دیوبند: شنیدہ کے بود مانندِ دیدہ!

دیوبند: شنیدہ کے بود مانندِ دیدہ!
محمد علم اللہ

پاوں میں چکر لیے پیدا ہونے والوں کو راستے پکارتے ہیں۔ ٹیڑھی میڑھی پگ ڈنڈیاں آواز دیتی ہیں۔ احباب پیغام بھیجتے اور ہوائیں سندیسے لاتی ہیں۔ ابر انتظار کے مدھر گیت سناتے اور اَن کہی کہانیاں قدموں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ ایسی ہی ایک صدا پر لبیک کہتے ہوئے ہم اوکھلا (دہلی) سے دیوبند کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ ڈھائی تین گھنٹے میں ہم دیوبند پہنچ چکے تھے۔
دہلی کی بستی حضرت نظام الدین یا اوکھلا اور دیوبند میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ اوکھلا اسٹیشن کی طرح ہی یہاں بھی دو ٹریک والی اسٹیشن، جہاں ڈاڑھی، کرتا، پاجامہ اور ٹوپی میں ملبوس افراد، جنھیں دور ہی سے دیکھ کر اندازہ ہو جائے گا، کہ آپ دیوبند پہنچ چکے ہیں۔ اسٹیشن سے ذرا فاصلے پر سائیکل رکشہ اور ای رکشہ والے مختلف جگہوں کا نام پکار کر آپ کو بیٹھنے کے لیے کہیں گے۔ ہم بھی ایک رکشے میں بیٹھ کر سیدھے ریسٹورنٹ پہنچے، جہاں زندہ دل نوجوانوں کے امام محمود الرحمان قاسمی عرف ابو زید فرضی نے پہلے سے ہی انتظام کیا ہوا تھا۔ برادرم ابو زید فرضی حقیقی معنوں میں زندہ دل انسان ہیں، جن سے ملاقات کے بعد ان کی زندہ دلی مزید نکھر کر سامنے آتی ہے۔ ساتھ میں کھانا، گپ شپ اور چائے کے بعد تفریح کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔
سب سے پہلے ہم دیوبند کے تاریخی ادارہ دار العلوم (قدیم) پہنچے جسے برسوں سے دیکھنے کی تمنا تھی ۔ ایک چھوٹی سی چھتہ مسجد میں انار کے درخت کے نیچے تعلیم و تعلم کے ذریعے وجود میں آنے والا یہ ادارہ آج پوری دنیا میں اپنے اثرات مرتب کر چکا ہے۔ اس ادارے کا قیام 1866ء کو مولانا قاسم نانوتویؒ اور ان کے معاونین علما و مشائخ کے ذریعے عمل میں آیا تھا۔ ہندوستان میں اس ادارے اور اس سے وابستہ علما کی قربانیاں نا قابل فراموش رہی ہیں۔
جب ہم دار العلوم پہنچے تو شام کا جھٹپٹا چھانے لگا تھا، لیکن سورج ابھی پوری طرح غروب نہیں ہوا تھا۔ شام میں یہاں کی ’مسجد رشید ‘کا منظر بڑا دل فریب ہوتا ہے۔مسجد خاصی کشادہ ہے۔ جہاں طلبا عبادت و ریاضت اور مطالعہ و مذاکرے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں ہم لوگوں نے مغرب کی نماز پڑھی اور پھر’بابِ قاسم‘سے ہوتے ہوئے علم و عرفان کی اس چہار دیواری میں داخل ہوئے، جس کا شہرہ پوری دنیا میں ہے۔ یہاں آپ جیسے ہی اندر داخل ہوں گے، تقریبا ہر ریاست کے طلبا کی جانب سے شایع کی جانے والی مختلف رنگوں اور خطاطی کے خوب صورت نمونوں کے ساتھ دل کش انداز میں؛ یہاں کی ایک پرانی علمی، ادبی و صحافتی روایت دیواری جریدوں کی شکل میں نظر آئے گی؛ جن میں مختلف موضوعات پر اردو،عربی، ہندی، انگریزی اور بنگالی وغیرہ میں نظم و نثر (مضامین، فیچر، نظمیں اور غزلیں) نقش ہوں گی۔ دار العلوم کی اس نفیس روایت نے ان گنت لوح و قلم سے دل چسپی رکھنے والے دیوانوں کی پرورش کی ہے۔
یہاں سے ہم مرکزی لائبریری گئے؛ یہ لائبریری کافی کشادہ ہے، جس میں لاکھوں کی تعداد میں نادر و نایاب کتب موجود ہیں۔ لائبریری میں قرآنیات اور حدیث سے متعلق ذخیرہ دیکھنے کی چیز ہے۔ جہاں مشہور مغل بادشاہ اورنگ زیب عالم گیر کے ہاتھوں لکھا ہوا قرآن مجید اور سلطان سنگھ کے ہاتھوں سے لکھی، شیخ سعدی کی گلستاں بھی موجود ہے۔ یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ دار العلوم کتابوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے انھیں ڈیجیٹائز کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہاں کتابوں کی مرمت کاری کے علاوہ بوسیدہ اور دیمک زدہ کتابوں کو قابل مطالعہ بنانے کے لیے ملازمین اپنے اپنے کاموں میں مصروف نظر آئے۔
یہاں سے ہم کمپیوٹر سینٹر، دار الحدیث، ہاسٹل سے ہوتے ہوئے دار تحفیظِ القرآنِ گئے، جہاں چھوٹے چھوٹے بچے حفظ قرآن میں محو نظر آئے۔ دار العلوم کا اپنا اسپتال بھی ہے، جہاں اس مہنگائی کے زمانے میں بھی طلبا کا محض ایک روپے میں، جب کہ مقامی لوگوں کا تین روپے میں علاج ہو جاتا ہے۔ یہاں سے ہم پھر مطبخ آئے، جہاں بیَک وقت کئی ہزار طلبا کا کھانا تیار کیا جاتا ہے۔ دار العلوم اپنے طلبا کو مفت قیام کے ساتھ مفت طعام بھی مہیا کرتا ہے۔ طلبا کو اسکالر شپ کے علاوہ کپڑے اور دیگر ضروریاتِ زندگی کے سامان فراہم کیے جاتے ہیں، جن میں تیل، صابن، کاپی، قلم وغیرہ شامل ہیں۔
یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ طلبا کے کھانے کا نظم بالکل بھی اچھا نہیں تھا۔ برتن میں سالن اور ہاتھ میں روٹیاں پکڑے، طلبا شاہراہ کے بیچوں بیچ سے گذر رہے تھے، جو اتفاق سے عام و خاص کی گذر گاہ بھی ہے۔ صدیاں گذر گئیں، زمانہ بدلا، خود زمانے کے ساتھ دار العلوم نے بھی اپنے یہاں خاصی مثبت تبدیلیاں کیں، جن میں بطور خاص انگریزی زبان اور کمپیوٹر وغیرہ کی تعلیم شامل ہے، مگر مطبخ کے معاملے میں وہاں کے ذمے داران کا یہ رویہ حیرت ناک، بلکہ افسوس ناک اور تبدیلی کا متقاضی ہے۔
قدیم دار العلوم کے معائنے کے بعد ہم دار العلوم وقف گئے۔ یہ وہی دار العلوم وقف ہے، جو 1982ء میں ایک تنازِع کے بعد تقسیم کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ دونوں اداروں کی خمیر اور مٹی گرچہ ایک ہی ہے، مگر دونوں میں فرق واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اس دار العلوم کی زیادہ تر عمارتیں نئی ہیں، جس کے اثرات بھی یہاں صاف دکھائی دیتے ہیں۔ اساتذہ اور طلبا سے بات چیت میں دونوں اداروں کا فرق واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہاں کے لوگ ذرا معتدل مزاج دکھائی دیے۔ کئی معاملوں میں یہاں کے علما اور اساتذہ میں وہاں کے اکابرین کے مقابلے لچک دکھائی دیتی ہے؛ مجموعی طور پر دونوں اداروں کا تہذیب و ثقافت ایک جیسی ہے۔
یہاں کی لائبریری اور دیگر عمارتیں جدید طرز تعمیر پر دکھائی دیتی ہیں، جب کہ کچھ زیر تعمیر ہیں۔ سب کی سب قدیم عمارتیں اور اثاثہ (قدیم) دار العلوم کے حصے میں گئی ہیں۔ جس طرح دار العلوم قدیم سے عربی جریدہ’الداعی‘ شایع ہوتا ہے، اسی طرح یہاں سے بھی ایک خوب صورت، معیاری اور نفیس عربی مجلہ نکلتا ہے؛ اس کا نام ’وحدۃ الامۃ‘ ہے۔ یہاں سے ایک انگریزی جریدہ بھی ’وائس آف دار العلوم‘ کے نام سے شایع ہوتا ہے، جس کا معیار بہت اچھا تو نہیں ہے؛ لیکن اسے سطحی بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اپنے وجود کو سمیٹنے اور شناخت کو برقرار رکھنے میں اس ادارے کی کوششیں قابل قدر ہیں۔ دارالعلوم قدیم کے برعکس، یہاں سمپوزیم اور سیمنار وغیرہ کا رواج ہے؛ جدید ٹیکنالوجی سے مزین خوب صورت ہال اور لائبریری بھی ہے۔
