رائےونڈ مارچ

35ko6xu.jpg


:D
 
یہ جملہ لکھنے والا خود بیمار ذہنیت کا مالک لگتا ہے ایسی سوپینگ سٹیٹمنٹ کوئی بیمار ہی دے سکتا ہے۔
موصوف ن لیگ کے سپورٹس اینڈ 'کلچرل' ونگ کے صوبائی سربراہ ہیں، لوفروں کی ان سے زیادہ کسے خبر ہو گی;)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
پچھلی حکومتوں کے کیا ہی کہنے۔ ان بیچاروں کے بڑے نقصان ہوئے ہیں، ابھی انتخابات کا خرچہ بھی پورا نہیں ہوا ہوتا تھا کہ حکومت گرا دی جاتی تھی اور دعوے وغیرہ وہیں کہ وہیں رہ جاتے تھے

ایک نے تو باری پوری کر لی ہے، اب دوسرا بھی کر لے تو پھر میری جیسی عوام حالات کا جائزہ لیں گے۔

یعنی عوام ضروری کام سے سوئی ہوئی ہے :)
جائزہ میں کیا یہ دیکھا جائے گا کہ کون کتنا بڑا ڈاکو :)
 
یعنی عوام ضروری کام سے سوئی ہوئی ہے :)
جائزہ میں کیا یہ دیکھا جائے گا کہ کون کتنا بڑا ڈاکو :)
کہہ سکتی ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے پاس چوائسز نہایت محدود ہیں ۔ یہی دو چار پارٹیاں، سیاستدان اور اسٹیبلیشمنٹ پچھلی کچھ دہائیوں سے مل ملا کر برسراقتدار آتے رہے ہیں۔
جنھیں ابھی موقع ملا ہے انھیں اپنی ٹرم پوری کرنے دیجائے، تاکہ ان کے پاس یہ گلہ نہ رہے کہ ہمیں کام نہیں کرنے دیا گیا۔ مقررہ مدت کے بعد انتخابات میں ہی عوام جائزہ لے اور ان کے آر یا پار کا فیصلہ کرے اور ایسا دنیا بھر کی جمہوریتوں میں ہوتا ہے۔
میرا یہ ماننا ہے کہ جمہوریت کے تسلسل سے ہی فلٹریشن ممکن ہو سکے گی اور ہم ان گندے مندے سیاستدانوں کے چنگل سے آہستہ آہستہ کر کے نکلتے جائیں گے۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کہہ سکتی ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے پاس چوائسز نہایت محدود ہیں ۔ یہی دو چار پارٹیاں، سیاستدان اور اسٹیبلیشمنٹ پچھلی کچھ دہائیوں سے مل ملا کر برسراقتدار آتے رہے ہیں۔
جنھیں ابھی موقع ملا ہے انھیں اپنی ٹرم پوری کرنے دیجائے، تاکہ ان کے پاس یہ گلہ نہ رہے کہ ہمیں کام نہیں کرنے دیا گیا۔ مقررہ مدت کے بعد انتخابات میں ہی عوام جائزہ لے اور ان کے آر یا پار کا فیصلہ کرے اور ایسا دنیا بھر کی جمہوریتوں میں ہوتا ہے۔
میرا یہ ماننا ہے کہ جمہوریت کے تسلسل سے ہی فلٹریشن ممکن ہو سکے گی اور ہم ان گندے مندے سیاستدانوں کے چنگل سے آہستہ آہستہ کر کے نکلتے جائیں گے۔
درست کہا۔
 
