یوسف-2
محفلین
گرمی ہو یا سردی ،رات کے آخری پہر جب ہم سب خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہوتے ہیں، کچھ لوگ ہماری صبح خوشگوار بنانے کے لیے بیدار ہوچکے ہوتے ہیں۔ سڑکوں پر صفائی کا عملہ جھاڑو دینے لگتاہے،کوڑا کرکٹ اٹھانے والی گاڑیاں کنٹینروں میں سے کوڑا اٹھانے کے لیے آجاتی ہیں،سٹریٹ اور روڈ لائٹس بند کردی جاتی ہیں، سرکاری پانی کے ٹیوب ویل چالو ہوجاتے ہیں،نان چنے، چاول چنے ، حلوہ پوری بنانے والے اور چائے کے ہوٹل گاہکوں کے ناشتے کا سامان تیار کرنے میں لگ جاتے ہیں،ویگنوں بسوں والے اپنی اپنی گاڑیوں کی صفائی ستھرائی پر لگ جاتے ہیں ۔ہاکر اخبار مارکیٹ میں تازہ اخبارلینے پہنچ جاتے ہیں۔ہم گہری نیند سوئے ہوئے ہوتے ہیں اور یہ لوگ مکمل بیداری کے ساتھ روز سورج نکلنے سے پہلے ہی اپنے کام میں جت جاتے ہیں۔ہمیں پتا ہی نہیں چلتا کہ رات کو ہماری آنکھوں کے سامنے سڑک پر جس گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا اور چوک پر شیشے کی کرچیاں بکھری ہوئی تھیں وہ رات بھر میں کہاں غائب ہوگئیں؟؟؟ ہمیں یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ کون راتوں رات سڑکوں پر پانی کا چھڑکاؤ کر جاتا ہے؟ کون دکانوں کے باہر سے بکھرے لفافے اور خالی بوتلیں لے جاتا ہے؟؟؟
یہی سسٹم ہمارے جسم کا ہے، کھانا کھاتے ہوئے ہمیں کچھ پتا نہیں چلتا کہ ہمارا کھایا ہوا ایک ایک نوالہ ہمارے جسم میں کیا تبدیلیاں لا رہا ہے اور جسم کے کس کس حصے کی ضروریات پوری کر رہا ہے، ہماری زبان، دانت، دل ، جگر، معدہ، آنتیں ، پیٹ ، دماغ، ہڈیاں اور نجانے کون کون سے اعضاء اس نوالے سے اپنا اپنا حصہ وصول کرتے ہیں اور اپنی روزمرہ کارکردگی دکھانے میں جت جاتے ہیں۔ جس طرح ہم کھانا کھا کر اپنے کاموں میں لگ جاتے ہیں ، ہمارا جسم بھی اپنے کام میں مگن ہوجاتا ہے، بظاہر ہمیں کچھ نظر نہیں آرہا ہوتا لیکن ہم سو بھی جائیں تو جسم نہیں سوتا، یہ زندگی میں ایک ہی دفعہ سوتا ہے جب اس پر منوں مٹی ڈال دی جاتی ہے۔
اب دوسری طرف دیکھئے۔۔۔کچھ لوگوں کا کام رات کے آخری پہر ختم ہوتاہے، جب یہ لوگ تھکے ہارے اپنے گھروں کی طرف روانہ ہورہے ہوتے ہیں،اِن میں رات کی ڈیوٹی سے فارغ ہونے والوں کی اکثریت شامل ہوتی ہے مثلاً اخبار کی پرنٹنگ اور فولڈنگ پر مامور عملہ، رات کی ٹرین کا ڈرائیور،بس کے آخری پھیرے کا ڈرائیور،رات کے ناکے پر مامور سپاہی، شب بھر محلے کی گلیوں میں پہرا دینے والا چوکیدار، سڑک کنارے رات تک برگر اور بوتلیں بیچنے والادکاندار، پان سگریٹ کے کھوکھے والا، روٹی روزی کی تلاش میں مگن پارٹ ٹائم رکشا چلانے والا،رات کو دیر تک کھلے رہنے والے شاپنگ سینیٹرز اور ہوٹلوں کا سٹاف۔۔۔