اب اس کھانے کو دوسرے فقرا میں تقسیم کردو اور پھر فرمایا: "نظام الدین! درویشاں اگر بفاقہ بمیرند برائے لذت نفس قرض نہ گیرند"
حضرت سلطان المشائخ نے اسی وقت دل میں عہد کیا کہ آئندہ تمام عمر قرض نہیں لوں گا۔ بابا صاحب نے انکی طرف دیکھا اور فرمایا : ان شااللہ آئندہ تم کو قرض لینے کی ضرورت بھی نہ پڑے گی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
تنگ دستی کا علاج​
حضرت بابا صاحب کے پاس کوئی شخص دینی یا دنیاوی مشکل لے کر آتا تو وہ اسے کتاب و سنت کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتے۔ عام طور پر صبر کی تلقین فرماتے اور نماز پڑھنے کی ہدایت فرماتے۔ ایک روز ایک شخص نے حاضر خدمت ہوکر عرض کی کہ یا حضرت! میں بیحد تنگ دست ہوں۔ گھر میں عام طور فاقوں کی نوبت آجاتی ہے۔ آپ نے اسکے لیے دعا فرمائی اور پھر اسے ہدایت کی کہ ہر روز رات کو سنے سے پہلے سورہ جمعہ بڑھ لیا کرو۔
 

الف نظامی

لائبریرین
بلبن کے نام خط​
ایک بار پاکپتن میں کوئی ضرورت مند بابا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی : حضور! بادشاہ کے نام ایک سفارشی خط لکھ دیجیے تاکہ میرا کام بن جائے ۔آپ نے فرمایا کہ کام کرنے والا تو صرف اللہ تعالی ہے ۔ میں تمہارے لیے دعا کرتا ہوں ۔ اس نے خط لکھنے کے لیے اصرار کیا تو حضرت بابا صاحب نے سلطان بلبن کے نام یہ خط لکھ کر دے دیا
میں نے اس شخص کی ضرورت کو اللہ تعالی کے سامنے پیش کیا ۔ پھر تیرے پاس بھیج دیا۔ اگر تو اس کو کچھ دے گا تو دَین اللہ تعالی کی ہوگی اور یہ تیرا شکر گزار ہوگا اور اگر کچھ نہ دے گا تو روک اللہ کی طرف سے ہوگی اور تو معذور سمجھا جائے گا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
غوث بہاوالحق سے تعلق​
حضرت شیخ الاسلام بہاوالحق زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت بابا صاحب کے درمیان بہت محبت تھی ۔ بابا صاحب جب بھی انہیں خط تحریر فرماتے تو شیخ الاسلام بہاوالحق زکریا ملتانی لکھتے ۔ ایک دفعہ لوگوں نے پوچھا آپ جب بھی حضرت کا نام لیتے ہیں تو شیخ الاسلام ضرور کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے لوح محفوظ پر ان کے نام نامی کے ساتھ شیخ الاسلام لکھا ہوا دیکھا ہے (سیر الاولیا ص 82)
ایک دفعہ حضرت شیخ الاسلام بہاوالحق زکریا ملتانی نے بابا صاحب کو خط لکھا جس میں تحریر فرمایا کہ میرے تمہارے درمیان عشق بازی ہے۔ بابا صاحب نے جواب میں لکھا کہ میرے اور آپ کے درمیان عشق تو ہے مگر بازی نہیں ہے (سیر العارفین ص 54)
 

الف نظامی

لائبریرین
بزرگوں کی روش​
حضرت شیخ بدر الدین غزنوی آپ کے پیر بھائی تھے۔ دہلی میں ملک نظام الدین خریطہ دار نے ان کے لیے ایک خانقاہ بنوا دی تھی جہاں ان کے آرام و آسائس کا سارا سامان بہم پہنچایا تھا۔ ایک دفعہ ملک نظام الدین زر کثیر کے غبن میں ماخوذ ہوا جس سے شیخ بدر الدین کے آرام میں بھی خلل پڑنا شروع ہوا۔ ان حالات میں انہوں نے بابا صاحب کی خدمت میں درد بھرا خط لکھا اور سارے حالات بیان کیے اور دعا کی درخواست کی
فرید الدین و ملت یار زیرک
کہ بادش در کرامت زندگانی
دریغا خاطرم گر جمع داری
بمدحش کردمے گوہر فشانی​
بابا صاحب نے یہ خط پڑھا تو جواب میں تحریر فرمایا:
“ عزیز الوجود کا رقعہ ملا اور جو کچھ اس میں درج تھا ، اس سے آگاہی ہوئی۔ جو کوئی اپنے بزرگوں کی روش پر نہ چلے گا ، ضرور ہے کہ اسے اس طرح کا ماجرا پیش آئے اور وہ غم و الم سے دوچار ہو۔ آخر ہمارے پیران عظام میں سے کون تھا جس نے اپنے لیے خانقاہ بنوائی اور اس میں جلوس فرمایا “ ( سیر العارفین ص 51)
 

