دیباچہ فرہنگِ آصفیہ

شمشاد

لائبریرین
دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 16

مقدمہ طبع اول فرہنگ آصفیہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نحمدہ و نُصلے علی رسولہ الکریم

تو حمد کے قابل ہے ذرا شک نہیں اس میں
لیکن ہے کہاں حمد تری ذات کے قابل

اردو زبان کی پیدایش اور ترقی

ہماری اردو زبان جو فی زمانہ علوم و فنون کا خزانہ بھی جمع کر رہی ہے کیا بلحاظ فصاحت کیا بخیال بلاغت ہندوستان کی جان ہے۔

ایک زمانہ وہ تھا کہ اس زبان نے قلعۂ معلے اور دہلی شاہجہان آباد کی چار دیواری سے قدم باہر نہیں نکالا تھا۔ ایک زمانہ یہ ہے کہ کشمیر سے راس کُماری اور کلکتہ سے کراچی تک اردو مادری زبان کا درجہ حاصل کرتی جاتی ہے۔ بلکہ پیشاور، شیلانگ، کوئٹہ، افغانستان بھی اس کے الفاظ سے بوسیلۂ تجاری و سلطنت موجودہ خالی نہیں پایا جاتا۔ خدا رکھے اب تو ہندوستان کے باہر بھی قدم رکھنا شروع کر دیا ہے۔ عڈن، مالدیپ، جزائر سیلون، لنکا، انڈمان، سنگاپور، ہانگ کانگ، شانگھی میں بھی اس کے شیدا پیدا ہو گئے ہیں۔ عرب میں حاجیوں نے، بغداد شریف، کربلائے معلے، نجف اشراف، مشہد اور بیت المقدس میں زائروں نے، مصرف، شام اور روم میں سیاحوں نے، انگلستان میں طلبائے ہند اور پنشن یافتہ انگریزوں نے اس کا چرچا پھیلا دیا ہے۔ روس کی عملداری میں بھی اس رواج ہو چلا ہے۔ یہاں تک کہ ایک ہندوستانی زبان کا پروفیسر بھی وہاں بلایا گیا ہے۔ بلکہ سنا کہ کہ قسطنطنیہ میں بھی سلطان المعظم نے اس طرف گوشۂ چشم منعطف فرمایا (۱) ہے۔ ہمارےملک کے مزدوری پیشہ اشخاص و روزگار سرکاری سپاہیوں ملازمت پیشہ اصحا صنیعت طلب نوجوانوں نے تو بہت سے ملکوں کو پایاب کر دیا ہے۔ کوئی جاپان پہنچا ہے تو کئوی دین جا براجا ہے۔ کسی نے امریکہ کا رستہ لیا ہے تو کسی نے جرمن اور فرانس کا دھاوا مارا ہے۔ غرض ممباسہمیں، سفالا میں، زنجبار (۲)، ٹرانسول کیپ کولونی، آسٹریلیا اور افریقہ میں جہاں دیکھو کہیں قلی بن کر کہیں خلاصی بن کر، کہیں تاجر بن کر، کہیں واعظ بن کر ہمارا ایک نہ ایک اردو زبان بولنے والا ہندوستانی وہاں موجود ہے۔ اور اب تو موجودہ عالمگیر جنگِ عظین نے یورپ، افریقہ، عرب وغیرہ کے چپے چپے پر ہمارے بہادر اور فتاح سپاہیوں کو پہنچا کر ہندوستانی شریفانہ زبان کا جھنڈا گاڑ دیا ہے۔ ہمیں اب اس خیال سے آگے قدم بڑھانہ چاہیے کہ ہمارے ملک میں دس کروڑ آدمی اردو زبان بولتے اور اسی قدر اسے سمجھتے ہیں۔ کیونکہ جو سمجھتے ہیں وہ ٹوٹی پھوٹی بول بھی لیتے ہیں۔ ورنہ ان کا سمجھنا نہ سمجھنا برابر تھ۔ ہماری زبان کو اردو اخباروں، مختلف زبانوں کے ترجموں، طب اور قانونی کتابوں، ریاضی کے رسالو، جدید تصانیف، اردو دیوانوں، گلدستوں، تذکروں، اردو تاریخوں، مذہبی کتابوں، علم ادب کے رسالوں اور آجکل کے مختلف عشقیہ ناولوں نے (گو ان میں سے اکثر حُسنِ اخلاکے حق میں زہر ہلاہل کا اثر رکھتے ہیں) بہت کچھ مدد پہنچائی ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری مدارس نے بھی کچھ کمی نہیں کی۔ لوگوں کا یہ کہنا کہ عہد شاہجہاں یعنی پونے تین سو برس سے اردو زبان نے جنم لیا اور سو برس سے تصنیفی اور علمی زبان ہونے میں قدم رکھا۔ ہمارے خیال میں نہیں آتا، مگر ہاں یہ ضرور کہہ
--------------------------------------------------------------------------------------
(۱) اور تو اور تبت تک پہنچ گئی ہے۔ وہاں کےمسلمان تاجر مذہبی مسائل کے اردو ترجمے خرید کر لے جاتے ہیں۔ جس تبتی مقام سے پولو کا کھیل ایجاد ہوا ہے وہاں کی زبان کی جو ایک انگریز نے ڈکشنری میں لکھی ہے، اس میں اردو زبان کے بہت سے الفاظ ذرا ذرا سے تغیر سے موجود ہیں۔ تنتی مسلمان تاجروں سے ہم نے خود بھی ملکر دریافت کیا ہے۔

(۲) 1692ء میں یہاں دُھوم دھام سے تعزیہ داری اور ۔۔۔۔۔۔ مرثیہ خوانی ہوئی، جس میں ہندوستانی اور زنگیاری شریک تھے۔

دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 17

سکتے ہیں کہ ہندوستان کی ایسی مروجہ زبان نے جسے اس وقت بھاشا اور خاص کر برج بھاشا کہتے تھے اردو نام اختیار کیا اور سو برس یہی زبان عدالتی زبان ہو جانے کے باعث عام ملکی زبان کہلائی مگر اصل میں اردو زبان چونکہ ایک مخلوط زبان ہے اور اس نے شاہجہانی لشکر کی بولی ہو جانے کہ وجہ سے ترقی پا کر اردو نام پایا، اس لحاظ سے ہمارا یہ کہنا غلط نہیں کہ اس زبان کی بنیاد اسی وقت سے پڑی جس وقت سے مختلف قوموں، مختلف نسلوں، مختلف اولوالعزموں، مختلف المذاہب، بیرونی بادشاہوں، تاجروں، سیاحوں، خدا پرست درویشوں نے اس ملک میں آ آ کر اس کی قیدیمی زبان میں اپنی مادری زبان کے الفاظ، لغات، اسماء و محاورات اصطلاحات وغیرہ کو مخلوط کیا اور ایک مدت دراز کے بعد اس اتفاقی اختلاط سے یہ زبان ایک معجون مرکب بن گئی اور شاہجہاں نے اسے ہونہار یعنی ترقی پذید اور عام فہم دیکھ کر اسے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الفاظ لکھنے کے واسطے دلالوں کا عہدہ قرار دیا۔ ان لوگوں نے دن بھر کے لین دین کی رپورٹیں انہیں الفاظ کے ساتھ شاہید حضور میں پیش کرنی شروع کیں۔ اردو بازار سے جس کا مقام قلعہ معلی کے لاہوری دروازہ کے سامنے جانب غرب بلاتی بیگم کے کُوچہ کی محاذی اب تک دہلی میں موجود ہے۔ یہ ہونہار بچہ پروان چڑھنا شروع ہوا۔ چنانچہ اب ہم عموما ہر ایک زبان اور خصوصا اردو زبان کے پیدا ہو جانے کے متعلق تھوڑا سا بیان لکھتے ہیں۔ جب سے کسی ملک کی خاص زبان میں دوسرے ملک کی زبان کے الفاظ داخل ہونے شروع ہو جائیں تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کسی نئی زبان کی بنیاد پڑی اور اصلی الفاظ کی بجائے نئے نئے الفاظ نے اپنا قدم جمایا۔ جس سے پرانی زبان کے لغات میں تنزل اور جدید الفاظ میں ترقی کا آغاز ہو گیا۔ نئی زبان پیدا ہونے کے کئی سبب ہوا کرتے ہیں۔ پہلا سبب تو وہی ہے جو اوپر بیان ہوا، دوسرا سبب یہ ہے کہ جس زبان کے الفاظ میں ثقالت اور حرور کی مخارج میں بولنے والوں کو دقت ہوا کرتی ہے وہ یا تو اس کی بجائے دوسرے سہل الفاظ بہم پہنچانے کے جویا رہتے ہیں یا ان ثقیل اور دقیق الفاظ کر بگاڑ کر کچھ سے کچھ کر لیتے ہیں جس سے اس زبان میں سے ہی ایک نئی زبان نکلنی شروع ہو جاتی ہے۔ یہی زبان پراکرت یا کسی اصلی زبان کی شاخ کہلاتی ہے۔ سنسکرت کے زمانہ میں پراکرت اور پراکرت کے زمانہ میں پالیؔ زبان مگہ (۱) اور پراکرت کے میل سے اسی طرح مخلوط ہو کر ایک تیسری زبان بن گئی، جسے عوام الناس یا عام شہری باشندوں نے قبول کیا وہ پراکرت کہلائی۔ جسے گاؤں گنویں کے باشندوں یعنی زمینداروں، چرواہوں، گولوں، گھوسیوں نے اختیار کیا وہ پالی کے نام سے نامزد ہوئی۔ یہی وجہ تھی کہ سُریانی کے ہوتے عبرانی، عبرانی کے ہوتے عربی زبان بولی جانے لگی۔ تیسرا سبب یہ ہوتا ہے کہ بوسیلۂ تجارت اجنبی ملکوں کی چیزوں کے نام خوب بخود کسی خلص زبان میں بڑھتے اور جگہ پکڑتے جاتے ہیں۔ چوتھا باعث یہ ہوتا ہے کہ غیر قوموں اور غیر ملکوں کے نتاحوں کے دخل یاب یا مسلط ہو جانے سے جو الفاظ ان کی زبان کے ساتھ آتے ہیں اگر وہ لوگ چلے بھی جاتے ہیں تو بہت سے اپنی قومی اور ملکی زبان کے الفاظ لوگوں کی زبان پر چڑھا جاتے یعنی بطور یادگارِ زمانہ چھوڑ جاتے ہیں۔ اور جو اشخاص مفتوحہ ملک میں رہ پڑتے ہیں تو رہ ملک مفتوحہ کی زبان میں اپنی زبان سے دن دونی رات چوگنی ترقی کر دکھاتے ہیں۔ بلکہ ملکی باشندے فخریہ خواہ خوشامدانہ خواہ مفتوحانہ خواہ بوجہ ملازمت خود بخود ان کے الفاظ کو اپنی تحریر و تقریر میں لانے لگتے ہیں۔ دیکھو پرتھی راج کے زمانہ یعنی 1193ء بعد شہاب الدین غوری چند کوی (۲) ایک ہندی شاعر نے اپنی کتاب پر پرتھی راج راسا میں کس قدر عربی فارسی الفاظ استعمال کیے ہیں۔علیٰ ہذا کبیر جی نے سکندر لودھی کے زمانہ یعنی 1480ء میں گرو نانک صاحب نے 1500ء میں بابا تلسی داس اور سُور داس جی نے سترہویں صدی عیسوی میں اپنی اپنی مقبول خاص و عام تصنیفات میں کہاں تک عربی و فارسی الفاظ کو دخل دیا ہے۔

دہلی کے قلعہ معلے سے تعلق رکھنے والے مردوں یا عورتوں میں کوئی ہو گا جو اُن مغلیہ خاندان کی عہدہ دارنیوں سے جن کے نام ذیل میں درج ہیں، واقف نہ ہو گا۔ اردابیگنیوں، (۳) جسوانیوں، قلماقانیوں، انا، دوا، چھو چھو، یادی تارنیوِ مغلانیوں، خواص، بُو بُو، حبشنوں، ترکنوں وغیرہ کو نہ سمجھتا ہو گا۔ پانچواں سبب یہ ہے کہ جب اجنبی ملکوں کے روحانی قوت والے خدا پرست درویش یا اولیا اللہ کسی ملک میں آ جاتے اور اپنا اعتقاد لوگوں کے دلوں میں جما دیتے ہیں تو ان کے معتقد اور خاص کر عوام الناس ایسے لوگوں کے فوق العادت کرشمے ان کا استقلال، ان کا جلال دیکھ کر ان کی زبان کے وظائف، دعائیں، بھجن، قول، ملفوظات وغیرہ کو کو حزر جان بنا لیتے ہیں۔ ہر ملک کی عورتیں مردوں سے زیادہ سریع العقیدت، راسخُ الاعتقاد اور پابند رسوم و مذہب ہوتی ہیں۔ ان باتوں کو داخل عبادت اور اپنا دستور العمل بنا لیتی ہیں۔ چونکہ عام زبان کی اشاعت اور ترقی عورتوں پر زیادہ منحصر ہے۔ لہذا ان کے اقوال و افعال بھی زبان کا ایک جزو بن جاتے ہیں۔ بعض موقعوں پر یہ صورت بھی پیش آتی ہے کہ جب کسی ملک میں کوئی پیغمبر، اوتار یا مذہبی پیشوا خواہ مجتہد العصر ہوتا ہے تو وہ بھی جس زبان کو درجہ قبولیت بخشتا ہے وہ ہی رواج بن جاتا ہے۔ اس کے ماسوا غیر ملکوں کے سیاحوں سے بھی بہت سے باتیں اس وقت کی موجودہ زبان میں شامل ہو جاتی ہیں۔ چھٹا سبب یہ ہے کہ دیگر تعلیم یافتہ ملکو کی اخلاقی، ادبی، مذہبی یا تاریخی کتابیں داخل درس ہو جاتی ہیں تو وہ بھی اپنا اثر بہ کچھ اس ملک میں پہنچاتی ہیں بلکہ ان کی فقری کے فقری تمثیلوں نظیروں ضرب المثلوں میں زبان زد ہو جاتے ہیں۔ بظاہر یہی صورتیں کسی نئی زبان پیدا ہو جانے کی معلوم ہوتی ہیں۔ پس ہندوستان کی اصلی زبان تو جو تھی وہ تھی کیونکہ وہ آریہ یعنی ایرین قوم کے ایک دفعہ ہی آ پڑنے اور قدم جما کر یہیں ڈیرے ڈال دینے سے اصلی باشندوں کے ساتھ ساتھ ہوتی چلی گئی۔ جو لوگ پنجاب کے شمالی پہاڑوں پر چڑھ گئے وہ وہاں لے گئے۔ جو دکن کی طرف اُتر گئے وہ اُدھر لے پہنچے۔ اسی وجہ سے اگر قدیم زبان کے بعض الفاظ کا کچھ پتا چلتا ہے تو شمال کی پہاڑی یا جنوب کی کئی اقوام مثلاً تامل، بھیل، اُڑیا، تلنگو وغیرہ میں چلتا ہے۔ یا ان الفاظ سے کسیقدر سُراغ لگتا ہے جن کا ماخذ سنسکرت تک بگڑ بگڑا کر بھی نہیں پہنچتا جیسے پگڑی ایک ایسا لفظ ہے کہ اس کا مادہ نہ سنسکرت قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ کوئی اور زبان۔ البتہ آریہ قوم کی وہ بردہ زبان جو آجکل کی بول چال یا تصانیف سے زمانہ کی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے سرپرستوں کی عدم توجہی
---------------------------------------------------------------------------------------
(۱) بگہ دین واقع صوبہ بہار کی زبان
(۲) کوئی بمعنی کبیشر یعنی ہندی زبان کا شاعر
(۳) صحیح یساولنی

دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 18

کے سبب دم چُراتی اور اپنے آپ کو قالب بے جان کا مصداق بناتی ہے۔ اپنی عُروجی زمانہ کے علوم و فنون یا مذہبی کتب سے روز روشن کی طرح یہ دکھا رہی ہے کہ ہمارا اصلی مسکن ایران کہو یا تُوران یاشیا کی سطح مرتفع بتاؤ یا جیحون و سیحون کے بڑے بڑے میدان یہی ہے ہمارے پُرکھا ہمارے بولنے والے ادھر ہی سے آئے اور وہاں کی زبان جو ژند پاژند یا زرتشت کے زمانہ کی زبان سے ملتی جلتی ہے اپنے ساتھ لائے اور اسی کو ٹکسال پر چڑھا کر سنسکرت ینعی دیوبانی یا اس زمانے کے شرفا و علماء کی بول چال خواہ درباری ۔۔۔۔۔۔۔۔ سنہ عیسوی سے گیارہ بارہ سو برس پیشتر منوچہر کے زمانہ میں سامؔ (۱) نریمان۔ رستم دستان کا ہند میں آنا اور سورج راے وائی قنوج کا رستم کے ساتھ اپنی بھانجی کا بیاہ دینا اور اس امر سے اس کا خوش ہو کر اپنے ملک ایران کا رستہ لینا۔ بعد ازاں افراسیاب کا اول مرتبہ پچاس ہزار ترکوں کا یہاں بھیجنا اور اخیر کو خود ایک لاکھ سوار لیکر چڑھ آنا۔ نیز سن عیسوی سے نو سو برس پہلے کیکاؤس کا اکثر اقطاعِ ہند پر قابض رہنا تاریخوں سے بخوبی ثابت ہے۔ اصل میں یہی زمانہ زبان اردو کی بنیاد پڑنے کا پورا پورا زمانہ ہے کیونکہ اس وقت راجہ بصرت تخت ہند پر جلوہ ارفروز تھا اور اُسی کے عہد میں برج بھاشا اضلاع ستھرا نیز ممالک مغربی میں اور پوربی بھا کا ممالک مشرقی میں رائج ہوئی۔ اسی نے زبان اردو کو اپنی آغوش محبت میں لیا۔

سنہ عیسوی سے 606 برس پیشتر آریہ قوم کے زمانہ استقلال میں کیخسرو بادشاہ فارس جو بخت نصر بادشاہ بابل کا ہمعصر تھا۔ آبنائے ہیلسپونٹ یعنی باسفورس سے دریائے سندھ تک حکمراں رہا۔ اس بادشاہ کے لشکر میں جسقدر ایران و توران کے لشکری اپنے اپنے دیس اور شہروں کی مختلف زبانیں بولتے تھے وہ سب شمالی ہند کے باشندوں کے دلوں میں بستی اور زبانوں پر چڑھتی جاتی تھیں۔ چونکہ اہل حکومت کی زبان بہت جلد دیسی زبان پر اپنا زبردست سایہ ڈال کر قابو کر لیتی ہے۔ پس فارسی آمیز زبان شمالی ہند میں اسی وقت سے جڑ پکڑ گئی۔ چنانچہ آج تک ملک پنجاب و سند میں فارسی الفاظ دیگر زبانوخ کے الفاظ کی نسبت زیادہ پائے جاتے ہیں۔ داراب بادشاہ فارس نے جو کیخسرو سے سو 100 برس بعد یعنی سنہ عیسوی سے پانچ سو برس پہلے ہند میں دڑھ کر آیا اپنی تزک میں لکھا ہے کہ "جب میں ہند میں آیا تو میں دو طرح کے آدمی اور دو ہی طرح زبانیں پائیں۔ جو کالے کالے قوی ہیکل مثل دیو آدمی تھے ان کی بولی مطلق میری کہہ میں نہیں آتی تھی۔ اور جو گورے گورے چھریرے جسم والے تھے ان کی بہت سے باتیں میں سمجھ جاتا تھا۔ چنانچہ اسی وجہ سے وہ یہاں کے کچھ آدمی اپنے ساتھ لے گیا جو غالباً وہی آریہ قوم کے لوگ ہوں گے جنکے الفاظ اس کی سمجھ میں آتے تھے مگر جو سیاہ فام تھے وہ اصلی باشندے یعنی دراوڑ نسل کے آدمی ہوں گے۔

پس یہ گورے چٹے آدمی وہی تھے جو زبان سنسکرت یا اس زبان کا ماخذ خواہ مادہ اپنے ساتھ لیکر آئے یا یہ کہو چونکہ سنسکرت اور فارسی کا ماخذ ایک ہی ہے۔ اس سبب سے ان لوگوں کی زبان ایران والوں کی سمجھ آتی تھی اور جو سمجھ میں نہیں آتی تھی وہ غالباً اس زمانہ کی پراکرت یعنی عام زبان تھی جو سنسکرت سے بگڑ بگڑا کر کچھ سے کچھ ہو گئی تھی یا اصلی باشندوں کی رہی سہی ویسی بھاکا سمجھو جو اب مرورِ زمانہ کے باعث نیست و نابود ہو گئ۔ اور اگر کچھ ہے تو وہ پراکرت یا پالی میں شامل ہو جانے کے باعث اپنا پتا نہیں لگنے دیتی۔ حال میں مُلک سند سے ایک پرانی کتاب کسی یورپین کے ہاتھ آئی تھی جسکے ایک طرف سنسکرت عبارت تھی اور دوسری جانب قدیم فارسی۔ ان دونوں میں بہت کم فرق پایا جاتا تھا۔ اس سے یہی ثابت ہے کہ عجب نہیں اول اول فارسی آمیز سنسکرت مدت تک ہند میں بھی جاری رہی۔ ہو۔ غرض اس تمہید سے یہ ہے کہ ہندوستان کی اصلی زبان تو اس ملک سے غائب ہو گئی۔ اس کے بعد سنسکرت کو دور دورا ہوا۔ اس نے مدت تک اپنا ڈنکا بجایا۔ جب اس کا زمانہ کمال کو پہنچا تو مختلف ملکو کے سورماؤں نے آن آن کر اس ملک کی زبان میں اپنے اپنے وقت کی یادگار یعنی الفاظ چھوڑے۔ پہلے ایرانی آئے اُن کے بعد سنہ عیسوی سے 327 برس پہلے سکندر رُومی نے اور اس کے بعد اس کے جانشینوں جیسے صلیقوس یعنی سلوکس سپہ لالار سکندر بن فیلقوس نے سنہ عیسوی سے 323 برس پیشتر ہند پر چڑھائی کی تو چندر گُپت نے استواری صلح وازدیادِ محبت کی غرض سے سلیقوس کی بیٹی کو اپنی رانی بنایا اور صلیقوس اپنی میگاستھن نامی ایک افسر کو چندرگپت کے دربار میں اپنی پیاری بیٹی کو پاس چھوڑ گیا۔ چنانچہ یہ شخص عرصہ دراز تک ہندوستان میں رہا۔ اور سب سے پہلے اسی نے یونانی زبان میں ہمارے ملک کی ایک بسیط تاریخ لکھی۔ صلیقوس کے بعد اُس کے جانشینوں میں سے حاکم خراسان نے یونانی حکوت سے انحراف کیا اور کابل سے لیکر پنجاب نیز مالوہ تک حکمران ہو گیا۔ چنانچہ یہ ملک مدت تک اس کے اور اس کے ولیعہد کے عمل میں رہا۔