اِن سب کے لیے دِن کی حیثیت رات کی بن جاتی ہے، یہ دن کو سوتے اور رات کو جاگتے ہیں، سارا دن سونے کے باوجود یہ نہیں سو پاتے کیونکہ باقی دنیا اٹھ چکی ہوتی ہے لہٰذا ٹریفک کا شور، وقت بے وقت کی گھنٹی، بچوں کی آوازیں اورٹی وی کے پروگرامز اِن کی نیند میں ہمہ وقت خلل ڈالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
ہم سب میں سے کوئی صبح اٹھتا ہے، کوئی صبح سوتاہے، ہم ایک دوسرے کے کاموں سے بے خبر ہیں، بالکل اس طرح جس طرح ہم اپنے کھائے ہوئے نوالے کی منزلوں سے بے خبر ہیں۔کچھ ایسا ہی سسٹم کہیں اوپر بھی چل رہا ہے جہاں ہماری عدم موجودگی میں بہت کچھ طے پاچکا ہوتاہے، جس طرح ہمیں اپنے کھائے ہوئے نوالے کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہوتا کہ یہ ہمارے جسم میں کیا تبدیلی لائے گا، اسی طرح ہمیں اوپر کے سسٹم کا بھی کچھ پتا نہیں کہ ہمارا کون سا عمل، کون سی سانس ہماری لیے کیاتبدیلی لے آئے۔کبھی غور کیجئے گا، ہم اچھی خاصی چھانٹ پھٹک کے بعد جو مہنگا ترین سویٹر خریدتے ہیں اُس کا مقدر بالآخر کیا بنتاہے، ہم زیادہ سے زیادہ تین چار سال تک اسے استعمال کرتے ہیں، پھر کسی اور کو دے دیتے ہیں، وہ بھی لگ بھگ اتنا عرصہ ہی اسے استعمال کرتاہے، پھر اپنے سے کم تر کو دے دیتاہے، وہ بھی کچھ دیر استعمال کرتاہے اور پھینک دیتاہے، زیادہ سے زیادہ دس بارہ سال کے عرصے میں وہ سویٹر جسے ہم اپنے سینے سے لگا کر رکھتے تھے وہ کسی سوئپر کے وائپر میں لگا گندا فرش صاف کرنے کے کام آرہا ہوتا ہے۔یہی حال انسان کی زندگی کا بھی ہے، جوانی کی مستی اور شوخیوں بھرا ہر انسان بالآخر کیڑوں کی خوراک بن جاتاہے۔ہم میں سے جو جتنا صحت مند ہے وہ اتنا ہی کیڑوں کے رزق میں اضافے کا باعث ہے، ہم اُس زندگی سے بھی بے خبر ہیں جو قبر کے اندر کی ہے۔ اصل میں ہر وہ چیز جو ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے ،ہمارے لیے باعثِ اطمینان ہے،ہمیں ہر کام ترتیب سے ہوتا ہوا مل جاتاہے اس لیے ہم سوچنے کی زحمت ہی نہیں کرتے کہ اس کے پیچھے کون ہے؟کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر بہت معمولی لگتے ہیں ، ہم روزمرہ کی زندگی میں اِنہیں کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے، لیکن یہ رک جائیں تو شاید ہماری زندگی مفلوج ہوکر رہ جائے۔کبھی سوچئے گا کہ اگر خاکروب ہڑتال کردیں تو گھر کا کوڑا کہاں جائے گا، دو دن بعد تعفن اٹھنے لگے گا، ٹوکریاں بھر جائیں گی، پھر شاپر وں کی باری آئے گی، پھر شاپروں کا ڈھیر لگتا چلا جائے گا ۔۔۔