الف نظامی

لائبریرین
ذوق سماع​
ایک روز حضرت بابا صاحب کو سماع کا ذوق ہوا۔ اتفاق سے اس وقت کوئی قوال موجود نہ تھا۔ آپ نے مولانا بدر الدین اسحاق سے فرمایا کہ وہ خط جو قاضی حمید الدین ناگوری رحمۃ اللہ علیہ نے بھیجا ہے ، لاو اور سناو ۔ مولانا کھڑے ہوئے اور خط پڑھنا شروع کیا۔ اس میں حمد و نعت کے بعد تحریر تھا :
فقیر ، حقیر ، نحیف ، ضعیف ، بندہ درویشاں در دیدہ خاکپائے ایشاں محمد عطا المعروف حمید الدین ناگوری۔
اتنا سننا تھا کہ بابا صاحب پر کیفیت طاری ہوگئی اور مولانا نے خط کی یہ رباعی پڑھی تو بابا صاحب پر وجد طاری ہوگیا:
آں عقل کجا کی در کمالے تو رسد
آّں روح کجا کی در جلال تو رسد
گیرم کہ پردہ گرفتی زجمال
آں دیدہ کجا کہ در جمال تو رسد​
اسی طرح ایک روز آپکو ذوق سماع ہوا اور آپ کی زبان پر مولانا نظامی کا یہ شعر آیا
نظامی آنچہ اسرار است کز خاطر عیاں کردی
کسے سرّش نمیداند زباب در کش زباں در کش​
اس شعر کو آپ تمام دن پڑھتے رہے ، پھر رات کو بھی یہی حال رہا اور دوسرے دن بھی۔
ایک روز سماع کی حرمت و حلت پر گفتگو ہورہی تھی تو فرمایا : سبحان اللہ ! کوئی جل کر راکھ ہوجائے اور دوسرے ابھی اختلاف ہی میں ہوں۔
ایک بار فرمایا : سماع انہی لوگوں کے لیے جائز ہے جو اس میں ایسے مستغرق ہوں کہ ایک لاکھ تلواریں ان کے سر پر ماری جائیں یا ایک ہزار فرشتے ان کے کان میں کچھ کہیں تو بھی ان کو خبر نہ ہو۔
 