پس اس زمانہ میں کچھ کچھ یونانی الفاظ بھی یہاں کی ملکی زبان میں شامل ہوئے۔ جس وقت سنسکرت کا ستارا نہایت اوج پر پہنچا تو اس زبان کی قومی پابندی، دقت طلب مخارج اور مشکل الفاظ نے اس سے جی چُھرا دیا اور پراکرت کا رواج بڑھا دیا۔ یہی اس کے زوال کا ابتدائی زمانہ ہے۔ ساکھی مُنی نے اپنے زمانہ کی پالی اور پراکرت کو حضرتِ عیسیٰ سے 523 برس پہلے سموکیاس میں بُدھ مذہب کے اصول اور عبادت کی ڈھنگ پھیلائے جسے ہر ایک سمجھنے اور ماننے لگا۔ اسی زمانہ میں مسیح سے 263 برس پہلے راجا اشوک نے بُدھ مذہب کو راج دھرم ٹھہرا دیا۔ پھر کیا تھا اس موبان کو دن دُونی رات چوگنی ترقی نصیب ہونے لگی۔ جو ملک فتح کیا جاتا اس میں ایک لاٹھ یعنی مینار یا ستون بان اصولوں کا لکھ کر مع زمانہ فتح نصب کر دیا جاتا۔ لیکن برہمن سنسکرت کا تنزل، وید کی بد اعتقادی، ذاتوں کی تمیز کا اُٹھ جانا نہ دیکھ کسے۔ سنبھل سنبھلا کر لڑنے مرنے اٹھ کھڑے ہوئے اور آخرکار 1500 سو برس بعد گُلِ مراد لیکر اُٹھے۔ پھر سنسکرت کو از سر نو عروج ہوا۔ مسیح سے 57 برس پیشتر بکرماجیت نے سنسکرت کو بہت ترقی دی۔ اُسی کے زمانہ میں شکُنتلا کا ناٹک لکھا گیا۔ جس میں ہر ایک فرقہ کی اپنی اپنی زبان میں گفتگو ہے۔ 77ء میں راجہ شالباہن نے بھی جس کا ابتک سمت جاری ہے۔ برہمنوں اور سنسکرت کی بہت بڑی قدر کی اور اس کا نہایت حامی رہا۔ اخیر میں برہمنوں نے اٹھارہ کتابیں جنہیں پُران کہتے ہیں پرانے عقیدے کے موافق نئے سرے سے تصنیف کیں۔ جس کا زمانہ آٹھویں صدی عیسوی سمجھنا چاہیے۔

دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 19

گو اخیر میں پُرانیں بھی بنیں بُدھ مذہب کو بھی زوال ہوا مگر سنسکرت کو مختلف فرقوں کے غلبے، مختلف حکومتوں کے زور اور آپس کے نفاق سے ایسا گُھن لگا کہ پھر نہ پنپی۔ اول اول اس کی بول چال موقوف ہوئی۔ اس کے بعد تصانیف نے پاؤں سمیٹھا۔ مذہبی روک ٹوک نے عوام کو سیکھنے نہ دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سنسکرت ہندوستان میں پاؤں توڑ کر بیٹھ گئی اور جرمنی میں جا کر نئے سرے سے جنم لیا۔ جہاں ان زبان کے بولنے سمجھنے اور اس میں تصنیف کرنے والے بہت سے لایق پیدا ہو گئے۔ انہوں نے سنسکرت کی ڈکشنیریاں مختلف تصانیف میں، ایک ایک لفظ کیا موقع، ان کی ہر ای موقع کی استعمال کر دیکھ دیکھ کر تیار کر ڈالیں۔ آج سنسکرت کا جو ذخیرہ جرمنی میں موجود ہے تمام دنیا میں نہیں ہے۔ آمدم برسرِ مطلب۔ اُوپر کے بیان سے ہند کی اصلی زبان۔ آریہ قوم کی بولی اور سنسکرت میں سابقہ ایرانی اور یونانی زبان کی آمیزش کا سبب معلوم ہو سکا ہے اب اس سے آگے کا ذکر کیا جاتا ہے۔ جب اس بات کو قرنوں بزر گئے تو یہاں کی دولت، ثروت، خوشگوار آب و ہوا اور پیداوار کو دیکھ کر عربوں (۱) کے منہ میں بھی پانی بھر آیا۔ اگرچہ ان کا یہاں آنا جہازوں کی لُوٹ مار اور تجارتی جھگڑوں کے سبب سے ہوا مگر دلی ارادہ یہی تھا کہ ہندوستان میں بھی اسلامی جھنڈا اسی طرح لہرائے جس طرح ایران میں فراٹے بھر رہا ہے۔ چنانچہ سب سے اول 636ء میں بخلافت حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمانوں میں سے ابو العاص حاکم یمن بمقام تھانہ واقع بمبئی پر حملہ آور ہو کر فتحیاب ہوا۔ اس کے اٹھائیس 28 برس بعد 664ء میں مُہلب بن ابی صفرہ نے ملتان پر قبضہ کیا۔ اڑتالیس 48 برس بعد 713ء میں خلیفہ ولید کے سردار محمد بن قاسم نے سند پر حکومت جمائی۔ یہ سب عربی النسل ہیں جنہوں نے 76 سال تک اپنی زبان کا ہند میں استعمال کیا اور عربی کے بہت سے الفاظ یہاں کی اس زباں میں جو ان کے ممالک محروسہ میں بولی جاتی تھی ملا گئے۔ اب مسلمانوں کا متواتر دور دورا شروع ہوا۔ اس زمانہ میں اسی کثرت سے ان کی زبان کے الفاظ برج بھاکا میں مخلوط ہوئے۔ جس کثرت سے آجکل انگریزی الفاظ دھینگا دھینگی سے اپنا سکہ بٹھا رہی ہیں۔ چونکہ اسلامی زمانہ میں اس کثرت سے سرکاری مدارس نہ تھے۔ صرف دیسی مکتب یا خانقاہوں اور مسجدوں کی عربی فارسی مذہبی درسگاہیں تھیں جنہیں تمام ملک میں علم پھیلانے اور ایک سرے سے سب کو شائستہ اور تعلم یافتہ بنانے سے غرض نہ تھی۔ بلکہ تعلیم میں یہ بھی پخ لگی ہوئی تھی کہ شریفوں کے سوا ادنی قوموں کو اہل نہ بنایا جائے۔ کیونکہ ان کی کمینہ عادتیں، سفلہ طبیعتیں حصول علم سے اپنی آبائی اور ذاتی سرشت اور جبلت کے اثر کو زائل نہیں کر سکتیں چنانچہ ہماری اس بحث کے متعلق تذکرۂ دولتِ شاہی میں بھی چند مثالیں ایسی موجود ہیں کہ کمینوں نے شاہی ضرورتوں کے موقع پر بجائے قرض لاکھوں روپیہ اس شرط پر دینا چاہا کہ ہماری اولاد کو تعلیم دیجائے مگر اس وقت کے بادشاہوں نے اس امر کی مطلق پرواہ نہ کی۔ اس پر بھی سیکڑوں ہزاروں ان کے زبان کے لُغت ہند کی زبان میں مخلوط ہو گئے۔ اور ایسی حالت میں کہ سرکاری اسکول دیہات سے لیکر ۔۔۔۔۔۔۔ دیار میں بکثرت موجود ہیں نیز انگریزی زبان لازمی زبان قرار پائی ہے کیوں نہ انگریزی الفاظ افراط سے نوکِ زبان ہوں۔ گھر کی بیٹھنے والی عورتیں تک انگریزی زبان کے بہت سے الفاظ بولنے لگی ہیں۔ گویا ان کی زبان بھی اب خالص زبان نہ رہی۔ ریل کی، تار کی، ڈاک کی، عدالت کی ضروری اصطلاحیں تمام عورتیں جانتی ہیں۔ جنکے بچے مدرسوں میں تعلیم پاتے ہیں۔ ان کی ماں بہنیں مدارس کی بہت سی اصطلاحوں سے واقف ہو گئی ہیں۔ وہ کون عورت ہے جو پاس، فیل، کاپی، سلیٹ، پنسل وغیرہ نہیں سمجھتی۔ وہ کون سی نیک بخت ہے جو پرائمری، مڈل، ٹائم کو نہیں جانتی۔ پس اسی طرح مسلمانوں کی حکومت نے ہندوستانی زبان کو عربی، فارسی اور ترکی زبان سے ترقی بخشنی شروع کی بلکہ ترکوں کا نام تو یہاں تک دلوں میں گھر کر بیٹھا کہ ہر ایک مسلمان کا نام تُرک پڑ گیا۔ جسطرح ہولی کی رنگرلیوں میں کرشن جی کا نام لطف دیتا ہے اسی طرح عاشقانہ دھینگا دھینگیوں اور چھیڑ چھاڑ میں ترکوا کا لفظ مزا دینے لگا مثلاً ؂ ترکوا نے مچھ لئی گا گریا، کیسے کروں موری ساسریا (۲)۔ حتی کہ بعض اوقات پیار اور محبت کے موقع پر بھی مسلمان کی بجائے تُرک کا لفظ زبان پر آنے لگا۔ حضرت نظام الدین اولیا تو حضرت امیر خسرو کو محبت اور لاچینی تُرک ہونے کی وجہ سے تُرک اللہ ہی کے خطاب سے مخاطب کیا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ نے اپنے اس شعر میں بھی خسرو کو خصوصیت کے ساتھ تُرک فرمایا ہے ؂ گر برائے تُرکِ تُرکم ارہ برتاک نہند – ترک تارک گیرم و ہرگز نگیرم ترک تُرک۔ مگر حضرت امیر خسرو نے خود بھی اپنے ہندی فارسی اشعار میں اس طرح باندھا ہے ؂ ہندہ بچہ بیں کہ عجب حُن دھرے چھے – بروقتِ سخن گفتن مُکھ پُھور جھرے چے۔ گفتم زلبِ لعلِ تویک بوسہ بگیرم – گفتا کہ ارے رام تُک کائیں کرے چھے صرف اُسی زمانہ میں نہیں اگر آپ اب بھی دیہات کا گشت لگائیں تو دیکھ لیں کہ اکثر مقامات میں اسوقت تک عموماً بڑی عمر والے اور ان سے کم نئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ کے لوگ مسلمانوں کو تُرک ہی کہتے ہیں۔ غزنوی خاندان کی دو سو دس سال کی حکومت نے جو 976 سے 1186ء تک رہی غور خاندان کی سلطنت نے جسکا 58 برس چراغ روشن رہا۔ غلاموں کے خاندان نے جنکی غلامی میں 84 برس بسر ہوئے۔ خلجیوں نے جنہوں نے تین 30 برس تک ہندوستان میں حکمرانی کی۔ خاندان تغلق نے جو 94 برس حکمراں رہا۔ خاندانِ سادات نے جس نے 36 سال سے زیادہ عمر نہ پائی۔ خاندان لودھی نے جو 76 بر تک اپنا ڈنکا بجاتا رہا۔ خاندان مغلیہ نے جو 331 سال تک ہند کا چراغ روشن کرتا رہا۔ اپنی اپنی زبان کے کون سے الفاظ تھے جو ہند میں نہ پھیلائے۔ اور ہندی زبان کو کون سی رسمیں، اصطلاحیں اور عادات تھیں جنہیں خود اختیار نہ کیا۔ غرض سب کو گڈمڈ کر کے ایک عجیب نسخہ سجونِ مرکب تیار کر دیا۔ اُسی زمانہ کے اخیر میں کہ سلطنت مغلیہ نے پاؤں پیٹنے شروع کر دیے تھے۔ مغربی بادشاہوں نے مختلف طریقوں سے ہند کی سر زمین میں قدم رکھنا شروع کیا۔ کبھی پرتگیزوں نے یہاں آ کر پاؤ روٹی کی جسے نان پاؤ اور ڈبل روٹی کہتے ہیں حاضری کھائی۔ کبھی ولندیزوں نے کبھی ڈنمارک والوں نے کبھی فرانسیسیوں نے اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائی۔ اور 361 برس تک یہاں کی ہوا کھائی۔ جنکو جو جگہ راس آئی وہیں رہ پڑے اور ابتک ہیں۔ مگر سب سے زیادہ جلال اور استقلال کے ساتھ جو منصفانہ حکومت آئی وہ انگریزی حکومت ہے۔ اس نے بدامنی کو مٹا کر امن قائم کیا۔ سرکشوں کا سر کُبلا اور 134 برس سے ابتک ترقی پر ترقی کرتی چلی جاتی ہے۔

برج بھاکا میں جس نے سب سے اول اپنا رنگ جمایا وہ سلطان الشعراء حضرت امری خسرو بادشاہ سخن طوطیٔ شکر مقال شاعر بے مثال کہ کہہ مکرنیا، پہلیاں، ڈھکوسلے، گیت، دو سخنے، کہاوتیں، انملیاں تھیں۔ آپ خلجی بادشاہوں کے زمانہ میں تھے جسے چھ 600 سو برس کے قریب عرصہ ہوا۔ 1325ء میں انتقال فرمایا۔ ہندی آمیز فارسی غزلیں انہوں کہیں۔ خالق باری بنا کر عربی فارسی ہندی الفاظ کی نظم میں
--------------------------------------------------------------------------------------
(۱) ایک محقق اپنے لکچر میں لکھتا ہے کہ "مذہب اسلام سے پہلے ہندو تجار کے عربستان جاتے تھے اور بہت سے عربوں نے ہندوستان کو اپنی تجارت کا پالا بنا رکھا۔
(۲) ساس کی تصغیر ہے۔

دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 20

ڈکشنری انہوں نے بنائی۔ دُھرپد کی بجائے قول انہوں نے ایجاد کیا۔ راگ، راگنیاں بلکہ ساز تک بنا ڈالے۔ عجب زندہ دل، خوش طبع، خوش مزاج، خوشخو، خوشروع آدمی تھے۔ اس زمانہ کی عورتیں انکے گیتوں کو بڑے شوق سے گانے اور ان سے ہر طرح کا مذاق کرنے لگی تھیں۔ ان سے گیت بنانے کی فرمایش ہوتی اور یہ فوراً ان کے مزاج کے موافق گھڑ کر انہیں خوش کر دیتے۔ لڑکیوں میں پہلیاں اور سکھیاں اسطرح پھیلتیں۔ جس طرح کرشن جی کے زمانہ میں گوپیاں مشہور ہوئیں۔ خدا داد قبولیت اں کے کلام اور ان کی ذات کو اس قدر نصیب ہوئی کہ اس زمانہ کے استادان سخن اور اولیاء اللہ نے بھی داد دی ہے۔ اس سے ثابت ہے کہ 1324ء (725ھ) میں مسلمان خاص بھاشا اور ہند و فارسی آمیز ہندی بولنے لگے۔ اور مسلمانوں نے اسی زبان کو اپنی زبان سمجھا۔

برج کی زبان نہایت شیریں رسیلی اور اُلفت بھری زبان ہے۔ جس کی وجہ وہاں ایک ایسے اوتار کا جنم لینا سمجھنا چاہیے جو زندہ دلی، خوش مزاجی، حکیم الطبعی کا بڑا بھاری بادشاہ تھا۔ اس نے اپنی پیدائش سے برج کو اشرفُ البلاد و فخر الامصار بنا دیا تھا۔ اُس کے فلسفیانہ چوچلے حکیمانہ چٹکلے آجتک خوش مزاجوں کے دلوں میں چٹکیاں لیتے ہیں۔ اس کے ہر ایک کھیل، ہر ایک حرکت سے رنگ وحدت ٹپکتا تھا۔ چنانچہ چوک چکنی (۱) کے تہوار میں جو بھادوں سُدی چوتھ کو ہوا کرتا ہے، جس میں کئی کئی آدمی یا لڑکے حلقہ بنا کر ڈنڈوں سے کھیلتے ہیں، اُسکی آواز سے ثابت ہوتا ہے کہ کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت نمایاں ہے۔ یہ بھی کرشن جی کا ایجاد ہے۔ ہمارے خیال کے موافق وہ پکا موحد، بہت بڑا ظریف الطبع فلاسفر اور وشنو کا سولہواں 16 اوتار تھا۔ اُس کی طفلانہ حرکتیں عاقلانہ حکمتوں سے بھر ی ہوئی ہیں۔ اس کی محققانہ تصنیف آلہیات سے پُر ہے۔ افسوس ہے ان لوگوں پر جو ایسے شخص کی نسبت سفلانہ خیال رکھتے ہیں۔حیف ہے ایسے مؤرخوں پر جو اس کے حالات کی نُکتہ چینی کرتے ہیں۔ وہ بیشک ہندوستان کا پیغمبر اور اہل ہند کا رہبر تھا۔ کرشن اور رامچندر ایسے دو اوتار ہوئے ہیں کہ ان کے اخلاق نے صرف اخلاقی ترقی ہی کو کام نہیں فرمایا بلکہ اپنے اپنے ملک کی زبان کو بھی وہ محبوب الخلائق بنایا کہ ادھر کرشن جی کی بدولت برج بھاکا نے روپ نکالا اور ادھر رمچندر جی کے طفیل پوربی بھاکا نے جوین پکڑا بلکہ بنو باس کے زمانہ میں دکن اور لنکا تک بھی فیض پہنچایا۔

ان دونوں اوتاروں کی داستانیں اس وقت تک مُردہ دلوں کو زندہ کر دینے اور ہر وقت ایک نئی رُوح پھونکنے والی ہیں۔ ان کے پڑھنے سے عجیب نکتےحل ہوتے ہیں اور غضب کی معلومات پڑھکر آیندہ کےلئے نہایت مفید نتیجے نکلتے ہیں۔ ان کی داستانیں کیا ہیں، حیات و ممات کی معلومات کے رخت و عبرت افزا فسانے بلکہ خزانے ہیں ؂ سرسری ہم جہان سے گزرے – ورنہ ہر چا جہانِ دیگر تھا۔ رامچندر جی کو ہندؤ وشنو کا آٹھواں اوتار اور ۔۔۔۔۔ جگ کا سردار مانتے ہیں۔ اب ہم ذرا اس زمانہ کی خاص اردو زبان کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ اردو تُرکی زبان میں لشکر گاہ اور بازار لشکر کو کہتے ہیں۔ چونکہ اردو مراد اکثر بادشاہی لشکر سے ہوا کرتی ہے، لہذا تعظیماً اسے اردو معلے کے نام سے نامزد کرنے لگے اور آخیر میں لشکری بولی پر اس کا اطلاق ہونے لگا۔ یہاں اردو سے ہماری مراد اردئے شاہجہاں ہے۔ آجکل قرب دہلی کی وجہ سے یا اس باعث سے کہ اسی کی سرزمین میں یہ شہر آباد ہوا، شاہجہان آباد کو بھی دلی کہنے لگے اور وہاں کی بولی کو دلی کی زبان۔ دلی ملک قدیم اور پرانا شہر ہے۔ ہندوستان کے تمام بڑے بڑے راجہ مہاراجہ اسی خطہ میں دارالسلطنت بنا کر قیام پذیر رہے۔ لیکن اس زمانہ میں ہر ایک اپنی اپنی بولی بولتا تھا۔ ایک کی زبان دوسرے کی زبان سے نہیں ملتی تھی۔ اس زبان کو اس زمانہ کی بھاکا کہا کرتے تھے۔ جب ہندوستان میں مسلمانوں کی عملداری آئی اور مسلمان یہاں کے شہروں میں آ کر بسے تو انہیں بڑی دقت پیش آئی۔ سودا سُلف کا لینا دینا۔ اپنا مفہوم سمجھاجا ان کا مفہوم سمجھنا مشکل پڑ گیا۔ اگر خود دکانیں لگاتے ہیں تو اپنی قوم کے سوا کوئی دوسرا سودا خریدنے نہیں آتا۔ اور جو دوسروں سے لیتے ہیں تو گُڑ کی جگہ نمک اور نمک کی جگہ دال دکھاتا ہے۔ ادھر انہیں غصہ آتا ہے اُدھر بیچنے والا پیچ و تاب کھاتا ہے اور کسی کا سودا نہیں بنتا۔