پھر یہ شاپر سڑکوں پر پھینکے جائیں گے، سڑکوں پر پڑے کنٹینر بھی اوور لوڈ ہوجائیں گے اور جب یہ کنٹینر کوئی نہیں اٹھانے آئے گا تو بدبو کا ایک ایسا طوفان اٹھے گا کہ لوگ اپنے علاقے چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں گے۔اسی طرح گورکن کو لے لیجئے، ہم میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے کبھی سوچا ہو کہ وہ بڑا ہوکر گورکن بنے گا، ہم گورکنی کو پیشہ ہی خیال نہیں کرتے، لیکن کبھی سوچا ہے کہ اگر گورکن ہڑتال کر دیں تو کیا ہو؟ لاشیں کون دفنائے، کہاں دفنائے؟؟؟
اوپر آسمانوں پر بھی تو کوئی بیٹھاہے جو ہر کام کا اختیار رکھتاہے، وہ جس کا ہونا نہ ہونا ہمیں ایک برابر لگتا ہے لیکن وہ ایک دن کے لیے بھی اپنی رحمت کے دروازے بند کرلے تو ہمارے ہوش اڑ جائیں، وہ جو ہمارے نوالے کے ذریعے ہماری ہڈیوں تک کو خوراک پہنچا رہا ہے، جورات اور دن کی ترتیب برقرار رکھے ہوئے ہے، جس نے ہماری سانسوں کا رشتہ بحال رکھنے کے لیے ہوا کی سبیل لگائی ہوئی ہے، جو ہمیں بھی رزق دیتا ہے اور ہمارے ذریعے دوسروں کو بھی۔ یہ وہی ہے جس نے ہماری سانسوں کی تعدادبھی مقرر کر دی ہوئی ہے،ہم نے کب جیتے جیتے مر جانا ہے اور مرتے مرتے جی اٹھنا ہے، وہی جانتاہے، اُس کا سسٹم چوبیس گھنٹے کام کرتاہے، اُس کے سٹاف کی ڈیوٹیاں ہمہ وقت ہوتی ہیں، کوئی چھٹی نہیں ہوتی،کسی غلطی یا کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی،ہم عام زندگی میں اُس کے سسٹم کو سمجھ ہی نہیں پاتے، ہمیں لگتاہے کہ جو ہماری زندگی میں کبھی نہیں ہوا، وہ کبھی نہیں ہوگا۔۔۔لیکن ایسا نہیں ہوتا، صبح و شام کے کسی ایک پہر۔۔۔سینے کے بائیں طرف ایک تھوڑی سی درد، سڑک پر چلتے ہوئے ایک غلط قدم ۔۔۔ سامنے سے آتی ہوئی کسی گاڑی کا ذرا سا غلط ٹرن۔۔۔دھڑکنوں کے ردھم میں معمولی سا وقفہ۔۔۔سانس کے اتار چڑھاؤ میں تھوڑی دیر کی خاموشی۔۔۔اور ۔۔۔The End ۔۔۔کچھ لوگ بیدار ہورہے ہوتے ہیں، کچھ اپنے اردگرد شور شرابے کے باوجود لمبی تان کر سوجاتے ہیں۔ (گل نوخیز اختر۔ نئی بات۔ 28 دسمبر 2012 )
یہی سسٹم ہمارے جسم کا ہے، کھانا کھاتے ہوئے ہمیں کچھ پتا نہیں چلتا کہ ہمارا کھایا ہوا ایک ایک نوالہ ہمارے جسم میں کیا تبدیلیاں لا رہا ہے اور جسم کے کس کس حصے کی ضروریات پوری کر رہا ہے، ہماری زبان، دانت، دل ، جگر، معدہ، آنتیں ، پیٹ ، دماغ، ہڈیاں اور نجانے کون کون سے اعضاء اس نوالے سے اپنا اپنا حصہ وصول کرتے ہیں اور اپنی روزمرہ کارکردگی دکھانے میں جت جاتے ہیں۔ جس طرح ہم کھانا کھا کر اپنے کاموں میں لگ جاتے ہیں ، ہمارا جسم بھی اپنے کام میں مگن ہوجاتا ہے، بظاہر ہمیں کچھ نظر نہیں آرہا ہوتا لیکن ہم سو بھی جائیں تو جسم نہیں سوتا، یہ زندگی میں ایک ہی دفعہ سوتا ہے جب اس پر منوں مٹی ڈال دی جاتی ہے۔
