رات پِھر۔

رشید حسرت

محفلین
پِیڑھ اُٹھی ناگہانی رات پِھر
یاد آئی اِک پُرانی رات پِھر

ریڈیو پہ "سیربیںؔ" سُنتے ہُوئے
چائے پی ہے اصفہانی رات پِھر

وہ گلی، وہ چھوٹا سا کچّا مکاں
بھر گیا آنکھوں میں پانی رات پِھر

اُس کے گہرے غم کی، اُونچے قہقہے
کر رہے تھے ترجمانی رات پِھر

بزمِ نازاں میں غرِیبی کی مُجھے
ہوگئی ہے یاد دہانی رات پِھر

اُس نے سندیسہ محبّت کا دیا
اِک سہیلی کی زبانی رات پِھر

کِس لیئے بدظن ہُؤا میں دوست سے
ہو رہی تھی سرگرانی رات پِھر

چل رہی تھی بم دھماکے کی خبر
مِٹ گئی تھی اِک جوانی رات پِھر

دِِل مِرا زخموں سے حسرتؔ چُور تھا
یار نے کی مہربانی رات پِِھر۔


رشِید حسرتؔ۔
 
Top