دونوں اداروں میں ہر ریاست کے طلبا کی اپنی چھوٹی چھوٹی لائبریریاں ہیں، جن کا انتظام و انصرام طلبا ہی کرتے ہیں۔ طلبا کی ایک دو لائبریری دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہاں بھی ان کے اپنے بزرگوں کی ہی لکھی کتابیں زیادہ تھیں۔ دار العلوم کے آس پاس انگلش اسپیکنگ کورس جیسے کئی کوچنگ سینٹر نظر آئے، پتا کرنے پر معلوم ہوا کہ ان میں سے کئی دار العلوم کے فاضلین کے ذریعے ہی چلائے جا رہے ہیں، جنھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی سے تعلیم حاصل کی ہے۔ جدید اور قدیم کے ایسے سنگم کو دیکھ کربڑی خوشی ہوئی۔
یہاں کے اساتذہ اور طلبا بڑی خندہ پیشانی اور خلوص کے ساتھ ملتے ہیں۔ ان کی سادگی اور خلوص من موہنی ہوتی ہے۔ پہلی ہی ملاقات میں وہ آپ کواپنا اسیر بنا لیں گے۔ خصوصی طور پر مولانا ندیم الواجدی، ابو زید فرضی، مہدی حسن عینی، شادان نفیس، شبلی اعجازی، لقمان عثمانی، اور محمد غزالی خان جیسے محبین، دوستوں، عزیزوں اور بزرگوں کی محبتیں اور شفقتیں تا دیر یاد رہیں گی۔ محمد غزالی خان سے گفت گو خاصی دل چسپ رہی اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ محمد غزالی خان دیوبند کے ہیں؛ لیکن لندن میں رہتے ہیں۔ غزالی صاحب نے عشائیہ کا اہتمام کیا تھا۔ یہاں پر مختلف موضوعات پر بات چیت ہوئی جس میں بطور خاص ہندوستان میں میڈیا اور مسلمانوں کی حالت زیر بحث آئے۔ غزالی صاحب کا یہ درد بجا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی اتنی بڑی آبادی ہونے کے باوجود کوئی میڈیا ہاوس نہیں ہے، اور مسلم دانشوروں کو اس جانب سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے۔
دار العلوم اور آس پاس کی فضا سے آپ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے، قدم قدم پر آپ کو عطر، رومال، ٹوپی اور کتابوں کی دُکانیں نظر آئیں گی۔ ساتھ ہی ساتھ آپ کو عوامی لائبریری بھی دکھائی دے گی، جہاں طلبا مطالعے میں غرق نظر آئیں گے۔ یہاں کی مقامی لائبریری، مطالعہ گاہوں یہاں تک کہ دُکانوں میں بھی زیادہ تر دینی لیٹریچر ہی نظر آئے گا، جس میں درسی کتابوں کی شروحات کی بہتات ہو گی۔ تقریروں، ملفوظات اور مواعظ کی کتابیں ہر دُکان میں بھری نظر آئیں گی ۔ یہاں کتابیں انتہائی کم قیمت پر مل جاتی ہیں، کتابیں سستی ہوں گی، تو کاغذ بھی ویسے ہی ہو گا۔ یہاں کے دُکان دار نقلی پائریٹیڈ کتابیں چھاپنے میں بھی ماہر ہیں۔
دار العلوم سے ذرا دوری پر ہندووں کی قدیم عبادت گاہ ’ماں شری تری پور بالا سندری دیوی مندر، دیوی کنڈ‘ ہے۔ یہاں سے فارغ ہونے کے بعد ہم مندر بھی دیکھنے گئے۔ ہندو عقیدے کے مطابق اس مندر میں ماتا درگا کی ماں راجیشوری تری پور بالا سندری سو روپ کی پوجا کی جاتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ’ماں بالا سندری‘کا یہ مندر قدیم زمانے سے ہے۔
یہاں کے ایک پجاری نے ہمیں بتایا کہ ماں تری پور بالا سندری ’درگا ماتا‘ ہی کی ایک شکل ہے۔ جن میں برہما، وشنو اور مہیش ہیں۔ تنتر سار کے مطابق ماں راجیشوری تری پور بالا سندری کا روپ سورج کی پہلی کرن کے مانند ہوتی ہے، جس کے چار زاویے اور تین آنکھیں ہیں۔ اس عبادت گاہ میں ماں دیوی کی اُپواس کرنے والوں کو نجات اور سکون میسر آتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شری تری پور ماں بالا سندری کے مندر میں، ماں کے غسل کے دوران چوڑیوں کے کھنکنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ یہ آوازیں صرف ماں کے پیارے عقیدت مندوں ہی کو سننے کو ملتی ہیں۔
وقت کے ساتھ مندر کے دروازے پر کنداں نشانات اور تین چوتھائی دیوار تباہ ہو چکی ہے۔ دروازے پر ایک سات سطری تحریر آویزاں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ آج تک کوئی اس تحریر کو پڑھ نہیں پایا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ راجا رام چندر مہا راج کے ذریعے مندر کی آخری مرمت کاری ہوئی تھی۔ مندر کے پنڈت وِنَے شرما نے بتایا کہ جب پانڈووں پر مصیبت پڑی تھی، تو انھوں نے یہیں پناہ لی تھی؛ جہاں انھوں نے دیوی کی پوجا کی تھی۔ یہاں سنس کرت کا ایک قدیم ادارہ بھی ہے، ہمیں پنڈت وِنَے شرما نے بتایا کہ اس ادارے کی بنیاد دار العلوم کے ساتھ ہی رکھی گئی تھی۔ اس نے یہ بھی کہا کہ دار العلوم کی ترقی اس لیے ہوئی کہ اسے مسلمانوں سے خاصا تعاون ملا اور ہمیں زیادہ تعاون نہیں مل سکا؛ اس لیے ہم اپنے ادارے کی زیادہ توسیع نہیں کر سکے۔
رات دیر گئے ہمارے دوست مہدی حسن عینی نے اپنے سینٹر دیوبند اسلامک اکیڈمی میں ایک مذاکرے کا اہتمام کیا تھا، جس میں دارالعلوم (قدیم) اور دار العلوم (وقف) کے علاوہ دیگر اداروں کے طلبا موجود تھے۔ یہاں طلبا سے بات چیت خاصی خوش گوار رہی۔ ہم نے خصوصی طور پر طلبا کو بیدار کرنے اور سماج میں ان کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے کی ترغیب دی۔ انھیں بتایا کہ مدارس سے فراغت کے بعد بھی ان کے لیے ہزاروں راہیں ہیں۔ وہ جدید دانش گاہوں سے مختلف شعبوں میں گریجویشن کے بعد مختلف میدانوں کا انتخاب کر کے سول سروسز اور دیگر مقابلہ جاتی امتحانات (ایس ایس سی، نیٹ، سیٹ، گیٹ، سی ٹیٹ، ٹیٹ) وغیرہ کی تیاری کر کے، سرکاری ملازمت پا سکتے ہیں۔
دیوبند کے اس سفر میں مجھےاحساس ہوا کہ بہت کام کرنے کی ضرورت ہے اور پوری ملت کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے، نئی نسل تبدیلی چاہتی ہے، اس کے اندر کچھ کرنے اور قوم کو ترقی کی راہ پر لے جانے کی بے پناہ خواہش ہے؛ لیکن وہ سمت سفر اور منزل مقصود کی تلاش میں ہے، وسائل کی شدید کمی ہے۔ پرانے لوگوں سے کچھ بھی ہونے والا نہیں ہے، وہ ہر جگہ گنج کی طرح بیٹھے ہوئے ہیں۔ نہ کچھ کرتے ہیں، نہ کرنے دیتے ہیں، انھیں نوجوانوں سے خوف ہے، کہ اگر واقعی وہ بیدار ہو گئے، تو ان کی چودھراہٹ ختم ہو جائے گی؛ اس لیے وہ انھیں میٹھی گولیاں دے کر سلانا چاہتے ہیں، لیکن نوجوان نسل اب سونے والی نہیں ہے، آج نہیں، تو کل سہی یہی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔
آپ شہرِ دیوبند کو ایران کے شہر قم سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں، جہاں قدم قدم پر مدارس و مکاتب کا جال بچھا ہوا نظر آتا ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ اس چھوٹے سے شہر میں کم و بیش تین سو مدارس ہیں۔ دیوبند شہر اور دار العلوم کا چولی دامن کا ساتھ ہے، ٹھیک اسی طرح جیسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا علی گڑھ شہر سے ہے یا برطانیہ میں آکسفورڈ یونیورسٹی کا آکسفورڈ شہر سے؛ لیکن دیوبند شہر اور دار العلوم ایک دوسرے میں سمٹے رہنے کے باوجود ایک دوسرے سے مختلف نظر آتے ہیں ۔ یہاں دہلی کی طرح ہندو اور مسلم بستیوں صاف فرق نظر آتا ہے، مسلم بستیوں میں قدم قدم پر کوڑے کرکٹ کا ڈھیر اور گندگی، جب کہ غیر مسلم علاقوں میں آپ کو اتنی گندگی نظر نہیں آئے گی۔ زیادہ تر سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ تنگ گلیاں گندگی سے پر ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہاں میونسپل کمیٹی کام نہیں کرتی۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، ادھ کھلے گٹر اور نالیاں جگہ جگہ دکھائی دیتی ہیں۔ شہر کا دورہ کرنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ اسے ترقی کی سخت ضرورت ہے۔