اول اول تو مسلمانوں کی عملداری میں بھی اختلاف رہا۔ جیسا کہ ہم اوپر بیان کر آئے ہیں کہ کبھی کسی خاندان کی حکومت ہوئی۔ کبھی کسی بادشاہ کی سلطنت۔ اس سبب سے کوئی خاص زبان مستقل نہ ہو سکی۔ چنانچہ انگریزی تیرھویں ہجری ساتویں صدی بعہد محمد شاہ تغلق و علاء الدین خلجی میں زبان کا رواج تھا۔ اس کی اس دوہی سے جو حضرت شیخ شرف الدین بو علی قلندر صاحب کی زبان مبارک سے مبارز خاں صاحب کے اردۂ سفر کے موقع پر نکلا تھا، بخوبی پتا لگتا ہے کہ کیسی صاف اور سیدھی زبان تھی گو اس میں سرتاپا ہندہ الفاظ جیسے کہ دوہوں میں ہوا کرتے ہیں پائے جاتے ہیں مگر زبان عام فہم ہے اور عام فہم بھی ایسی کہ اس زمانہ کی ہندی سے ذرا سا مس رکھنے والے بھی بخوبی سمجھ لیتے ہیں۔ وہ دوہا یہ ہے ؂ سجن سگارے جائیں گے اور نین مرینگے روئے – بدھنا ایسی رین کر جو بھور کدھی نا ہوئے۔ اسی مضمون کو آپ نے فارسی میں اس طرح ادا کیا ہے ؂ من شنیدم یارِ من فروا رو دراہ شتاب – یا الٰہی تا قیامت بر نہ آید آفتاب۔ ہاں مختلف زبانوں کے لُغات و الفاظ ایک دوسرے کی زبان پر چڑھنے لگے بلکہ بعض کبیشروں، ہند کے مصنفوں اور یہاں کے شاہی ہندو عہدہ داروں نے تو اپنے کتبوں اپنی پوتھیوں اور عرائض میں بھی انہیں برتنا اور اپنی بھاکا میں داخل کرنا شروع کر دیا۔ بعض مسلمان ذکی الطبع ایسے بھی ہوئے کہ انہوں نے صرف اس زمانہ کی بھاکا ہی حاصل نہیں کی بلکہ سنسکرت میں بھی مہارت بہم پہنچا کر مہاکبیشر اور گیانی پنڈت بن گئے۔ خان خاناں کے اشلوک آجتک لوگ نہیں بھولے۔ پشتکوں میں، پوتھیوں میں۔ کجکولوں میں درج کر گئے۔ اور انہوں نے ضرب الامثال کا درجہ حاصل کر لیا۔ بلکہ حکیمانہ توان اور بزرگانہ ملفوظات میں شمار ہونے لگے۔ اس کے علاوہ بھاٹوںے بھی خانخاناں کے بہت سے اشلوکوں کو اپنی روزی کا وسیلہ بنا رکھا ہے۔ علیٰ ہذا دارا شکوہ نے سنسکرت میں وہ دسترس حاصل کی کہ اُپنشدوں اور نیزلوگ بششٹ پران یعنی تصنیفاتِ موحدان کامل کا ۔۔۔۔۔۔ میں ترجمہ کر دکھایا۔ یہی نہیں بلکہ اس زمانہ کے بھگتوں، لیڈروں، پیشواؤں اور مختلف پنتھ کے بانیوں نے بھی اپنی بانیون بھجنوں اپنے قولوں اپنی تصنیفات میں انہیں جگہ دی۔ مسلمانوں میں سے امیر خسرو نے خلبیوں اور تغلقوں کے زمانہ میں وہ ہر دلعزیزی پیدا کی کہ ایک ایک گلی اور کوچہ کا بچہ، ہر گاؤں کی گیتا کریاں ہر قریہ کی زمیندارنیاں جاننے لگیں۔ بڑے بڑے گویوں نے انہیں ندیک مانا اور ان کے ایجاد
---------------------------------------------------------------------------------------
(۱) یہ لفظ اصل چوتھ چاندنی ہے۔
(۲) ہندی شاعرہ عورتیں

دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 21

کر دہ راگوں کو حرزِ جان بنایا۔ حتی کہ آپ تک ان کے نام کے ساتھ بڑے بڑے کلانوت اپنا کان پکڑتے ہیں۔ محمد جائیسی نے جو 1600 ء میں بعہد شیر شاہ گیت بنائے۔ دوہے بنائے، پدماوت بھاکا لکھی وہ اچھے اچھے بھاکا زبان کے استادوں، اہل زبانوں کو پرے بٹھاتی ہے۔ فیضی نے بھی کچھ کم مہارت پیدا نہ کی۔ ہندوستان کے پاک طینت موحدوں، صلح کل طبیعتوں جیسے بابا نانک (۱)، کبیر جی، داؤد وغیرہ نے اپنے دوہوں، شبدوں، ساکھیوں، گرنتوں میں مسلمانوں کے الفاظ کو عزت سے برتا اور وقعت کی نگاہ سے دیکھا ہے، مگر اتنوں میں سے کوئی بھی اس زبان کی اصلاح اور تدوین پر متوجہ نہ ہوا۔ ہاں اکبر عہد میں جس وقت کہ مُغلیہ سلطنت کو قیام اور امن و امن کو سانس لینے کی فرصت ملی۔ لوگ اپنے اپنے تھکانے بیٹھے۔ تو ہندو اور مسلمان شیر و شکر ہو گئے۔ ہندوؤں کو معزز خطاب ملنے لگے۔ منشی، محرر، مقصدی، برطیق ایران مرزایانِ دفتر کہلانے لگے اور علمی چرچا شروع ہوا۔ لیکن اس وقت میں فارسی زبان کی وہ قدر تھی کہ کایستوں نے تو سکندر لودھی کے وقت یعنی 1488ء سے ہی اپنا معیار علم اسی پر ٹھہرا کر دفتروں کا کاروبار سنبھالا تھا۔ مگر اور قوموں میں بھی شوق چرا گیا۔ جس وقت شاہجہاں تخت سلطنت پر متمکن ہوا اور اس نے انتظام سلطنت کے لحاظ سے یہ قانون مقرر کیا کہ ہر ایک ملک،ہر ایک محروسہ ریاست کے وکلا حاضر دربار رہا کریں اور کلی کو از سرِ نو آباد کر کے قلعہ معلے یعنی لال قلعہ بنایا، اس شہر کا نام شاہجہاں آباد قرار دیا اور ایسا بھاری جشن کیا کہ جشن قیصری سے بھی باعتبار کثرتِ انعام و اکرام، خاطر و مدارات، رعایا پروری اور جُود و سخا میں بڑھا ہوا تھا۔ جسے کوئی خطاب یس منصب عطا فرمایا، اسی حیثیت کے موافق اس کے مصارف کا بھی جاگیر سے کفیل ہو گیا یا کوکئی اور رستہ نکلا دیا۔ اس جشن کے موقع پر بھانت بھانت کا پکھیرو ڈال ڈالی کا طُوطیٔ خوش الحان اپنی اپنی بولیاں بول رہا تھا۔ تمام ملکوں کے لوگوں جمگھٹا تھا۔ ہر ایک کی گُفتار و رفتار جدا تھی۔ ہر ایک کا رنگ ڈھنگ نرالا تھا۔ لباو و پوشاک انوکھی۔ جس وقت آپس میں مصافحہ کرتے بات چیت کی نوبت پہنچتی تو چار لفظ اپنی زبان کے ہوتے تو دو سمجھانے کے واسطے دوسرے کی زبان کے مجلسوں میں، جلسوں میں بہت سی باتیں ایسی سرزد ہوتیں کہ اس موقع کی زبانوں کا ایک گلدستہ بن جاتی۔ ہر ایک پنکھڑی کی خوشبو، اس کا رنگ اس کی بناوٹ اپنا اپنا انوکھا جوبن دکھاتی۔ رفتہ رفتہ بادشاہی امیر و امرا نے اس کا استعمال شروع کر دیا۔ بیگماتِ قلعہ، محل، حرمیں، پرستاران شاہی ہندی نژاد ہونے کی وجہ سے اس زبان کو جھت لے اُڑیں۔ ہندی، فاریسی، عربی، ترکی اسطرح آمیز ہوئے کہ ایک زبان اور چار مزے کی آواز کانوں میں پڑنے لگی۔ بازار کی خرید و فروخت نے بھی یہی عالم اختیار کیا۔ ہر ایک چیز کی خوب دھڑلے سے بکری ہوئی اور ازخود ایک نئی زبان کی صورت نظر آنی شروع ہوئی۔ بادشاہ کو جو یہ پرچہ گزرا تو اس نے اپنے زمانہ کی ایک ہمیشہ نام چلانے والی زندہ اور مبارک یادگار خیال کر کے ایک عہدہ تجویز کیا۔ اس کا نام دلالی رکھا۔ چونکہ دلال بخوبی رہنمائی کرنے والے اور دلالی خاطر خواہ رہنمائی کو کہتے ہیں اور اصطلاحاً بائع و مشتری میں سودا کرانے والے کو۔ لہذا لغوی و اصطلاحی دونوں معنی کے خیال سے یہ لفظ اس موقع کے لئے نہایت موزوں رہا۔ اول اول خاص شاہی لشکر میں بعد ازاں ہر ایک بازار میں دلال مقرر کر دیئے کہ دن بھر جو کچھ سودا سُلف لیتے دیتے وقت ایک دوسرے سے الفاظ سنیں انہیں قلمبند کر لیں۔ چنانچہ یہ کام سرعت کے ساتھ جاری ہو گیا اور یہاں تک رواج بڑھا کہ ہر ایک شہر اور ہند کے ہر ایک ملک میں یہ ایک پیشہ قرار پا گیا۔ دکانداروں نے خوشی خوشی ان کا حق تسلیم کر لیا۔ فی روپیہ یا فی سیکڑا یہ ڈسکؤنٹ کے حقدار ہو گئے۔ غرض دلالی ایک موروثی عہدہ نیز پیشہ بن گیا اور اخری کو ان لوگوں کی نیت بگڑ کر یہ نوبت پہنچی کہ اپنی بولی اور گنتی بھی الگ کر لی۔ گاہک کے ساتھ آئے اور دکان دار سے ایک کونہ پر بیٹھ کر کہ دیا کہ لالہ جی ان کو اچھا اور کفایت کا مال دینا، ہم کونہ پر بیٹھے ہیں۔ ہمارا کچھ خیال نہ کرنا۔ اس سے یہ غرض ہوئی کہ چوتھائی حصہ ہمارا ہے۔ آگے تم جانو اور تمہار کام۔ کبھی فرمایا کہ دیکھو لالہ ایسے گھرے گاہک کو نہ ٹالنا۔ ہمیں تو صرف گالی سے غرض ہے۔ ان کو عمہد مال ملجائے۔ تمہارا گاہب پٹ جائے۔ یعنی ہم روپیہ کے نفع میں آٹھ آنے کے شریک ہیں۔ یہ خریدار گانٹھ کا پورا آنکھوں کا اندھا دوسرے کی دکان سے اُچٹا کر لائے ہیں۔ یہ باتیں وہ ہیں جو سینہ بہ سینہ ہم اپنے بزرگوں سے سنتے آئے ہیں۔ اور ہم نے انہیں اسی موقع کے واسطے لگا رکھا تھا۔ محمد شاہی عہد غالباً 1729ء میں نادر شاہ کی غضبناک چڑھائی کی خبر سُنکر کہا تھا کہ نادر شاہ کل کا آتا آج آ جائے۔ اپنا سر کھانے مگر یاروں کی ٹوڑی کا وقت نہ جائے۔ ٹوڑی مالکوس راگ کی ایک راگنی کا نام ہے۔ آپ کو یہ راگنی نہایت پسند تھی۔ ان کے زمانہ میں بھاکا آمیز اردو کے بہت سے گیت ٹپے ٹھمریاں، راگ، راگنیاں بن گئیں۔

کیا تو یہ زبان گھٹنیوں چل رہی تھی کیا ایک دفعہ ہی سپاٹا بھرنا شروع کیا۔ مگر چونکہ اول اول اس کی شاہجہانی لشکر سے ابتدا ہوئی۔ لہذا اس کا نام بھی اردو پڑ گیا۔ قلعۂ معلےٰ کے لاہور دروازہ کے سامنے اردو بازار کے نام سے ایک بازار بھی آباد ہو گیا جو بلاقی بیگم کے کوچہ اور چاندنی چوک کے سڑک کے جنوبی پہلو پر واقع تھا۔ اب روز بروز اس کی تراش خراش ہونے اور یوماً فیوماً رونق بڑھنے لگی۔ فارسی کے محاورات ہندی میں ترجمہ ہوئے۔ عربی فارسی اسموں اور مصدروں کو ہندی مصدروں کی علامت لگا اردو بنا لیا۔ امیر خسرو نے تو یہاں تک اجتہاد کیا کہ چلنے سے چلیدن بنا کر فارسی میں رائج کر دیا۔ حتیٰ کہ اب ترجموں اور تصانیف کا دفتر بھی کُھل گیا۔ کسی نے قرآن شریف کا ترجمہ کیا۔ کسی نے شہادت نامہ لکھا کسی نے چار درویش سنبھالا۔ کوئی نظمپر جُھک پڑا۔ ولی گجراتی نے بعہد عالمگیر 1658ء بمطابق 1046ہجری میں سب سے اول دیوان لکھ ڈالا۔ شاہ حاتم، فغاں، خان آرزو نے دلی کی زبان کو منجھا، مگر ان سے پانچ برس پیشتر شاہ عالم ثانی نے 1759ء مطابق 1173 ہجری میں نظم کا شوق کیا اور آفتاب تخلص فرما کر چار دیوان لکھے اور اس زبان کو پہلے سے بہت زیادہ ترقی دے کر چمکایا۔ ان کے بعد مظہر جانجاناں، میر سوز، میر تقی، مرزا رفیع سودا اور خواجہ میر درد کے وقت میں تو یہ فنِ شعر میں عالم شباب پر پہنچ گئی۔

دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 22

ان لوگوں کی خوش بیانی اور طلاقتِ لسانی نے اسے چار چاند لگا دیئے۔ چنانہ ان کی خوش بیانی کے آوازہ نے ان کے کلام کا آویزہ بنا کر ہر ایک سخن فہم کے گوشِ فصاحت نیوش میں پہنا دیا۔

مصحفی – سید انشاء جرأت گو ان کے پیرو بنے مگر ان کو نہ پہنچے۔ البتہ ناسخ، آتش، نصیر، مومن، ذوق اور غالب نے اردو کو معراج پر پہنچا دیا۔ اور اب اخیرمیں داغ معاملہ بندی، درد بھری سخن گوئی، سخن سنجی، فصاحتِ کلام میں ابنائے زمانہ پر سبقت لے جا کر ہر ایک اہل زبان کو اپنا داغ دے گیا۔ حضرت معروف حضرت عارف حضرت نیز رخشاں یوسف علی خاں عزیز، میر مجروح، انور پہلے ہی چل بسے تھے۔ ایک حضرت حالی (۱) کا دم رہ گیا۔ خدا تعالےٰ انہیں عمر نوح عطا فرمائے اور ہمارے بقیہ زندگی بھی ان کی حیات میں ملا کر خلق اللہ کو فیض پہنچائے ہر زمانہ میں تغیر و تبدل ہو کر یہ زبان منجتی اور صاف ہوتی چلی گئی۔ شاہجہاں آباد کی زبان کو ہند میں وہی شرف حاصل ہے جو شیراز کی زبان کو ایران میں، عربی کو مکہ میں، فرانسیسی کو پیرس میں۔ انگریزی کو لندن میں۔ اس شہر کی زبان اردو بولنے والوں کے لیے سند اور یہ شہر اس کی اصل ٹکسال اور گھر ہے۔ بعض زبانوں کے غیر مانوس، غیر ضروری الفاظ جو بلا ضرورت اپنی علمیت جتانے کی غرض سے اس زبان میں زبردستی ٹھونسے جاتے ہیں وہ زبان کے لطف کو خاک میں ملا دیتے ہیں۔ اس میں سنسکرت کے الفاظ ہوں خواہ عربی کے، فارسی کے لغت ہوں خواہ انگریزی کے بعض نہایت بے جوڑ اور بے تُکے معلوم ہوتے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس زمانہ میں اردو کی تصنیف و تالیف کثرت اخبار اور ترجموں کی افراط نے اسے علمی زبان بنا دیا اور یہ ہمارے ملک کی ایک مستند زبان ہو گئی مگر بے میل پیوند کسی طرح خوشنما اور موزوں نہیں ہوا کرتا۔ غیر مانوس اور خشونت انگیز الفاظ کمخاب میں ٹاٹ کا پیوند معلوم ہوتے ہیں۔ اس زبان کی تکمیل میں اگر کسر تھی تو فن لغات مصطلحات کی تدوین کی کسر تھی۔ سو خدا تعالٰی نے اس عشق ہمارے دل میں دالا۔ اور ہم نے باوجود تنگدستی اسے پورا کر کے دکھا دیا۔ گویا اب ہمارے زبان کو آئندہ نسلوں کے واسطے موجودہ و سابقہ الفاظ کا ایک عمدہ ذخیرہ اور لُغات کی ترقی کا ایک معتدبہ سامان بہم پہنچ گیا۔ ہمارے زمانہ کی تہذیبی اور شریفانہ زبان یہی قرار پائی۔ گو آپ کے جھگڑے اور خود غرضانہ پالیسی اسے نقصان پہنچانے میں کمی نہ کرے مگر یہ زبان اب مٹنے والی نہیں۔ ریل نے اسے عام بلکہ عالمبیر بنا دیا۔ تویا اردو زبان ہند کی ملکی زبان ہو گئم۔ نہ یہ مسلمانوں کی خاص زبان ہے نہ ہندوؤں کی نہ کسی اور کی یہ تو اپنے دیس کی سہل المخارج، سریع الفہم، ہمہ گیر، ہمہ صفت موصوف۔ عام پسند وہاں ہے جس کے لئے مدراس کی تعلیمی کانفرنس نے بھی سرکار سے یہ درخواست کی ہے کہ وہاں کی دیسی زبانوں میں اردو بھی تسلیم کی جائے۔ ہماری زبان کوئی اکل کھری زبان نہیں ہے۔ اس میں سب زبانوں کی کھپت اور سمائی ہے۔ یہ اسی زبان نے صلاحیت اور ملنساری پائی ہے کہ ہر ایک زبان کے الفاظ خواہ کسی لہجہ اور کیسے ہی مشکل مخرج سے تعلق کیوں نہ رکھیں، اس میں بآسانی جزو بدن ہو جاتے ہیں۔ تُرکی کا غ، عربی کا ع، فارسی کی ژ، اٹلی کی ث، سنسکرت کا ش، ہندی کا ڈھ، انگریزی کی ٹ۔ غرض جس زبان کا سخت سے سخت اور نرم سے نرم لفظ چاہو اس میں کھپا لو اور اردو زبان بولنے والے سے اسکے اصلی تلفظ کے موافق نکلوا لو۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ یہی کہ ہمارے ملم میں دیس دیس کی آب و ہوا کا لطف، ہر ایک موسم کا سماں موجود ہے۔ ہمارے ملک والے جس غیر زبان کو چاہتے ہیں، اس عمدگی اور خوبی سے بولنے لگتے ہیں کہ اس کے اہل زبان بھی تمیز نہیں کر سکتے کہ یہ کسی غیر دیس کا آدمی ہمارے بولی بول رہا ہے یا ہمارا ہی ہموطن اور ہمزبان ہے۔ اور تو اور یہاں کے بعض پرندوں کو بھی یہ ملکہ حاصل ہے کہ انہیں جونسی زبان چاہو سکھا لو۔ بلوا لو۔ بنگالہ کا مینا اور ہندوستن کے طوطے کی بولی پر صاف انسان کا گمان ہوتا ہے بلکہ اور پرندوں کی بولی بھی یہ جانور ایسی اُڑا لیتے ہیں کہ سننے والے کو تمیز نہیں ہونے دیتے کہ یہ بلبل ہزار داستاں ہے یا طُوطیٔ شکرستاں، اس سے بڑھ کر اور بات سنئے کہ یہاں کے بعض لوگ جانوروں کی بولی بول کر ادھر آدمیوں کو اُدھر جانوروں کو خاصا دھوکہ دے دیتے ہیں۔ جس وقت، جس موسم، جس موقع پر چاہو، جس پرند، جس جانور کی ان کے منہ سے بولی بلوا کر سن لو۔

اسی زبان کو زبان ریختہ بھی کہتے ہیں جسکی وجہ یہ ہے کہ اس نے اپنے دوامی قیام کے واسطے گویا ریختہ کی مضبوط بنیاد ڈالی ہے، بلکہ زیادہ تراردو اشعار کو ریختہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ چنانچہ غالب علٰی کلِ غالب فرماتے ہیں ؂ جو یہ کہے کہ ریختہ کیونکہ ہو رشکِ فارسی – گفتۂ غالبؔ ایک بار پڑھ کے اُسے سُنا کہ یوں۔ علیٰ ہذا حضرت عارف کا ارشاد ہے ؂ یہ ریختہ وہ ہے کہ کوئی ڈھا نہیں سکتا – عارفؔ نہیں دیکھی یہ تعمیر کسی نے۔ ؂ عارف یہ ریختہ بھی نہیں فارسی سے کم – دیوان سیکڑوں مرے ایراں تلک گئی۔ میر تقی ؂ کس کس طرح سے میرؔ نے کاٹا ہے عمر کو – اب آخر آخر آن کے یہ ریختہ کہا۔ مگر اب ریختہ کی بجائے اردو یا فقط اردو لکھنے اور بولنے میں سے سے زیادہ زباں زدِ خاص و عام ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک اردو کی وہ نظم جو آورو سے بچا کر بیساختہ ازرُوئے آمد کہی جائے ریختہ ہے۔

اردو زبان کی بالترتیب تصنیفی ترقی

بظاہر اردو زبان میں تصنیف کا سلسلہ 1732ء مطابق 1145ھ عہد محمد شاہ بادشاہ دہلی سے شروع ہوا۔ اور میاں فضلی دہلوی نے سب سے پہلے وہ مجلس اس زمانہ کی زردو کے موافق لکھی۔ یہ کتاب بار بار طبع ہو چکی ہے۔ آپ سے چالیس پچاس برس پہلے محرم کی مجلسوںمیں عزاداروں کے گھروں میں شہادت ناموں کی بجائے یہی کتاب پڑھی جاتی تھی۔ مگر اب اسے کوئی نہیں پڑھتا۔ کیونکہ بلحاظ زبان و بیان اس سے بدرجہا بہتر اس بیان کے متعلق بہت سے کتابیں بن گئی ہیں۔ حضراب میر اُنیس اور مرزا دبیر کے مرثئے رُلانے اور چار آنسو ٹپکانے کے واسطے وافی و کافی ہیں۔ گو بلحاظ تعصب بعض لوگ ان کے کلام کی داد نہ دیں۔ اور ان مرثیوں کو عقیدتمندانہ نظر سے نہ دیکھیں۔ مگر درحقیقت حضرات موصوف نے مرثیہ گوئی کو ایک خاص علم بنا دیا ہے۔ ہر ایک کا حصہ نہیں ہے کہ اس میں سبقت لے جائے۔ 1705ء مطابق 1164ھ میں شری للوجی لال کوی نے پریمؔ ساگر اردو آمیز زبان میں لکھی۔ 1771ء مطابق 1185ح میں رفیع سودا نے میر تقی کی مثنوی شعلہ عشق کو نثر میں کیا لیکن اس نثر سے اپنے زبردست کلام کی سے
 

