رات گئی بات گئی (جاوید چوہدری کا ایک کالم)

خرد اعوان

محفلین




رات گئی بات گئی
(جاوید چوہدری کا ایک کالم)​



“آپ بہت حسین ہیں “ اب پتا چلا ہے کہ امریکی عوام آپ کے کیوں دیوانے ہین “ اس فقرے کے جواب میں خاتون نے کہا “ ہائے آپ بھی کتنے اچھے ہیں ۔“ یہ صدر آسف علی زرداری اور سارا پیلن کے درمیان کا وہ مکالمہ ہے جس نے دونوں “رہنماؤں “ کو بین الاقوامی میڈیا کا ہاٹ کیک بنا دیا ‘ اس مکالمے کے آخر میں زرداری نے فوٹوگرافر کی بات پر فرمایا “ اگر اس کا اصرار جاری رہا تو میں انہیں گلے بھی لگا سکتا ہوں“ زرداری کا دورہ مکمل ہو چکا ہے لیکن ان مکالموں سے ابھی تک بھاپ اٹھ رہی ہے ۔ سارا پیلن ری پبلکن پارٹی کی طرف سے نائب صدارت کا الیکشن لڑ رہی ہیں ، وہ چوالیس برس کی خوبصورت سیاستدان ہیں ،وہ امریکی اسٹیٹ الاسکا کی گورنر ہیں ، پانچ بچوں کی ماں ہیں ، امریکہ میں “اینٹی ابارشن “ تحریک کی سرخیل ہیں ، انہوں نے ٹیلی ویژن پر خبریں پڑھنے سے اپنا کیرئر شروع کیا تھا اور جوانی میں انہوں نے مقابلہ حسن بھی جیتا تھا اور اس وقت وہ اپنی بے باک تقریروں کے باعث پوری طرح امریکی میڈیا پر چھائی ہوئی ہیں ۔ سارا پیلن نے پچیس ستمبر کو صدر پاکستان آصف عل؛ی زرداری سے ملاقات کی ‘ اس ملاقات میں آصف علی زرداری سارا کے حسن سے متاثر ہو گئے اور انہوں نے بڑی بے باکی سے سارا پیلن کی تعریف شروع کر دی ‘ اس تعریف کے دوران دونوں کے عالمی راہنماؤں کے درمیاں ان دلچسپ فقروں کا تبادلہ ہوا ‘ یہ فقرے آج کل پاکستانی اور غیر ملکی میڈیا با لخصوص ٹی وی چینلز پر بڑے تواتر سے دکھائے جا رہے ہیں اور لوگ چسکے لے لے کر یہ فقرے دہرا رہے ہیں ۔

