دیکھا پاکستان

پاکستانی

محفلین
قائداعظم کا پاکستان دیکھ

پاکستان کے ابتدائی دن تھے۔ جہاں تہاں سے قافلے بے سروسامانی کی داد دیتے چلے آ رہے تھے۔ کوئی انبالہ کے لٹے ہوئے قریے کی روشنی تھا تو کوئی دہلی کا روڑا ۔ کچھ جن کے ہاتھ پاؤں میں دم تھا وہ متروکہ جائیدادوں کی بہتی گنگا دیکھ کر گھر بیٹھے مہاجر ہو گئے تھے۔

اردو دان مہاجروں میں سے بہت سوں کو شعر کی چیٹک بھی تھی۔ یوں اہل زبان کو شعر فہمی کا دعوٰی تو رہتا ہی ہے۔ معمولاتِ زندگی درہم برہم تھے۔ کرنے کو کچھ تھا نہیں۔ سو لاہور میں مشاعروں کا بازار گرم ہو گیا۔ لارنس باغ کے ایسے ہی ایک مشاعرے میں امرتسر کے نووارِد شاعر نفیس خلیلی سے ایک شعر سرزد ہوا جو گلشن میں طرزِ بیان کا درجہ اختیار کر گیا۔

دیکھتا کیا ہے میرے منہ کی طرف
قائداعظم کا پاکستان دیکھ

روایت ہے کہ اس شعر پر ایسا غلغلہ ہوا کہ شاعر عدالت میں کھنچا کھنچا پھرا۔ خیر گزری کہ میرِ عدالت جسٹس رستم کیانی تھے جن کی آنکھ سرکاری بوالعجبیوں کی تحقیق میں تہہ در تہہ جاتی تھی۔ اُنہوں نے نفیس خلیلی کو یہ کہہ کے بری کر دیا کہ شاعر محبِ وطن ہے اور اس کی تجویز ہے کہ قائد اعظم نے جو ملک بنایا ہے، اسے گھوم پھر کر دیکھا جائے۔ آپ اگر چاہیں تو نعم البدل کے طور پر نفیس خلیلی کا منہ دیکھتے رہیں۔

بیرونِ ملک تعلیم کی تہمت لے کر وطن لوٹے کچھ مہینے گزر گئے تو خیال آیا کہ کچھ تاخیر ہی سے سہی، نفیس خلیلی کی تجویز پر عمل کرنا چاہیے۔ طے پایا کہ کراچی اور لاہور جیسے آبادی سے کُلبلاتے جنگلوں سے ہٹ کر چھوٹے شہروں اور قصبوں کا رُخ کیا جائے۔ ’دیکھا پاکستان‘ کا یہ تحریری سلسلہ پنجاب اور سندھ کے قصبوں میں بستے ان خوبصورت انسانوں میں گذرے پُرلطف دنوں کی دین ہے جنہیں ریاستی غفلت اور معاشرتی پسماندگی نے انہونی اور ہونی کی اس پگڈنڈی پہ چھوڑ دیا ہے جہاں سے انسانی ترقی کی شاہراہ بقول صوفی تبسم ’نظر تو آتی ہے، نزدیک نہیں آتی‘۔

ایسا نہیں کہ لکھنے والا اُن ’بابا لوگ‘ میں شُمار ہوتا ہے جنھیں ’آیا لوگ‘ پالتی ہیں۔ بس اتنا ہوا کہ کوئی پچیس برس ہوئے ہم نے وادی غربت میں قدم رکھا تھا۔ اس کے بعد ’حقیقی پاکستان‘ سے تعلق کچھ ایسا ہی رہا جیسا جمہوریت سے۔ ’ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے‘۔

لاکھوں کی آبادی پر مشتمل پاکستانی قصبوں میں کُچھ بنیادی شہری ضروریات کا سرے سے غائب ہونا حیران کُن ہے۔ سکھر ہو یا ساہی وال، گوجرانوالہ ہو یا گجرات، سڑکوں پر کہیں فٹ پاتھ نظر نہیں آتے۔ گردوغبار میں اٹی، کیچڑ میں سنی تارکول کی شکستہ سڑک کے دونوں کناروں پر یا تو تجاوزات ہیں یا مٹی اور کوڑا کرکٹ کے انبار۔ گویا شہری بندوبست کے ذمہ دار اداروں نے پیدل چلنے والی مخلوق کو ایسے ہی آبادی کا غیر فعال حصہ قرار دے دیا ہے جیسے پچیس اور پچاس پیسے کے سکے اب نظر نہیں آتے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان شہروں کے ایک خاص حصے میں فٹ پاتھ ہی موجود نہیں بلکہ فٹ پاتھ کے کناروں پر سفید اور سیاہ روغن کا التزام بھی نظر آتا ہے۔ سہولتوں کے اس نخلستان کو سرکاری کاغذوں میں کنٹونمنٹ اور عوامی لُغت میں کینٹ کہتے ہیں۔ اِن سبزہ زاوں کے باسی البتہ اپنی بستی کو ڈیفنس کہنا پسند کرتے ہیں۔ اِن کا فرضِ منصبی بھی ڈیفنس یعنی دفاع ہے۔ ملک کے باقی ماندہ باشندوں کی پیدائش کا حادثہ ہی ان کا آفنس (Offence) یعنی جُرم قرار پایا ہے۔ قدیم مذہبی اساطیر میں اسے اوریجنل سِن یعنی موروثی گناہ کی اصطلاح بخشی گئی تھی۔

ملک بھر میں دو تین بڑے شہروں کے سوا تعلیم یا علاج معالجے کی اطمینان بخش سہولتیں تو خیر ناپید ہیں، سڑکوں کے کنارے درخت بھی نظر نہیں آتے۔ نیو یارک، لندن اور ٹوکیو جیسے بڑے شہروں کو طنزیہ طور پر کنکریٹ اور لوہے کے جنگل کہا جاتا ہے۔ لیکن پاکستانی قصبوں میں تو اونچی عمارتیں بھی نہیں۔ کتب خانے ہیں اور نہ فنون لطیفہ کی سرگرمیاں۔ سو ذہنوں میں روشنی کی کِرن نہیں پھوٹتی۔ درخت بھی نہیں کہ ہریالی دیکھ کر آنکھوں ہی میں ٹھنڈک اترے۔



مزید
 
Top