شمشاد

لائبریرین
دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 23

داد نہ پائی صرف دُھوم ہی دُھوم مچائی۔ 1798ء مطابق 1213ھ میں میر محمد عطا حسین خاں تحسین نے چار درویش کا اردو میں مقفے و مستجع قصہ لکھا اور نو طرزِ مرصع اُس کا نام رکھا۔ شجاعُ الدولہ کے وقت میں قلم اٹھایا اور نواب آصف الدولہ کے زمانہ میں ہاتھ سے رکھا اس کی عبارت چست ہے۔ دقیق ہے، مگر عام لوگوں کی رفیق نہیں۔ گو زمانہ کا رنگ بدل گیا لیکن یہ کتاب ابھی تک چھپے جاتی ہے۔ 1799ء مطابق 1214ھ میں میر شیر علی افسوس نے باغِ اردو ایک کتاب مفید مدارس بنائی۔ 1802ء مطابق 1218ھ میں میر امن دہلوی نے باغ و بہار معروف بہ چار درویش لکھی۔ گو اصل میں امیر خسرو دہلوی کے فارسی چار درویش کا اردو ترجمہ ہے۔ مگر اس خوبی سے کیا ہے کہ ترجمہ نہی معلوم ہوتا۔ غیر مُلک کی رسموں کو اپنے ملک کی رسموں سے بدل لیا اور خوب ہی پُر اثر ترجمہ کیا لیکن اب اُسکی زبان میں بھی بہت بڑا فق ہو گیا ہے۔ بعض الفاظ کے واسطے لوگ ڈکشنریاں ڈھونڈھتے پھرتے ہیں۔ فارسی چار درویش ایسا مقبول ہے کہ اس کی قبولیت پر رشک کھا کر عُرفی نے اسی چار درویش کو شیراز کی زبان میں لکھا اور امیر خسرو پر منہ آی اکہ جو باتیں ہم نے اپنے گھر کی بڑھیا عورتوں سے سنی ہیں وہ خسرو نے خاقانی و انوری سے اخذ کی ہیں مگر پھر بھی نہیں آئیں کہاں ہمارا چار درویش کہاں خسرو کا چار درویش۔ ہم نے بھی اس قصہ کو دیکھا ہے جو اب تک ہمارے دوست مولوی مرزا بیگ خاں صاحب کے ورثہ میں آیا ہوا موجود ہے۔ اُسی زمانہ میں میر اسن نے اخلاق حُسنی کا بھی اردو ترجمہ کیا اور اس زمانہ کے موافق بہت اچھا کیا۔ 1803ء مطابق 1218ھ میں جان گلگرسٹ صاحب نے انگریزی میں اردو گریمر لکھی جس کا ترجمہ اردو میں ہو کر سیسے کے حرفوں میں چھپا اور ہماری نظر سے گزرا۔ اردو زبان کے قواعد نہایت نامکمل اور غیر مکتفی ہے۔ اسی واسطے جب تک چیدہ چیدہ اہل زبانوں کا مجمع نہ ہو اور وہ سب ملکر اس کی تدوین نہ کریں ممکن نہیں کہ ایک آدمی اس کام سے عہدہ برا ہ سکے۔ ہم نے فرہنگ آصفیہ میں بعض بعض موقعوں پر جتا دی اہے کہ فلاں فلاں قاعدے بڑھائے جائیں اور علیٰحدہ بھی بہت سے نوٹ جمع کئے تھے۔ مگر وہ سب نوٹ دشمنان زبان کی دست بُرد سے وہاں پہنچے جہاں یہ عاجز عنقریب جانے والا ہے۔ 1805ء مطابق 1220ھ میں میر شیر علی افسوس نے ایک کتاب آرایش محفل لکھی ہے۔ اس میں کہیں کشمیر کی سیر ہے کہیں بنارس کی سیر کہیں مختلف قوموں کا ذکر۔ غرض کہیں کچھ ہے کہیں کچھ۔ کتاب اچھی ہے، زبان خاص ہے۔ مگر اس قابل نہیں کہ مدارس میں ترویج پائے۔ ایک زمانہ میں پنجاب کے مدارس میں اس کا انتخاب داخل کورس ہو گیا تھا اور خاص بنارس کی سیر کو انتخاب کرنے والے نے پسند کر لیا تھا۔ مگر ہم نے 1880ء میں اس کی نسبت رپورٹ کر کے اسے نکلوا دیا تھا۔ اسی زمانہ میں مظہر علی ولا نے بٹیاں پچپسی اول بھاکا سے اردو میں کی۔ اور انشاء اللہ خاں نے قواعد اردو لکھ کر جودتِ طبع دکھائی۔ مگر اس میں بھی عربی و فارسی الفاظ کا چربہ اتارا۔ جس سے اور ماہرانِ صرف و نحو بھی اسی ڈگر پر پڑ گئے۔ اردو نظم نے بھی فارسی ہی کی طرز اختیار کی۔ کیونکہ یہ لوگ ترکی النسل تے یا فارسی النسل یا عربی النسل۔ یہ ہندی کی مطابق کس طرح کر سکتے تھے۔ اگر انہیں ہندی کی دلچسپ شاعری اور اس کی نازک خیال کا چسکہ ہوتا تو اردو قواعد نیز اردو شاعری میں اور ہی لطف پیدا ہو جاتا۔ ہندی والوں نے اپنے ہاں کے رسم و رواج کے موافق ہمیشہ عورت کو عاشق اور مرد کو معشوق قرار دیا۔ کیونکہ ہندوستان میں سدا سے یہ دستور چلا آتا ہے کہ عقد و مناکحت کا سوال عورت کی جانب سے پیش کیا جاتا ہے۔ عورت خود درخواست کرتی ہے۔ بلکہ قدیم راجاؤں کی بیٹیاں تو خود اپنا بر تلاش کرتی یا انتخاب فرمایا کرتی تھیں۔ اور اس رسم کو سومبر رچانا کہا کرتے تھے جسے راجہ لوگ خود اپنی بیٹیوں کے واسطے رچایا کرتے تھے۔ 1807ء مطابق 1223ھ میں مولوی شاہ عبد القادر صاحب رحمہ اللہ دہلوی نے قرآن شریف کا اردو زبان میں ترجمنہ کیا اور ایسا کیا کہ اس کے طفیل سے سیکڑوں کم سواد بھی واعظ اور ترجمہ خواں بن گئے۔ اس میں ہندی محاورے، ہندی الفاظ، فارسی، عربی کی نسبت گو کسیقدر زیادہ پائے جاتے ہیں۔ مگر اُسوقت کی زبان اور اس کی ابتدائی ترقی کو بخوبی ثابت کرتے ہیں۔ اسی زمانہ کے قریب مولوی شاہ محمد اسمٰعیل شہید نے بعض ہندی رسائل اردو زبان میں لکھ کر بہت سے گمراہوں کو شرک بدعت سے باز رکھا۔ گو بدعتی اور وہابی کا مسئلہ مابہ النزاع اسی وقت سے چھڑا اور اس نے یہاں تک طول پکڑا کہ دھڑے بندی ہو کر ایک فرقہ کا دوسرا فرقہ جانی دشمن ہو گیا۔ فاتحہ خوانی زیارات قبورِ بزرگانِ دین، عزاداری، نذر و نیاز، غرض یہ سب باتیں داخل شرک ہو گئیں۔ جن بیچاروں کی معاش اس پر تھی۔ وہ نہایت برہم ہوئے۔ مولوی کریم اللہ صاحب نے ان کا ساتھ دیا۔ اور اس بات کو بہت چلنے نہ دیا۔ یہ واقعہ غالباً 1885ء مطابق 1220ھ کا ہو گا مگر مولانا اسمٰعیل اس قسم کی تصانیف سے باز نہ آئے۔ اشاعتِ اسلام میں بھی اتنی کوشش کی کہ رذیل سے رذیل قوم کو بھی مسلمان کر کے ان نو مسلموں کی شیخڑے کے لقب سے ملقب کر دیا۔ اگر وہ اس زمانہ میں مولوی سید احمد صاحب کے ساتھ جہاد پر جا شہید نہ ہو جائے تو بہت کچھ لکھ جاتے۔ غضب کی ذہانت، ذکاوت، حافظہ اور تیجر پایا تھا۔ 1835ء مطابق 1251ھ میں اردو زبانملکی اور دیسی زبان تسلیم ہو کر سرکاری دفاتر میں فارسی کی بجائے متمکن ہوئی۔ سرکاری سمن سرکاری پروانے سرکاری احکام اردو میں لکھے جانے لگے۔ مگر بہت سے قانونی اصطلاحیں بدستور عربی و فارسی میں رہیں۔ مدرسوں میں اردو زبان داخل تعلیم ہوئی۔ فارسی پرچہ نویسوں نے اردو میں خبریں سنانی شروع کر دیں جس سے اردو اخبارات کی ضرورت پیش آئی۔ چنانچہ 1836ء مطابق 1252ھ میں مولوی محمد باقر صاحب نے دہلی سے اردو اخبار جاری کر دیا۔ یہ اخبار غدر 1857ء سے پہلے چھپتا رہا۔ اس کی دیکھا دیکھی اکبر آباد سے شاید اخبار نور الابصار نکلا۔ غدر کے موقع پر اور اس کے بعد بھی منشی سدا سکھ لال صاحب اس کی سرپرسی کرتے رہے۔ تار برقی کے متعلق اس میں اکثر مضامیں مفید طلبا نکلا کرتے تھے۔ کابل کی خبریں بھی بہت دیکھنے میں آیا کرتی تھیں۔

اب تصنیفات کا پُل ٹوٹ گیا۔ قصۂ بدر منیر، فسانۂ عجائب، سُرورِ سلطانی، ترجمہ الف لیلہ، ترجمۂ قصۂ امیر حمزہ، گل بکاؤلی، قصہ گل با صنوبر، قصہ حاتم طائی، اندر سبھا، تذکرہ ہائے شعراء، وواوین شعراء مرتب ہو کر چھپنے شروع ہو گئے۔ مشکوٰۃ شریف کا ترجمہ بھی ہو گیا۔ بستانِ خیال کا ترجمہ بھی چھپنے لگا۔ طبی، قانونی، مذہبی کتابوں کا تانتا لگ گیا۔ سرکاری مدارس میں حسب مقتضائی

دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 24

وقت تعلیمی کتابیں تصنیف و تالیف ہو کر جاری ہو گئیں۔ اردو اخبارات اور مختلف فنون کے رسالے شایع ہو گئے اور اس اردو زبان نے یہاں تک ترقی کی کہ تھوڑے ہی عرصہ میں کامل زبان ہونے کا دم بھرنے لگی۔ طفولیت سے شباب، شباب سے کہولت، کہولت سے شیخوخت، شیخوخت سے بڑھاپے کا زمانہ آئے گا۔ ابتدارئی مرحلے طے کرنے کے بعد جو تجربہ حاصل ہو گا اب اس کا لطف اٹھاؤ اور تجربہ پر تجربہ بڑھانے کا موقع ملے گا۔ اس وقت ہر طرح جمعیت اور تکمیل حاصل کر کے اگر کوئی بجوگ نہ پڑا تو آرام سے بسر ہو گی۔ ورنہ پھر دوسری صورت پیدا ہونی شروع ہو جائے گی۔ زبان کی بجائے نام باقی رہ جائے گا۔ ایک طرح ابھی تک یہ زبان گونگی تھی کیونکہ اس کی کوئی ڈکشنری یا مکمل لغات تیار نہیں ہوئی تھی۔ سو خدا تعالٰے نے اس سے عاری نہ رکھا۔ جو کسر ہو گئی وہ آیندہ کے لغت نگار نکال دیں گے۔ اس کی تدوین کا طرہ ہمارا آویزۂ گوش ہوا اور اشاعت کا سہرا حضور نظام خلد اللہ ملک کے سر بندھا۔ چونکہ ہمارے آیندہ نسلوں کو عموماً زبان کی ابتدائی، وسطی اور انتہائی حالت سے آگاہی ضرور ہے، لہذا ہم اس موقع پر اپنی ایک دلچسپ لکچر کا انتخات و خلاصہ جو عام طور پر اسی غرض سے لکھا گیا تھا نقل کئے دیتے ہیں۔ اس سے بہت سی نئی اور اچنبے کی باتیں معلوم ہوں گی۔ زبان کے محقق کو زبان کی حقیقت معلوم ہو گی۔ لُغت نگار کو لغت کی اصلیت کا پتہ لگے گا۔ نیز ایک مفرد الفاظ کی ڈکشنری لکھنے کا نمونہ اور رستہ ہاتھ آ جائے گا۔ ہمارے ذاتی خیالات کو لوگ کسوٹی پر لگا کر کھرے کھوٹے کو پرکھیں گے۔ اگر ہمارے رائے نے انسانی خطا کے لحاظ سے کہیں ٹھوکر کھائی ہو گی تو اس کی اصلاح فرمائیں گے اور جو ہم سیدھے راستہ پر گئے ہوں گے تو ہمیں داد ملے گی۔ ہمارے زندگی میں لوگ ہمیں سراہیں گے اور مرنے پر دائے خیر سے نہ بھلائیں گے۔ وہو ہذا۔

انسان (۱) کی ابتدائی، درمیانی اور اخیر زبان

اگر ہم اس بیان کو انسان کی ابتدائی حالت سے شروع کریں اور دکھائیں کہ اول میں انسان کیا تھا، اسکا ڈیل ڈول، اس کا چہرہ مُہرہ، اس کی چمڑی، اس کا منہ یا تھوتھنی (۲)، اس کا سر کس رنگ ڈھنگ کا تھا اور پہلے ہم اسے ریچھ، بندر، بن مانس وغیرہ کون سے حیوانوں سے مشابہ پاتے تھے تو صرف یہ مضمون ہی طویل نہ ہو بلکہ انسانی ابتدائی حالت کی ایک مبسوط تاریخ بن جائے۔ مگر چونکہ اس موقع پر ہمیں صرف زبان کی ابتدائی، درمیانی اور اخیر حالت اپنے خیالات کے موافق ۔۔۔۔۔ دکھانی منظور ہے۔ اس وجہ سے ہم کہیں کہیں انسان کی اولین حالت پر کچھ کچھ اشارے کریں گے۔

اگر نظر غور سے دیکھا جائے تو ہمارا یہ دعویٰ کچھ غلط نہ ہو گا کہ ہر چیز کی ابتدائی صورت یعنی اس کی ہئیتِ اُولیٰ ہر وقت اور اخیر مانہ تک گو کسی رنگ میں ہو، موجود نظر آتی اور ہر امر کی ایک نہ ایک نظیر دنیا میں ضرور پائی جاتی ہے۔ جس سے اس ذاتِ واحد کی بیچولی کیا ایک اعلیٰ اور نمایاں ثبوت ملتا ہے۔ یعنی اس دنیا میں شاید ہی کوئی ایسی چیز ہو گی جس کی نظیر موجود نہ ہو۔ لیکن ایسی باتوں کے دریافت کرنے اور پتا لگانے کی دو صورتیں ہیں ایک روایتی یا تاریخی جسے منقول کہتے ہیں دوسری عقلی یعنی فطری جسے معقول یا فلسفہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ پہلی صورت کا سامان بہم پہنچانا یا اس پر اطمینان ہونا بہت دشوار ہے۔ البتہ دوسری صورت ایسی ہے کہ اسے ہر بشر کی عقل سلیم تسلیم کر سکتی ہے۔ علم طبقاتُ الارض کے محققین کے قول کے بموجب انسان کو دنیا میں آئے ہوئے کم سے کم بیس ہزار اور زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ (۳) برس ہوئے ہیں۔ اگر ہم اس اپنے موجودہ زمانے کیں کہ اکٹھی تین ہزار سے لیکر چار ہزار تک زبانیں بولی جاتی ہیں، کسی خاص زبان کو اگلی تاریخوں یا حکایتوں کی رُو سے انسان کی سب سے پہلی زبان قرار دینا چاہیں تو کتنی ٹیڑھی کھیر ہے کیونکہ فن تعلیم و تحریر کو نکلے ہوئے پانچ ہزار برس سے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ کوئی ایران کے بادشاہ جمشید کو اس کا موجد قرار دیتا ہے، کوئی یونانیوں کو۔ کوئی مصریوں کو، کوئی ہندوستان کے برہما گُپتا کو۔ دراصل کوئی ہو مگر اس میں کلام نہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام سے تین ہزار برس پیشتر طریقۂ تعلیم ایجاد ہوا۔ گویا ہمیں فن تعلیم کے اختراع سے اقل درجہ پندرہ ہزار اور انتہا درجہ پچانوے ہزار برس پہلے کی تاریخ اس امر کے ثبوت کے لیے بہم پہنچانی چاہیے جب جا کر یہ سب سے پہلے آدم کے وقت کا اُلجھا ہوا سوت سلجھنے میں آئے۔ گو زمانہ کا تعین ہم ٹھیک ٹھیک اس طرح نہ کر سکیں کہ آج اس بات کو اس قدر عرصہ ہوا یا اتنی مدت گزری مگر فطرتی دلیلوں اور تجربوں سے اتنا ضرور بتا سکتے ہیں کہ اول میں اس کی یہ ہئیت تھی، پھر تراش خراش پا کر یہ صورت ہوئی۔ اور آیندہ اسی قاعدہ سے روز بروز ترقی ہوتے ہوتے یہ حالت ہو جائے گی۔ چونکہ کُل مخلوقات ذی روح اور غیر ذی روح اپنی اپنی مناسبت کے موافق جداگانہ فطرت خاصیت و عادت رکھتی ہے پس جو باتیں ذی روح ہونے کے لحاظ سے واجچ ہیں وہ سب حیوانات میں اور جو امور غیر ذی روح ہونے کے خیال سے لازم ہیں وہ سب بے جان چیزوں میں، اپنی اپنی نوع اور صنف کے موافق قریب قریب یکساں پائے جائیں گے یعنی اگر پتھر میں کسی کے سہارے اور استعانت کے بغیر از خود ہلنے جلنے چلنے پھرنے کی طاقت نہیں ہے تو درخت بھی یہ قابلیت نہیں رکھتے کہ وہ اپنے پاؤں سے چلیں، گو ان میں ایک ایسی اندرونی قوت موجود ہے۔ جس سے وہ پھلنے پھولنے بڑھنے سوکھنے وغیرہ کی طاقت رکھتے ہیں۔ اور دیگر حیوانوں کی طرح مرتے جیتے کھاتے (۴) پیتے بلکہ ان کی
---------------------------------------------------------------------------------------
(۱) اس مضمون میں ہم نے اصولاً عام زبان کو اور نظیراً اپنے ہی ملک کی زبان کو زیادہ تر اختیار کیا ہے تاکہ اس تمثیل سے ہمارے ہم وطن اس مضمون کو بہ آسانی سمجھتے جائیں۔

(۲) تھوتھنی سے انسان کی اس اولین حالت کی طرف اشارہ ہے جس میں اس کو ڈارون کے مذہب کے مطابق بندر یا ریچھ وغیرہ کی ہئیت میں خیال کیا گیا ہے۔

(۳) اگرچہ اکثر کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دنیا صرف چھ ہزار برس سے آباد ہے اور کل انسان حضرت آدم علیہ السلام و حوا علیہ السلام سے پیدا ہوئے ہیں۔ مگر حال کے بعض محققین جیالوجی نے اس کے خلاف تحقیق کر کے دکھایا ہے۔ ان کا بیان ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے بھی دنیا میں انسان آباد تھے۔" رسالہ مظہر المضامین میں بھی اس مضمون کا ثبوت دیا ہے کہ حضرت ابو البشر آدم صفی اللہ کے علاوہ اور بھی آدم دنیا کے پردے پر ان سے پیشتر ہو چکے ہیں۔ حکمائے ایران کا بھی یہی اعتقاد تھا۔ محققین جیالوجی اس امر کے ثبوت میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ کرۂ ارض کے دریاؤں کی سطحوں میں ہر صدر کے بعد پانی یا پتھر یا چونہ وغیرہ کی ایک تہ جم جاتی ہے۔ چنانچہ اس قسم کی بیس ہزار نہیں انہوں نے اکثر دریاؤں کی سطحوں میں دریافت کی ہیں جن کا طول چوٹی سے نیتے تک بیس 20 میل ہے بلکہ ان تہوں میں سے انسان کی ہڈیاں بھی ملی ہیں جس سے ثابت ہو کہ انسان سے پہلے بھی دنیا میں انسان ہی رہتے تھے۔ مسٹر الڈی فانسو صاحب نے بیس ہزار تہ کے اندر سے انسانی استخوان کا ڈھانچا پایا۔ جس کا زمانۂ حیات مسٹر کونٹ پوٹلس صاحب کے قول کے بموجب بیس ہزار برس کا تشخیص ہوتا ہے۔ مصر کی زمین میں اکثر مدفون چیزیں جو بہتر 72 فیٹ کی گہرائی سے برآمد ہوئیں۔ ان کا حدیث ارمطرب دمے گوزِ راز دہر کمتر جو۔ کہ کس نکشو وؤ نکشاید بحکتمت ایں معمار۔

(۴) اگلی خوراک ایک قسم کی کاربن ہوا اور ان کا پانی یہی ہمارے تمہارے پینے کا پانی ہے۔

دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 25

کھائی ہوئی بعض خوراک رات کو اُگل دیتے ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس اگر اور حیوانات توالد و تناسل وغیرہ حرکات و سکنات پر قادر ہیں تو انسان بھی اس صفت میں شامل اور بعض نظائر میں ان کا ساتھ ہے۔ ہم کو حیوانات سے بہت سے نظیریں ایسی مل سکتی ہیں جن سے انسان کی پیدایس ابتدائی حالت اور گویائی کا سراغ آگے چلتا ہے اور یہی حیوانات ہیں کہ بغیر لکھے پڑھے انسان کی اولین تاریخ ہمیں سناتے ہیں۔ اگر ذرا بھی فکر سے دیکھیں تو ابھی تک بہت سے باتیں ایسی ہیں کہ انسان ان کے سبب اپنے اور حیوانات سے بھائیوں سے جڈا نہیں ہوا بلکہ انسان کے ناسمجھ بچوں میں تو اس امر کا پورا پورا نمونہ فطرتی طور پر پایا جاتا ہے جس سے ہم خیال کر سکتے ہیں کہ ابتدا میں ہمارے اور دیگر حیوانات کے بچوں کی کون سے فطرتی دیس کی بول چال تھی۔ اور درحقیقت زبان اور اس کے حرف اور اس کے الفاظ کیا چیز ہیں۔ ہمکو صرف ہمارے عقل نے دیگر حیوانات سے ممیز اور ممتاز بنا رکھا ہے۔ اگر ہم اپنے ان خیالات کو جو رات دن ہمارے دماغ، ہمارے دل میں پیدا ہوتے رہتے ہیں، جوں کا توں ویسا ہی لوگوں پر ظاہر ہونے دیں۔ یا ہم خود ہی ایمانداری سے انہیں لکھ کر دیکھیں تو معلوم ہو جائے گا کہ اعلیٰ سے اعلیٰ تربیت یافتہ انسان بھی شیخ چلی بلکہ حیوان وحشی سے کم نہیں ہے۔