دیوبند: شنیدہ کے بود مانندِ دیدہ! - ہم سب
 

سید عمران

محفلین
دیوبند: شنیدہ کے بود مانندِ دیدہ!
محمد علم اللہ

پاوں میں چکر لیے پیدا ہونے والوں کو راستے پکارتے ہیں۔ ٹیڑھی میڑھی پگ ڈنڈیاں آواز دیتی ہیں۔ احباب پیغام بھیجتے اور ہوائیں سندیسے لاتی ہیں۔ ابر انتظار کے مدھر گیت سناتے اور اَن کہی کہانیاں قدموں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ ایسی ہی ایک صدا پر لبیک کہتے ہوئے ہم اوکھلا (دہلی) سے دیوبند کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ ڈھائی تین گھنٹے میں ہم دیوبند پہنچ چکے تھے۔
دہلی کی بستی حضرت نظام الدین یا اوکھلا اور دیوبند میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ اوکھلا اسٹیشن کی طرح ہی یہاں بھی دو ٹریک والی اسٹیشن، جہاں ڈاڑھی، کرتا، پاجامہ اور ٹوپی میں ملبوس افراد، جنھیں دور ہی سے دیکھ کر اندازہ ہو جائے گا، کہ آپ دیوبند پہنچ چکے ہیں۔ اسٹیشن سے ذرا فاصلے پر سائیکل رکشہ اور ای رکشہ والے مختلف جگہوں کا نام پکار کر آپ کو بیٹھنے کے لیے کہیں گے۔ ہم بھی ایک رکشے میں بیٹھ کر سیدھے ریسٹورنٹ پہنچے، جہاں زندہ دل نوجوانوں کے امام محمود الرحمان قاسمی عرف ابو زید فرضی نے پہلے سے ہی انتظام کیا ہوا تھا۔ برادرم ابو زید فرضی حقیقی معنوں میں زندہ دل انسان ہیں، جن سے ملاقات کے بعد ان کی زندہ دلی مزید نکھر کر سامنے آتی ہے۔ ساتھ میں کھانا، گپ شپ اور چائے کے بعد تفریح کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔
سب سے پہلے ہم دیوبند کے تاریخی ادارہ دار العلوم (قدیم) پہنچے جسے برسوں سے دیکھنے کی تمنا تھی ۔ ایک چھوٹی سی چھتہ مسجد میں انار کے درخت کے نیچے تعلیم و تعلم کے ذریعے وجود میں آنے والا یہ ادارہ آج پوری دنیا میں اپنے اثرات مرتب کر چکا ہے۔ اس ادارے کا قیام 1866ء کو مولانا قاسم نانوتویؒ اور ان کے معاونین علما و مشائخ کے ذریعے عمل میں آیا تھا۔ ہندوستان میں اس ادارے اور اس سے وابستہ علما کی قربانیاں نا قابل فراموش رہی ہیں۔
جب ہم دار العلوم پہنچے تو شام کا جھٹپٹا چھانے لگا تھا، لیکن سورج ابھی پوری طرح غروب نہیں ہوا تھا۔ شام میں یہاں کی ’مسجد رشید ‘کا منظر بڑا دل فریب ہوتا ہے۔مسجد خاصی کشادہ ہے۔ جہاں طلبا عبادت و ریاضت اور مطالعہ و مذاکرے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں ہم لوگوں نے مغرب کی نماز پڑھی اور پھر’بابِ قاسم‘سے ہوتے ہوئے علم و عرفان کی اس چہار دیواری میں داخل ہوئے، جس کا شہرہ پوری دنیا میں ہے۔ یہاں آپ جیسے ہی اندر داخل ہوں گے، تقریبا ہر ریاست کے طلبا کی جانب سے شایع کی جانے والی مختلف رنگوں اور خطاطی کے خوب صورت نمونوں کے ساتھ دل کش انداز میں؛ یہاں کی ایک پرانی علمی، ادبی و صحافتی روایت دیواری جریدوں کی شکل میں نظر آئے گی؛ جن میں مختلف موضوعات پر اردو،عربی، ہندی، انگریزی اور بنگالی وغیرہ میں نظم و نثر (مضامین، فیچر، نظمیں اور غزلیں) نقش ہوں گی۔ دار العلوم کی اس نفیس روایت نے ان گنت لوح و قلم سے دل چسپی رکھنے والے دیوانوں کی پرورش کی ہے۔
یہاں سے ہم مرکزی لائبریری گئے؛ یہ لائبریری کافی کشادہ ہے، جس میں لاکھوں کی تعداد میں نادر و نایاب کتب موجود ہیں۔ لائبریری میں قرآنیات اور حدیث سے متعلق ذخیرہ دیکھنے کی چیز ہے۔ جہاں مشہور مغل بادشاہ اورنگ زیب عالم گیر کے ہاتھوں لکھا ہوا قرآن مجید اور سلطان سنگھ کے ہاتھوں سے لکھی، شیخ سعدی کی گلستاں بھی موجود ہے۔ یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ دار العلوم کتابوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے انھیں ڈیجیٹائز کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہاں کتابوں کی مرمت کاری کے علاوہ بوسیدہ اور دیمک زدہ کتابوں کو قابل مطالعہ بنانے کے لیے ملازمین اپنے اپنے کاموں میں مصروف نظر آئے۔
یہاں سے ہم کمپیوٹر سینٹر، دار الحدیث، ہاسٹل سے ہوتے ہوئے دار تحفیظِ القرآنِ گئے، جہاں چھوٹے چھوٹے بچے حفظ قرآن میں محو نظر آئے۔ دار العلوم کا اپنا اسپتال بھی ہے، جہاں اس مہنگائی کے زمانے میں بھی طلبا کا محض ایک روپے میں، جب کہ مقامی لوگوں کا تین روپے میں علاج ہو جاتا ہے۔ یہاں سے ہم پھر مطبخ آئے، جہاں بیَک وقت کئی ہزار طلبا کا کھانا تیار کیا جاتا ہے۔ دار العلوم اپنے طلبا کو مفت قیام کے ساتھ مفت طعام بھی مہیا کرتا ہے۔ طلبا کو اسکالر شپ کے علاوہ کپڑے اور دیگر ضروریاتِ زندگی کے سامان فراہم کیے جاتے ہیں، جن میں تیل، صابن، کاپی، قلم وغیرہ شامل ہیں۔
یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ طلبا کے کھانے کا نظم بالکل بھی اچھا نہیں تھا۔ برتن میں سالن اور ہاتھ میں روٹیاں پکڑے، طلبا شاہراہ کے بیچوں بیچ سے گذر رہے تھے، جو اتفاق سے عام و خاص کی گذر گاہ بھی ہے۔ صدیاں گذر گئیں، زمانہ بدلا، خود زمانے کے ساتھ دار العلوم نے بھی اپنے یہاں خاصی مثبت تبدیلیاں کیں، جن میں بطور خاص انگریزی زبان اور کمپیوٹر وغیرہ کی تعلیم شامل ہے، مگر مطبخ کے معاملے میں وہاں کے ذمے داران کا یہ رویہ حیرت ناک، بلکہ افسوس ناک اور تبدیلی کا متقاضی ہے۔
قدیم دار العلوم کے معائنے کے بعد ہم دار العلوم وقف گئے۔ یہ وہی دار العلوم وقف ہے، جو 1982ء میں ایک تنازِع کے بعد تقسیم کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ دونوں اداروں کی خمیر اور مٹی گرچہ ایک ہی ہے، مگر دونوں میں فرق واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اس دار العلوم کی زیادہ تر عمارتیں نئی ہیں، جس کے اثرات بھی یہاں صاف دکھائی دیتے ہیں۔ اساتذہ اور طلبا سے بات چیت میں دونوں اداروں کا فرق واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہاں کے لوگ ذرا معتدل مزاج دکھائی دیے۔ کئی معاملوں میں یہاں کے علما اور اساتذہ میں وہاں کے اکابرین کے مقابلے لچک دکھائی دیتی ہے؛ مجموعی طور پر دونوں اداروں کا تہذیب و ثقافت ایک جیسی ہے۔
یہاں کی لائبریری اور دیگر عمارتیں جدید طرز تعمیر پر دکھائی دیتی ہیں، جب کہ کچھ زیر تعمیر ہیں۔ سب کی سب قدیم عمارتیں اور اثاثہ (قدیم) دار العلوم کے حصے میں گئی ہیں۔ جس طرح دار العلوم قدیم سے عربی جریدہ’الداعی‘ شایع ہوتا ہے، اسی طرح یہاں سے بھی ایک خوب صورت، معیاری اور نفیس عربی مجلہ نکلتا ہے؛ اس کا نام ’وحدۃ الامۃ‘ ہے۔ یہاں سے ایک انگریزی جریدہ بھی ’وائس آف دار العلوم‘ کے نام سے شایع ہوتا ہے، جس کا معیار بہت اچھا تو نہیں ہے؛ لیکن اسے سطحی بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اپنے وجود کو سمیٹنے اور شناخت کو برقرار رکھنے میں اس ادارے کی کوششیں قابل قدر ہیں۔ دارالعلوم قدیم کے برعکس، یہاں سمپوزیم اور سیمنار وغیرہ کا رواج ہے؛ جدید ٹیکنالوجی سے مزین خوب صورت ہال اور لائبریری بھی ہے۔
