رات سُنتی رہی،میں سُناتا رہا۔

فاروقی

معطل
رات سُنتی رہی،میں سُناتا رہا۔
درد کی داستاں میں بتاتا رہا۔

لوگ لوگوں سے چاہت نبھاتے رہے
ایک وہ تھا میرا دِل دُکھاتا رہا۔

دھوپ چھاوں سی اُس کی طبیعت رہی
وہ نگاہیں مِلاتا چُراتا رہا

ایک میں ہِی پیاسا میرے دوستو
لوگ پیتے رہے، میں پِلاتا رہا۔

دِل کے مہمان خانے میں رونق رہی
کوئی آتا رہا، کوئی جاتا رہا۔

ہم مکتب نے سارے سبق پڑھ لیئے
میں تیرا نام لکھتا ،مٹاتا رہا
 

جیا راؤ

محفلین
دھوپ چھاوں سی اُس کی طبیعت رہی
وہ نگاہیں مِلاتا چُراتا رہا

ہم مکتب نے سارے سبق پڑھ لیئے
میں تیرا نام لکھتا ،مٹاتا رہا


بہت ہی خوب !!!
 

فاروقی

معطل
پسند کی مہر لگانے والوں کا شکریہ..........


ہم مکتب نے سارے سبق پڑھ لیئے
میں تیرا نام لکھتا ،مٹاتا رہا
 
بہت خوب۔۔۔

ویسے پہلا مصرعہ ایسے کیسا لگے گا؟
رات، (وہ) سنتی رہی میں سناتا رہا۔۔۔ ;)

پھر صبح ناشتہ بنانے کے لیے اس کو جگاتا رہا۔ :p

ہاہاہا۔۔۔ مذاق ہے۔ برا نہ مانئے گا۔
 
Top