ذرا سوچو کہ بکری کے بچے کا پیدا ہوتے ہی ممیانا، گائے کا اپنے بچے کی تلاش میں رانجفجا، بیل کا بیل کو دیکھ کر ڈکرانا، کوئے اور اس کے بچوں کا کائیں کائیں کرنا۔ چڑیاں اسکے چینگی پوٹوں کو چیں چیں کرنا۔ بندر اور اس کے بچوں کا ککیانا۔ انسان کی اولاد کا پیٹ سے باہر قدم رکھتے ہی ہواں ہواں کرنا کون سے دیس کی بھاکا ہے؟ ان الفاظ کے کیا معنی ہیں۔ ان کا کون سا مخرج ہے، ان باتوں کو انہیں پیٹ میں جا کر کس نے سکھایا تھا؟ اور ان کے معنی کس عقل کے پتلے نے وہاں پہنچ کر سمجھا دیے تھے؟ چڑیا کے بچوں کو کس نے کہا تھا کہ جب تمہارے ماں باپ دانہ بھرانے آئیں تو تم چونچ کھول کر اور زبان نکال کر چیں چیں کر کے انہیں اپنی بھوک کی طرف متوجہ کرنا۔ مُرغی کے بچوں کو کس نے پڑھایا تھا کہ جب تمہارے ماں باپ کہیں دانہ دُنکا دیکھ کر کُٹ کُٹ کریں تو سب کے سب اسی طرف دوڑ پڑنا۔ بندروں کو کس نے تعلم کیا تھا کہ ایک کلکاری کے ساتھ سب ہی جمع ہو جانا۔ اسی بنا پر قیاس کر سکتے ہیں کہ ابتدا میں انسان بھی جو دیگر حیوانات میں شامل ہے اسی قسم کی بے معنی اور مہمل بولی بولتا تھا۔ مصیبت یا بے اختیاری کی حالت میں جب حیوان یا انسان کے منہ سے کوئی بات نکلے گی تو وہ ضرور اس کی اصلی فطرت کے موافق ہو گی۔ طوطا ہزار حق اللہ پاک ذات اللہ کہے، رام رام سیتا رام جپے مگر جس وقت بلی ٹینٹو آن دبائے گی تو ٹیں کے سوا کچھ اس کی زبان سے نہیں نکلے گا۔ انسان کا بچہ جس وقت پیدا ہوا ہے یا جب کسی کے ہاتھ خواہ پاؤں کے نیچے اس کا جسم دفعتہً دب جاتا ہے تو وہ بھی اول قیں کر کے رہ جاتا ہے اور بعد میں رونے کا تار باندھ دیتا ہے۔ اگر کسی آدمی کے اچانک چُٹکی بھر لی جائے تو اس کی زبان سے سِی کے سوا کیا نکلے گا۔ اور جو ایک بارگی کسی کو ڈرا دیا جائے تو ہُو کے بجُز کیا کہے گا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بیخبری میں چونکہ ہماری عقل نے ہمکو کوئی بامعنی لفظ نہیں بنانے دیا اور وہ ہمیں اس فعل سے نہ روک سکی۔ اس سبب سے ہم اپنی پہلی حیوانیت پر آ گئے یعنی جو حالت حیوانات کی ہوتی ہے۔ وہی حالت بیخبری میں ہماری بھی ہوئی۔ اور دونوں کے منہ سے وہی مہمل اور بے معنی الفاظ نکلے۔ اگر تُرت کے جنے ہوئے بچے کی آواز پر غور کریں تو بلی کے بچے کی آواز سے مشابہ پائیں گے بلکہ بعض اوقات بعینہ بکری کے بچہ کی سی آواز مفہوم ہوتی ہے۔ یہ ہی حال جنگلی اور وحشی آدمیوں کا ہے کہ وہ چیں پیں کے سوا کچھ بولنا ہی نہیں جانتے۔ اس سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان کی زبان ابتدائی زمانہ میں دیگر حیوانات کی زبان کی طرح محض مہمل تھی البتہ ایک فریق ضرور پایا جاتا ہے کہ یہ آواز اکثر پرندوں اور سب سے زیادہ کیڑوں یا دریائی جانوروں کی آواز سے کسی قدر مغائرت رکھتی ہے۔

ہم سوال کرتے ہیں کہ کہ بعض تحقیق دوست بادشاہوں نے جیسے سب سے اول ایک یونان کے بادشاہ نے اور سب سے اخیر جلال الدین محمد اکبر بادشاہ نے جو انسان کے نوزائیدہ بچوں کو آبادی سے دُور تہ خانوں کے اندر گونگے بہرے آدمیوں سے گُنگ محل میں پرورش کرایا نیز ہو قسم کے اشاروں اور آواز سے خبردار نہ ہونے دیا تو ان کی بولی کیا ٹابت ہوئی؟ اور بعض انسانی بچے جنہیں جنگلی جانوروں یا درندوں وغیرہ نے اپنے بھٹوں میں لیجا کر پالا تھا، جب بڑے ہو کر آدمیوں کے ہاتھ آئے تو وہ کون سی زبان کے بولنے والے قرار پائے؟ جہاں تک ہمیں معلوم ہے یہی ثابت ہوا کہ انسان اور حیوان کی ابتدائی بولی میں کچھ فرق نہ تھا۔ جس طرح یونان کے بھورے میں پلے ہوئے بچے نے حیوان کے مانند چلے ہیں اپنی زبان ثابت کی۔ اسی طرح ہندوستان کے تہ خانہ میں پرورش یافتہ بچے نے بھی غیں، پیں کے سوا کچھ زبان سے نہیں نکالا۔ ہاں اگر ان کی آوازوں میں فرق تھا تو صرف زبانوں کی ساخت ، ان کی بناوٹ، دانتوں کی تراش، ہونٹوں کی ہیئت کی وجہ سے تھا۔ اور یہ ایک ایسا فرق ہے کہ اب تک باہمی دیس دیس کے انسانوں میں بھی برابر پایا جاتا ہے۔ یعنی بعض ملکوں کے آدمیوں کی ساخت وہاں کی آب و ہوا اور مقامات کے لحاظ سے ایسی واقعی ہوئی ہے۔ اور ان کی زبانوں یا ہونٹوں میں کچھ ایسا بجوگ آ کر پڑا ہے کہ وہ بعض حرفوں کو ان کے اصلی مخارج سے نکالنے پر بالکل قادر نہیں۔ کیا وجہ ہے اہل عرب سے چ، پ، گ ادا نہیں ہوتا۔ کیا باعث ہے؟ کہ ایران کے لوگ ٹ، ڈ، ڈھ، ڑ، ڑاں کا تلفظ ادا نہیں کر سکتے؟ اہل پنجاب ژ، ق کا تلفظ آسانی سے کیوں نہیں ادا کر سکتے اور ہندوستانی کیو کر سکتے ہیں؟ اس کا یہی سبب ہے کہ مقامی آب و ہوا اور ان کی زبان و دہن کی ساخت میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہے۔

پس جس طرح آوازوں میں ساختِ آلاتِ تلفظ کے لحاظ سے فرق پڑا۔ اسی طرح بلحاظ آب و ہوا و بلحاظِ خصائصِ ملکی تلفظ میں بھی فرق پیدا ہوا۔ کہیں کوہستانی اور میدانی مقامات کے اثر نےاپنا جلوہ دکھایا ہے، کہیں کھاور۔ بانگر اور ریگستان کے پرتو نے اپنا سکہ بٹھایا ہے مثلاً پہاڑی حیوانات ہوں گے تو ان کی آواز پہاڑوں کے کھڈوں۔ اونچے نیچے ٹیلوں، گھاٹیوں اور آبشاروں میں ٹکرا کر اپنی گُونج سے ایک ایسا سلسلہ اور لہر پیدا کرے گی کہ ان کی اصل آواز کو جیسی وہ منہ سے صادر ہوئی تھی جوں کو توں نہیں رہے گی، بلکہ

دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 26

بلا ارادہ گنکری کا لطف حاصل ہو جائے گا۔ پہاڑی لوگوں کے گیت اس امر کے شاہد ہیں۔ علیٰ ہذا چٹیل میدانوں کے رہنے والوں کی آواز میں وہی ہمواری، سلاست اور روانی پائی جائے گی جو میدان کے لیے موزوں ہے اور جیسے بانگر کے لوگوں میں کرختگی ہے ویسی ہی ان کے الفاظ میں بھ خشونت ہے۔ جس طرح کی کھادر یاتری کے باشندوں میں نرمی ہے، اسی طرح کی ان کے الفاظ میں بھی کمزوری اور ملائمت ہے۔ عرب جیسے خشک ملک کی زبان اُونٹوں کی زبان سے کسقدر مشابہ ہے۔ انگلستان جیسے سمندری جزیرہ کی بولی دریائی جانورں سے کتینی مطابقت کھاتی ہے۔ یہاں تک کہ حرفوں کی طرز تحریر میں بھی دریائی لہروں کا لطف آتا ہے۔ ایران کی سریلی بولی اپنے ملی کی معتدل آب و ہوا کا اثر کس خوبصورتی سے ثابت کر رہی ہے۔

جب ہم سوچتے ہیں کہ اول ہی انسان یا حیوان نے بولنا یعنی زبان سے حرف یا الفاظ کا نکالنا کس سے سیکھا تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دم کا ساتھی اُستاد جسے سانس کہتے ہیں ابتدا میں قدرتی طور پر اس سے بے معنی حرف نکلوانے کا باعث ہوا۔ سانس بذات خود اپنے مخارج یعنی ناک گلے یا منہ میں آنے جانے سے ایک آواز پیدا کرتا اور یہ بات بتاتا ہے کہ اگر مجھ کو ذرا زور سے لو گے تو کچھ بڑی آواز جو سینے پر زیادہ دباؤ ڈالکر کھینچو گے تو اس سے بھی بڑی صدا پیدا کروں گا۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ انسان یا حیوان کے بولنے کا پہلا سبب یا اس کے نطق کا پہلا استاد سانس ہے۔ سانس کیا ہے؟ وہ ہوا ہے جو پھیپھڑے سے دم کشی سے اندر آتی یا اندر سے باہر جاتی اور کانوں کے ذریعہ سے مسموع ہوتی ہے۔ درحقیقت آواز پیدا کرنے کا استاد سانس بھی نہیں ہے بلکہ تصادم ہے۔ دنیا میں جتنی آوازیں پیدا ہوئیں یا جسقدر سلسلہ موسیقی قائم ہوئے وہ سب کیا ہے؟ اسی ہوا کی موجیں ہیں جو اس خود ٹکرانے یا کسی چیز کے باہم تصادم پانے یا تنگ اور سکڑے مقاموخ خواہ سوراخوں میں بھیچکر نکلنے سے ظہور پکڑتی ہیں۔ اگر کوئی باجا ہے تو ہوا کے تار پر چلتا ہے۔ اور جو کوئی گڑگڑاہٹ یا گرج ہے تو وہ ہوا (۱) کے توسل سے ہم تک پہنچتی ہے۔ چونکہ ہوا سے دُنیا کی کوئی جگہ اور کوئی مکان خالی نہیں ہے اور اس میں بھی سیال ہونے کی وجہ سے پانی کی سہ لہریں یا موجیں ادنےٰٰ ادنےٰ تصادم سے پیدا ہو کر کبھی بڑھتی کبھی گھٹتی ہیں۔ پس یہی لہریں ہیں جو تصادم کی آواز کو دور تک تقسیم کرتی اور پھیلاتی چلی جاتی ہیں۔ اب اگر یہ ہوا جانوروں کے سانس پھیپھڑے یا زبان کے وسیلے سے نکل کر ہمارے کانوں تک پہنچتی تو یہی جانوروں کی بولی ہے اور جو انسان کے منہ کی بستگی و کشادگی یا زبان کے تحرک اور سانس کی قصداً امداد سے پیدا ہوئی تو حرف خواہ لفظ خواہ کلمہ ہے لیکن اس کی بھی دو قسمیں ہیں۔ اگر قائل نے اپنے ذہن میں اس آواز کے کچھ معنی ٹھہرا کر اس آواز کو نکالا ہے تو وہ بامعنی ہے ورنہ بے معنی۔ گو بعض بے معنی الفاظ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان سے موقع و محل کوئی نہ کوئی معنی پیدا کر دیتا ہے۔ مگر ہم انہیں مہمل ہی ٹھہرائیں گے۔ مثلا بلی کے بلانے کی آواز کو پھس پھس کہتے ہیں جسے بلی بھی سمجھتی ہے اور ہم بھی جانتے ہیں۔ کبوتروں کے اڑانے کے آواز کو کو ہے جس سے ہم اور ہمارے کبوتر دونوں واقف ہیں۔ تاہم اس کا نام با معنی لفظ یا کلمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ علیٰ ہذا سیٹی کی آواز جو مطلق ایک باریک آواز ہے مگر چاہو کہ اس سے کوئی معنی مفہوم ہوتے ہوں ہرگز نہیں ہوتے اگرچہ بعض جانور اس آواز پر سدھائے جانے کے سبب کچھ کام بھی کر لیتے ہیں۔ جانور ہی نہیں بلکہ بعض انسان بھی سیٹی پر لگے ہوئے ہوتے ہیں اور یہ ایک بلانے پکارنے یا جتانے کا اشارہ خیال کیا جاتا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ انسان کا گلا موسیقار یا ققنس پرندے سے کم نہیں ہے۔ اگر اس کی منقار سے ایک سو ساٹھ 160 سُر نکلتے ہیں تو انسان کے گلے کی ساخت میں ہزاروں رگیں پٹھے اور شریانیں ایسی ہیں کہ ان میں سے ہر ایک سُر کی آواز نکلتی اور ایک نیا راگ پیدا کر دیتی ہے۔ یعنی انسان کے گلے میں جو انسان کی طرح دنیا کے تمام گلوں کا خلاصہ اور مجموعہ ہے۔ قدرت نے اول ہی سے ہر ایک آواز کی صلاحیت و قدرت پیدا کر دی ہے اور اس کا زیادہ تر سانس کے وسیلے سے اظہار ہوتا ہے۔ ایک حکیم کا قول ہے کہ گلا تمام آلات موسیقی سے بہت بہتر ہے بشرطیکہ اچھا بنا ہو۔ زکام کی حالت میں جیسے جیسے سُر ازخود ہمارے ناک سے سرزد ہوتے ہیں۔ ہم انہیں خوب جانتے ہیں۔ اگر اب بھی ہم اس بات کے قائل نہ ہوں کہ ہمارا سانس ہی حروف اور زبان پیدا کرنے کا استاد ہے تو ہمیں اپنی عقل پر آپ ہی افسوس کرنا پڑے۔ جب تک انسان حیوانیت میں ہے اور ان کی جہالت نے پیچھا نہ چھوڑا۔ یہ دیگر حیوانات کی طرح موقع بے معقع ویسے ہی بے معنی اور مہمل الفاظ جیسے اب دودھ پیتے بچوں یا جانورں سے صادر ہوتے ہیں اپنی زبان سے نکالتے رہے۔ لیکن جب سالہا سال کے بعد انہوں نے اپنے تئیں حیوانات سے نکالا۔ جسمانی رنگ روپ بدلا۔ آپا سنبھالا ملجل کر رہنا سیکھا۔ شرم و حیا ور لاج کو جانا۔ باہمی تعلقات کو سمجھا۔ دنیوں ضرورتوں نے وقتاً فوقتاً آ کر دیابا۔ باہم ایک دوسرے سے مدد لینے اور دینے کے محتاج ہوئے تو انہوں نے سب سے اول ان تین مفرد حرکتوں خواہ آوازوں کو منظبط کیا جنہیں ہم اعراب یا حرکاتِ ثلاثہ کے نام سے نامزد کرتے ہیں۔ یہ تینوں آوازیں وہی ہیں جو زمانہ پیدایس سے ان کے ساتھ سانس کے ہمراہ آئی تھیں اور اپنی سہل الخروج ہونے کے سبب ہر ایک سے اپنے اپنے موقع پر بہ آسانی سرزد ہو جایا کرتی تھیں یعنی درد کے موقع پر درد کا سماں ان میں تھا۔ دریا کی موجیں، ہوا کہ لہریں، گنبدوں کی گونجیں۔ اترنے کی سیڑھی، چڑھنے کا زینہ، خدا اور اپنے پیاروں کے پکارنے کی ندا۔ ہر قسم کی صدا۔ ہاتھیوں کی چنگھاڑ، شیروں اور بادلوں کی گرج، بھنبیری کی بھنبھناہٹ، مگس کی طنین، قریب و بعید کی چیزوں کے اشارے، دنیا کے ابتدائی دھندے، سب ان تین آوازوں، آ اِ اُ، میں موجود تھے۔ اور ہر ایک کیفیت انہیں کے بڑھانے گھٹانے سے حاصل ہو جاتی تھی۔ چنانچہ جب لوگوں میں اول اول تمدنی مادہ پیدا ہوا۔ گھر بار بسا کر رہنے، مل جل کر ایک جگہ بیٹھے اٹھنے لگے تو انہوںن ے اپنے اپنے مخاطبوں حاضر اور سامنے کے لوگوں سے خطاب کرنے کے لئے آ، اشارۂ قریب کے واسطے اِ، کنایۂ بعید کے لئے اُ بشرکتِ عضائے جسمانی یعنی سر، انگشت، پا، چسم، دہن وغیرہ سے کام لینا شروع کیا۔ اظہار درد، اظہار خوشی، ندا، ند ۔۔۔۔ میں یہی خطابی اَ کام دیتا رہا بلکہ یہی ہے کہ بچوں کی زبان سے اب تک اول حرور ندا ہی سرزد ہوتے ہیں۔ اس کے بعد اسماء اور اسماء کے بعد جا کر افعال اور افعال کے بعد روابط پیدا ہونے کی باری آتی۔ لیکن جب بچہ ہوش
----------------------------------------------------------------------------------------
(۱) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 27

پکڑتا ہے تو یہ بے ترتیبی نہیں رہتی۔ روابط افعال سے پہلے اپنے اپنے موقع پر اسمون اور ضمائر کے درمیان آ جاتے ہیں۔ حرفِ اَ سب زبانوں میں پہلا حرف یا اعراب پایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ جب منہ سے اَ نکالتے ہیں تو سانس کو نکال کر روک لیتے ہیں۔ اور جب اِ نکالتے ہیں تو ذرا زیادہ فاصلہ تک لے جا کر سانس روکتے ہیں اور اُ کو اُس سے بھی پرے تک لے جاتے ہیں۔ سب سے زیادہ آسانی حرف اَ کے نکالنے میں پائی جاتی ہے۔ فرض کرو کہ ایک دریا کسی مقام سے نکلا۔ ایک بند اس کے منبع کے قریب لگایا، دوسرا اس سے آگے تیسرا اس سے بھی آگے۔ پس یہی باعث ہے کہ اََ کا اشارہ سامنے یا نہایت پاس کے واسطے۔ اِ کا اشارہ صرف قریب کے لیے، اُ کا اشارہ بعید کے واسطے قرار پایا۔ اس کے مثال لفظ۔ اپنا، اِسکا، اُسکا سے بخوبی سمجھ میں آ سکتی ہے۔ غرض ورمے درمے کے جتنے کام تھے وہ سب ایک مدت تک انہیں تین حرکتوں سے لیتے رہے۔ اور اکثر ایسا بھی ہوا کہ جس موقع پر کسی شخص کی زبان سے اس وقت کی موجودہ حالت اور کیفیت کو موافق کوئی بے اختیار صدا نکل گئی تو وہی اس کام یا موقع کے واسطے ایک علامت یعنی یاد داشت ٹھہر گئی۔ لیکن جب روز بروز احتیاجیں بڑھنی شروع ہوئیں اور انسانی کاموں کی ضرورتوں نے اور بھی طول پکڑا تو جہاں جہاں تک آدمی کی آواز پہنچ سکتی تھی اتنے فاصلے کے واسطے چند مفرد اور سہل الخروج حروف (۱) اپنے اپنے ملک کے موافق تجویز ہوئے۔ اور ان حرکتوں کو ان کے چلانے، بڑھانے، گھٹانے، روکنے، تھامنے اور ٹھہرانے کی باگ قرار دی۔ اب یہ لوگ اتنے ہو گئے کہ اگر گھر کے جھونپڑے میں بیٹھے ہیں تو باہر کے آدمی سے جو بظاہر غائب مگر ٹٹی کے پیچھے اوٹ میں کھڑا ہے بغیر اشارۂ چشم و جنبشِ اعضا کام لینے لگے جیسے جیسے سہل و مشکل کام پڑے ویسے ہی ویسے سخت و آسان آواز کے الفاظ بنتے چلے گئے۔ اگر کسی خطہ کے آدمیوں پر مصیبت زیادہ پڑے ہے تو وہاں مصیبت کے متعلق الفاظ زیادہ بنے۔ اور جو کہیں راحت و اطمینان حاصل رہا ہے تو وہاں عیش و آرام کی لُغت زیادہ وضع ہوئے۔ اگر کہیں جنگ کا زیادہ اتفاق پڑا ہے تو وہاں جنگ سے تعلق رکھنے والے لفظ بکثرت موجود ہو گئے۔