دونوں اداروں میں ہر ریاست کے طلبا کی اپنی چھوٹی چھوٹی لائبریریاں ہیں، جن کا انتظام و انصرام طلبا ہی کرتے ہیں۔ طلبا کی ایک دو لائبریری دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہاں بھی ان کے اپنے بزرگوں کی ہی لکھی کتابیں زیادہ تھیں۔ دار العلوم کے آس پاس انگلش اسپیکنگ کورس جیسے کئی کوچنگ سینٹر نظر آئے، پتا کرنے پر معلوم ہوا کہ ان میں سے کئی دار العلوم کے فاضلین کے ذریعے ہی چلائے جا رہے ہیں، جنھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی سے تعلیم حاصل کی ہے۔ جدید اور قدیم کے ایسے سنگم کو دیکھ کربڑی خوشی ہوئی۔
یہاں کے اساتذہ اور طلبا بڑی خندہ پیشانی اور خلوص کے ساتھ ملتے ہیں۔ ان کی سادگی اور خلوص من موہنی ہوتی ہے۔ پہلی ہی ملاقات میں وہ آپ کواپنا اسیر بنا لیں گے۔ خصوصی طور پر مولانا ندیم الواجدی، ابو زید فرضی، مہدی حسن عینی، شادان نفیس، شبلی اعجازی، لقمان عثمانی، اور محمد غزالی خان جیسے محبین، دوستوں، عزیزوں اور بزرگوں کی محبتیں اور شفقتیں تا دیر یاد رہیں گی۔ محمد غزالی خان سے گفت گو خاصی دل چسپ رہی اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ محمد غزالی خان دیوبند کے ہیں؛ لیکن لندن میں رہتے ہیں۔ غزالی صاحب نے عشائیہ کا اہتمام کیا تھا۔ یہاں پر مختلف موضوعات پر بات چیت ہوئی جس میں بطور خاص ہندوستان میں میڈیا اور مسلمانوں کی حالت زیر بحث آئے۔ غزالی صاحب کا یہ درد بجا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی اتنی بڑی آبادی ہونے کے باوجود کوئی میڈیا ہاوس نہیں ہے، اور مسلم دانشوروں کو اس جانب سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے۔
دار العلوم اور آس پاس کی فضا سے آپ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے، قدم قدم پر آپ کو عطر، رومال، ٹوپی اور کتابوں کی دُکانیں نظر آئیں گی۔ ساتھ ہی ساتھ آپ کو عوامی لائبریری بھی دکھائی دے گی، جہاں طلبا مطالعے میں غرق نظر آئیں گے۔ یہاں کی مقامی لائبریری، مطالعہ گاہوں یہاں تک کہ دُکانوں میں بھی زیادہ تر دینی لیٹریچر ہی نظر آئے گا، جس میں درسی کتابوں کی شروحات کی بہتات ہو گی۔ تقریروں، ملفوظات اور مواعظ کی کتابیں ہر دُکان میں بھری نظر آئیں گی ۔ یہاں کتابیں انتہائی کم قیمت پر مل جاتی ہیں، کتابیں سستی ہوں گی، تو کاغذ بھی ویسے ہی ہو گا۔ یہاں کے دُکان دار نقلی پائریٹیڈ کتابیں چھاپنے میں بھی ماہر ہیں۔
دار العلوم سے ذرا دوری پر ہندووں کی قدیم عبادت گاہ ’ماں شری تری پور بالا سندری دیوی مندر، دیوی کنڈ‘ ہے۔ یہاں سے فارغ ہونے کے بعد ہم مندر بھی دیکھنے گئے۔ ہندو عقیدے کے مطابق اس مندر میں ماتا درگا کی ماں راجیشوری تری پور بالا سندری سو روپ کی پوجا کی جاتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ’ماں بالا سندری‘کا یہ مندر قدیم زمانے سے ہے۔
یہاں کے ایک پجاری نے ہمیں بتایا کہ ماں تری پور بالا سندری ’درگا ماتا‘ ہی کی ایک شکل ہے۔ جن میں برہما، وشنو اور مہیش ہیں۔ تنتر سار کے مطابق ماں راجیشوری تری پور بالا سندری کا روپ سورج کی پہلی کرن کے مانند ہوتی ہے، جس کے چار زاویے اور تین آنکھیں ہیں۔ اس عبادت گاہ میں ماں دیوی کی اُپواس کرنے والوں کو نجات اور سکون میسر آتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شری تری پور ماں بالا سندری کے مندر میں، ماں کے غسل کے دوران چوڑیوں کے کھنکنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ یہ آوازیں صرف ماں کے پیارے عقیدت مندوں ہی کو سننے کو ملتی ہیں۔
وقت کے ساتھ مندر کے دروازے پر کنداں نشانات اور تین چوتھائی دیوار تباہ ہو چکی ہے۔ دروازے پر ایک سات سطری تحریر آویزاں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ آج تک کوئی اس تحریر کو پڑھ نہیں پایا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ راجا رام چندر مہا راج کے ذریعے مندر کی آخری مرمت کاری ہوئی تھی۔ مندر کے پنڈت وِنَے شرما نے بتایا کہ جب پانڈووں پر مصیبت پڑی تھی، تو انھوں نے یہیں پناہ لی تھی؛ جہاں انھوں نے دیوی کی پوجا کی تھی۔ یہاں سنس کرت کا ایک قدیم ادارہ بھی ہے، ہمیں پنڈت وِنَے شرما نے بتایا کہ اس ادارے کی بنیاد دار العلوم کے ساتھ ہی رکھی گئی تھی۔ اس نے یہ بھی کہا کہ دار العلوم کی ترقی اس لیے ہوئی کہ اسے مسلمانوں سے خاصا تعاون ملا اور ہمیں زیادہ تعاون نہیں مل سکا؛ اس لیے ہم اپنے ادارے کی زیادہ توسیع نہیں کر سکے۔
رات دیر گئے ہمارے دوست مہدی حسن عینی نے اپنے سینٹر دیوبند اسلامک اکیڈمی میں ایک مذاکرے کا اہتمام کیا تھا، جس میں دارالعلوم (قدیم) اور دار العلوم (وقف) کے علاوہ دیگر اداروں کے طلبا موجود تھے۔ یہاں طلبا سے بات چیت خاصی خوش گوار رہی۔ ہم نے خصوصی طور پر طلبا کو بیدار کرنے اور سماج میں ان کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے کی ترغیب دی۔ انھیں بتایا کہ مدارس سے فراغت کے بعد بھی ان کے لیے ہزاروں راہیں ہیں۔ وہ جدید دانش گاہوں سے مختلف شعبوں میں گریجویشن کے بعد مختلف میدانوں کا انتخاب کر کے سول سروسز اور دیگر مقابلہ جاتی امتحانات (ایس ایس سی، نیٹ، سیٹ، گیٹ، سی ٹیٹ، ٹیٹ) وغیرہ کی تیاری کر کے، سرکاری ملازمت پا سکتے ہیں۔
دیوبند کے اس سفر میں مجھےاحساس ہوا کہ بہت کام کرنے کی ضرورت ہے اور پوری ملت کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے، نئی نسل تبدیلی چاہتی ہے، اس کے اندر کچھ کرنے اور قوم کو ترقی کی راہ پر لے جانے کی بے پناہ خواہش ہے؛ لیکن وہ سمت سفر اور منزل مقصود کی تلاش میں ہے، وسائل کی شدید کمی ہے۔ پرانے لوگوں سے کچھ بھی ہونے والا نہیں ہے، وہ ہر جگہ گنج کی طرح بیٹھے ہوئے ہیں۔ نہ کچھ کرتے ہیں، نہ کرنے دیتے ہیں، انھیں نوجوانوں سے خوف ہے، کہ اگر واقعی وہ بیدار ہو گئے، تو ان کی چودھراہٹ ختم ہو جائے گی؛ اس لیے وہ انھیں میٹھی گولیاں دے کر سلانا چاہتے ہیں، لیکن نوجوان نسل اب سونے والی نہیں ہے، آج نہیں، تو کل سہی یہی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔
آپ شہرِ دیوبند کو ایران کے شہر قم سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں، جہاں قدم قدم پر مدارس و مکاتب کا جال بچھا ہوا نظر آتا ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ اس چھوٹے سے شہر میں کم و بیش تین سو مدارس ہیں۔ دیوبند شہر اور دار العلوم کا چولی دامن کا ساتھ ہے، ٹھیک اسی طرح جیسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا علی گڑھ شہر سے ہے یا برطانیہ میں آکسفورڈ یونیورسٹی کا آکسفورڈ شہر سے؛ لیکن دیوبند شہر اور دار العلوم ایک دوسرے میں سمٹے رہنے کے باوجود ایک دوسرے سے مختلف نظر آتے ہیں ۔ یہاں دہلی کی طرح ہندو اور مسلم بستیوں صاف فرق نظر آتا ہے، مسلم بستیوں میں قدم قدم پر کوڑے کرکٹ کا ڈھیر اور گندگی، جب کہ غیر مسلم علاقوں میں آپ کو اتنی گندگی نظر نہیں آئے گی۔ زیادہ تر سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ تنگ گلیاں گندگی سے پر ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہاں میونسپل کمیٹی کام نہیں کرتی۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، ادھ کھلے گٹر اور نالیاں جگہ جگہ دکھائی دیتی ہیں۔ شہر کا دورہ کرنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ اسے ترقی کی سخت ضرورت ہے۔

