ذاتی ملکیت بنانے کے بھیس میں نجکاری کا عمل ! بلاول بھٹو زرداری

الف نظامی

لائبریرین

shim.gif


shim.gif

153935_l.jpg

پاکستان میں صنعت کاروں کی ایک غالب تعداد اور بڑے کاروباری لوگوں نے عوام میں مختلف قسم کی فرضی اقتصادی حکایات پھیلا کر انہیں ایک مخصوص صورتحال کا اسیر بنادیا ہے۔ ان فرضی کہانیوں میں سے ایک کہانی یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت سرکاری شعبہ کی بری کارکردگی کے باعث شدید متاثرہو رہی ہے اور اس صورتحال کاواحد حل نجکاری یا پرائیویٹائزیشن ہے۔ یہ کہانی سنائی جاتی رہی اور بڑے بدلحاظ انداز میں اب ایک بار سنائی جا رہی ہے اور نجکاری کی اسکیمیں لائی جا رہی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قومی اثاثے چند مخصوص افراد کے ہاتھوں میں چلے جائیں گے اور یہ سب کچھ ملک کی اکثریت کی قیمت پر ہوگا اور اس صورتحال کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ اس عمل کے ذریعے ہزاروں پاکستانی فالتو، فاضل اور زائد از ضرورت قرار پائیں گے، یہ سرمایہ داری کی بدترین شکل ہے۔ اس قوم کو اپنے اثاثے محض اس لئے نہیں بیچ دینے چاہئیں کہ یہ حکومت ان اثاثوں کو اور اداروں کو مناسب طور پر نہیں چلا سکتی۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شادی کیلئے گھر کی ساری چاندی بیچ دی جائے اور اس شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کیلئے کچھ بھی نہ بچا کر رکھا جائے۔ موجودہ حکومت جس طرح نج کاری کے بارے میں سوچ رہی ہے اس سے یہ لگتا ہے کہ اس کے پاس واحد منصوبہ یہی رہ گیا ہے۔ اس کا مقصد اشرافیہ کا ایک مستقل طبقہ پیدا کرنا ہے جو اپنی مرضی اور منشا سے ریاست اور پاکستان کے غریب عوام کا استحصال کرتا رہے۔ اس سوچ کے معماروں اور ان کے دوستوں میں بڑی آب و تاب نظر آ رہی ہے، ایسے میں پاکستان پیپلزپارٹی اور میں قومی اثاثوں کو ذاتی اثاثوں میں بدلنے کے منصوبوں کو روکنے کے عہد پر کاربند ہیں۔ نجکاری کے بہروپ اور بھیس میں قومی اثاثوں کو ذاتی اثاثوں میں تبدیل کرنے کے عمل کو یقینی طور پرروکا جانا چاہئے۔دنیا کے بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں نجکاری کاعمل کامیاب رہا، مگر یہ ان کی اقتصادی تاریخ کا ایک امتیازی نشان رہا۔ دوسری طرف پاکستان بنیادی طور پر اپنی ترقی کے مختلف زاویوں میں مختلف مراحل پر ہے جن میں ایک مرحلہ یہ ہے کہ اب مزید نجکاری کا نتیجہ لازمی طور پر بڑے پیمانے پر غریبوں کے استحصال کی صورت میں نکلے گا۔ اس عمل سے امیر طبقہ کو یہ صلاحیت حاصل ہو گی کہ وہ ریاستی پابندیوں کو ہنرمندی سے اپنے حق میں استعمال کرے، بے لگام نجکاری کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ نجی اجارہ داریوں، قیمتوں کی سطح بلند رکھنے کی صنعت کاروں کی استطاعت اور بیروزگاری کو دوام بخشاجائے اور یہ عمل ہمیں مساویانہ ترقی کے حسب خواہش مقصد سے مزید دور کردے گا۔ نواز شریف کے سابق دور اور مشرف دور کی نام نہاد نجکاری نے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا کہ اس نے بیروزگاری، غیر رسمی معیشت اور قرابت دار کاروباری اشرافیہ کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا اور اب وہ اشرافیہ اس حد تک طاقتور ہو گئی ہے کہ وہ دوسروں کے کام میں دخل اندازی کرتی ہے اور جمہوری ووٹ کو اپنے حسب منشا موڑ لیتی ہے۔ نجکاری کے فوائد بتانے میں کافی شیخی بگھاری جاتی ہے کہ اس سے علوم کی منتقلی ہوتی ہے اور ٹیکس ریونیو بڑھ جاتا ہے اور نجی سرمایہ کاری کو سہارا ملتا ہے۔ محنت کشوں کو کھپانے کا موقع ملتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس عمل سے پیداواری سیکٹر سرے سے غائب ہے اور اگر ہمارے ترقی کے اس مرحلہ پر جبری نجکاری ہوئی تو پیداواری سیکٹر غائب ہی رہے گا۔ دنیا کی پھلتی پھولتی معیشتیں اب بھی موثر انداز میں ذہانت کے ساتھ سرکاری شعبے اور سرمائے کے اتصال سے فروغ پارہی ہیں۔ دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین نے بے مثال اقتصادی ترقی کی ہے جہاں گزشتہ30 برسوں سے معیشت کی شرح نمو 9.5 فیصد چلی آرہی ہے۔ اس معیشت میں 150 سب سے بڑی کمپنیوں کی موجودگی میں حکومت اور ریاست سب سے بڑی اسٹیک ہولڈر ہے۔ مزید برآں اس سے بڑھ کر یہ کہ ریاست کی طرف سے غربت کے خاتمے کے لئے وسیع پیمانے پر مہم چلائی گئی اور سماجی اور معاشی عدم مساوات کو کم سے کم تر کیا گیا اور غریبوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچایا گیا۔معیشت کی نج کاری کے لئے ہماری مخالفت کا یہ سبب نہیں ہے کہ ہم آزاد منڈی کی معیشت کے بنیادی اصولوں کے مخالف ہیں۔ ہم فری مارکیٹ اکانومی پر عمل کرنے کی حمایت کرتے ہیں مگر یہ عمل اس امر سے مشروط ہونا چاہئے کہ سرکاری اور نجی شعبہ مل کر معاشرے کی بہتری کے لئے کام کرنے پر آمادہ ہوں۔ ہم ایک ایسے سرکاری شعبہ کے حق میں ہیں جو انسانی وسائل کو منظم کرنے اور ملازمین کے حقوق کے تحفظ کے بہتر شرائط کار متعین کرے تاکہ ملازمین اقتصادی طور پر پنپنے کے قابل ہو سکیں۔ سرکاری شعبہ کا یہ مطلب نہیں ہونا چاہئے کہ وہ ہمارے اثاثے سستے داموں کوڑیوں کے بھائو بیچتا پھرے۔ ہمیں اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم سرکاری شعبہ کے بارے میں اپنی اپروچ کا ازسرنو جائزہ لیں۔ نج کاری کی بجائے ہمارا منتہائے نظر یہ ہونا چاہئے کہ ہم سرکاری شعبہ میں کارپوریٹ لیڈر شپ کے معیار کو زیادہ بہتر بنائیں اور ایک ایسی انتظامیہ کو فروغ دیں جو اپنے منافع میں ملازمین کی شراکت کی اسکیمیں تیار کرے۔ ہماری موجودہ معاشی بے چینی کے سوال کا جواب یہ نہیں ہے کہ ہم سرکاری شعبہ کے اداروں کا پھیری لگا کر سودا کریں بلکہ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ ہم سرکاری شعبہ کی انتظامی صلاحیت کار کو موثر بنائیں اور ایسے منصوبوں میں محنت کشوں کو حصہ دار بنا کر ان میں کام کرنے کی لگن پیدا کریں۔ پاکستان کے اندر یا باہر جن کامیاب انتظامی اداروں نے ایسے ہی دیگر کاروباری اداروں کو کامیابی سے چلایا ہوا ہے انہیں مواقع دینا چاہئیں کہ سرکاری شعبہ میں موجود بیمار صنعتوں کا انتظام سنبھال لیں اور ایسی صنعتوں میں سرکاری اور نجی شعبہ کی مشترکہ سرمایہ کاری ہونی چاہئے۔