الف نظامی

لائبریرین
وصال​
ذوالحجہ 663 ھجری کے آخری دنوں میں بیماری نے شدت اختیار کی اور آپکو بے ہوشی کے دورے ہونے لگے۔ لیکن اس کے باوجود آپ کی کوئی نماز حتی کہ نفلی عبادت تک قضا نہ ہوئی اور وظائف و اوراد بھی وقت پر ادا ہوتے رہے۔ محرم 664 ھجری کی چار تاریخ کو دہلی سے آپ کے مخلص قدیم سید محمد کرمان پرسش احوال کے لیے پاک پتن آئے۔ حضرت بابا صاحب اس وقت حجرہ میں تھے اور دروازہ بند تھا۔ باہر صاحبزادگان اور چند مرید آپ کی جانشینی کے متعلق سرگوشیاں کررہے تھے۔ جیسے ہی ان حضرات نے سید محمد کرمان کو دیکھا تو کہا : اس وقت اندر نہ جانا ، حضرت کی طبیعت ناساز ہے ۔ سید صاحب باہر بیٹھے سوچتے رہے کہ میں دہلی سے چل کر آیا ہوں ، اگر یہ لوگ مجھے حضور کی قدم بوسی کرلینے دیں تو کیا حرج ہے آخر ان سے ضبط نہ ہوسکا اور وہ حجرے میں داخل ہوگئے اور بابا صاحب کے قدموں پر سر رکھ دیا ۔ آپ نے آنکھیں کھولیں اور پوچھا:
" سید کیا حال ہے "
عرض کیا : حضور کی دعا سے اچھا ہوں ، ابھی حاضر ہوا ہوں۔ اس کے بعد سید صاحب نے دہلی کے علما و مشائخ کے سلام عرض کیے ۔ آخر میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کا سلام عرض کیا۔ جیسے ہی بابا صاحب نے حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کا نام سنا تو خوش ہوکر پوچھا:
ان کا کیا حال ہے؟
عرض کیا: وہ ہروقت حضور کی یاد میں رہتے ہیں ۔ یہ سن کر بابا صاحب اور خوش ہوئے اور مولانا بدر الدین اسحاق سے فرمایا کہ جو تبرکات مجھے سلسلہ بہ سلسلہ اپنے حضرت سے پہنچے ہیں وہ نظام الدین محمد بدایونی کا حق ہے ، انکو پہنچا دینا۔
بعد ازاں نماز مغرب آپ کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی۔ عشا کی نماز آپ نے جماعت سے ادا کی ، پھر بے ہوش ہوگئے ۔ ہوش میں آنے کے بعد آپ نے سوال کیا : میں نے عشا کی نماز پڑھ لی ہے؟ عرض کی گئی جی ہاں۔ آپ نے فرمایا :
ایک مرتبہ پھر پڑھ لوں۔ دوبارہ نماز عشا ادا کی تو پھر بے ہوش ہوگئے۔ ہوش میں آنے پر پھر یہ سوال کیا ۔ کہا گیا: آپ دو مرتبہ عشا کی نماز ادا پڑھ چکے ہیں ، فرمایا: ایک دفعہ اور پڑھ لوں ، ممکن ہے پھر موقع نہ ملے۔ یہ فرما کر آپ نے عشا کی نماز مع وتر ادا کی اور پھر تازہ وضو کیا۔ اس کے بعد سجدہ کیا اورسجدہ ہی میں ایک مرتبہ زور سے یاحی یا قیوم کہا اور جاں جان آفریں کے سپرد کردی۔ اناللہ وانا الیہ راجعون
وصال سے چند منٹ پہلے پوچھا : نظام الدین دہلی سے آئے یا نہیں؟ کہا گیا ، جی نہیں۔ فرمایا کہ میں بھی اپنے شیخ کے انتقال کے وقت ان کے پاس موجود نہ تھا ، ہانسی میں تھا۔
حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کو اطلاع ہوئی تو وہ پاک پتن آئے ۔ حضرت بابا صاحب کا مزار شریف تعمیر کرایا اور اس اہتمام سے کہ ہر اینٹ پر ایک قرآن شریف ختم کیا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
معمولات​
بابا صاحب کا معمول تھا کہ وہ آنے والوں کی سہولت کے لیے اپنی خانقاہ آدھی رات تک کھلی رکھتے تھے۔ رات کا زیادہ حصہ عبادت میں گزارتے تھے اور سورج طلوع ہونے کے بعد بھی عبادت اور مراقبے میں مشغول رہتے تھے۔ طہارت و صفائی ان کی فطرت ثانیہ تھی ۔ ہر روز غسل فرماتے۔
صبح عبادت کے بعد دو گھنٹے تک طویل سجدہ کرتے اور اس دوران میں کبھی چپ چاپ دعا مانگتے اور کبھی اپنے خالق و مالک کی حمد و ثنا میں اشعار پڑھتے۔ کبھی تمام مخلوق کے لیے رحمت و بخشش کی دعائیں مانگتے اور بے حد گریہ و زاری کرتے۔ اس کے بعد دوپہر تک آنے والوں سے ملاقات کرتے ۔ پھر مختصر سےقیلولے کے بعد نماز ظہر ادا کرتے اور اس کے بعد خانقاہ کے مکینوں کی ضروریات پوری کرنے پر توجہ دیتے۔ ہر ایک سے اس کی خیریت دریافت فرماتے اور کسی کو کوئی تکلیف ہوتی تو فوار دور کرنے کی کوشش کرتے۔ ہر آنے والا ان تک رسائی حاصل کرسکتا تھا۔
 
Top