دیوبند: شنیدہ کے بود مانندِ دیدہ! - ہم سب
آہ کیا یاد تازہ کردی۔۔۔
جب ہم یہاں تھے۔۔۔
دل چاہ رہا ہے کہ ہندوستان کا سفرنامہ لکھوں۔۔۔
اگرچہ عرصہ بیت گیا۔۔۔
کتنے برسوں پر گرد پڑ گئی اور کتنے انسانوں پہ مٹی!!!
 
آہ کیا یاد تازہ کردی۔۔۔
جب ہم یہاں تھے۔۔۔
دل چاہ رہا ہے کہ ہندوستان کا سفرنامہ لکھوں۔۔۔
اگرچہ عرصہ بیت گیا۔۔۔
کتنے برسوں پر گرد پڑ گئی اور کتنے انسانوں پہ مٹی!!!
بھیا بسم اللہ پڑھ کر شروع کریں ،
جب لکھنے بیٹھے گے تو خوبخود ذہن کے دریچے وا ہونے لگے گے ۔
 

سید عمران

محفلین
یہ بات ہمارے لیے نئی ہے۔اس تنازع کی تفصیل؟
۱۹۸۰ء میں حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحب نوراللہ مرقدہٗ مہتم دارالعلوم دیوبند کی قیادت میں دارالعلوم دیوبند کا جشن صدسالہ بڑے تزک و احتشام کے ساتھ منعقد کیا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب حضرت حکیم الاسلام قد س سرہ العزیز بحیثیت مہتم دارالعلوم کی زائد از نصف صدی پر محیط شبانہ روز محنت نے ان کے جد امجد بانئ دارالعلوم حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہٗ کے قائم کردہ دارالعلوم دیوبند کو عروج اور نیک نامی کے نصف النہار پرپہنچا دیا تھا۔ اس تقریب صد سالہ میں تقریبا بیس لاکھ فرزندان توحید نے حضرت حکیم الاسلامؒ کی دعوت پر لبیک کہا، سربراہان مملکتوں نے اپنے وفود اظہار تہنیت اور حکیم الاسلامؒ اور دارالعلوم دیوبند کی طرف عقیدت و احترام کے ساتھ روانہ کیے۔ اس سے قبل حضرت حکیم الاسلام ؒ بحیثیت مہتم دارالعلوم دیوبند اور بحیثیت قائد امت اسلام ہندوستان میں اسلامی شریعت اور مسلمانوں کے عائلی شرعی قوانین کے تحفظ کے لیے حکومت وقت کو مجبور کر چکے تھے کہ وہ مسلم پرسنل لأکو قانونی طور پر منظور کرے۔ حضرت حکیم الاسلامؒ و دارالعلوم دیوبند کی قائدانہ حیثیت بحیثیت ادارہ و شخصیت دو ایسے لازم وملزوم جزبن چکے تھے جسے حکومت وقت کے لیے برداشت کرنا دشوار ہو رہا تھا۔ حکیم الاسلامؒ کی دعوت پر دیوبند جیسے چھوٹے سے قصبے میں لاکھوں لاکھ فرزندان توحید کا جم و غفیر یقیناًاس وقت کے ارباب اقتدار کے لیے پریشانی کا باعث تھا، کب گوارہ تھا اُس ارباب اقتدار کو کہ مسلمان ایک پرچم تلے، اور ایک شخص کی قیادت میں متحد ہوں۔ اور اس سے بھی بڑی دشواری یہ تھی کہ آخر اس ضعیف اور نحیف شخص میں وہ کون سی کشش ہے کہ فرقوں اور گروہوں میں تقسیم یہ قوم اسے خوشی خوشی اپنا متفق علیہ قائد تسلیم کر چکی ہے؟حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ذریعے قائم کیے گیے آل انڈیا مسلم پرسنل لأبورڈ کے بینر تلے مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر اورفرقوں کے قائدین و افرادجمع ہو کر حکیم الاسلام ؒ کو اپنا قائد تسلیم کر چکے تھے۔
حکیم الاسلام ؒ کا موقف ہمیشہ غیر سیاسی رہا۔ حضرتؒ نے دارالعلوم دیوبند کو ہمیشہ اپنے اکابرین کی روایات کے مطابق تمام طرح کی سیاسی آلودگیوں سے علیحدہ رکھا۔حکیم الاسلام ؒ خالص علمی شخصیت تھے،مدبر اور مفکر تھے، دین اور اسلام ان کا اوڑنا بچھونا تھا، قاسمی شرافت و سادہ لوحی ان کے مزاج کا جزو لاینفک تھی،حکیم الاسلامؒ اپنے یا غیروں کے جس پلیٹ فارم پر بھی جاتے صرف دین اور اسلام کی بات کرتے۔ انکے تمام خطبات اور انکی تحریریں انکی علمی اور غیر سیاسی فکر کی شاہد ہیں۔ لیکن دارالعلوم دیوبند سے منسلک چند ایسے افراد موجود تھے جنکا مروجہ سیاست میں عمل دخل تھا۔ دارالعلوم کے عظیم الشان اجلا س صدسالہ کے بعد یہ افراد متحرک ہو گئے اوردارالعلوم کی علمی فضا متأثر ہونے لگی ۔ حضرت حکیم الاسلامؒ جو سیاست کی شعبدہ بازیوں سے بالکل ناواقف تھے وہ ان سیاسی چالوں سے بھلا کب پار آ سکتے تھے جو دارالعلوم دیوبند میں انکے اقتدار کو ختم کرنے کے لیے شروع ہو چکی تھیں۔ سیاست کی چالیں بہت خطرناک ہوتی ہیں اور وہ اس وقت بہت خطرناک اور تباہ کن رخ اختیار کر لیتی ہیں جب کہ مدمقابل سیاست کے حربوں سے بالکل واقف نہ ہو، یہی دارالعلوم میں ہو رہا تھا۔ حضرت حکیم الاسلامؒ نے دارالعلوم کے تحفظ کے لئے مجلس شوری کو تحلیل کر نے کا حکم دیا، وجہ اسکی صرف یہی تھی کہ مجلس شوری کے اکثر افراد جو خود سادہ لوح اور علمی شخصیات تھے وہ سیاسی پالیسیوں کا شکار ہو گیے۔مخلصین و مشاہرین امت انتظامیہ اور مخلصین ادارہ اور ملک کے طول و عرض کے مشورے سے اٹھائے گئے اس قدم کو یہ رنگ دیا گیا کہ اس سے دارالعلوم کا وقار مجروح ہوا ہے، حالاں کہ حضرت حکیم الاسلام ؒ نے دارالعلوم کے تحفظ کے مد نظر اُس مجلس شوری کو تحلیل کرنے کا فیصلہ لیا جو اب سیاست کا شکار ہو چکی تھی۔حضرت حکیم الاسلام ؒ پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ اپنے صاحبزادے حضرت مولانامحمد سالم قاسمی صاحب مد ظلہ العالی کو دارالعلوم کا مہتم بنا نا چاہتے ہیں۔ جبکہ اس پروپیگنڈے کے لیے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا اور بالفرض مان بھی لیا جائے کہ حضرت ؒ اپنے فرزند کو اپنے بعد دارالعلوم کے مسند اہتمام پر فائز کرنے کے خواہشمند تھے تو اس میں حرج کیا تھا؟ حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحب نے بعد کے دور میں اپنی وسیع الفکر علمی صلاحیت اور اپنی قاسمی نسبت سے یہ ثابت کر کے دکھایا کہ اپنے جد اعلی امام نانوتویؒ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دارالعلوم وقف دیوبند کو ایک قلیل مدت میں عالمی اداراہ بنانے میں وہ کامیاب ہوئے۔پوری جماعت علماءِ دیوبند میں ان کے ہم پلہ کوئی عالم اور مدبر موجود نہیں ہے۔تو کیا حضرت حکیم الاسلام کے بعد دارالعلوم کو ایسے ہی کسی مہتم کی ضرورت نہ تھی؟
اس پر فتن دور میں حضرت کے اہتمام کے خلاف تمام تر سازشوں کی انتہا تب ہوئی جب دارالعلوم دیوبند میں حکیم الاسلامؒ نے تعطیل کا اعلان کیا اور طلبہ کو وطن واپس لوٹنے کا حکم دیا تو دارالعلوم کی ایک غیر مخلص جماعت نے ان طلبہ کو انتظامیہ کے خلاف بھڑکا کر دارالعلوم کیمپ کے نام سے متوازی ادارہ شروع کر دیا ۔ دارالعلوم کی فضا کو قال اللہ اور قال الرسول کی صداؤں سے کم و بیش پانچ مہینے محروم رکھا گیا۔
۲۳۔۲۴ مارچ ۱۹۸۲ء کی درمیانی شب میں دارالعلوم کی عمارات پر حکومت کے تعاون سے قبضہ کرلیا گیا۔یہی نہیں بلکہ یہ پروپیگنڈہ بھی کیا گیا کہ حکیم الاسلام رحمۃ اللہ علیہ نے عہدۂ اہتمام سے استعفا دے دیا ہے۔جب کہ حضرتؒ نے کبھی بھی عہدۂ اہتمام سے استعفا نہیں دیا اور آپ تا حیات دارالعلوم کے مہتم رہے۔ حکیم الاسلام ؒ صبر کا پیکر تھے ، حضرت ؒ نے اس اندوہناک حادثے پر صبر کا دامن تھاما اور دنیا بھر میں پھیلے اپنے معتقدین و محبین دارالعلوم کو بھی صبر کی تلقین کی۔حضرت ؒ نے دارالعلوم کی عظمت اور روحانیت کو محفوظ رکھنے کے لئے کنارہ کشی اختیار فرمالی۔حضرتؒ ہر صورت میں دارالعلوم کو فساد اور شرسے محفوظ رکھنا چاہتے تھے، اور چاہتے بھی کیوں نہ، جس شخص نے نصف صدی سے زیادہ مدت تک دارالعلوم کی اپنے خون و جگر سے آبیاری کی ہو بھلا وہ اپنے آباء و اجداد کے لگائے شجر طوبی کو کیسے زک پہنچنے دیتا؟ حضرت حکیم الاسلام مولانامحمد طیب صاحب ؒ کے زیر انتظام دارالعلوم کی خدمات انجام دینے والے کبار علمأو منتظمین مثلا حضرت مولانا سید انظر شاہ صاحب کشمیریؒ ، حضرت مولانا محمد نعیم صاحب دیوبندیؒ ، حضرت مولانا خورشید عالم صاحبؒ ، حضرت مولانا خالد بلیاوی ؒ ، مولانا مفتی شکیل سیتا پوری مد ظلہ ، مولانا محمد عبد الحق غازی پوریؒ اور مولانا قاری محمد عبداللہ سلیم دامت برکاتہم وغیرہ اور ایک سو پچاس سے زائد اساتذہ، اراکین و ملازمین نے غیرآئینی انتظامیہ کے ماتحت کام کرنے سے انکار کر د یا ۔ ان خدام دارالعلوم نے بے سرو سامانی اور تنگ دستی کو قبول کر لیا اور حضرت حکیم الاسلام ؒ کے ساتھ رہتے ہوئے حق کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔
با ت شایدیہیں پر ختم ہو جاتی۔ لیکن بدقسمتی نے چمن قاسم کا دامن نہیں چھوڑا تھا۔ اپنے سیاسی قبضے کو مضبوط اور مزید مستحکم کرنے کے لیے نئی غیر آئینی انتظامیہ نے دارالعلوم دیوبند کے وقف علی اللہ ہونے کا انکار کر دیا اور اسے ایک رجسٹرڈ سرکاری ادارے میں تبدیل کر دیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کے اس اعلان نے حضرت حکیم الاسلام کے معتقدین و دنیا بھر میں پھیلے علمائے دیوبند کو بے چین کر دیا۔ حضرتؒ کے متعلقین اور معتقدین نے حضرت ؒ سے درخواست کی کہ دارالعلوم دیوبند کی نشأۃ ثانیہ کی جائے اور دارالعلوم کی روحانیت کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ دارالعلوم دیوبند کسی عمارت کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مقدس تحریک کا نام ہے، دارالعلوم اپنے کئی ادوار سے گزرا ہے، کبھی وہ چھتہ مسجد میں رہا تو کبھی وہ جامع مسجد میں رہا ، اب پھر ضرورت ہے کہ اسلام کے اس عظیم سرمائے کو محفوظ کرنے کے لئے اسے پھر کہیں اور منتقل کیا جائے۔ دارالعلوم کی وقف للہیت ختم ہوجانے کے بعد اس کی روح نکل چکی ہے، لہٰذا اسکو زندگئ نو دینے کے لئے اسکی نشأۃ ثانیہ لازم ہو چکی ہے۔ لہٰذا حضرت حکیم الاسلام قدس سرہ العزیز کی قیادت میں لفظ ’’وقف‘‘ کے اضافے کے ساتھ ’’دارالعلوم وقف دیوبند‘‘ کی شکل میں دارالعلوم دیوبند کی نشأۃ ثانیہ ہوئی اورمسند الہند حضرت امام ولی اللہ دہلوی ؒ ،بانئ دارالعلوم دیوبند حجۃ الاسلام حضرت امام محمد قاسم نانوتویؒ ،قطب عالم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ، شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن ؒ ، امام العصر حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ ، شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر عثمانیؒ ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ ،حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ وغیرہ کبار علمائے اسلام کا علمی سرمایہ ایک بار پھر دارالعلوم وقف دیوبند کی شکل میں محفوظ کر دیا گیا۔ ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء۔
حضرت حکیم الاسلامؒ نے اپنے اخلاف کو ہمیشہ یہی نصیحت و وصیت کی کہ ’’اختلاف بات سے ہوتا ہے اور خلاف ذات سے ہوتا ہے‘‘ دارالعلوم دیوبند کا یہ بحران بات سے اختلاف کا نتیجہ ہے لیکن جہاں تک معارضین کی ذوات کا تعلق ہے سب ہی حضرات جماعت کا حصہ ہیں، رضا بالقضاء کا تقاضہ یہ ہے کہ پیش آمدہ واقعات میں حضرت حق جل مجدہٗ کی جانب سے خیرکے پہلو کو محورِ فکر بنایا جائے، کسی کی ذات کو تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے، پیش آمدہ واقعات میں تاریخی اعتبار سے تلبیس کرنا اخلاقِ حسنہ کے منافی ہے، ادارہ کی عظمت اور جماعت کی شیرازہ بندی کے لئے کوشش جاری رہے، لہٰذا اسی وصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحب مدظلہٗ مہتم دارالعلوم وقف دیوبند نے فریقین میں صلح کی غرض سے ۲۰۰۶ء میں تمام ذاتی اغراض و مفادات سے بالا تر ہو کر ایک فارمولہ بروئے عمل لائے اور بحمداللہ وبفضلہ فریق ثانی کی جانب سے حضرت مولانا سید اسعد مدنی صاحبؒ نے اس کا خیر مقدم فرماتے ہوئے ان ناگفتہ بہٖ حالات کے نتیجہ میں پیدا شدہ جماعتی خلیج کو ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا، بہر دو حضرات اکابر نے اس حقیقت پر اتفاق فرمایا کہ جو کچھ پیش آیا وہ تکوینی فیصلہ تھا، لیکن اب جب کہ دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم وقف دیوبند اپنی اپنی جگہ ایک مسلّم حقیقتیں ہیں اور اپنی اپنی جگہ عظمت و شہرت کی حامل ہیں تو ہم اپنی آنے والی نسلوں کو اختلاف کے بجائے اتفاق کی وراثت کیوں نہ دے کر جائیں۔ اس عمل خیرمیں اخلاف کے لئے یہ سبق مضمر ہے کہ واقعاتی بنیاد پر اختلافات کتنے ہی گہرے کیوں نہ ہوں، لیکن اگر ذاتی اغراض و مفادات سے بالا تر ہو کر اجتماعی نقطۂ نظر سے اخلاص قلب اور للہیت کو اپنے فکر کا محور بنا کر کوشش کی جائے تو پچیس سال کے الجھے ہوئے مسائل کو حل ہونے میں پچیس منٹ بھی نہیں لگتے۔
لنک
 