اس طرح منافع پر مبنی شراکتوں کی عظیم الجثہ استطاعت کو بندھنوں سے آزاد ہونا چاہئے۔ ایسا بالخصوص زراعت، گلہ بانی، باغبانی، مویشیوں کی افزائش اور پودوں کی افزائش کے شعبوں میں ہونا چاہئے۔ کوآپریٹو کے ذریعے چھوٹے کسانوں اور اسٹیک ہولڈرز کو یہ موقع دیا جانا چاہئےکہ ان کی قومی وسائل میں سے مالیات کے شعبہ تک رسائی ہو تاکہ وہ اپنی پیداوار بڑھانے کے قابل ہوسکیں۔ مالیاتی رسک کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ انشورنس اور منڈی کے ذریعے خریداری کو عمل میں لایا جائے اس سے رسک کے ماحول میں کمی واقع ہوگی اور ایسے کاروبار پاکستان میں اور بیرونی دنیا میں ریاستی شراکتوں کے ذریعے کامیابی سے چل رہے ہیں۔ ایسے کوآپریٹو ادارے زیادہ سے زیادہ زمین قابل کاشت بناسکتے ہیں اور وہ ہاریوں اور بے زمین لوگوں میں اراضی کی تقسیم نو میں بھی معاونت کر سکتے ہیں۔ایسے محدود شعبے جہاں نجی سرمایہ کا حصول بہت مشکل ہو وہاں پبلک پرائیوٹ شراکت داری اور نجی مالیاتی اقدامات کے ذریعے ریاست یا حکومت نجی شعبہ کو محدود شراکت میں لاسکتی ہے۔ ایسے کاروباری اداروں کی تشکیل انتہائی احتیاط سے کی جانی چاہئے اور ان اداروں کو قابل قدر اثاثے چند مخصوص افراد کو بیچنے کے لئے آلہ کار کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کو صرف ایسے اقدامات قابل قبول ہوں گے جن میں محنت کشوں کے معقول معاوضے اور ان کی ملازمتوں کی ضمانت دی جائے اور اس امر کی بھی ضمانت ہونی چاہئے کہ ان اداروں کی ریاستی ملکیت ناقابل انتقال ہوگی۔ پاکستان کا جو کچھ ہے وہ غریب اکثریت کا ہے اور یہ سب کچھ امیر اقلیت کی ملکیت نہیں بننا چاہئے۔پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت اپنے سابقہ دور میں ایسے پروگراموں پر عمل پیرا نہیں ہو سکی۔ اس کا ایک سبب یہ تھا ہم اتحادی حکومت کا حصہ تھے اور ملک میں ایک ایسی اقتصادی لحاظ سے قدامت پسند عدلیہ متمکن تھی جو اپنے آئینی مینڈیٹ سے ماورا ہوکر بے خوفی کا مظاہرہ کرتی تھی اور جس نے عوام کی منتخب حکومت کو بے عملی، جمود اور تعطل کا شکار رکھا۔ جو سرکاری ملازمین حکومت کی خواہش کے مطابق کام کرتے انہیں بے رحمی سے ہٹا دیا جاتا یا ان کی تحقیر کی جاتی اور ان کی جگہ حکومت سے عدم موافق، قدامت پسند اور جمود کا شکار سرکاری ملازمین ابھر کر سامنے آتے۔ اسی طرح ٹیکسوں کی بنیاد وسیع کرنے کی کوششوں کو قدامت پسند کاروباری لابیوں کے ذریعے متشددانہ انداز میں متنازعہ بنایا گیا۔ پاکستان کی یہی قدامت پسند قوتیں جو غالب قدامت پسند عدلیہ کی بحالی کا ذریعہ بنیں، اب برسراقتدار ہیں۔ اب ہم واحد سیاسی قوت بچے ہیں جو پاکستان کے وسائل کو مال غنیمت بنانے اور عوام کا مستقل استحصال کرنے کی کارروائی کی مزاحمت کررہے ہیں اور ہم جمہوریت کے دائرے میں کسی کے ذاتی مقاصد کے لئے پاکستان پر درآمد شدہ معیشتوں کا متن مسلط کرنے کی کوششوں کی مزاحمت کرتے رہیں گے۔
 
Top