اس واقعے کے بارے میں دو قسم کی آراء سامنے آرہی ہیں ۔ لبرل طبقوں کا خیال ہے امریکی کلچر میں اس قسم کی گفتگو کو “گڈول جیسچر“ سمجھا جاتا ہے اور اس سے فریقین کے درمیان ایک سفارتی قربت اور بے تکلفی پیدا ہوتی ہے جناچہ صدر آصف علی زرداری نے اس بے باکی کا مظاہرہ کرکے ری پبلکن پارٹی اور امریکی میڈیا کا دل چیت لیا جبکہ قدامت پسند طبقوں کا کہنا ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کو احتیاط کرنا چاہیے تھی ‘ انہیں کم از کم پاکستان کے امیج کا خیال ضرور رکھنا چاہیے تھا کیونکہ وہ امریکہ میں امریکی کلچر کی نمائندگی نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر ہیں اور صدر کی اس حرکت سے ہمارا سر شرم سے جھک گیا۔ وغیرہ وغیرہ ۔مجھے دونوں طبقوں کی رائے کا احترام ہے لیکن مجھے “سر شرم سے جھک گیا “ کے فقرے پر بہت اعتراض ہے کیونکہ اگر ہم اس خاص زاوئے سے اپنی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں نہایت دکھ سے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہمارے تاریخ ایسے بے شمار واقعات سے اٹی پڑی ہے اور اس قسم کے کسی بھی واقعے پر ماضی میں ہمارا سر شرم سے نہیں جھکا تھا مثلا آپ ملک غلام محمد کو لیجئے ، ملک غلام محمد پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل تھے ‘ ان کے دور میں ایک نوجوان سوئس خاتون مس روتھ بورل گورنر ہاؤس کی گورنس تھی ، ملک غلام محمد نے خصوصی طور پر اسے اپنی نگہداشت کے لیے امپورٹ کیا تھا ‘ ملک غلام محمد کو فالج ہو چکا تھا ‘ وہ سارا دن ویل چئیر پر پڑے رہتے تھے اور مس بورل اپنے رومال سے ان کی رالیں صاف کرتی رہتی تھی جبکہ گورنر جنرل اس کے ساتھ چہلیں کرتے رہتے تھے ، مس بورل کے ساتھ گورنر جنرل کی چہلوں کی بے شمار تصاویر اس زمانے کے اخبارات میں شائع ہوئیں لیکن ہمارا سر شرم سے نہیں جھکا ۔ سکندر مرزا پاکستان کے چوتھے گورنر جنرل اور پہلے صدر تھے ، وہ سرکاری کھانوں کے دوران نشے کے عالم میں خواتین کی ساڑھیوں کا پلو پکڑ کر گانا گانا شروع کر دیتے تھے ، یہ منظر بھی سینکڑوں ، ہزاروں لوگوں نے دیکھا تھا لیکن ہمارا سر شرم سے نہیں جھگا ۔ صدر جنرل یحیٰی خان پاکستانی تاریخ کے انتہائی متنازعہ کردار تھے ، حمود الرحمان رپورٹ میں صدر کی ذاتی زندگی کے ایسے ایسے گھناؤنے واقعات درج ہیں کہ انسان کو ان ہاتھوں سے بو آنے لگتی ہے جن سے اس نے یہ رپورٹ تھام رکھی ہوتی ہے ۔جنرل یحیٰی خان ایوان صدر سے برہنہ باہر آجاتے تھے ، وہ نشے کے عالم میں خواتین کے ساتھ کھلی گاڑی میں کھڑے ہوتے تھے اور پورے صدارتی پروٹوکول کے ساتھ اسلام آباد کی سڑکوں پر سیر کرتے تھے ، انہوں نے ایرانی شہنشاہیت کی ہزار سالہ تقریبات میں دنیا بھر کے حکمرانوں کے سامنے گملے میں پیشاب کر دیا تھا اور اسی تقریب میں انہوں نے مانٹی کارلو کی شہزادی گریس کیلی کے بازو پر ہاتھ پھیر کر ایسے شرمناک مکالمے بولے تھے کہ شہزادی گریس نے ان کا ہاتھ جھٹک دیا تھا ۔صدر محترم نے ایک بار پشاور کے گورنر ہاؤس میں جنرل رانی اور رفیق سہگل کو کمرے میں بند کرکے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے حکم جاری کیا تھا کہ جب تک جنرل رانی نہ کہے یہ کمرہ نہ کھولا جائے اور وہ ایک بار سندھ گورنر ہاؤس کے سوئمنگ پول سے نکل کر سیدھے سڑک پر آگئے تھے لیکن ہمارا سر شرم سے نہیں جھکا تھا ۔ جنرل ضیاء الحق بھارتی اداکارہ ہیما مالنی کے بہت بڑے فین تھے ، وہ ١٩٨٤ میں بھارت کے دورے پر گئے تھے تو انہوں نے ہیما مالنی سے ملاقات کی خواہش ظاہر کر دی تھی لیکن ہمارا سر شرم سے نہیں جھکا تھا ۔جناب الٰہی بخش سومرو اور گوہر ایوب نے اسپیکر قومی اسمبلی کی حثیت سے غیر ملکی خواتین کے ساتھ ڈانس بھی کیئے تھے ، بوسے بھی لیئے تھے اور جام صحت بھی نوش کیئے تھے اور وہ تصاویر بھی عالمی میڈیا پر شائع ہوئیں تھیں لیکن ہمارا سر شرم سے نہیں جھکا تھا ۔میاں نواز شریف بھارت کے سابق وزیر اعظم اندر کمار گجرال کو ٹیلی فون پر گانے سناتے تھے (یہ بات گجرال نے ١٩٩٩ میں ایک انٹرویو میں بھی کہی تھی لیکن میاں نواز شریف نے گزشتہ روز مجھے مدینہ منورہ سے فون کرکے اس کی تردید کردی )لیکن ہمارا سر شرم سے نہیں جھکا اور کمانڈر خلیل صوبہ سرحد کے گورنر تھے ، ان کے دور میں ہالی وڈ کی مشہور اداکارہ انجلینا جولی صوبہ سرحد کے دورے پر آئی ، گورنر صاحب نے اس کے حسن کی تعریف میں اپنی ساری انگریزی خرچ کر ڈالی تھی ، وزیر اعظم شوکت عزیز ان سے چند قدم آگے نکل گئے اور انہوں نے کونڈولیزارائس کی ٹانگوں کی تعریف کردی ۔کونڈولیزارائس نے اپنی کتاب میں اس واقعے پر پوری پاکستانی قوم کو شرمندہ کر دیا تھا لیکن ہمارا سر نہیں جھکا اور رہ گئے صدر پرویش مشرف تو انہوں نے اپنے دور میں قوم کو شرمندگی کے بے شمار موقع فراہم گئے تھے ۔ صدر پاکستان اپریل ٢٠٠٥ کو بھارت کے دورے پر گئے تھے ، بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے صدر مشرف کے اعزاز میں ڈنر دیا تو ہمارے صدر نے بھارتی وزیر اعظم سے درخواست کی کہ آپ بالی ووڈ کی اداکارہ رانی مکھر جی کو بھی بلا لیں ، رانی مکھر جی کھانے پر آئی تو نہ صرف ہمارے صدر نے اس سے ہاتھ ملایا بلکہ بڑی دیر تک اس کی تعریف بھی کرتے رہے ۔صدر مشرف ایشوریا رائے کے بھی بہت فین تھے ، صدر محترم کے ڈانس بھی بڑے مشہور تھے ، وہ سر پر گلاس رکھ کر رقص کیا کرتے تھے ، انہوں نے چودہ اگست کے موقع پر ہوری قوم کے سامنے ڈانس کیا تھا جبکہ ان کی محفل میں سی بی آر کے سابق چئیرمین عبداللہ یوسف اور شوکت عزیز بھی ڈانس کا مظاہرہ کرتے تھے لیکن ہمارے سر شرم سے نہیں جھکے ۔