برسوں صرف اعراب و حرکات نے کام دیا اور سالہا سال مفرد حروفِ ہجا نے کام نکالا جب اس سے ضرورتیں پوری نہ ہوئیں اور زبان نے پانی رو، ریل کی رفتار، برقی تار کی طرح آگے دوڑنا شروع کیا تو انہیں حرفوں اور حرکتوں سے مرکب ہو ہو کر چھوٹے چھوٹے الفاظ اور کلمے اور ان کے ساتھ کچھ کچھ بے ربط یعنی بغیر مبتدا و خبر جملے بننے شروع ہو گئے، جس کا اثر آجتک ہمارے ناسمجھ بچوں میں موجود ہے۔ اب لوگوں نے جان لیا کہ زبان صرف ذائقہ بتانے کے واسطے ہی نہیں ہے بلکہ ہمارے دلوں کا منشاء ظاہر کرنے کے لئے ایک عمدہ قاصد ہے۔ ہم میں اور دیگر حیوانات میں اگر مابہ الامتیاز کوئی چیز ہے تو وہ یہ گویائی اور نطق ہی ہے ورنہ ہم میں اور تمام حیوانات میں کچھ بھی فرق نہیں۔ اب بامعنی اصوات یا الفاظ بننے کی نوبت آئی۔ یہ سب جانتے ہیں کہ انسان کو خدا تعالٰی نے اور اور مختلف بیش بہا قوتوں کے علاوہ قوائ عقلی بالتخصیص عطا فرمائے ہیں۔ یعنی اول قوت مدرکہ جس سے ہر ایک چیز کا ادراک ہوتا ہے۔ دوم قوت حافظہ جس سے ہر ایک بات دماغ میں محفوظ یعنی یاد رہتی ہے۔ قوتِ متخیلہ یعنی خیالی قوت جو دماغ میں ایک صورت پیدا کر دیتی ہے۔ چہارم عقل یعنی قوتِ تمیش۔ پس بامعنی صوت یا لغت انہیں چاروں مرحلوں کو طے کر کے بنا۔ یعنی پہلے ہمیں کسی بات کا خیال آیا وہ خیال حواسِ خارجہ سے پکا ہو کر قوت مدرکہ کے حضور میں پہنچا۔ قوت مدرکہ نے اسے حافظہ کو سونپا۔ حافظہ نے قوتِ متخیلہ سے اس کی صورت بنوائی۔ قوتِ متخیلہ نے اسے عقل کے سپرد کیا۔ عقل نے اس میں امتیازی قوت بخشی۔ اس وقت وہ ہمارے ارادہ کے موافق زبان پر آیا۔ اور ہوا سے ہمارے دلی خواہش کے موافق اپنے منہ سے بولتی ہوئی تصویر یعنی آواز بنوائی۔ پس یہی آواز ہمارے مکنون فی الذہن یا مافی الضمیر لفظ خواہ لغت کی صورت بن کر ہمارے زبان سے صادر ہوئے اور اسی طرح صدور پکڑنے سے وہ بامعنی لفظ یا بامعنی کلمہ کہلانے کی مستحق ٹھہری۔ پہلے پہلے تو یہ الفاظ صرف کاروبار کی ضرورتوں کا کام دیتے رہے، مگر بعد میں خوشی، مصیبت، رنج و غم کی جمگھٹوں میں شریک ہو ہو کر ایک ایسی کل کی پتلی بن گئے کہ جس موقع اور جس مجمع میں کہیں کہ کیفیت بیان کر کے سماں باندھ دینا منظور ہوا، وہیں اس کل کی پُتلی یعنی زبان کے ارگن باجے کو ان الفاظ سے آشنا کیا اور ہُو بہو وہی رنگ جما دیا۔ اس سے قوتِ حافظہ کی زنگ خوردہ تلوار کی بھی صیقل اور جلا ہوتی گئی۔ نیز بزرگوں کی وصیتیں، عقلمندوں کی آزمودہ باتیں ہر قسم کے تجربے روایتیں۔ علاج معالجہ کے گُر۔ بہادروں کے گُر۔ بہادروں کے ساکھے بھی یاد ہوتے رہے۔ چونکہ سب بڑے بڑے واقعات عمری کا یاد رکھنا طاقتِ بشری سے بعید تھا۔ اس کے لیے کہاوتیں
--------------------------------------------------------------------------------------
(۱) جو ملک سب سے پہلے آباد ہوئے، ان میں سب سے زیادہ حروف بنائے گئے۔ مثلاً سب سے زیادہ حروف چینی زبان میں ہین تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ملک سب سے پہلے آباد ہوا۔ چنانچہ از زبان کے مفرد حروف 214 اور مرکب 79786 ہیں جو کسی زبان میں نہیں پائے جاتے۔ اس کے بعد دوسرے درجہ پر سنسکرت ہے۔

نام زبان -------- حرف
ہندی یا سنسکرت – 49
روسی ۔۔۔۔۔۔۔۔ 41
فارسی ۔۔۔۔۔۔۔ 33
عربی ۔۔۔۔۔۔۔ 28
انگریزی، جرمن، سپین ۔ 26
لاطینی ۔ 25
یونانی ۔ 24
فرانسیسی ۔ 23
ایرانی ۔ 22
اٹلی ۔ 20
برہما ۔ 19

اردو زبان چونکہ کئی زبانوں سے مخلوط ہو کر بنی ہے، اس سبب سے یہ زبان سے سے زیادہ یعنی 55 آوازوں کی مالک ہے۔

دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 28

جن کے الفاظ ماقل ددل سے پُر ہیں بنائی گئیں۔ ماتم، خوشی، بیاہ، شادی، جنگ و جدل کے گیت بجائے تاریخ و یاد داشت ایجاد ہوئے۔ اور اب یہ زبان کا سلسلہ بترتیب ذیل ترکیب پا کر آگے چلا۔ یعنی اول صوتِ مطلق نے ہوا سے ظہور پکڑ کر ہمیں آواز کے معنی سمجھائے۔ بولنے کی ترکیب بتائی۔ اس کے بعد اونچے نیچے سروں نے ہم کو اس آواز کا اپنے منہ میں قابو کرنا حسب مراد اتار چڑھاؤ دینا۔ حرکاتِ ثلاثہ یعنی اعراب سے کام لینا اور پھر انہیں کی درازی سے حروفِ علت پیدا کرنا سکھایا۔ جب یہ تعلیم پوری ہو گئی اور ہمیں اپنی روز افزوں حاجتوں کے سبب اس سے بھی زیادہ آوازیں یعنی حرفوں کے ایجاد کی ضرورت پڑی تو ہم نے ان آوازوں کو اس طرح ترقی دی کہ کسی حرف یعنی آواز کو حلق سے نکالا۔ کسی کو تالو سے، کسی کو نوک زبان سے، کسی کو دانتوں سے اور کسی کو ناک کی شرکت سے بنایا۔ اور اب ہم مفرد حرفوں یا لغتوں سے کام لینے لگے۔ کچھ عرصہ تک یہ صدائیں ہمارے دلوں میں گھر کرتی رہیں۔ اس کے بعد اسمائے اصوات یعنی جن سے جاندار یا بے جان چیزوں کی آواز تمیز ہوتی ہے ہمارے رہبر بے۔ کبھی ہم نے ہوا کو چلتے ہوئے دیکھ کر اس کے چلنے کی نقل سائیں سائیں کے لفظ سے ادا کی۔ کبھی پانی کو برستے ہوئے دیکھ کر اس کی سریلی آواز کو چھم چھم سے تعبیر کیا۔ کبھی کُتے کے بھونکنے کو بھوں بھوں سے، بلی کی آواز کو میاؤں میاؤں سے، بکری کے بولنے کو میں میں سے۔ کوئل یعنی کوئل کی آواز کو کوکنے سے، مور کی آواز کو جھنکارنے سے، باہم ایک دوسرے پر اظہار کرتے رہے۔ بلکہ بہتیرے نام ہی ان آوازوں کی مشابہت سے رکھے گئے۔ چنانچہ اب بھی جس طرح بچے بکری کو اس کی آواز کے لحاظ سے میں میں کہتے ہیں، اسی طرح بڑوں نے پی پی کرنے سے پپیہا، جھیں جھیں کرنے سے جھینگر، ٹر ٹر کرنے سے تڑو، بھوں بھوں کرنے سے بھونرا، بھیں بھیں سے بھنبیری وغیرہ بہت سے نام بنائے۔ اس کے علاوہ اکثر نام ظاہری یا فعلی مشابہتوں سے بھی رکھے گئے۔ مثلا کنسلائی، کنکھجورا، اجگر، بھیڑیا وغیرہ۔ ان ناموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلا نام جو ایک پتلے سے برساتی کیڑے کا نام ہے، وہ صرف سلائی سے مشابہت رکھنے اور اکثر کان میں چلے جانے کے سبب رکھا گیا۔ دوسرا نام جو ایک زہریلے مُوذی کیڑے کا نام ہے وہ بھی صرف کھجور سے مشابہت رکھنے اور اکثر کان میں بیٹھ جانے کے باعث قرار پایا۔ اس کیڑے کی ساخت اور اس کے گنڈے چونکہ کھجور کے درخت سے بہت مشابہ تھے لہذا یہی نام پڑ گیا۔ رہا اجگر اور بھیڑیا، چونکہ آج سنسکرت زبان میں بکرے کو اورگر نگلنے کو کہتے ہیں اور اژدہا بکرے کو نگل جاتا کرتا ہے۔ لہذا اس کے اس فعل کے سبب یہ نام رکھا گیا۔ اسی طرح بھیڑیا، بھیڑ بکری کے پکڑ لینے والے درندے کا نام ہوا۔ اب اسمائے اشارات۔ کنایات، ضمائر کا تقرر قرار پایا۔ چونکہ ابتدا میں ہم نے مدتوں ہاتھ پاؤں سر وغیرہ کی حرکات پورے پورے ناموں اور کامل مشابہتوں سے کام لیا تھا۔ اب ہر بات کے واسطے اعضا سے کام لینا چھوٹ بات کو بڑھا کر بیان کرنا۔ بار بار اسموں کا زبان پر لانا۔ ایک دشوار امر معلوم ہونے لگا۔ نیز ان اعضاسے معذور آدمی اپنے بعض بیانات میں قاصر رہنے لگے تو ہمیں ان کے واسطے بھی لغت تراشنے کی ضرورت پڑی۔ چنانچہ ان لمبے لمبے اشاروں، ناموں اور بڑے بڑے بیانوں کی جگہ چھوٹے چھوٹے اسم مقرر کر لئے جن سے قریب و بعید کے اظہار کی آسانی اور بار بار نام لینے یا پورا پورا بتانے کی دقت سے رہائی ہو گئی۔ اور بہت سے مخفی و مبہم معاملے صرف کنایوں میں اظہار پانے لگے۔ جب یہ مشکل بھی حل ہو گئی تو جن چیزوں کے اظار کے واسطے ہم نے اشارے کنائے، ضمیریں تجویز کی تھیں، ان کی شناخت کا کوئی خاص خاص نشان بھی مقرر کرنا واجبات سے ہوا۔ کیونکہ اس کے بغیر کسی چیز کی صورت یا ہیئت ہمارے خیال میں نہیں آ سکتی تھی۔ اس لئے ہم نے ان نشانوں کی بجائے ان کے نام تجویز کئے۔ بہت سے نام مفرد رکھ گئے تھے۔ اور بعد میں یہی نام بعض واقعات و امورات اور مشابہات کے پیش آنے سے مرکب بھی ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ بعض جانوروں میں مختلف جانوروں کی شبیہ پا کر انہیں کئی کئی ناموں سے ملا کر ایک نام سے موسوم کر لیا۔ مثلاً شتر مرغ جس کے بعض اعضاء شتر سے مشابہ ہیں۔ شتر گاو پلنگ جس کا سر اونٹ سے مشابہ، سینگ گائے کے سینگوں کی مانند اور کھال اور رنگ پلنگ یعنی تینددویکا سا ہوتا ہے۔ عربی میں اس کا نام زراف ہے۔ علیٰ ہذا گاؤ یس فیل مرغ، سیمرغ سغیرہ۔ ادویات میں فیل گوش، گاؤزبان، مردم گیاہ، ہرن کُھری وغیرہ۔

بعض نام ان کے افعال کے سبب رکھے گئے۔ جیسے مارخور، ایک بکرا جو سانپ کو کھا جاتا ہے۔ چوہے مار ایک شکاری پرند کا نام ہے جو چوہے کا شکار کرتا رہتا ہے۔ نیولا، ایک قسم کا چوہا ہے جو نیو کھوڈ ڈالا کرتا ہے۔ اسی طرح اور بہتیرے نام ہیں۔ جو کسی خاص خاص صفت سے تجویز ہوئے ہیں، مثلاً ہاتھی، یعنی ایک ہاتھ والا، چونکہ اس کی سونڈ ہاتھ کے قائم مقام ہے۔ جس میں انگلی بھی موجود ہے۔ اس وجہ سے یہ نام رکھا گیا۔ چیتا چونکہ اس کے جسم پر چتیوں کی مانند گل بنے ہوئے ہیں، اس سبب سے اس نام سے نامزد ہوا۔ سمندر یعنی آگ کا کیڑا۔ سام اور اندر سے مرکب ہو کر بنا۔ چونکہ سام فارسی میں آگ کو کہتے ہیں اور اندر بمعنی درمیان آتا ہے۔ لہذا آگ کے اندر رہنے کے سبب اس کا یہ نام پڑ گیا۔ لوہا سنسکرت لوہ بمعنی خون سے یہ نام رکھا گیا۔ اس لئے کہ لو نمی سے سرخ رنگ یعنی زنگ لے آیا کرتا ہے۔ لال بھی لوہ بمعنی لہو یعنی سرخ سے بنایا گیا۔ یہی نہیں بلکہ بہتیرے ملکوں جزیروں کے نام بھی کہیں ان کے آباد کرنے والے کے نام پر کہیں ان کے محقق اور دریافت کرنے والے کے اسم مبارک پر، کہیں بادشاہ وقت یا کسی خاص قوم کے نام پر نام رکھے گئے۔ کبھی پہلے پہل کسی اجنبی ملک کی طرف جا نکلے والے سیاح نے خود ہی اپنےنام پر اس ملک کا نام تجویز کر لیا۔ کبھی اس ملک کی خاص خاص چیزوں یا جانوروں کے نام پر نام ہو گیا۔ کبھی تیمناً و تبرکاً کسی مذہبی پیشوا یا دیوی دیوتا کے نام مقدس پر ہی کوئی نام تجویز ہو گیا۔ جیسے شہر کانپور کرشن جی کے دوسرے نام کاہن سے مرکب ہو کر کاہن پور اور پھر رفتہ رفتہ کانپور بن گیا۔ کالی کوٹ یعنی کلکتہ کالی دیوی کے باعث، سملہ، سملی دیوی کے سبب اس کا نام موسوم ہوا۔ مالوہ، مالچند سپہ سالار مہاراجۂ پرومن عرف مہاراج والئی بہار کے آباد کرنے سےمالوہ مشہور ہو گیا۔ ہستناپور روجہ ہست کے بسانے سے ہستنا پور کہلایا۔ بھوپال بھوپال سنگھ راجہ بھوج کے وزیر کے سبب بھوپال ہوا۔ علیٰ ہذا نینوا نینوں بادشاہ کےنام پر، یونان یاوان ابن یافت ابن نوح کے نام پر، مصر مصرائیم ابن عام ابن

دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 29

نوح کے نام پر۔ امریکا، امریکن باشندہ فلورنس نے اپنے نام پر آپ ہی مشہور کر دیا۔ اگرچہ اس نام کا مستحق کولمبس تھا جس نے سب سے اول اس نئی دنیا کا پتا لگایا۔ جزیرۂ ورجینا واقع ملک امریکہ پتی برتاسدا کواری اپنی ملکۂ الزبتھ کے نام نامی پر والٹر ریلی نے اپنی سیاحی کے وقت میں اس جزیرہ کا نام رکھا۔ چونکہ ورجن انگریزی زبان میں بعمعنی دوشیزہ یا کنواری آیا ہے اور اس ملکۂ پارسا نے تمام عمر شادی نہیں کی تھی۔ اس وجہ سے یہ نام تجویز پایا۔ جس نے یہاں تک شہرت حاصل کی کہ عرب والے جزیرہ باکرہ، فارس والے جزیرہ دوشیزہ کہنے لگے۔ انگلینڈ قوم انگل متوطن جرمنی کے سبب اس نام سے موسوم ہوا۔ چنانچہ اسی وجہ سے انگریزی اور جرمنی زبان میں بہت کم اختلاف پایا جاتا ہے۔ فرانس قوم فرینگ کے سبب اپنا اصلی گال چھوڑ کر مشہور ہوا اور ڈنمارک قوم ڈین کے باعث ہالینڈ زمین پست کی خصوصت سے اس نام کا مستحق ٹھہرا۔ جزائر ازورز باز پرندوں کی کثرت کے سبب۔ کیونکہ پرتگالی زبان میں باز کو ازروس AZORES کہتے ہیں۔ جزیرہ برازیل اسی ناک کی پتنگ کی لکڑی کے باعث، جزیرہ کنیری، اسی نام کی مشہور چڑیا کی وجہ سے۔ میہاگنی مہاگنی لکڑی کے سبب، کوہ ہمالہ، البرز، دھولا گڈھ وغیرہ برف یا اس کی سفیدی کی خصوصیت کے باعث ان ناموں سے موسوم ہوئے۔ مشتے نمونۂ از خروارے یہی نام کافی ہیں۔

لیکن جب اسماء یعنی نام بھی تجویز ہو گئے تو اب ایک اور دقت پیش آئی۔ وہ یہ ہے کہ جس وقت آپس میں باتیں کرتے، مختلف اسموں کا مجموعیہ تو اکھٹا ہو جاتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دینے۔ ربط اور لگاؤ پیدا کرنے والا کوئی وسیلہ نہ ہوتا تھا۔ اس وقت کے رفع کرنے کے واسطے باہم لگاؤ پیدا کرنے والے حروف یا حرکتیں تجویز ہوئیں۔ لیکن فعلوں، مصدروں کے بغیر یہ بھی ایک ناتمام لگاؤ رہا۔ پس اب افعال اور مصادر تجویز ہوئے اور ساتھ ہی بعض بعض چیزوں کے شمار کا موقع بھی آنے لگا جس کے سبب انگلیوں سے گننے کا کام لینا شروع کیا۔ اول اول تین انگلیوں سے کام نکالا، پھر پانچ، پھر دونوں ہاتھوں کی دس 10 انگلیوں سے کام لیتے رہے۔ بلکہ کچھ دنوں پاؤں کی انگلیاں بھی شمار میں مددگار بنیں۔ جب اس سے زیادہ تعداد کا کام پڑا تو انگلیوں کے پوروں کو بھی کام میں لانا شروع کر دیا۔ اور اب آگے گنتی بڑھانے کی تدبیر سوچنی پڑی۔ چنانچہ روز بروز اس کی بھی ترقی ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ ہندوستان جیسے پرانے ملک میں تو کروڑ، ارب، کھرب، نکھرب یعنی دس کھرب، پدم، سنکھ، سمندر یا کورا کور یعنی مہا سنکھ، پلوپم، یعنی دس کورا کور۔ اور ساگر یعنی دن پلوپم تک نوبت پہنچی۔ فارس والوں نے یعنی ۔۔۔۔ آبادیوں نے زیادہ سے زیادہ دس ارب اسی کروڑ کا ایک فود بحساب رفتار و سال کیوانی قرار دیکر اس طرح تعداد بڑھائی کہ ہزار فرو کا ایک ورد۔ ہزار ورد کا ایک مرد۔ ہزار مرد کا ایک جاد، تین ہزار جاد کا ایک واد۔ دو ہزار واد کا ایک زاد ٹھہرا کر دنیا کے ایک دورے کی مقدار ختم کر دی۔ دیگر ممالک میں اس سے زیادہ گنتی نہیں پائی جاتی۔ وہ سب ہندوستان کے خوشہ چین ہیں۔ اس وقت زبان نے یہ ابتدائی مجموعہ بہم پہنچا کر ایک ہونہار صورت پکڑی۔ لیکن جبتک لوگ ایک محدود ملک یا سر زمین میں پڑے رہے، اس سے زیادہ ترقی نہ کر سکے۔ جب آبادی بڑھی، رہنے کو جگہ نہ ملی، اور ادھر اُدھر کے گشت کی سوجھی تو ہر ایک جگہ نئی نئی بات نئی نئی چیزیں نئی نئی شکلیں دیکھنے میں آئیں۔ اگر ان کے نام وہاں کے اصلی باشندوں سے ہاتھ لگے تو انہیں اپنی زبان میں بڑھایا ورنہ ان کے نام ان کے اثر یا ساخت یا مشابہت وغیرہ سے تجویر کر کے خاص اپنا کام نکالنے اور اپنے وطن کے لوگوں کر پھر گر جا کر سمجھانے کی نیت سے چاہا سو رکھ لیا۔ آبادی کی ترقی کے ساتھ زبان کی بھی ترقی ہوتی گئی۔ جوں جوں زمانہ گزرتا گیا پچھلے الفاظ زبان کے رگڑے کھا کھا کر منجھتے، صاف ہوتے اور گُھل گُھل کر سلیس بنتے گئے۔ جس طرح سانپ ہر سال اپنی کینچلی بدل کر نئی نئی پوشاک پہنتا ہے اسی طرح الفاظ بھی خیراد پر چڑھ چڑھ کر تراش خراش پاتے اور ہر زمانے کا رنگ دکھاتے گئے۔ اگر ذرا توجہ سے دیکھا جائے تو بخوبی ثابت ہو جائے کہ جن الفاظ کو ہم مردہ یا ایک قالب بیجان تصور کر رہے ہیں یہ سب بڑے بڑے واقعات کا مرقع یعنی ایک زندہ تاریخ اور ہمارے بزرگوں یعنی کل انسانوں کے خیالات، عمری واقعات، دنیوی و دینی تاریخ، ہر زمانے کے اخلاق و رواج اور جملہ سرگزشتوں کا ایک بیحد ذخیرہ ہیں۔ ہر لفظ بالانفراد اپنے اپنے زمانے کی تاریخ اپنے ساتھ لئے ہوئے ہے۔ تصنیف میں تو صرف اس کے مصنف کے خیالات کا اظہار ہوتا ہے۔ مگر ان الفاظ میں جسقدر لوگ از آدم تا ایں دم دنیا پر پیدا ہوئے اور انہوں نے اپنے اپنے موقع پر لفظ تراشے۔ سب کا فوٹو موجود ہے۔ خوشی، جوش، ولولہ، رنج، غم، عشق، محبت، دکھ، درد، مصیبت، رحم، دیا، دھرم، زور، طاقت، بل، نخوت، غرور، جنگ و جدل وغیرہ کون سی بات ہے جو ان الفاظ میں موجود نہیں ہے۔ یہاں تک کہ جن الفاظ کو ہم فحش ناپاک، لغو اور پس کا بھرا ہوا خیال کرتے ہیں وہ بھی تو ملکی خیالات اور طبائع السانی کے اظہار سے خالی نہیں۔ ہندوستانی زبان پر سب سے زیادہ اور بھاری اعتراض یہی ہے کہ اس میں قابل شرم الفاظ اور محاورے زیادہ پائے جاتے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہم لوگوں کے خیالات قابل اصلاح اور ہمارے بہذیب ابھی بہت کسی درستی طلب ہے۔ ہم نے ان الفاظ کو اپنا تکیۂ کلام بنا رکھا ہے۔ جنہیں مہذب ملک کے باشندے زبان پر لانا بھی ایک قومی اور مہذب سوسائٹی کا کبیرہ گناہ تصور کرتے ہیں۔ خیر یہ بات دوسری ہے۔ اب ہم مناسب جانتے ہیں کہ اول تمثیلا دس دس پانچ پانچ ایسے نام، الفاظ اور محاورے وغیرہ لکھ کر دکھائیں جن سے زمانے کی کچھ نہ کچھ تاریخ کا پتا چلتہ ہو۔ اس کے بعد کوئی سا مفرد حرف لیکر اس کی کسی قدر مفصل تفصیل اور باریکیاں پیش کریں۔ اور اخیر پر زبان کے درجے جتا کر اس مضمون کو ختم کر دیں تاکہ اس کے پڑھنے اور سننے سے زیادہ طبیعت نہ اکتائے۔ اس بات کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ دنیا کے پردے پر جس قدر ملک آباد ہیں۔ انہیں سب کے نہیں بلکہ وہاں کے شہروں تک کے نام ان کے بانی یا اس کے سرکردہ کے اسم مبارک پر رکھے گئے ہیں جس نے سب سے پہلے آ کر وہاں بود و باش اختیار کی یا اس مُورثِ اعلیٰ کے نام پر جو وہاں فتحیاب ہوا۔
 

