راتوں رات امیربننےکا نادرروزگارنسخہ

بیروزگاری اور معاشی بدحالی سے تنگ آکر ایک دن مابدولت کے دل میں راتوں رات امیر بننے کی امنگ جاگی.چونکہ معاملہ راتوں رات امیر بننے کا تھا لہذا ہم نے ایک سنیاسی بابا سے رجوع کیا کہ شہرت جن کی زبان زد عام تھی.مدعا ان سے بیان کی .نہایت ہمدردی سے ہمہ تن گوش ہوکر ہماری داستان زبوں حالی سن کر ان کا دل پسیجا اور فرمایا کہ بیٹا آج میں تمہیں وہ نسخہ بتاتا ہوں جو میں نے کسی کو نہیں بتایا ہے کیونکہ روپیہ بنانے کا یہ مجرب نسخہ قارون بادشاہ سے ہمارے خاندان کو سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا چلا آرہا ہے .

ایک اور مہربانی مابدولت کی حالت زار پر انہوں نے یہ فرمائی کہ ہدیہ اس نادرونایاب چیز کی ہم سے وہی قبول کرلی جتنی ہماری اوقات تھی اور جو ہماری ساری جمع پونجی تھی.بہرحال ، اس نسخے کے بعض اجزا تو آسانی کے ساتھ دستیاب ہوگئے لیکن بعض کی بہم رسانی میں تھوڑی سی دقت پیش آئی. شیر کے ناخن بھی مل گنے اور لگڑبھگے کی ریڑھ کی ہڈی کا برادہ بھی تھوڑی سی بھاگ دوڑ کے بعد میسر آہی گیا .بجو کی کھال ایک بزرگ نے عنایت کردی. اب فقط کانے الو کی تھوڑی بیٹ درکار تھی ،شرط جس کی یہ تھی کہ چاند کی چودہ تاریخ کو بوقت نیم شب جب وہ الو نیم کے درخت پر استراحت فرمارہا ہو تو اس کے گھونسلے سے حاصل کی جائےٴ.

پہلی دقت تو ہمیں الوؤں کا مہاراجہ رنجیت سنگھ تلاش کرنے میں ہوئی کیونکہ الوؤں اور خاص کر ان الوؤں سے جن کا تعلق پرندوں اور جانوروں سے ہے ،ہمارا واسطہ بہت کم پڑتا تھا، بہرحال ایک الو ملا بھی تو وہ کانا نہیں تھا، دونوں آنکھیں درست تھیں. ایک اس نے یاد الہیٰ میں بند کررکھی تھی اور دوسری شکارکے لئے کھلی رکھی تھی .ایک اور الو ملا تو قریب جانے پر معلوم ہوا کہ کوئی اور جانور ہے.کئی دن کی دوڑ دھوپ کے بعد ایک آٹھوں گانٹھ کمیت الو ملا بھی تو وہ نیم کے درخت پر نہیں تھا کیکر کی پھننگ پر تھا ،نیم کا درخت پاس ہی تھا ،وہ چاہتا تو اس پر بیٹھ سکتا تھا ،کوئی امر مانع نہ تھا مگر ہمیں تنگ جو کرنا تھا .

آخر کآر خدا خدا کرکے الو اور نیم کے درخت کا جب یہ عظیم ملاپ ہوا بھی تو تاریخ چاند کی تیرھویں نکلی .یہاں شک کا فائدہ ہم نے خود کو دیا کہ یہ رویت ہلال ہمیشہ سے جھگڑے والی چیز چلی آئی ہے ،تیرہ اور چودہ میں چنداں فرق نہیں مگر پہلے تو الو کا گھونسلہ نہ ملا اور ملا تو اس میں بیٹ نہ تھی .ہائے ہماری قسمت !

اگر بیٹ مل جاتی تو فقط یہ کرنا تھا کہ بیٹ اور دیگر اجزائے ترکیبی باہم پیس کر انکا سرمہ بناتے اور سمندر کے کنارے ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر دس دن تک سنیاسی بابا کا بتایا ہوا وظیفہ پڑھ کر سرمے کو دم کرکے آنکھوں میں ڈالتے جس کے بعد ہمیں زمین کے اندر چھپا ہوا سارا سونا نظر آنے لگتا .اس سونے میں کچھ تو ہم اپنے لئے رکھ لیتے اور باقی مستحق لوگوں میں بانٹ دیتے .ارادے ہمارے نیک تھے مگر تقدیر ہم پر خندہ زن تھی.

بہرحال انہی پریشانیوں کے دنوں میں ہمیں کسی بہی خواہ نے مشورہ دیا کہ بھائی کن جھمیلوں میں پڑے ہو ،سیدھے سبھاؤ کسی رئیس کی فرزندی میں چلے جاؤ سارے دلدرد خودبخود دور ہوجائینگے .یہ مشورہ ہمارے جی کو بھلا لگا چنانچہ ہم اعلان کرتے ہیں کہ کسی امیرزادی کے لئے ہمارا رشتہ حاضر ہے. پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر.
 
مدیر کی آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
پہلی دقت تو ہمیں الوؤں کا مہاراجہ رنجیت سنگھ تلاش کرنے میں ہوئی کیونکہ الوؤں اور خاص کر ان الوؤں سے جن کا تعلق پرندوں اور جانوروں سے ہے ،ہمارا واسطہ بہت کم پڑتا تھا، بہرحال ایک الو ملا بھی تو وہ کانا نہیں تھا، دونوں آنکھیں درست تھیں. ایک اس نے یاد الہیٰ میں بند کررکھی تھی اور دوسری شکارکے لئے کھلی رکھی تھی .ایک اور الو ملا تو قریب جانے پر معلوم ہوا کہ کوئی اور جانور ہے.کئی دن کی دوڑ دھوپ کے بعد ایک آٹھوں گانٹھ کمیت الو ملا بھی تو وہ نیم کے درخت پر نہیں تھا کیکر کی پھننگ پر تھا ،نیم کا درخت پاس ہی تھا ،وہ چاہتا تو اس پر بیٹھ سکتا تھا ،کوئی امر مانع نہ تھا مگر ہمیں تنگ جو کرنا تھا .

آخر کآر خدا خدا کرکے الو اور نیم کے درخت کا جب یہ عظیم ملاپ ہوا بھی تو تاریخ چاند کی تیرھویں نکلی .یہاں شک کا فائدہ ہم نے خود کو دیا کہ یہ رویت ہلال ہمیشہ سے جھگڑے والی چیز چلی آئی ہے ،تیرہ اور چودہ میں چنداں فرق نہیں مگر پہلے تو الو کا گھونسلہ نہ ملا اور ملا تو اس میں بیٹ نہ تھی .ہائے ہماری قسمت !
بہت خوب
:laughing::laughing:
 
Top