رات ڈھلتی ہے دِن نکلتا ہے غزل نمبر 174 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین سر یاسر شاہ
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
رات ڈھلتی ہے دِن نکلتا ہے
یُوں جہاں کا ِنظام چلتا ہے

جو اکڑ کر زمیں پہ چلتا ہے
ایک نا ایک دِن پِھسلتا ہے

رات اور دِن بدلتے رہتے ہیں
ایک کو دُوسرا نِگلتا ہے

آگے بڑھنے کی نفسا نفسی میں
ایک کو دُوسرا کُچلتا ہے

فانی دُنیا میں ہے ثبات کہاں؟
چڑھتا سُورج بھی دیکھ ڈھلتا ہے

میرے رب کی ہی مہربانی سے
آنے والا عذاب ٹلتا ہے

جِس کا جو ہے نصیب ملتا ہے
جلنے والا ہمیشہ جلتا ہے

عشق تو ہی بتا کہ پروانہ
حُسن کی آگ میں کیوں جلتا ہے؟

سب سنبھلتے ہیں پر، نگاہوں سے
گِرنے والا کہاں سنبھلتا ہے

زِندگی کیوں گزاری عِصیاں میں؟
کس لئے ہاتھ اب تُو ملتا ہے؟

جب سے دیکھا ہے تُجھ کو جانِ غزل
دِل بہت سِینے میں مچلتا ہے

جس طرح بدلیں ہیں ترے تیور
ایسے موسم بھی کب بدلتا ہے؟

چھوڑتا جو نہیں اُمیدِ بہار
ایک دن وہ شجر بھی پھلتا ہے

تُو سُناتا ہی رہ غزل
شارؔق
تیرے شعروں سے دِل بہلتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
آگے بڑھنے کی نفسا نفسی میں
ایک کو دُوسرا کُچلتا ہے
میرے خیال میں یہاں نفسا نفسی درست نہیں، بھاگ دوڑ، گڑبڑ، ہوڑ، دوڑ جیسے الفاظ استعمال کرنا بہتر ہو گا، نفسا نفسی میں تو کچھ ہوش ہی نہیں ہونا چاہیے کہ کہاں جانا ہے، کس سے آگے نکلنا ہے!
فانی دُنیا میں ہے ثبات کہاں؟
چڑھتا سُورج بھی دیکھ ڈھلتا ہے
دیکھ بھرتی کا لفظ ناگوار ہے
باقی اشعار درست ہیں سوائے یاسر شاہ کے بتائے مصرع کے
 

امین شارق

محفلین
الف عین سر یاسر شاہ سر تینوں اشعار کیا اب درست ہوگئے ہیں۔
رات ڈھلتی ہے دِن نکلتا ہے
یُوں جہاں کا ِنظام چلتا ہے

جو اکڑ کر زمیں پہ چلتا ہے
ایک نا ایک دِن پِھسلتا ہے

رات اور دِن بدلتے رہتے ہیں
ایک کو دُوسرا نِگلتا ہے

آگے بڑھنے کی جلد بازی میں
ایک کو دُوسرا کُچلتا ہے

فانی دُنیا میں ہے ثبات کہاں؟
چڑھتا سورج اخیر ڈھلتا ہے


میرے رب کی ہی مہربانی سے
آنے والا عذاب ٹلتا ہے

جِس کا جو ہے نصیب ملتا ہے
جلنے والا ہمیشہ جلتا ہے

عشق تو ہی بتا کہ پروانہ
کِس لئے روشنی میں جلتا ہے؟


سب سنبھلتے ہیں پر، نگاہوں سے
گِرنے والا کہاں سنبھلتا ہے

زِندگی کیوں گُزاری عِصیاں میں؟
کس لئے ہاتھ اب تُو ملتا ہے؟

جب سے دیکھا ہے تُجھ کو جانِ غزل
دِل بہت سِینے میں مچلتا ہے

جس طرح بدلیں ہیں ترے تیور
ایسے موسم بھی کب بدلتا ہے؟

چھوڑتا جو نہیں اُمیدِ بہار
ایک دن وہ شجر بھی پھلتا ہے

تُو سُناتا ہی رہ غزل شارؔق
تیرے شعروں سے دِل بہلتا ہے
 
Top