کہہ سکتی ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے پاس چوائسز نہایت محدود ہیں ۔ یہی دو چار پارٹیاں، سیاستدان اور اسٹیبلیشمنٹ پچھلی کچھ دہائیوں سے مل ملا کر برسراقتدار آتے رہے ہیں۔
جنھیں ابھی موقع ملا ہے انھیں اپنی ٹرم پوری کرنے دیجائے، تاکہ ان کے پاس یہ گلہ نہ رہے کہ ہمیں کام نہیں کرنے دیا گیا۔ مقررہ مدت کے بعد انتخابات میں ہی عوام جائزہ لے اور ان کے آر یا پار کا فیصلہ کرے اور ایسا دنیا بھر کی جمہوریتوں میں ہوتا ہے۔
میرا یہ ماننا ہے کہ جمہوریت کے تسلسل سے ہی فلٹریشن ممکن ہو سکے گی اور ہم ان گندے مندے سیاستدانوں کے چنگل سے آہستہ آہستہ کر کے نکلتے جائیں گے۔
جو کچھ پیپلز پارٹی نے اپنے دور میں کیا ساری دنیا نے دیکھا ۔۔ ۲۰۱۳ کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کی غیر مقبولیت کی وجہ سے پی ٹی آ ئی کو آ گے آنے کا مو قع ملا ۔ تو اگر نواز لیگ اینڈ کمپنی کو بھی اپنی مدت پوری کرنے دیں اور وہ کو ئی خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا سکے تو اگلا نمبرتیسری پارٹی والوں کا ہی ہے ۔۔ انہیں تو کچھ خاص تگ و دو کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے سوا ئے بیٹھ کے انتظار کرنے کے ۔۔ کیونکہ بہرحال تیسری پارٹی کا مقصد تو نواز شریف کو ہٹانا ہی ہے نہ کہ اس ملک کے نظام کو تبدیل کرنا ۔۔ سو اپنی باری کا انتظار کریں ۔۔
 
جو کچھ پیپلز پارٹی نے اپنے دور میں کیا ساری دنیا نے دیکھا ۔۔
اور پھر جو کچھ عوام نے ان کے ساتھ کیا اور ابھی تک کرتی آ رہی ہے، وہ بھی ساری دنیا نے دیکھا
۲۰۱۳ کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کی غیر مقبولیت کی وجہ سے پی ٹی آ ئی کو آ گے آنے کا مو قع ملا ۔
یہ سیاست بھی ہوا کے دباؤ کے اصولوں پر ہی چلتی ہے۔ جگہ بنی اور پی ٹی آئی گھس بیٹھ کر گئی:p
کیونکہ بہرحال تیسری پارٹی کا مقصد تو نواز شریف کو ہٹانا ہی ہے
فی الحال تک پی ٹی آئی کی ساری سیاست اس ایک نقطے پر ہی گھوم رہی ہے اور یہ ایک سیاسی پارٹی جو ایک صوبے میں حکومت بھی کر رہی ہے کے لیے انتہائی مضر ہے۔ انھیں اس سے باہر نکلنا پڑے گا
 
اور پھر جو کچھ عوام نے ان کے ساتھ کیا اور ابھی تک کرتی آ رہی ہے، وہ بھی ساری دنیا نے دیکھا

یہ سیاست بھی ہوا کے دباؤ کے اصولوں پر ہی چلتی ہے۔ جگہ بنی اور پی ٹی آئی گھس بیٹھ کر گئی:p

فی الحال تک پی ٹی آئی کی ساری سیاست اس ایک نقطے پر ہی گھوم رہی ہے اور یہ ایک سیاسی پارٹی جو ایک صوبے میں حکومت بھی کر رہی ہے کے لیے انتہائی مضر ہے۔ انھیں اس سے باہر نکلنا پڑے گا
بالکل متفق
 

محمداحمد

لائبریرین
جنھیں ابھی موقع ملا ہے انھیں اپنی ٹرم پوری کرنے دیجائے، تاکہ ان کے پاس یہ گلہ نہ رہے کہ ہمیں کام نہیں کرنے دیا گیا۔

یہ وہ مک مکا ہے جو زرداری اور نواز شریف کے درمیان کب سے چل رہا ہے۔ نواز شریف اور شہباز شریف پی پی والوں کو کتنا برا کہا کرتے تھے لیکن حکومت میں آنے کے بعد انہوں نے پی پی کی کرپشن کے خلاف کوئی قدم نہیں اُٹھایا۔ حالانکہ بچہ بچہ جانتا ہے کہ پی پی کی حکومت انتہائی کرپٹ تھی۔ دراصل پی پی نے تو قوم کی دولت لوٹی تھی۔ نواز شریف کی ذاتی جاگیر کو نقصان پہنچایا ہوتا تو پھر اختلاف کی بات ہوتی۔