سید عمران

محفلین
شنید ہے کہ صد سالہ جشن کے موقع پر اندرا گاندھی بھی آئی تھیں۔۔۔
کچھ کا کہنا ہے کہ انہیں مدعو نہیں کیا گیا تھا ۔۔۔
اپنی ذاتی خواہش پر خود آئی تھیں۔۔۔
یہاں مسلمانوں کا عظیم الشان اجتماع دیکھ کر کھٹک گئیں۔۔۔
بس اسی کے بعد سے ریشہ دوانیوں کا سلسلہ شروع ہوا جو تقسیم پر منتج ہوا۔۔۔
جیسا کہ حوالہ بالا میں مفصل درج ہے!!!
 
ہائیں۔۔۔
ہم نے یہ کب کہا کہ ذہن کے دریچے چوپٹ ہیں!!!
:angry2::angry2::angry2:
بھیا ،یہ دیکھیں ۔
آہ کیا یاد تازہ کردی۔۔۔
جب ہم یہاں تھے۔۔۔
دل چاہ رہا ہے کہ ہندوستان کا سفرنامہ لکھوں۔۔۔
اگرچہ عرصہ بیت گیا۔۔۔
کتنے برسوں پر گرد پڑ گئی اور کتنے انسانوں پہ مٹی!!!
 

م حمزہ

محفلین
آہ کیا یاد تازہ کردی۔۔۔
جب ہم یہاں تھے۔۔۔
دل چاہ رہا ہے کہ ہندوستان کا سفرنامہ لکھوں۔۔۔
اگرچہ عرصہ بیت گیا۔۔۔
کتنے برسوں پر گرد پڑ گئی اور کتنے انسانوں پہ مٹی!!!
ضرور لکھیں۔ ہمیں بھی بے چینی سے انتظار رہے گا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شنید ہے کہ صد سالہ جشن کے موقع پر اندرا گاندھی بھی آئی تھیں۔۔۔
کچھ کا کہنا ہے کہ انہیں مدعو نہیں کیا گیا تھا ۔۔۔
اپنی ذاتی خواہش پر خود آئی تھیں۔۔۔
یہاں مسلمانوں کا عظیم الشان اجتماع دیکھ کر کھٹک گئیں۔۔۔
بس اسی کے بعد سے ریشہ دوانیوں کا سلسلہ شروع ہوا جو تقسیم پر منتج ہوا۔۔۔
جیسا کہ حوالہ بالا میں مفصل درج ہے!!!
اندرا گاندھی نے بطور وزیرِ اعظم ہند اس اجلاس میں شرکت کی تھی اور دیوبند کے حریف آج تک اس بات کو اچھالتے ہیں، اور یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک سربراہِ حکومت بغیر کسی دعوت کے کسی جگہ پہنچ جائے؟ ان کو باقاعدہ مدعو کیا گیا تھا۔
 

سید عمران

محفلین
اندرا گاندھی نے بطور وزیرِ اعظم ہند اس اجلاس میں شرکت کی تھی اور دیوبند کے حریف آج تک اس بات کو اچھالتے ہیں، اور یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک سربراہِ حکومت بغیر کسی دعوت کے کسی جگہ پہنچ جائے؟ ان کو باقاعدہ مدعو کیا گیا تھا۔
جی ہاں یہی سنا تھا کہ ان کی خواہش پرانہیں مدعو کیا گیاتھا!!!
 

محمد وارث

لائبریرین
بالکل ویسے ہی جیسے کشمیر میں در آتے ہیں ۔
کشمیر میں تو خیر "در اندازوں" اور "گُھس بیٹھیوں" کی تاریخ کافی پرانی ہے لیکن باقی ہند میں زیادہ تر مسلمان تقسیم کے بعد سے زیادہ تر کانگریس ہی کے حمایتی ہیں۔ ہند میں سیکولر ازم دیوبند کا نعرہ ہے اور یہی نعرہ کانگریس کا بھی ہے۔ اور اب یعنی بھاج پا کی حکومتوں کے بعد تو ہند کے مسلمانوں کی یہ تقسیم یا پولیرائزیشن مزید واضح ہو چکی ہے۔
 

م حمزہ

محفلین
کشمیر میں تو خیر "در اندازوں" اور "گُھس بیٹھیوں" کی تاریخ کافی پرانی ہے لیکن باقی ہند میں زیادہ تر مسلمان تقسیم کے بعد سے زیادہ تر کانگریس ہی کے حمایتی ہیں۔ ہند میں سیکولر ازم دیوبند کا نعرہ ہے اور یہی نعرہ کانگریس کا بھی ہے۔ اور اب یعنی بھاج پا کی حکومتوں کے بعد تو ہند کے مسلمانوں کی یہ تقسیم یا پولیرائزیشن مزید واضح ہو چکی ہے۔
اس ضمن میں کانگریس کی پالیسی بھی بی جے پی سے مختلف ہے۔ 2010 تھا غالباً، ممبئی میں آئی آر ایف کے زیرِ اہتمام دس روزہ انٹرنیشنل کانفرنس تھی۔ دسویں روز دگوجے سنگھ نے بھی تقریر کرڈالی۔
کانگریس نے آئی آر ایف سے پیسہ بھی لیا جسے ایک خاص وجہ سے انہوں نے اس وقت واپس کیا جب موجودہ حکومت نے ذاکر نائک کو دیش دھروہی قرار دیکر اس کے اثاثے ضبط کئے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کانگریس نے آئی آر ایف سے پیسہ بھی لیا جسے ایک خاص وجہ سے انہوں نے اس وقت واپس کیا جب موجودہ حکومت نے ذاکر نائک کو دیش دھروہی قرار دیکر اس کے اثاثے ضبط کئے۔
ذاکر نائیک ابھی تک جیل میں ہیں یا ملک سے فرار ہیں؟
 