شمشاد

لائبریرین
دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 30

مثلاً برہماورت چونکہ برہمن لوگ قوم آریا کے پروہت یعنی پیشوائے دین تھے۔ اس وجہ سے جب اول ہی اول یہ لوگ پنجاب میں آئے تو انہوں نے اپنے قومی بزرگوں کے نام پر پنجاب کا نام برہماورت رکھ دیا اور تمام شمالی ہند کو آریا ورت کہنے لگے۔ علیٰ ہذا۔ ایران، پارس، عرب، ترکستان، خراسان، توران، روما، کنعان اور بھارت ورش وغیرہ وغیرہ جس قدر ملک ہیں یہ سب اپنے اپنے آباد کرنے والوں کا نام بتا رہے ہیں۔ ان میں کوئی حضرت آدم کا خلف ہے تو کوئی نُوح کا پوتا پڑپوتا۔ یعنی کوئی شیث ابن آدم یا سام بن نوح کی اولاد میں سے ہے تو کوئی عام اور یافث کی ذریات میں سے مثلاً ایران ہوشنگ بن سیامک بن کیومرث بن آدم کا نام تھا۔ پس سرزمین ایران اسکے حصے میں آنے کے سبب اس نام سے موسوم ہوئی۔ پارس جو ایک نامزد ولایت ہے اس کے نام سے صاف ظاہر ہے کہ پارس بن پہلو بن سام بن نوح اس پر قابض تھا۔ عرب بمعنی لٹیروں کا ملک۔ چنانچہ اسی رعایت سے فارس والوں نے اس لغت کا ترجمہ تازی یعنی تاخت و تاراج کرنے والوں کا ملک قرار دیا۔ چونکہ یعرب ابن قحطان ابن سام اب نوح نے سب سے اول عربی زبان کی بنیاد ڈالی اور اس ملک کی آبادی میں کوشش فرمائی۔ اس وجہ سے بعض لوگ اس ملک کے نام کو اس کی طرف بھی منسوب کرتے ہیں۔ ترکستان ترک بن یافث بن نوح کے سبب اس لقب سے ملقب ہوا۔ خراسان۔ سام بن نوح کے ایک بیٹے کا نام تھا۔ چونکہ اول میں اس نے اس ملک کو آباد کیا لہذا اسی کے نام سے مشہور ہو گیا۔ توران جو ایک پرانا ملک ہے اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ فریدوں نے اپنے بڑے بیٹے تور کو یہ ملک دیا تھا جس کی وجہ سے یہی نام پڑ گیا۔ روما مولس نامی بادشاہ کے بسانے سے اس نام کے ساتھ نامزد ہوا۔ مولس لاطینی قوم میں سے ایک ولد الزنا شخص تھا جس کے نانا نے اس سرزمین میں اسے اپنے واسطے شہر آباد کر لینے کی اجازت دی تھی۔ یہ شہر سنہ عیسوی سے پانچ سو برس پہلے آباد ہوا۔ کنعان (۱) حام بن نوح کے چھوٹے بیٹے کا نام تھا جسکے گیارہ بیٹوں نے اس سر زمین کو آباد کیا تھا۔ فلسطین بھی قوم فلسطین کے سبب اسی نام سے مشہور ہو گیا تھا۔ بھارت ورش راجہ بھرت کے سبب ملک ہند کا نام کہلایا۔ بھوٹان قوم بُھوٹ کے باعث، خاندیس بھیلوں کی قوم کھاند کے سبب اس نام سے موسوم ہوا کیونکہ اصل میں یہ نام کھاندعیش تھا۔ دہ ہم مخرج حرفوں میں ایک حرف دال گر کے کھاندیس ہوا۔ مغلیہ سلطنت والوں نے اپنی کتابوں میں خاندیس درج کر دیا۔

غرض جس طرح ملکوں کے نام اپنے اپنے ملک کی ابتدائی تاریخ آپ ہی بتا رہے ہیں۔ اسی طرح بہت سی رسمیں، مذہبی تیوہار، محاورے، کہاوتیں، ذاتی صفاتی نام، اسمائے مذاہب وغیرہ بھی اپنی اپنی تاریخ اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے ہیں۔ چنانچہ بطور تمثیل بلا ترتیب و بلا قیدِ زمانہ ہم اس جگہ اپنے قول کی تصدیق کے واسطے چند مثالیں لکھتے ہیں۔

کناگت جو ایک عام مشہور شرادھ کی رسم جتانے والا لفظ ہے، اپنے نام سے ظاہر کر رہا ہے کہ یہ نام راجہ کرن کے زمانہ سے پڑا اور کرناگت سے کناگت ہو گیا۔

راجہ کرن کا پھرا۔ بمعنی وقت صبح صادق۔ یہ محاورہ بتا رہا ہے کہ راجہ کرن بہت سویری اٹھتے اور سورج نکلنے سے پہلے پہلے دان پُن کر کے فارغ ہو جایا کرتے تھے۔

نُوح۔ حضرت نوح کا اصلی نام شکرؔ تھا۔ چونکہ آپ اپنی قوم کی بد افعال پر بہت رویا کرتے تھے۔ اس سبب سے آپ کا لقب نُوح یعنی نوحہ کرنے والا پڑ گیا جو ان کی دلی ہمدردی کی ہمیشہ زنادہ رہنے والی یادگار ہے۔ بخت نصر۔ بابل کے ایک جبار و ظالم بادشاہ کا نام ہے۔ جس نے بیت المقدس کو مسمار کیا تھا۔ چونکہ بوخت بمعنی فرزند اور نصر ایک بُت کا نام ہے جس پر اس کے باپ تابو پلاسا نے چڑھا دیا تھا۔ پس اس وجہ سے نصر کا بیٹا یعنی بُخت نصر مشہور ہو گیا۔ نجتی اونٹ اسی کا ایجار ہے کیونکہ اس نے عرب کی اونٹنی سے عجم کے اونٹ کا جوڑا لگا کر دراز قد اونٹ نکلوائے تھے جنکی نسل آجتک عرب میں اسی نام سے چلی آتی ہے۔ یہ بادشاہ 606 برس پیشتر حضرت عیسیٰ سے موجود کیخسرو بادشاہ ایران کا ہمعصر تھا۔ اٰئلینۂ سکندر اُس آئینہ کا نام ہے جسے سکندر اعظم نے بشور دوربین بنوا کر شہر اسکندریہ کے مینارہ پر نجوف اہل فرنگ ان کی فوج کے حالات دیکھنے کی غرض سے نصب کیا تھا۔ اور اس کے وسیلے سے شہر استنبول تک کی کیفیت نظر آ جایا کرتے تھی۔ اب جو اسکندریہ شہر ہے یہ اصل اسکندریہ کے اوپر اس کے دب جانے کے بعد بنایا گیا ہے۔ حال کے محقق اسے کھود کر نکلانے کا ارادہ کر رہے ہیں۔ نوشیرواں۔ بمعنی جان شیریں۔ یعنی ہر دلعزیز۔ ایران کے بادشاہ کسرے کا صفاتی نام ہے جو اس کی خوش خلقی اور معدلت گستری کو آج کے دم تک یاد دلا رہا ہے۔ مُرغ سلیمان ہُد ہُد کا نام اس وجہ سے قرار پایا کہ اس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو شہر سبا اور بلقین کی خبر لا کر دی تھی۔

مُرغ عیسیٰ۔ خفاش یعنی چمگادڑ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزے کی یادگار ہے۔ زمزم۔ یہ چشمہ اپنے نام سے بی بی ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت اسمٰعیل ابن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیدا ہونے کا قصہ یاد دلاتا ہے۔ لکھ داتا۔ قطب الدین ایبک کی فیاضی کا یادگار لقب ہے۔ اورنگ زیبی پھوڑا۔ اس امر کی یاد دلا رہا ہے کہ جب عالمگیر عرف اورنگ زیب سلطان ہند نے ابو الحسن تانا شاہ بادشاہ گولکنڈہ کے ملک کا محاصرہ کیا اور محاصر کی مدت زیادہ ہوئی تو بسبب اجتماح لشکر و اختلافِ آب و ہوا لشکر والوں کے خون میں سودا کے غیر طبعی کا مادہ غالب ہو گیا۔ اور پھوڑا اکثر اہل لشکر کے نکل آیا۔ جسے سبب سے اورنگ زیبی پھوڑا کہلانے لگا۔ داؤد خانی گہیوں۔ یعنی سفید گہیوں۔ جب داؤد خاں جو امرائے محمد شاہی میں سے ایک مشہور نواب تھے، حج کو گئے تو ملک مصر کے سفید گیہوں اپنے ساتھ بطور سوغات بادشاہ کے واسطے لائے اور ہند میں انہیں و کر گیہوں کی یہ موجودہ قسم بڑھا دی۔ پس انہیں کے نام سے یہ گیہوں داؤد خانی مشہور ہو گئے۔ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔ اس کہاوت سے راجہ رامچندر اور ان کے بھائی بھبھیکشن کا تاریخی
----------------------------------------------------------------------------------------

(۱) کنعان حضرت نوح ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیٹے کا بھی نام تھا۔

دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 31

قصہ معلوم ہوتا ہے۔ ہنوز دلی دور ہے۔ اس سے غیاث الدین تغلق اور حضرت نظام الدین اولیاء کا وہ معاملہ معلوم ہوتا ہے، جس میں اس نے بنگالہ سے واپس ہوتے وقت قاصد کے ہاتھ کہلا بھیجا تھا کہ آپ میرے پہنچنے سے پہلے پہلے دہلی سے نکل جائیں۔ اس کے جواب میں حضرت ممدوح نے صرف ہنوز دلی دور است کہدیا تھا اور حسب اتفاق وہ کوشک تغلق کے گرنے سے قبل ازورود دہلی دب کر مر گیا تھا۔ چام کے دام۔ اس مثل سے نظام سقی کی ڈھائی دن کی بادشاہی شیر شاہ اور ہمایوں کی بھاری لڑائی کا سماں بندھتا ہے۔ خانخاناں (۱) جن کے کھانے میں بتانا۔ اس کہاوت سے عبد الرحیم خاں سپہ سالار کبری کی فیاضی اور دریا دلی ظاہر ہوتی ہے۔ علیٰ ہذا کماویں میاں خانخاناں۔ اڑا ویں میاں فہیم۔ سُوت کی انٹی اور یوسف کی خریداری۔ یہ کہاوت حضرت یوسف کے وقت کی ایک مشہور حکایت یاد دلا رہی ہے۔

بارہ وفات۔ اس سے ہمارے رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانۂ وفات کی ایک خاص بات معلوم ہوتی ہے۔ عشرہ۔ اس افسوسناک لفظ میں کربلا کے سخت بیرحمانہ واقعہ دل فرسا کی تاریخ صفحۂ ہستی پر ہمیشہ قائم و ثابت رہے گی۔ پسیاوشاں۔ اس بُوٹی کے نام سے سیاوش کے قتل کا قصہ جسے افراسیاب نے مارا تھا۔ تازہ ہو جاتا ہے۔ سلیم شاہی جوتا۔ یہ شہزادۂ سلیم ابن معین الدین محمد اکبر شاہ ثانی کے ایجاد کی یادگار ہے۔ مکہ۔ پارسیوں کے بیان کے موافق اس بات کو یاد دلاتا ہے کہ یہ لفظ اصل میں مہ اور کہ سے مرکب ہے۔ یعنی خانۂ ماہ۔ چونکہ اس جگہ کی مورت کا سندر اور مہ آباد کا صومعہ تھا۔ اس وجہ سے یہ نام ہو گیا۔ کیونکہ پارسی لوگ چاندی سونے اور پتھر کی آراستہ اور سجی ہوئی سیاروں کی مورتیں اپنے معبدوں میں رکھا کرتے تھے۔ ہند۔ یہ لفظ اس امر کی تاریخ ظاہر کرتا ہے کہ ہندوستان کا یہ نام سکندر اعظم کے وقت سے قرار پایا۔ ورنہ اس سے پیشتر اس ملک کو بارت ورش یعنی راجہ بھرت کا ملک کہتے تھے۔ ہند کی اصل سندھ ہے۔ چونکہ حملہ ہائے مغربی و شمالی کے موقع پر اس ملک میں داخل ہو جانے والوں کو اول اول دریائے سندھ سے پالا پڑا، اس وجہ سے وہ اس تمام ملک کو سندھ اور اس کے باشندوں کو سندھو کہنے لگے۔ پس سین مہملہ اور ہائے ہوز کا حسب قاعدہ باہم بدل ہو کر ہند اور ہندؤ ہو گیا۔ سکندر یونانی کے ساتھیوں نے اپنی زبان کے موافق اس درکا کو اندس کہا اور اسی مناسبت سے ملک کا نام انڈیا تجویز کیا جو اس زمانہ سے آجتک تمام یورپ میں اسی نام سے مشہور ہے۔ اصفہان۔ اس امر کی یادگار ہے کہ اس جگہ فریدوں نے اپنی چھاؤنی ڈال کر اس کا نام اسپاہان رکھا۔ اہل عرب نے معرب کر کے اصفہان بنا لیا۔

قاہرہ۔ اس امر کی یادداشت ہے کہ 941ء میں المعز الدین اللہ خلیفہ فاطمی مغربی کے سپہ سالار جوہر نامی نے ملک مصر کو قہر و غلبے سے فتح کر کے اس فتح کی یادگار کے واسطے یہ شہر بسایا تھا۔ بغداد۔ اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ وہاں نوشیروان عادل ہفتہ وار دربار عام فرما کر مظلوموں کی داد دیا کرتا تھا۔ یہ لفظ اصل میں باغِ داد تھا۔ اس مقام پر ایک باغ میں نوشیرواں کی عدالت کا مکان بنا ہوا تھا۔ چنانچہ اسی نام سے شام وہ شہر بلکہ صوبہ بھی مشہور ہو گیا۔ ناسک۔ اس مقام کا نام ہے جہاں لچھمن جی نے سروپ نکھا، راون کی بہن کی ناک کاٹی تھی۔ یہ مقام احاطہ بمبئی میں احمد نگر کے قریب بمبئی سے 90 میل گوشۂ شمال و مشرق کی طرف دریائے گوداوری کے بائیں کنارے پر اب تک آباد ہے اور وہاں ایک بڑے بھاری مندر میں ناک کٹا ہوا ایک بُت رکھا ہے۔ ہندو اس جگہ کو تیرتھ مانتے ہیں۔ رامچندر جی کے زمانہ میں اس کا نام پنچوٹی تھا۔ چونکہ نسک سنسکرت زبان میں ناک کی جگہ کو کہتے ہیں لہذا اس معاملہ کے سبب یہی نام پڑ گیا۔ دہلی۔ اس نام سے راجہ دہلو کی تاریخ معلوم ہوتی ہے۔ چونکہ دہلی کے راجہ اکثر قنوج کے تابع اور باجگزار رہے ہیں۔ اس وجہ سے راجہ دہلو والی قنوج نے اندرپرست میں اپنے نام پر یہ شہر آباد کیا۔ اول میں اس کا نام بلوہی مشہور تھا۔ چنانچہ امیر خسرو دہلوی کے اس شعر نے بھی جو اس نے جلال الدین فیروز شاہ کو خطاب کر کے لکھا ہے، یہ ثابت ہوتا ہے ؂ یایک اسپم بخش یاز آخور بفرما بارگی – یابفرماں وہ کہ گردوں شبنم و دہلو روم۔ یہ راجہ بود والی کمایوں کا ہمعصر تھا اور اسی کی لڑائی میں مارا گیا جسے 338 برس قبل عیسوی کا زمانہ کہنا چاہیے۔ اس راجہ کے مرتے ہی سکندر ہند میں پہنچا تھا۔ اسی طرح قسطنطنیہ قسطنطین بادشاہ کی یادگار۔ روس روک قزاق کی یادگار۔ لدھیانہ۔ سکندر ابن بہلول لودی کی یادگار۔ الہ آباد۔ جلال الدین اکبر مے مذہب الٰہی اختراع کرنے کے زمانہ کی یادگار۔ شیر منڈل۔ شیر شاہ کی یادگار۔ سلیک گڈھ۔ سلیم شاہ بن شیر شاہ کی یادگار۔ لاہور راجہ رام چندر کے بیٹے لاہو کی یادگار ہے۔ ان کی تفصیل کیفیت بخوف طوالت قلم انداز کی جاتی ہے۔ اکثر ملکوں کے نام سمتوں اور ان کی آب و ہوا کے لحاظ سے تجویز ہوئے ہیں جیسے لفظ جاپان لفظ نپان (۱) بمعنی مشرق سے بنا ہے۔ ایشیا۔ ایسٹ بمعنی مشرق یا ایش بمعنی گرم سے مستنبط ہوا۔ افریقہ اے حرف نفی اور فریگس بمعنی سرو سے بنایا گیا۔ یعنہ وہ ملک جو سرد نہیں بلکہ گرم ہے۔ یورپ۔ ایرب بمعنی مغرب یا یوروپا ایک شہزادی کی اس مورت کے سبب جسے سفید سانڈ کی صورت بنا کر جزیرہ قریطش میں لائے تھے یہ نام قرار پایا۔

اسمائے مذاہب بمعنی اپنے اپنے نبیوں اور بانیوں اور ان کے زمانے کو مع طریق مذہب و خیالات جتا رہے ہیں۔ مثلاً موسوی حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے اور ان کے احکام کو ظاہر کر رہے ہیں۔ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حالات کو۔ محمدی حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے اور ان کے اخلاق کو دکھا رہے ہیں۔ علی ہذا وشنی۔ جو وشن کے ماننے والے ہیں۔ جینی جو جین مت پر چلنے والے ہیں۔ سکھ جو گُرو نانک کی سکھشا پر عمل کرنے والے


(۱) خانخاناں اکثر مفلس شیریف زادوں کے ہاں پلاؤ کی رکابیوں میں اشرفیاں چُھپا کر بھیج دیا کرتا تھا۔ بلکہ اس کا مصاحب فہیم بھی ایسی ہی فیاضی کرنے لگا تھا۔

دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 32

ہیں۔ سنگھ۔ وہی سکھ لوگ جنہیں گرو گوبند سنگھ صاحب نے اپنی مذہبی اور قومی حفاظت کے واسطے سنگھ بمعنی شیر یعنی بہادر کا لقب دے کر بنگی فرقہ یا والنٹیئر بنا دیا تھا۔ داؤد پنتھی۔ جو داؤد کے اقوال پر چلتے ہیں۔ کبیر پنتھی جو کبیر داس کے سلجھے ہوئے موحدانہ بھجنوں پر مفتوں ہیں۔ یہ سب دنیا کی تاریخ میں دل کھول کر مدد دے رہے ہیں۔ ان مرکب اسموں محاوروں کہاوتوں وغیرہ سے فراغت پا کر ہم ایک ہندی مفرد حرف کی کیفیت بھی دکھانی چاہتے ہیں۔ اگر آپ صرف حرف گھ کو ملاحظہ فرمائیں تو معلوم ہو جائے کہ اس ایک ادنےٰ سے مفرد خواہ مرکب حرف نے حرکاتِ ثلاثہ یعنی زیر، زبر، پیش کی حالت نیز مرکبات کے موقع پر اپنی اصلیت یعنی لغوی حقیقت و ماہیت کو کہاں کہاں نباہا اور کن کن صورتوں سے قائم و برقرار رکھا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ گھ ہندی الف بے تے کا چوتھا حرف صحیح ہے جسکے لغوی معنی سنسکرت لغت میں گھر گھر کی سی آواز سے مشابہ ہیں جس میں گھڑ گھڑاہٹ اور گھنٹے کی آواز بھی شامل ہے۔ دوسرے معنی گُھٹ بمعنی ب طون، اندر، بھیتر، اسی سے گھڑا بمعنی سبوچہ یعنی وہ ظرف جس کے اندر پانی رہے قرار پائے۔ تیسرے معنی گھاگرا، لہنگا، شاید گھر کی وجہ سے ٹھہرے۔ چوتھے معنی چھینا، پانی کا چھپکا، پانچویں معنی مارپٹ، چھٹے معنی نشان، دھاری، بدھی، لکیر، ساتویں معنی بھگانا۔ گریزاں کرنا۔ مقرر ہوئے۔ مگر ہر زبان کو فلسفانہ نظر سے دیکھنے والے لغوی معنی کی پیروی نہ کر کے حرف گھ کی آواز سنتے ہی کہہ دیں گے کہ اول تو یہ حرف گ اور ھ دو آوازوں سے مرکب ہے۔ گ وہ مفرد حرف یا آواز ہے جس کے لغوی معنی واضع لغت نے گانے، جانے اور روانی کے قرار دیئے۔ اسی سے صرف گانے والا یا دیوتا کے گیت گانے والا اصطلاحی معنی ہو گئے۔ اگر اس حرف کو بھی ذرا غور سے دیکھیں تو یہ بھی اپنے قدرتی کرشموں سے خالی نہیں ہے۔ ان لغوی معانی کی مناسبت سے بہت سے معنی پیدا ہو گئے۔ مثلاً گُمن، گم، گونا، جاترا، جانا، کی اصل بھی یہی ہے۔ کیونکہ گاف اور جیم کا برابر ہر ایک زبان میں باہم بدل ہوتا آیا ہے۔ جانا مصدر سے ماضی مطلق کا صیغہ گیا۔ اسی قاعدے کا ثبوت دے رہا ہے۔ دریا، گویے کے اتار چڑھاؤ کے معنی اسی نسبت سے نکلے۔ بال اڑ جانے کی بیماری یعنی گنج اور بالخورے کے معنی، بربادی، تباہی اور اجڑنے کے معانی اسی سے نکالے گئے۔ گنگ اور گنگا کی اصل سنسکرت بغاوت والوں نے اسی وجہ سے گاف کو ٹھہرایا۔ عجب نہیں جو گھاگرا، گومتی، گنڈگ، گوداوری اسی لحاظ سے نام رکھے گئے ہوں۔ اور گنگوتری پہاڑ کا یہ نام بھی جس سے دریائے گنگا نکلا اور عام لوگ اسی وجہ سے اس کا نام گنگا گنگا پکار رہے ہیں۔ اس گاف ہی کے سبب سے ہوا ہو۔ ورنہ اس کا ایک نام بھاگیرتی (۱) پایا جاتا ہے۔ گرہ دینے، گٹھ جوڑا لگانے کے معنی بھی اسی حرف سے مستنبط ہوئے۔ کیونکہ گرہ لگا کر جوڑنے یعنی ملا کر یکساں کرنے میں بھی ایک طرح کی روانی پائی جاتی ہے۔ گاف کے جن لفظوں میں روانی یا کسی قسم کے سُر کی کیفیت پائی جائے انہیں اپنی اصل پر قائم تصور کانا چاہیے۔ چنانچہ گاف کے جسقدر لغت ہیں ان میں کچھ نہ کچھ لغوی مناسبت ضرور پائی جاتی ہے۔ دیکھو گائے، گؤُ، جو ایک چرند کا نام ہے اپنے نام سے چلنا ثابت کر رہا ہے۔ گاڑی، گت، یعنی گزرتی ہوئی حالت یا ناچنے کی حرکت۔ گج بمعنی ہاتھی، گجر بجنا، گُدگُدی، گرنا، گراؤ، گڑونا، گڑنا، گنڈاسا وغیرہ۔ سب سے روانی پائی جاتی ہے۔ گیت، گاجنا، گٹکری، گرجنا، گڑگڑ، گڑگڑاہٹ وغیرہ سے گانا ثابت ہوتا ہے۔ چونکہ دریا، پانی اور تری سے تعلق رکھتا ہے۔ اس سبب سے گیلا، گارا، گلگلا وغیرہ بھی اپنی اس اصل سے جدا نہیں ہین۔ یعنی گھ کا دوسرا جزو۔ یہ وہ مفرد آواز یا حرف ہے جو اکثر وزن کے واسطے زاید آیا کرتا اور کبھی ندا کبھی ظہور وغیر ہے معنی دیا کرتا ہے۔ جسکے ترکیبی معنی آواز کو پرگھٹ یعنی ظاہر کرنے والا۔ خواہ گانے کی سی آواز جتانے والا حرف ہوئے۔

