مجاز رات اور ریل

حسان خان

لائبریرین
پھر چلی ہے ریل اسٹیشن سے لہراتی ہوئی
نیم شب کی خامشی میں زیرِ لب گاتی ہوئی
ڈگمگاتی، جھومتی، سیٹی بجاتی، کھیلتی
وادی و کہسار کی ٹھنڈی ہوا کھاتی ہوئی
تیز جھونکوں میں وہ چھم چھم کا سرودِ دل نشیں
آندھیوں میں مینہ برسنے کی صدا آتی ہوئی
جیسے موجوں کا ترنم جیسے جل پریوں کے گیت
ایک اک لے میں ہزاروں زمزمے گاتی ہوئی
نونہالوں کو سناتی میٹھی میٹھی لوریاں
نازنینوں کو سنہرے خواب دکھلاتی ہوئی
ٹھوکریں کھا کر لچکتی، گنگناتی، جھومتی
سرخوشی میں گھنگروؤں کی تال پر گاتی ہوئی
ناز سے ہر موڑ پر کھاتی ہوئی سو پیچ و خم
اک دلہن اپنی ادا سے آپ شرماتی ہوئی
رات کی تاریکیوں میں جھلملاتی، کانپتی
پٹریوں پر دور تک سیماب چھلکاتی ہوئی
جیسے آدھی رات کو نکلی ہو اک شاہی برات
شادیانوں کی صدا سے وجد میں آتی ہوئی
منتشر کر کے فضا میں جا بجا چنگاریاں
دامنِ موجِ ہوا میں پھول برساتی ہوئی
تیز تر ہوتی ہوئی منزل بہ منزل، دم بہ دم
رفتہ رفتہ اپنا اصلی روپ دکھلاتی ہوئی
سینۂ کہسار پر چڑھتی ہوئی بے اختیار
ایک ناگن جس طرح مستی میں لہراتی ہوئی
اک ستارہ ٹوٹ کر جیسے رواں ہو عرش سے
رفعتِ کہسار سے میدان میں آتی ہوئی
اک بگولے کی طرح بڑھتی ہوئی میدان میں
جنگلوں میں آندھیوں کا زور دکھلاتی ہوئی
رعشہ بر اندام کرتی انجمِ شب تاب کو
آشیاں میں طائرِ وحشی کو چونکاتی ہوئی
یاد آ جائے پرانے دیوتاؤں کا جلال
ان قیامت خیزیوں کے ساتھ بل کھاتی ہوئی
ایک رخشِ بے عناں کی برق رفتاری کے ساتھ
خندقوں کو پھاندتی، ٹیلوں سے کتراتی ہوئی
مرغزاروں میں دکھاتی جوئے شیریں کا خرام
وادیوں میں ابر کے مانند منڈلاتی ہوئی
اک پہاڑی پر دکھاتی آبشاروں کی جھلک
اک بیاباں میں چراغِ طور دکھلاتی ہوئی
جستجو میں منزلِ مقصود کی دیوانہ وار
اپنا سر دھنتی، فضا میں بال بکھراتی ہوئی
چھیڑتی اک وجد کے عالم میں سازِ سرمدی
غیظ کے عالم میں منہ سے آگ برساتی ہوئی
رینگتی، مڑتی، مچلتی، تلملاتی، ہانپتی
اپنے دل کی آتشِ پنہاں کو بھڑکاتی ہوئی
خود بخود روٹھی ہوئی، بپھری ہوئی، بکھری ہوئی
شورِ پیہم سے دلِ گیتی کو دھڑکاتی ہوئی
پُل پہ دریا کے دمادم کوندتی للکارتی
اپنی اس طوفان انگیزی پہ اتراتی ہوئی
پیش کرتی بیچ ندی میں چراغاں کا سماں
ساحلوں پر ریت کے ذروں کو چمکاتی ہوئی
منہ میں گھستی ہے سرنگوں کے یکایک دوڑ کر
دندناتی، چیختی، چنگھاڑتی، گاتی ہوئی
آگے آگے 'جستجو آمیز' نظریں ڈالتی
شب کے ہیبت ناک نظاروں سے گھبراتی ہوئی
ایک مجرم کی طرح سہمی ہوئی، سمٹی ہوئی
ایک مفلس کی طرح سردی میں تھراتی ہوئی
تیزئ رفتار کے سکے جماتی جا بہ جا
دشت و دَر میں زندگی کی لہر دوڑاتی ہوئی
ڈال کر گذرے مناظر پر اندھیرے کا نقاب
اک نیا منظر نظر کے سامنے لاتی ہوئی
صفحۂ دل سے مٹاتی عہدِ ماضی کے نقوش
حال و مستقبل کے دلکش خواب دکھلاتی ہوئی
دامنِ تاریکئ شب کی اڑاتی دھجیاں
قصرِ ظلمت پر مسلسل تیر برساتی ہوئی
زد میں کوئی چیز آ جائے تو اس کو پیس کر
ارتقائے زندگی کے راز بتلاتی ہوئی
زعم میں پیشانئ صحرا پہ ٹھوکر مارتی
پھر سبک رفتاریوں کے ناز دکھلاتی ہوئی
ایک سرکش فوج کی صورت علم کھولے ہوئی
ایک طوفانی گرج کے ساتھ درّاتی ہوئی
ایک اک حرکت سے اندازِ بغاوت آشکار
عظمتِ انسانیت کے زمزمے گاتی ہوئی
ہر قدم پر توپ کی سی گھن گرج کے ساتھ ساتھ
گولیوں کی سنسناہٹ کی صدا آتی ہوئی
وہ ہوا میں سیکڑوں جنگلی دہل بجتے ہوئے
وہ بگل کی جاں فزا آواز لہراتی ہوئی
الغرض اڑتی چلی جاتی ہے بے خوف و خطر
شاعرِ آتش نفس کا خون کھولاتی ہوئی
(اسرار الحق مجاز)
 
Top