دیوار تھیٹر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اقبال خورشید

عین عین

لائبریرین
دیوار تھیٹر!
شہر قائد کی بولتی دیواروں پر ایک نظر

روشنیوں کے شہر میں جھوٹی سچی کہانیوں کی بھرمار ہے۔ روشن گلیوں اور تاریک محلوں میں لاتعداد کہی اَن کہی دل چسپ داستانوں کا انبار لگا ہے، جو اِس شہر میں جینے مرنے والوں کے رویے اور رجحانات کی عکاس ہیں۔ بظاہر یہ قصّے عوام کی نظروں سے پوشیدہ ہیں، لیکن اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے، تو آپ کو ہر قدم پر ایک انوکھی داستان مل جائے گی، کیوں کہ اِس شہر کی دیواریں بولتی ہیں، بلکہ اکثر اوقات انسانوں کے مقابلے میں اِن کا آہنگ بُلند اور زبان واضح ہوتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اِس شہر کی ہر دیوار کسی ”تھیٹر“ کے مانند ہے۔ دیواروں پر چسپاں اشتہارات اور لکھے جانے والے نعرے ایک جانب جہاں ان کا حلیہ بگاڑ چکے ہیں، وہیں ان کی انفرادیت کا سبب بھی ہیں!
شہر قائد کی تقریباً ہر دیوار، خصوصاً خستہ حال دیواریں عرصہ¿ دراز سے اشتہارات اور نعروں کے گھاتک وار سہہ رہی ہیں۔ جب رنگ جھڑ جاتا ہے، اور ایک اشتہار اپنا چہرہ کھو دیتا ہے، تو برش کے اسٹروکس سے دوسرا اُس کی جگہ لے لیتا ہے۔ جب نئی سیاسی یا مذہبی تحریک شروع ہوتی ہے، تو یہی دیواریں نعروں سے بھرجاتی ہیں، اور جب مخالف تحریک جنم لیتی ہے، تو اُن نعروں کو مسخ کرکے نئے نعرے لکھ دیے جاتے ہیں۔ ان ہی دیواروں پر فتویٰ جاری ہوتے ہیں۔ کسی کو ”کافر“ تو کسی کو ”واجب القتل“ قرار دیا جاتا ہے۔ یہی دیواریں مایوسی سے بچاتی ہیں اور ”پوشیدہ امراض“ کے علاج کی راہ دکھاتی ہیں۔
یوں تو ملک بھر کی دیواریں اِسی رنگ میں رنگی ہیں، لیکن کراچی کی دیواروں پر یہ رنگ غالب ہے۔ تشہیر کے ساتھ ساتھ یہ سیاسی جذبات و احساسات کی بھی ترجمان ہیں۔ کبھی کبھار تو یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے یہ زندہ ہیں، اور سانس لیتی ہیں!
دیواروں پر جابہ جا عوامی خدمت کے پیغام لکھے جاتے ہیں۔ مثلاً ”یہاں کچرا پھینکنا منع ہے“، ”یہ شہر آپ کا اپنا ہے“ یا پھر ”یہاں کچرا پھینکیں“ وغیرہ۔ کبھی اِن پر ”زندہ باد، مردہ باد“ کا نقاب چڑھا دیا جاتا ہے، اور کبھی ”چلو چلو فلاں جگہ چلو“ کا میک اَپ تھوپ دیا جاتا ہے۔
یہ دیواریں مفت خدمات فراہم کرتی ہیں۔ ”بل بورڈز“ پر اشتہار دینے کے لیے تو خاصے سرمایے کی ضرورت پڑتی ہے، تاہم یہاں کوئی پیسے وصول نہیں کرتا، ادائیگی کا جھنجھٹ نہیں۔ پھر اِن کی رسائی بھی زیادہ ہے، کیوں کہ شہر کی 70 فی صد آبادی تقریباً روز ہی سڑکوں پر سفر کرتی ہے، جہاں اُن کی کئی بار دیواروں سے آنکھیں چار ہوتی ہیں۔ ماہرین تعلیم شکایت کرتے ہیں کہ کتاب پڑھنے کے رجحان میں کمی آرہی ہے اور یہ بات درست بھی ہے، تاہم ”دیوار پڑھنے“ کے رجحان میں خاصی تیزی آئی ہے۔ ماہرین تعلیم کو چاہیے کہ فروغ علم کے لیے اِس ذریعے کو بھی آزمائیں۔ دیواروں پر کیا موقوف، لکھنے والے تو فٹ پاتھ، دکانوں کے شٹر، لیٹر بکس اور ٹکٹ بھر بھی نہیں چھوڑتے۔ اِسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اِس رجحان میں کتنی تیزی آگئی ہے!
سچ تو یہ ہے کہ یہ دیواریں محققین اور ماہرین کی منتظر ہیں۔ عین ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں دیواروں کا مشاہدہ اور اور تجزیہ شہر اور شہر کے باسیوں کی نفیسات کو سمجھنے میں معاون ثابت ہو!
 
Top