آپ کھا چکے ہیں اب ہمیں کھانے دیں۔ نہ آپ ہمیں کچھ کہیں، نہ ہم آپ کو کچھ کہیں گے۔ یہی مک مکا ہے۔

اگر یہی نواز شریف کی حکومت اقتدار میں آکر پی پی کے کارناموں کو طشت از بام کرتی تو ہماری حمایت از خود ن لیگ کے لئے ہو جاتی۔ لیکن اُنہوں نے ثابت کیا کہ وہ بھی زرداری ہی کی قسم کے لوگ ہیں۔

نواز شریف تیسری بار وزیرِ اعظم بنے ہیں۔ اور پنجاب میں تو ن لیگ کی حکومت کافی عرصے سے ہے اس لئے ٹرم پوری کرنے والی بات عجیب سی ہے۔

پھر اب تو عمران خان استعفیٰ والی رٹ سے بھی دستبردار ہو گئے ہیں۔ ایسے میں اگر بدعنوانیوں کے خلاف تحقیقات کی جائیں تو حکومت کو کیا اعتراض ہے۔

یوں بھی شریف آدمی پر تو کوئی الزام لگ جائے تو اُسے فکر ہوتی ہے کہ جلد سے جلد خود کو اس الزام سے بری کروائے اور اپنی ساکھ بحال کرے۔ ان لوگوں کے دل میں ایسا کیا چور ہے کہ یہ کرپشن کا ذکر آتے ہی مخالفین کو گالیاں دینے لگ جاتے ہیں۔

ن لیگ کے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ خیبر پختوخواہ میں پی ٹی آئی بدعنوانیوں میں ملوث ہے اُنہیں کس نے روک رکھا ہے کہ وہ عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹاتے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ہم یہی سمجھیں گے کہ یہ صرف جواب آں غزل والی بات ہے اور پی ٹی آئی کی حکومت اتنی خراب نہیں ہے جتنی کہ ن لیگ والے پروپیگنڈا کرتے ہیں۔
 
ن لیگ کے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ خیبر پختوخواہ میں پی ٹی آئی بدعنوانیوں میں ملوث ہے اُنہیں کس نے روک رکھا ہے کہ وہ عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹاتے۔
سر مزے کی بات ہے نا ۔۔۔ پی ٹی آئی کے خلاف کسی کو مسئلہ ہو تو عدالت میں جا ئے ۔۔ ن لیگ کی کرپشن کے خلاف کسی کو مسئلہ ہو تو کسی کو عدالت جانے کی ضرورت نہیں ۔۔ ن لیگ والے خود اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کریں ۔۔۔;)
 
حالانکہ بچہ بچہ جانتا ہے کہ پی پی کی حکومت انتہائی کرپٹ تھی۔ دراصل پی پی نے تو قوم کی دولت لوٹی تھی
آپ اسی پی پی پی کی بات کر رہے ہیں نا جس سے پچھلے دنوں عمران خان نے ہاتھ ملایا تھا اور کافی گرما گرم اتحاد کی کھیر بھی پکی تھی:whistle:
 

عباس اعوان

محفلین
پچھلی حکومتوں کے کیا ہی کہنے۔ ان بیچاروں کے بڑے نقصان ہوئے ہیں، ابھی انتخابات کا خرچہ بھی پورا نہیں ہوا ہوتا تھا کہ حکومت گرا دی جاتی تھی اور دعوے وغیرہ وہیں کہ وہیں رہ جاتے تھے

ایک نے تو باری پوری کر لی ہے، اب دوسرا بھی کر لے تو پھر میری جیسی عوام حالات کا جائزہ لیں گے۔
2007 سے پنجاب میں لگاتار حکومت ہے۔
اس دفعہ پاکستان کے دورے پر، بہاولنگر اور مظفر گڑھ میں جو دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں، دیکھنے کے لیے وہی کافی تھیں۔
بھیا آنکھوں سے پارٹی کی حمایت کی عینک اتاریں تو شاید ابھی بھی کچھ نظر آجائے، 2018 تک کون سا تیر مار لیں گے جو 2007 سے اب تک نہیں وجا ؟
 