اب دوسری طرف دیکھئے۔۔۔کچھ لوگوں کا کام رات کے آخری پہر ختم ہوتاہے، جب یہ لوگ تھکے ہارے اپنے گھروں کی طرف روانہ ہورہے ہوتے ہیں،اِن میں رات کی ڈیوٹی سے فارغ ہونے والوں کی اکثریت شامل ہوتی ہے مثلاً اخبار کی پرنٹنگ اور فولڈنگ پر مامور عملہ، رات کی ٹرین کا ڈرائیور،بس کے آخری پھیرے کا ڈرائیور،رات کے ناکے پر مامور سپاہی، شب بھر محلے کی گلیوں میں پہرا دینے والا چوکیدار، سڑک کنارے رات تک برگر اور بوتلیں بیچنے والادکاندار، پان سگریٹ کے کھوکھے والا، روٹی روزی کی تلاش میں مگن پارٹ ٹائم رکشا چلانے والا،رات کو دیر تک کھلے رہنے والے شاپنگ سینیٹرز اور ہوٹلوں کا سٹاف۔۔۔اِن سب کے لیے دِن کی حیثیت رات کی بن جاتی ہے، یہ دن کو سوتے اور رات کو جاگتے ہیں، سارا دن سونے کے باوجود یہ نہیں سو پاتے کیونکہ باقی دنیا اٹھ چکی ہوتی ہے لہٰذا ٹریفک کا شور، وقت بے وقت کی گھنٹی، بچوں کی آوازیں اورٹی وی کے پروگرامز اِن کی نیند میں ہمہ وقت خلل ڈالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
ہم سب میں سے کوئی صبح اٹھتا ہے، کوئی صبح سوتاہے، ہم ایک دوسرے کے کاموں سے بے خبر ہیں، بالکل اس طرح جس طرح ہم اپنے کھائے ہوئے نوالے کی منزلوں سے بے خبر ہیں۔کچھ ایسا ہی سسٹم کہیں اوپر بھی چل رہا ہے جہاں ہماری عدم موجودگی میں بہت کچھ طے پاچکا ہوتاہے، جس طرح ہمیں اپنے کھائے ہوئے نوالے کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہوتا کہ یہ ہمارے جسم میں کیا تبدیلی لائے گا، اسی طرح ہمیں اوپر کے سسٹم کا بھی کچھ پتا نہیں کہ ہمارا کون سا عمل، کون سی سانس ہماری لیے کیاتبدیلی لے آئے۔کبھی غور کیجئے گا، ہم اچھی خاصی چھانٹ پھٹک کے بعد جو مہنگا ترین سویٹر خریدتے ہیں اُس کا مقدر بالآخر کیا بنتاہے، ہم زیادہ سے زیادہ تین چار سال تک اسے استعمال کرتے ہیں، پھر کسی اور کو دے دیتے ہیں، وہ بھی لگ بھگ اتنا عرصہ ہی اسے استعمال کرتاہے، پھر اپنے سے کم تر کو دے دیتاہے، وہ بھی کچھ دیر استعمال کرتاہے اور پھینک دیتاہے، زیادہ سے زیادہ دس بارہ سال کے عرصے میں وہ سویٹر جسے ہم اپنے سینے سے لگا کر رکھتے تھے وہ کسی سوئپر کے وائپر میں لگا گندا فرش صاف کرنے کے کام آرہا ہوتا ہے۔یہی حال انسان کی زندگی کا بھی ہے، جوانی کی مستی اور شوخیوں بھرا ہر انسان بالآخر کیڑوں کی خوراک بن جاتاہے۔ہم میں سے جو جتنا صحت مند ہے وہ اتنا ہی کیڑوں کے رزق میں اضافے کا باعث ہے، ہم اُس زندگی سے بھی بے خبر ہیں جو قبر کے اندر کی ہے۔ اصل میں ہر وہ چیز جو ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے ،ہمارے لیے باعثِ اطمینان ہے،ہمیں ہر کام ترتیب سے ہوتا ہوا مل جاتاہے اس لیے ہم سوچنے کی زحمت ہی نہیں کرتے کہ اس کے پیچھے کون ہے؟کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر بہت معمولی لگتے ہیں ، ہم روزمرہ کی زندگی میں اِنہیں کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے، لیکن یہ رک جائیں تو شاید ہماری زندگی مفلوج ہوکر رہ جائے۔کبھی سوچئے گا کہ اگر خاکروب ہڑتال کردیں تو گھر کا کوڑا کہاں جائے گا، دو دن بعد تعفن اٹھنے لگے گا، ٹوکریاں بھر جائیں گی، پھر شاپر وں کی باری آئے گی، پھر شاپروں کا ڈھیر لگتا چلا جائے گا ۔۔۔پھر یہ شاپر سڑکوں پر پھینکے جائیں گے، سڑکوں پر پڑے کنٹینر بھی اوور لوڈ ہوجائیں گے اور جب یہ کنٹینر کوئی نہیں اٹھانے آئے گا تو بدبو کا ایک ایسا طوفان اٹھے گا کہ لوگ اپنے علاقے چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں گے۔اسی طرح گورکن کو لے لیجئے، ہم میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے کبھی سوچا ہو کہ وہ بڑا ہوکر گورکن بنے گا، ہم گورکنی کو پیشہ ہی خیال نہیں کرتے، لیکن کبھی سوچا ہے کہ اگر گورکن ہڑتال کر دیں تو کیا ہو؟ لاشیں کون دفنائے، کہاں دفنائے؟؟؟
اوپر آسمانوں پر بھی تو کوئی بیٹھاہے جو ہر کام کا اختیار رکھتاہے، وہ جس کا ہونا نہ ہونا ہمیں ایک برابر لگتا ہے لیکن وہ ایک دن کے لیے بھی اپنی رحمت کے دروازے بند کرلے تو ہمارے ہوش اڑ جائیں، وہ جو ہمارے نوالے کے ذریعے ہماری ہڈیوں تک کو خوراک پہنچا رہا ہے، جورات اور دن کی ترتیب برقرار رکھے ہوئے ہے، جس نے ہماری سانسوں کا رشتہ بحال رکھنے کے لیے ہوا کی سبیل لگائی ہوئی ہے، جو ہمیں بھی رزق دیتا ہے اور ہمارے ذریعے دوسروں کو بھی۔ یہ وہی ہے جس نے ہماری سانسوں کی تعدادبھی مقرر کر دی ہوئی ہے،ہم نے کب جیتے جیتے مر جانا ہے اور مرتے مرتے جی اٹھنا ہے، وہی جانتاہے، اُس کا سسٹم چوبیس گھنٹے کام کرتاہے، اُس کے سٹاف کی ڈیوٹیاں ہمہ وقت ہوتی ہیں، کوئی چھٹی نہیں ہوتی،کسی غلطی یا کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی،ہم عام زندگی میں اُس کے سسٹم کو سمجھ ہی نہیں پاتے، ہمیں لگتاہے کہ جو ہماری زندگی میں کبھی نہیں ہوا، وہ کبھی نہیں ہوگا۔۔۔لیکن ایسا نہیں ہوتا، صبح و شام کے کسی ایک پہر۔۔۔سینے کے بائیں طرف ایک تھوڑی سی درد، سڑک پر چلتے ہوئے ایک غلط قدم ۔۔۔ سامنے سے آتی ہوئی کسی گاڑی کا ذرا سا غلط ٹرن۔۔۔دھڑکنوں کے ردھم میں معمولی سا وقفہ۔۔۔سانس کے اتار چڑھاؤ میں تھوڑی دیر کی خاموشی۔۔۔اور ۔۔۔The End ۔۔۔کچھ لوگ بیدار ہورہے ہوتے ہیں، کچھ اپنے اردگرد شور شرابے کے باوجود لمبی تان کر سوجاتے ہیں۔ (گل نوخیز اختر۔ نئی بات۔ 28 دسمبر 2012 )