جاسمن

لائبریرین
دیوبند: شنیدہ کے بود مانندِ دیدہ!
محمد علم اللہ

پاوں میں چکر لیے پیدا ہونے والوں کو راستے پکارتے ہیں۔ ٹیڑھی میڑھی پگ ڈنڈیاں آواز دیتی ہیں۔ احباب پیغام بھیجتے اور ہوائیں سندیسے لاتی ہیں۔ ابر انتظار کے مدھر گیت سناتے اور اَن کہی کہانیاں قدموں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ ایسی ہی ایک صدا پر لبیک کہتے ہوئے ہم اوکھلا (دہلی) سے دیوبند کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ ڈھائی تین گھنٹے میں ہم دیوبند پہنچ چکے تھے۔
دہلی کی بستی حضرت نظام الدین یا اوکھلا اور دیوبند میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ اوکھلا اسٹیشن کی طرح ہی یہاں بھی دو ٹریک والی اسٹیشن، جہاں ڈاڑھی، کرتا، پاجامہ اور ٹوپی میں ملبوس افراد، جنھیں دور ہی سے دیکھ کر اندازہ ہو جائے گا، کہ آپ دیوبند پہنچ چکے ہیں۔ اسٹیشن سے ذرا فاصلے پر سائیکل رکشہ اور ای رکشہ والے مختلف جگہوں کا نام پکار کر آپ کو بیٹھنے کے لیے کہیں گے۔ ہم بھی ایک رکشے میں بیٹھ کر سیدھے ریسٹورنٹ پہنچے، جہاں زندہ دل نوجوانوں کے امام محمود الرحمان قاسمی عرف ابو زید فرضی نے پہلے سے ہی انتظام کیا ہوا تھا۔ برادرم ابو زید فرضی حقیقی معنوں میں زندہ دل انسان ہیں، جن سے ملاقات کے بعد ان کی زندہ دلی مزید نکھر کر سامنے آتی ہے۔ ساتھ میں کھانا، گپ شپ اور چائے کے بعد تفریح کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔
سب سے پہلے ہم دیوبند کے تاریخی ادارہ دار العلوم (قدیم) پہنچے جسے برسوں سے دیکھنے کی تمنا تھی ۔ ایک چھوٹی سی چھتہ مسجد میں انار کے درخت کے نیچے تعلیم و تعلم کے ذریعے وجود میں آنے والا یہ ادارہ آج پوری دنیا میں اپنے اثرات مرتب کر چکا ہے۔ اس ادارے کا قیام 1866ء کو مولانا قاسم نانوتویؒ اور ان کے معاونین علما و مشائخ کے ذریعے عمل میں آیا تھا۔ ہندوستان میں اس ادارے اور اس سے وابستہ علما کی قربانیاں نا قابل فراموش رہی ہیں۔
جب ہم دار العلوم پہنچے تو شام کا جھٹپٹا چھانے لگا تھا، لیکن سورج ابھی پوری طرح غروب نہیں ہوا تھا۔ شام میں یہاں کی ’مسجد رشید ‘کا منظر بڑا دل فریب ہوتا ہے۔مسجد خاصی کشادہ ہے۔ جہاں طلبا عبادت و ریاضت اور مطالعہ و مذاکرے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں ہم لوگوں نے مغرب کی نماز پڑھی اور پھر’بابِ قاسم‘سے ہوتے ہوئے علم و عرفان کی اس چہار دیواری میں داخل ہوئے، جس کا شہرہ پوری دنیا میں ہے۔ یہاں آپ جیسے ہی اندر داخل ہوں گے، تقریبا ہر ریاست کے طلبا کی جانب سے شایع کی جانے والی مختلف رنگوں اور خطاطی کے خوب صورت نمونوں کے ساتھ دل کش انداز میں؛ یہاں کی ایک پرانی علمی، ادبی و صحافتی روایت دیواری جریدوں کی شکل میں نظر آئے گی؛ جن میں مختلف موضوعات پر اردو،عربی، ہندی، انگریزی اور بنگالی وغیرہ میں نظم و نثر (مضامین، فیچر، نظمیں اور غزلیں) نقش ہوں گی۔ دار العلوم کی اس نفیس روایت نے ان گنت لوح و قلم سے دل چسپی رکھنے والے دیوانوں کی پرورش کی ہے۔
یہاں سے ہم مرکزی لائبریری گئے؛ یہ لائبریری کافی کشادہ ہے، جس میں لاکھوں کی تعداد میں نادر و نایاب کتب موجود ہیں۔ لائبریری میں قرآنیات اور حدیث سے متعلق ذخیرہ دیکھنے کی چیز ہے۔ جہاں مشہور مغل بادشاہ اورنگ زیب عالم گیر کے ہاتھوں لکھا ہوا قرآن مجید اور سلطان سنگھ کے ہاتھوں سے لکھی، شیخ سعدی کی گلستاں بھی موجود ہے۔ یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ دار العلوم کتابوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے انھیں ڈیجیٹائز کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہاں کتابوں کی مرمت کاری کے علاوہ بوسیدہ اور دیمک زدہ کتابوں کو قابل مطالعہ بنانے کے لیے ملازمین اپنے اپنے کاموں میں مصروف نظر آئے۔
یہاں سے ہم کمپیوٹر سینٹر، دار الحدیث، ہاسٹل سے ہوتے ہوئے دار تحفیظِ القرآنِ گئے، جہاں چھوٹے چھوٹے بچے حفظ قرآن میں محو نظر آئے۔ دار العلوم کا اپنا اسپتال بھی ہے، جہاں اس مہنگائی کے زمانے میں بھی طلبا کا محض ایک روپے میں، جب کہ مقامی لوگوں کا تین روپے میں علاج ہو جاتا ہے۔ یہاں سے ہم پھر مطبخ آئے، جہاں بیَک وقت کئی ہزار طلبا کا کھانا تیار کیا جاتا ہے۔ دار العلوم اپنے طلبا کو مفت قیام کے ساتھ مفت طعام بھی مہیا کرتا ہے۔ طلبا کو اسکالر شپ کے علاوہ کپڑے اور دیگر ضروریاتِ زندگی کے سامان فراہم کیے جاتے ہیں، جن میں تیل، صابن، کاپی، قلم وغیرہ شامل ہیں۔
یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ طلبا کے کھانے کا نظم بالکل بھی اچھا نہیں تھا۔ برتن میں سالن اور ہاتھ میں روٹیاں پکڑے، طلبا شاہراہ کے بیچوں بیچ سے گذر رہے تھے، جو اتفاق سے عام و خاص کی گذر گاہ بھی ہے۔ صدیاں گذر گئیں، زمانہ بدلا، خود زمانے کے ساتھ دار العلوم نے بھی اپنے یہاں خاصی مثبت تبدیلیاں کیں، جن میں بطور خاص انگریزی زبان اور کمپیوٹر وغیرہ کی تعلیم شامل ہے، مگر مطبخ کے معاملے میں وہاں کے ذمے داران کا یہ رویہ حیرت ناک، بلکہ افسوس ناک اور تبدیلی کا متقاضی ہے۔
قدیم دار العلوم کے معائنے کے بعد ہم دار العلوم وقف گئے۔ یہ وہی دار العلوم وقف ہے، جو 1982ء میں ایک تنازِع کے بعد تقسیم کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ دونوں اداروں کی خمیر اور مٹی گرچہ ایک ہی ہے، مگر دونوں میں فرق واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اس دار العلوم کی زیادہ تر عمارتیں نئی ہیں، جس کے اثرات بھی یہاں صاف دکھائی دیتے ہیں۔ اساتذہ اور طلبا سے بات چیت میں دونوں اداروں کا فرق واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہاں کے لوگ ذرا معتدل مزاج دکھائی دیے۔ کئی معاملوں میں یہاں کے علما اور اساتذہ میں وہاں کے اکابرین کے مقابلے لچک دکھائی دیتی ہے؛ مجموعی طور پر دونوں اداروں کا تہذیب و ثقافت ایک جیسی ہے۔
یہاں کی لائبریری اور دیگر عمارتیں جدید طرز تعمیر پر دکھائی دیتی ہیں، جب کہ کچھ زیر تعمیر ہیں۔ سب کی سب قدیم عمارتیں اور اثاثہ (قدیم) دار العلوم کے حصے میں گئی ہیں۔ جس طرح دار العلوم قدیم سے عربی جریدہ’الداعی‘ شایع ہوتا ہے، اسی طرح یہاں سے بھی ایک خوب صورت، معیاری اور نفیس عربی مجلہ نکلتا ہے؛ اس کا نام ’وحدۃ الامۃ‘ ہے۔ یہاں سے ایک انگریزی جریدہ بھی ’وائس آف دار العلوم‘ کے نام سے شایع ہوتا ہے، جس کا معیار بہت اچھا تو نہیں ہے؛ لیکن اسے سطحی بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اپنے وجود کو سمیٹنے اور شناخت کو برقرار رکھنے میں اس ادارے کی کوششیں قابل قدر ہیں۔ دارالعلوم قدیم کے برعکس، یہاں سمپوزیم اور سیمنار وغیرہ کا رواج ہے؛ جدید ٹیکنالوجی سے مزین خوب صورت ہال اور لائبریری بھی ہے۔
دونوں اداروں میں ہر ریاست کے طلبا کی اپنی چھوٹی چھوٹی لائبریریاں ہیں، جن کا انتظام و انصرام طلبا ہی کرتے ہیں۔ طلبا کی ایک دو لائبریری دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہاں بھی ان کے اپنے بزرگوں کی ہی لکھی کتابیں زیادہ تھیں۔ دار العلوم کے آس پاس انگلش اسپیکنگ کورس جیسے کئی کوچنگ سینٹر نظر آئے، پتا کرنے پر معلوم ہوا کہ ان میں سے کئی دار العلوم کے فاضلین کے ذریعے ہی چلائے جا رہے ہیں، جنھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی سے تعلیم حاصل کی ہے۔ جدید اور قدیم کے ایسے سنگم کو دیکھ کربڑی خوشی ہوئی۔