نواز شریف تیسری بار وزیرِ اعظم بنے ہیں۔ اور پنجاب میں تو ن لیگ کی حکومت کافی عرصے سے ہے اس لئے ٹرم پوری کرنے والی بات عجیب سی ہے۔
احمد بھائی، ن لیگ کے سربراہ ہمیشہ یہ رونا روتے ہیں کہ انھیں وفاقی سطح پر ٹرم مکمل نہیں کرنے دی گئی اور یہ ایک سچ ہے، جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا اور بالکل بھی عجیب بات نہیں ہے۔

جہاں تک بات پنجاب کی ہے تو وہ عوام سے ووٹ لیکر آئے ہیں، میں نے، آپ نے، یا کچھ صحافیوں اور اینکرز نے تو انھیں اس منصب پر نہیں پہنچایا۔ انھیں موجودہ انتخابی طریقہ کار کے مطابق ووٹ پنجاب کی عوام نے ہی دئیے ہیں، اور عوام بہترین منصف ہوتے ہیں۔ اس ٹرم کے پورا ہونے کے بعد عوام کی اکثریت اگر یہ چاہے گی کہ انھوں نے کام صحیح نہیں کیا تو ان کا دھڑن تختہ کر دے گی۔

بصورت دیگر موجودہ حکومتوں بشمول صوبائی حکومتوں کو انتخابات کے علاوہ کسی اور طریقے سے ہٹانے کو کوشش کی گئی تو حکومت کی بھاگ دوڑ کون سنبھالے گا ؟ کیا جن کی حکومت ختم کر دی جائے گی وہ یہی سڑک ڈرامہ اگلی حکومت کے ساتھ نہیں کریں گے ؟ کھوتی کو دوبارہ بوہڑ تھلے کھڑے ہونے سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ انھیں باقی ماندہ عرصہ حکومت کرنے دی جائے اور پھر عوام جانیں اور یہ جانیں۔ ڈیڈھ سال رہ گیا ہے، گھوڑا بھی حاضر اور میدان بھی
 
2007 سے پنجاب میں لگاتار حکومت ہے۔
اس دفعہ پاکستان کے دورے پر، بہاولنگر اور مظفر گڑھ میں جو دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں، دیکھنے کے لیے وہی کافی تھیں۔
عباس بھائی، دودھ اور شہد کی نہروں کا وعدہ اللہ رب العزت نے جنت کے لیے فرمایا ہے۔ موجودہ دنیا میں کوئی سیاست دان اب تک اپنے ووٹرز یا عوام کو دودھ اور شہد کی نہریں تیار کر کے نہیں دے سکا اور نا ہی تاریخ میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے۔ اور کسی بھی سیاست دان بشمول عمران خان سے ایسی کوئی توقع رکھنی بھی نہیں چاہیے۔
بھیا آنکھوں سے پارٹی کی حمایت کی عینک اتاریں تو شاید ابھی بھی کچھ نظر آجائے، 2018 تک کون سا تیر مار لیں گے جو 2007 سے اب تک نہیں وجا ؟
میں حلفاً کہتا ہوں کہ آج تک کبھی ن لیگ کو ووٹ نہیں دیا، آپ مجھے صرف جمہوریت کا حامی سمجھیے۔ لیکن مجھے عمرانی ٹولے کی ناپختہ سیاست سے تکلیف ضرور ہوتی ہے۔ اپنے ہی ایک مراسلے کا اقتباس دے رہا ہوں۔ امید ہے آپ کو میرا نقطہ نظر سمجھ آ جائے گا۔
میرا یہ ماننا ہے کہ جمہوریت کے تسلسل سے ہی فلٹریشن ممکن ہو سکے گی اور ہم ان گندے مندے سیاستدانوں کے چنگل سے آہستہ آہستہ کر کے نکلتے جائیں گے۔
اورہاں یہ ن لیگ ہے، تیر وغیرہ تو پیپلیو کا نشان ہے :p
 
Top