سارا پیلن کا واقعہ شرمناک تھا لیکن ان قوموں کے لیے جن کی آنکھوں میں شرم باقی ہو جنکہ ہم لوگ ایک ایسے مقام میں رہ رہے ہیں جس میں تمام سیاستدان الف ننگے ہیں اور ہم نے اج تک کسی “ننگے بادشاہ“ کی برہنگی پر اعتراض نہیں کیا ، پاکستان کی تاریخ میں آج تک ہم نے کسی حکمران ، کسی لیڈر ، کسی وزیر ،مشیر ،سفیر حتٰی کہ کسی کونسلر تک کا محاسبہ نہیں کیا ۔پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس میں آج تک کسی سیاستدان نے کرپشن ، اختیارات سے تجاوز ، لوٹ کھسوٹ اور اخلاقی بد دیانتی کے جرم میں سزا نہیں پائی ، اگر کوئی قسمت کا مارا سیاستدان گرفتار بھی ہوا تو وہ نہ صرف عدالتوں سے باعزت بری ہو گیا بلکہ اس نے الیکشن بھی لڑا اور وہ دوبارہ اقتدار میں بھی آیا چنانچہ جس ملک میں کرپشن ، لوٹ کھسوٹ اور دیدہ دلیری اور سینہ زوری

کی یہ حالت ہو اس میں اخلاق سے گرے چند فقروں ہر کیا احتساب ہوگا ‘ جس ملک کے صدر ( پرویز مشرف ) نے امریکہ میں کھڑے ہو کر یہ کہہ دیا ہو “ مختاراں مائی کے بعد پاکستان کی بے شمار خواتین کی خواہش ہے کہ ان کے ساتھ بھی ایسا واقعہ پیش آئے تاکہ وہ کینیڈا کا ویزہ حاصل کر سکیں “ تو پھر پیچھے کیا بچتا ہے ؟ پھر کس چیز کا رونا باقی ہے لہٰذا سارا پیلن سے صدر آصف علی زرداری نے ذرا سا “مخول “ کیا تھا اور سارا پیلن نے اس مخول کو ہنسی میں اڑا دیا ۔آیئے ہم بھی اس واقعے پر ایک قہقہہ لگایئں اور اس سارے معاملے کو ہوا میں اڑا کر اطمینان سے اپنے معمولات زندگی میں مصروف ہو جائیں ‘ رات گئی بات گئی ۔صدر کا دورہ ختم ہوا ‘ ہماری شرمندگی اور خفت کا سلسلہ بھی تمام ہوا ۔ کیوں ؟ کیونکہ ندامت کے داغ تو ان قوموں پر لگتے ہیں جن کے پاس دامن ہو جبکہ ہم تو وہ قوم ہیں جس کا گریبان بچا ہے اور نہ ہی دامن چنانچہ شرم کس بات کی ؟ ندامت کس چیز کی ؟
 

mujeeb mansoor

محفلین
بہت خوب،خرد صاحب ایسا پیاراسا مضمون یہاں ارسال کرنے کا شکریہ
جس طرح کہ جاوید چوہدری صاحب کے کالم سے واضح ہورہا ہے ؛اکثر سیاست دان ایک نمبر کے عیاش،فحاش،اپنے مفادوں کے یار مظلوموں کے خون کے پیاسے اور ون نمبر ٹھرکی ہیں
 
Top