دیکھو تو مرا حال ذرا آنکھ اٹھا کے-ملک عدنان احمد

دیکھو تو مرا حال ذرا آنکھ اٹھا کے
کیا پاؤ گے مجھ ایسے کو مٹی میں ملا کے

حیرت ہے کہ وہ موج میں آیا ہوا دریا
خوش ہے مرے چھوٹے سے گھروندے کو گرا کے

یہ درد و مصائب ہیں کہ آنسو ہیں کہ آہیں
وہ یار مجھے دے کے گیا بدلے وفا کے

تب سے دلِ تاریک منور ہے ابھی تک
گذرا تھا وہ خورشید بس اک چھب سی دکھا کے

ہم اہلِ جنوں کو نہ یوں دھمکاؤ کہ ہم نے
جھیلے ہیں بہت سلسلے اس کرب و بلا کے

مجھ کو تو کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی
دیکھا ہے تمنا کے چراغوں کو جلا کے

احمد جو وفاؤں کا سبق دیتے ہو سب کو
بتلاؤ ملا کیا ہے وفاؤں کو نبھا کے

(ملک عدنان احمد)
 
Top