یہاں کے اساتذہ اور طلبا بڑی خندہ پیشانی اور خلوص کے ساتھ ملتے ہیں۔ ان کی سادگی اور خلوص من موہنی ہوتی ہے۔ پہلی ہی ملاقات میں وہ آپ کواپنا اسیر بنا لیں گے۔ خصوصی طور پر مولانا ندیم الواجدی، ابو زید فرضی، مہدی حسن عینی، شادان نفیس، شبلی اعجازی، لقمان عثمانی، اور محمد غزالی خان جیسے محبین، دوستوں، عزیزوں اور بزرگوں کی محبتیں اور شفقتیں تا دیر یاد رہیں گی۔ محمد غزالی خان سے گفت گو خاصی دل چسپ رہی اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ محمد غزالی خان دیوبند کے ہیں؛ لیکن لندن میں رہتے ہیں۔ غزالی صاحب نے عشائیہ کا اہتمام کیا تھا۔ یہاں پر مختلف موضوعات پر بات چیت ہوئی جس میں بطور خاص ہندوستان میں میڈیا اور مسلمانوں کی حالت زیر بحث آئے۔ غزالی صاحب کا یہ درد بجا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی اتنی بڑی آبادی ہونے کے باوجود کوئی میڈیا ہاوس نہیں ہے، اور مسلم دانشوروں کو اس جانب سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے۔
دار العلوم اور آس پاس کی فضا سے آپ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے، قدم قدم پر آپ کو عطر، رومال، ٹوپی اور کتابوں کی دُکانیں نظر آئیں گی۔ ساتھ ہی ساتھ آپ کو عوامی لائبریری بھی دکھائی دے گی، جہاں طلبا مطالعے میں غرق نظر آئیں گے۔ یہاں کی مقامی لائبریری، مطالعہ گاہوں یہاں تک کہ دُکانوں میں بھی زیادہ تر دینی لیٹریچر ہی نظر آئے گا، جس میں درسی کتابوں کی شروحات کی بہتات ہو گی۔ تقریروں، ملفوظات اور مواعظ کی کتابیں ہر دُکان میں بھری نظر آئیں گی ۔ یہاں کتابیں انتہائی کم قیمت پر مل جاتی ہیں، کتابیں سستی ہوں گی، تو کاغذ بھی ویسے ہی ہو گا۔ یہاں کے دُکان دار نقلی پائریٹیڈ کتابیں چھاپنے میں بھی ماہر ہیں۔
دار العلوم سے ذرا دوری پر ہندووں کی قدیم عبادت گاہ ’ماں شری تری پور بالا سندری دیوی مندر، دیوی کنڈ‘ ہے۔ یہاں سے فارغ ہونے کے بعد ہم مندر بھی دیکھنے گئے۔ ہندو عقیدے کے مطابق اس مندر میں ماتا درگا کی ماں راجیشوری تری پور بالا سندری سو روپ کی پوجا کی جاتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ’ماں بالا سندری‘کا یہ مندر قدیم زمانے سے ہے۔
یہاں کے ایک پجاری نے ہمیں بتایا کہ ماں تری پور بالا سندری ’درگا ماتا‘ ہی کی ایک شکل ہے۔ جن میں برہما، وشنو اور مہیش ہیں۔ تنتر سار کے مطابق ماں راجیشوری تری پور بالا سندری کا روپ سورج کی پہلی کرن کے مانند ہوتی ہے، جس کے چار زاویے اور تین آنکھیں ہیں۔ اس عبادت گاہ میں ماں دیوی کی اُپواس کرنے والوں کو نجات اور سکون میسر آتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شری تری پور ماں بالا سندری کے مندر میں، ماں کے غسل کے دوران چوڑیوں کے کھنکنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ یہ آوازیں صرف ماں کے پیارے عقیدت مندوں ہی کو سننے کو ملتی ہیں۔
وقت کے ساتھ مندر کے دروازے پر کنداں نشانات اور تین چوتھائی دیوار تباہ ہو چکی ہے۔ دروازے پر ایک سات سطری تحریر آویزاں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ آج تک کوئی اس تحریر کو پڑھ نہیں پایا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ راجا رام چندر مہا راج کے ذریعے مندر کی آخری مرمت کاری ہوئی تھی۔ مندر کے پنڈت وِنَے شرما نے بتایا کہ جب پانڈووں پر مصیبت پڑی تھی، تو انھوں نے یہیں پناہ لی تھی؛ جہاں انھوں نے دیوی کی پوجا کی تھی۔ یہاں سنس کرت کا ایک قدیم ادارہ بھی ہے، ہمیں پنڈت وِنَے شرما نے بتایا کہ اس ادارے کی بنیاد دار العلوم کے ساتھ ہی رکھی گئی تھی۔ اس نے یہ بھی کہا کہ دار العلوم کی ترقی اس لیے ہوئی کہ اسے مسلمانوں سے خاصا تعاون ملا اور ہمیں زیادہ تعاون نہیں مل سکا؛ اس لیے ہم اپنے ادارے کی زیادہ توسیع نہیں کر سکے۔
رات دیر گئے ہمارے دوست مہدی حسن عینی نے اپنے سینٹر دیوبند اسلامک اکیڈمی میں ایک مذاکرے کا اہتمام کیا تھا، جس میں دارالعلوم (قدیم) اور دار العلوم (وقف) کے علاوہ دیگر اداروں کے طلبا موجود تھے۔ یہاں طلبا سے بات چیت خاصی خوش گوار رہی۔ ہم نے خصوصی طور پر طلبا کو بیدار کرنے اور سماج میں ان کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے کی ترغیب دی۔ انھیں بتایا کہ مدارس سے فراغت کے بعد بھی ان کے لیے ہزاروں راہیں ہیں۔ وہ جدید دانش گاہوں سے مختلف شعبوں میں گریجویشن کے بعد مختلف میدانوں کا انتخاب کر کے سول سروسز اور دیگر مقابلہ جاتی امتحانات (ایس ایس سی، نیٹ، سیٹ، گیٹ، سی ٹیٹ، ٹیٹ) وغیرہ کی تیاری کر کے، سرکاری ملازمت پا سکتے ہیں۔
دیوبند کے اس سفر میں مجھےاحساس ہوا کہ بہت کام کرنے کی ضرورت ہے اور پوری ملت کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے، نئی نسل تبدیلی چاہتی ہے، اس کے اندر کچھ کرنے اور قوم کو ترقی کی راہ پر لے جانے کی بے پناہ خواہش ہے؛ لیکن وہ سمت سفر اور منزل مقصود کی تلاش میں ہے، وسائل کی شدید کمی ہے۔ پرانے لوگوں سے کچھ بھی ہونے والا نہیں ہے، وہ ہر جگہ گنج کی طرح بیٹھے ہوئے ہیں۔ نہ کچھ کرتے ہیں، نہ کرنے دیتے ہیں، انھیں نوجوانوں سے خوف ہے، کہ اگر واقعی وہ بیدار ہو گئے، تو ان کی چودھراہٹ ختم ہو جائے گی؛ اس لیے وہ انھیں میٹھی گولیاں دے کر سلانا چاہتے ہیں، لیکن نوجوان نسل اب سونے والی نہیں ہے، آج نہیں، تو کل سہی یہی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔
آپ شہرِ دیوبند کو ایران کے شہر قم سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں، جہاں قدم قدم پر مدارس و مکاتب کا جال بچھا ہوا نظر آتا ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ اس چھوٹے سے شہر میں کم و بیش تین سو مدارس ہیں۔ دیوبند شہر اور دار العلوم کا چولی دامن کا ساتھ ہے، ٹھیک اسی طرح جیسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا علی گڑھ شہر سے ہے یا برطانیہ میں آکسفورڈ یونیورسٹی کا آکسفورڈ شہر سے؛ لیکن دیوبند شہر اور دار العلوم ایک دوسرے میں سمٹے رہنے کے باوجود ایک دوسرے سے مختلف نظر آتے ہیں ۔ یہاں دہلی کی طرح ہندو اور مسلم بستیوں صاف فرق نظر آتا ہے، مسلم بستیوں میں قدم قدم پر کوڑے کرکٹ کا ڈھیر اور گندگی، جب کہ غیر مسلم علاقوں میں آپ کو اتنی گندگی نظر نہیں آئے گی۔ زیادہ تر سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ تنگ گلیاں گندگی سے پر ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہاں میونسپل کمیٹی کام نہیں کرتی۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، ادھ کھلے گٹر اور نالیاں جگہ جگہ دکھائی دیتی ہیں۔ شہر کا دورہ کرنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ اسے ترقی کی سخت ضرورت ہے۔

دیوبند: شنیدہ کے بود مانندِ دیدہ! - ہم سب

بہت خوبصورت سفرنامہ ہے۔
ہم نے اب تک اس ادارہ کا تذکرہ ہی سنا تھا۔ آپ نے کافی تفصیل سے اس کی موجودہ صورتحال بتائی اور ساتھ "جھونگے"میں مندر کی سیر بھی کرا دی۔
 
Top