یہاں تک تو ہم نے لغوی مفرد اور مرکب معنی کی پیروی کی۔ اب ہم اس پیروی کو چھوڑ کر حرف کی آواز اور اس کے مخرج پر نظر ڈالتے ہیں۔ سنسکرت زبان کے مخارج حروف کے لحاظ سے گھ اور گ دونوں حرف کنٹھی یعنی حلقی ہیں۔ مگر حرف گھ، گ کی نسبت گھاٹی یعنی نشیب میں پڑا ہوا ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس قدر لغت یا محاورے اس حرف سے مرکب ہوں گے ان سب میں معانی ذیل جو اس حرکت کے خاصہ میں داخل ہیں کچھ نہ کچھ ضرور پائے جائیں گے۔ مثلاً (۱) پستی، نشیب، گہرائی، ڈھلان، ڈھلاؤ وغیرہ جیسے گھاٹ، گھاٹی، گھاؤ، گھائل، گھائی، گھالنا۔ بمعنی اندر ڈالنا وغیرہ وغیرہ۔ (۲) موڑ، چکر، پیچیدگی، دور، گولائی، حلقہ، گروہ وغیرہ۔ جیسے گھونگا، گھگلی، گھونگٹ، گھیر، گھیرا، گھمیر، گھومنا، گھمنڈی، گھنگرو، گھونگر والے بال، گھاگرا، گھرنی، گھماؤ، گھونٹنا، گھترا جو آنکھوں میں لگایا جاتا ہے، گھونسا جو مٹھی باندھ کر مارا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ (۳) خواٹوں کی سی آواز۔ گھڑگھڑاہٹ، صدائے مطلق جیسے گھڑ گھڑ، گھڑگھڑاہٹ، گھنٹہ، گھنٹی، گھرا یعنی مرتے وقت کی آواز۔ گھڑیال، گھگی، حالت خوف کی آواز وغیرہ وغیرہ۔ (۴) رگڑ، فراش، سحن، جیسے گھستا، گھسنا، گھسیٹن، گھسیٹنا، گھیتلا وغیرہ وغیرہ (۵) کثرت، افراط، بہتات، جیسے گھنا، گھن کی چوٹ اسی سے بنا ہے۔ گھان، گھمسان، گھن چکر، گھنگھور (۲) گھٹا یعنی ابر غلیظ وتیرہ


(۱) ہندی تاریخوں میں مذکور ہے چونکہ راجہ بھاگیرت جن کے بڑے بڑے جگ مشہور ہیں، گنگا جی کو نرک سے پرتھی پر لائے۔ لہذا بھاگیرتی نام پڑ گیا۔

(۲) گھنگھور مرکب ہے گھن بمعنی برکثرت، گھور پانی گھرنا سے چونکہ اکثر پیش زبردست ۔۔۔۔۔۔ سے بدل جاتا ہے۔ اس ۔۔۔۔۔ سے گھرنا سے گھور ہو گیا۔ جس طرح کھلانا سے کھلانا، چھپانا سے چُھپنانا، کِھلنا سے کُھلنا، بمعنی زیب دینا۔ ٹٹ پونجیا سے ٹٹ پونجیا۔ مکھ سے مھی یعنی مُنہ پر بیٹھنے والی، کھومُکھو سے گُھومکھو وغیرہ الفاظ بن گئے۔

دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 33

وغیرہ (۶) قلت، کمی، عُسرت وغیرہ جیسے گھاٹا، گھٹتی، گھٹتا، گھڑی بھی گھٹنا سے ہے کیونکہ گھڑی سنسکرت میں اسی معنی میں آیا ہے اور یہ لفظ اسی سے بنایا گیا ہے۔ (۷) انقباض۔ گھٹاؤ، بستگی، گرفتگی، غلظت وغیرہ جیسے گُھٹنا، چنانچہ دل گُھٹنا، دھواں گھٹنا وغیرہ برابر بولتے ہیں۔ گُھونٹنا جیسے گلا گُھونٹنا، دم گُھونٹنا، وغیرہ۔ گھونٹ، گھٹاؤ، گھمس، گھور (۱)، گھوری، گھن (۲)، گِھناؤنا وغیرہ وغیرہ (۸) محدودیت۔ گھیر، انحصار وغیرہ جیسے گھر، مکان محدود، گھٹا بمعنی گھرا ہوا بادل گھرنا، وغیرہ وغیرہ (۹) پوشیدگی، پنہانی، خفا، منفی، پوشیدہ وغیرہ۔ جیسے گھٹ بمعنی انتر، خواہ بطون، پرگھٹ جو ظاہر ہو۔ گھات، چُھپ کر بیٹھنے کی جگہ، گھن وہ کیڑا جو لکڑی وغیرہ کے اندر رہتا ہے۔ چنانچہ گھن لگنا اندرونی بیماری کو اسی وجہ سے کہتے ہیں۔ گُھنا، گُھنی، گُھنی سادھنا وغیرہ۔

ان الفاظ سے بھی یہی معنی ثابت ہیں (۱۰) میل، ملاؤ، آمیزش، آمیختگی وغیرہ جیسے گھولنا، گھلانا، گھولوا، کھچ پیچ وغیرہ (۱۱) ضرب، مار، چوٹ، گھڑنتا، گھڑنت وغیرہ جیسے گھڑنا بمعنی پیٹنا یا پیٹ کر کوئی چیز بنانا۔ گھڑت، گھڑا یعنی گھڑ کر بنایا ہوا۔ مٹکا، گھڑیا وغیرہ۔

الغرض حرف گھر کی آواز صاف کہے دیتے ہے کہ گہرائی کا گُن مجھ میں ہے۔ گھیرنے اور گھیر کر لانے کا وصف مجھ میں۔ نہ تو میں اس آواز سے جدا ہوں جو گہرے پانی میں ڈوبنے سے مثل گھپ یعنی غب پیدا ہو، نہ اس احاطہ سے باہر ہوں جو کسی قسم کی آواز کو گھیر گھونٹ کر نکالے۔ مرتے وقت کا گھرا مجھ سے نکلا ہے اور آنکھوں میں لگانے گھونٹ کر بنایا ہوا گھرا مجھ سے بنا ہے۔ یعنی یہ جسقدر معانی اوپر بیان ہوئے سب مجھ سے ہی پیدا ہوئے ہیں۔


اس سے ثابت ہوا کہ ہر ایک حرف اپنی اصلی صوت، اصلی مادہ اور لغوی معنی سے حرکات، کنایات و سکنات و مختلف صورتوں کے بدل جانے پر بھی جدا نہیں ہو سکتا۔ یعنی وہ اپنی ہیئتِ اُولےٰ کو برابر ظاہر کیے جاتا ہے۔ چنانچہ اسی بنا پر ہم قیاس کر سکتے ہیں کہ اگر اول میں کسی جنگ کے موقع پر یہ حرف بنا تو چھریوں سے دشمنوں کے گلے کاٹنے کی گھرگھراہٹ نے اس آواز کو ہمیں سکھایا۔ اور جو اوپر سے پانی گرنی کی صدائے یہ حرف قائم کرایا تو اس کی وجہ یہ ہوئی کہ حرف گھر کی آواز خود نشیب ، پستی اور گہرائی میں جانے والی آواز کا پتا دے رہی ہے اور جو کہیں دشمنوں میں گھر جانے کے موقع پر اس حرف کا اختراع ہوا تو اس سے بھی ایک دائرے کی صورت میں محدود یعنی محصور ہو جانے کی علامت ظاہر ہوتی ہے۔ اگر ہم حرف گھر کے تمام لغات و محاورات کو جمع کر کے نظر تعتق سے دیکھیں اور ذہن رسا کو اس کی ساخت تک پہنچائیں تو ہمیں ان تین موقعوں کے علاوہ جن کا ہم نے ابھی ذکر کیا ہے اور بھی بہت سے باتوں کا پتا لگ سکتا اور ایک عمدہ نتیجہ پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ تو ہم نے صرف بطور تمثیل ایک چھوٹا سا ایک حرفی چمن لگا کر دکھا دیا ہے۔ زیادہ خوض کرنے والے اگر چاہیں تو اسی بنیاد پر اونچی اونچی دیواریں اٹھاتے چلے جائیں۔ علم زبان سے آدمی اپنے آپ کو ایک نئی دنیا میں دیکھتا اور عجیب عجیب چھپے ہوئے ارار پاتا ہے۔ لیکن اگر وہ کسی ایسے سیاح کی طرح اس انوکھی دنیا سے گزرے کہ تمام تاریخی واقعات سے بھرے ہوئے مقاموں اور میدان جنگ کے مقتلو کو سرسری نظر سے دیکھتا ہوا بیخبر کے عالم میں اپنے رستے کی دُھن باندھے چلا جائے تو اسے کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ جاہل سے جاہل اور ادنےٰ سے ادنےٰ لوگوں کے الفاظ عمدہ عمدہ نتیجوں کے بھرے ہوئے زندہ مخزن اور مُنہ سے بولتے ہوئے خزانے ہیں لیکن افسوس ہے کہ اپنی مہک سے مست کر دینے والے پھولوں کو ہم اپنے پاؤں سے روند رہے ہیں۔ اور نہیں جانتے کہ یہ کیا ہیں۔ جس طرح پرانی بوسیدہ ہڈیاں۔ ٹوٹے پھوٹے کھنڈر۔ گرے پڑی مکان۔ متحیر شہد ٹھٹڑیاں۔ ہمیں اپنے پرانے حالات، اس زمانے کی صنعت اور خیالات وغیرہ سے آگاہ کرتی ہیں۔ اسی طرح پرانے لغت اور الفاظ بھی اپنے اپنے زمانے کی ایک عمدہ قابل قدر تاریخ سناتے ہیں۔ یعنی ملکی واقعات۔ گزشتہ حالات ان سے معلوم ہوتے ہیں۔ دیس دیس کی رسموں کا پتا ان سے لگتا ہے۔ جنگ و جدل کی کیفیت اس کے ڈھنگ ان سے کھلتے ہیں۔ ہر زمانے کے ہتیاروں کا پتا ان سے چلتا ہے۔ ان ہتیاروں کی آواز ان کے خاص خاص کام ان سے معلوم ہوتے ہیں۔ بہادروں کی للکار کا نمونہ یہ ہیں۔ نامرودی کی دردناک واویلا کا سماں ان میں ہے۔ غرض خصائص ملک۔ آب و ہوائے ملک۔ طبائع باشندگان ملک، دلی ارادے۔ دماغی توہمات دانائی و نادانی کی شناخت۔ اتحاد و فساد کی علامتیں۔ دنیا کی ابتدائی حالت۔ مختلف حکومتوں کا اثر۔ زمانوں کا انقلاب راگوں کے سُر۔ زبانوں اور دیگر اعضا کی ساخت۔ خاص خاص حروف کے مخارج سے ادا نہ ہونے کا سبب۔ سماعت کا فرق۔ آوازوں اور زبانوں کا اختلاف۔ حرفوں کا باہم بدل۔ ان کا گرنا یا نئی آواز پیدا کرنا۔ یہ ساری باتیں ان سے حاصل ہوتی ہیں۔ گویا ایک ایک صحیح فوٹو یا مرقع عالم ہے۔ اگر گوش شنوا طبع نقاد اور دل شناسا نہ ہو تو اس میں ان کا کیا قصور ہے۔ بقول شخصے ؂ گوشِ شنوا نہیں اس باغ جہاں میں غافلؔ - ورجہ ہر برگ ہے یاں نغمہ سرائی کرتا۔ جس طرح انسان کی عمر کے چار زمانے ہیں، اسی طرح اس کی زبان کے بھی چار ہی درجے ہیں۔ اول درجہ یعنی اس کا زمانہ طفلی وہ ہوتا ہے جس میں صرف آوازوں یعنی اعرابو، حرکتوں، اسموں، ضمیروں، صیفتوں وغیرہ سے کام

(۱) گھور بمعنی چمک وغیرہ میں جو غفلت پائی جاتی ہے۔

(۲) گھن اصا میں گھر تھا چونکہ رائے مہملہ اور نون کا باہم میل ہے جیسے صنم اور جرم۔ پھر وہ پھن، پس گھر سے گھن ہو گیا۔ جس سے انقباض اور نفرت کی صورت ظاہر ہے۔

دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 34

لیا جاتا ہے۔ اس زمانے میں جو الفاظ وضع ہوتے ہیں وہ اپنی اصلی بھولی بھالی حالت، ٹھیک ٹھیک اور سیدھی سادی ہیئت، لغوی کیفیت اور معانی کو جوں کا توں برقرار رکھتے ہیں۔ اس کے بع جوانی آتی ہے۔ اس میں ابتدائی زبان لغات و الفاظ کے سیدھے سیدھے معنوں سے گریز شروع کرتی، اصطلاحی اور مجازی معانی پر ہاتھ ڈالتی ہے۔ نئی نئی تراش خراش بہم پہنچاتی، جوانی کی ترنگ میں آ کر وہ وہ محاورے اور روزمرے ایجاد کرتی ہے کہ ایک شہر والے دوسرے شہر والوں کے سامنے گونگے اور بہرے بنے بیٹھے رہتے ہیں۔ کوئی اجنبی ان محاورں کے مقابلے پر کھڑا نہیں ہو سکتا۔ تمام ولولہ انگیز جوش افزا عشرت خیز محاورے اس زمانے میں بنرک تیار ہو جاتے ہیں۔ بعد ازاں ادھیڑ پن کا زمانہ آتا ہے۔ اس میں علم صرف، علم نحو، علم بیان، علم کلام، علم منطق یہ تمام سلامت روی اور متانت کے بھرے ہوئے علوم پڑھانے کی آسانی کے واسطے ایجاد ہو جاتے ہیں۔ علم زبان کے متعلق جسقدر اؤل اور قاعدے ہیں وہ سب اسی زمانے میں مدون ہوتے ہیں۔ اب پیری یعنی آرام کرنے کا زمانہ آتا ہے۔ اس میں زبان کو پورے پورے لفظوں کا ادا کرنا بھی دوبھر معلوم ہوتا ہے۔ کُجا کہ سخت اور کرخت الفاظ کو زبان سے نکالنا، تشبیہات، تمثیلات، استعارات، کنایات کے تیر تُکوں پر گزارہ آ رہتا ہے۔ جس قدر مکروہ، ثقیل، دور از فہم، بھاری اور موٹے موٹے الفاظ ہوتے ہیں وہ سب گھل گھل کر سلیس، فصیح، پُر اثر، درد کے پتلے، محبت کی پوٹ، نہایت نرم اور میٹھے میٹھے الفاظ ہو جاتے ہیں۔ جو باتیں جملوں، فقروں اور عبارتوں میں ادا ہوتی تھیں، وہ اب مختصر لفظوں، حرفوں بلکہ صرف اشاروں میں طے ہونے لگتی ہیں۔ اول بآخر نسبتے وارد کا مضمون صادق آ جاتا اور ہو الاول ہوالآخر کا سماں بندھ جاتا ہے۔ یعنی جیسی سیدھی سیدھی اور بھولی بھالی بچپن کے زمانے کی زبان تھی اب پھر ویسی ہی ہو جاتی ہے۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ اس زمانے میں کسی قاعدہ اور اصول کی پابندی نہیں تھی۔ اب وہ آزادی جا کر باقاعدہ با اصول بلیغ و فصیح زبان بن جاتی ہے۔ جب یہ زمانہ پورا ہو جائے گا اور اس زمانے کے بولنے والے اسے معدوم کر کے کوئی اور زبان حسب حال یا بمقتضائے وقت زمانہ کی موجودہ رفتار دیکھ کر خواہ بہ لحاظِ علوم و فنون خواہ بپاسِ بادشاہ وقت اختیار کر لیں گے تو پھر اسی طرح وہ زبان بھی ترقی و تنزل کا درجہ حاصل کر کے زبان و دہان سے روپوش ہو جائے گی۔ یعنی پرانی کتابوں کے سوا کہیں اس کا پتا نہیں ملے گا۔ اور اسی طرح ہمیشہ یہ رہٹ جاری رہے گا۔ جب کوئی زبان فنا یا معدومیت کا درجہ حاصل کرتی ہے تو وہ اپنی بہت سے نشانیاں اپنی قائم مقام زبان کو دے جایا کرتی ہے۔ جس کے سبب سے اس زبان کا نام قائم رہتا ہے۔

فی زمانہ جن جن زبانوں کے سرپرست اٹھ گئے اور جو زبانیں اب درباری زبانیں نہیں رہیں، وہ مردہ زبانیں کہلاتی ہیں۔ خاص کر جس زبان کے بولنے کا روزج جاتا رہا تو تو علوم و فنون کا خزانہ ہونے پر بھی مردہ خیال کی جاتی ہے۔ سنسکرت جیسی مکمل مسبوط اور وسیع زبان کا رواج نہ رہنے سے ہندوستان کے قدیمی علوم کو جسقدر نقصان پہنچا ہے وہ نہایت ہی حسرت اور افسوس سے دیکھنے کے قابل ہے۔ جس زبان نے ہزاروں لاکھوں برس میں یہ تکمیل پائی ہو، افسوس ہے کہ وہ یوں لاوارث خزانوں کی طرح گم ہو جائے۔ عربی زبان گو بولی جاتی ہے، مگر درباری زبان نہ رہنے سے وہ بھی معرض زوال میں ہے۔ اس کی روک تھام صرف مذہب اسلام کی متبرک زبان ہونے کے سبب سے ہے۔ اگر کلامِ الٰہی اس مقدس زبان میں نہ ہوتا اور رسولِ عربی روحی فداک اس فصاحت کی بھری ہوئی زبان میں متکلم نہ ہوتے تو یہ زبان بھی علوم و فنون کا مخزن ہونے کے باوجود کبھی کی رخصت ہو گئی ہوتی۔ ہاں اہل عرب اس کا بولنا نہ چھوڑتے مگر سے کچھ ضرور کر لیتے۔ چنانچہ اب بھی کتابی اور بول چال کی زبان میں بہت بڑا فرق پڑ گیا ہے۔ آج کل انگریزی، جرمنی، فرانسیسی، ترکی، ایرانی، چینی، جاپانی، روسی وغیرہ زبانوں کا ستارہ شاہی زبان ہونے کے باعث عروج پر پے۔ کیونکہ ان زبانوں کے سرپرست موجود اور ہر طرح سے ان میں علمی خزانے بھر رہے ہیں۔ اس لحاظ سے ہماری اردو زبان ابھی تکا بتدائی حالت میں ہے۔ گو سرکار انگلشیہ کی توجہ سے کچھ ترقی کر گئی ہے۔ لیکن یہ ترقی چند روزہ ہے۔ اس لئے کہ عدالت کی زبان اب انگریزی ہوتی جاتی ہے۔ تمام دفاتر اس میں ہو گئے اور ہو رہے ہیں۔ غرض علمی اور شاہی زبان چاہے ہندوستان کے واسطے یہی قرار پانے والی ہے۔ ہندوستانی زبان صرف دیسی زبان ہونے کے باعث اپنے آپ کو سنبھالے ہوئے ہے۔ گویا یہ زبان اب صرف اپنے ہندوستانیوں کی حمایت پر ترقی کرے تو کر سکتی ہے۔ ورنہ اس بھی عنقریب زوال شروع ہو جائے گا۔ اور وہی مثل صادق آئے گی۔ مصرعہ ہمیں تو موت ہی آئی شباب کے بدلے۔ ہم ابتدا میں لکھ آئے ہیں کہ ہماری زبان اب دور دور یعنی کالے کوسوں کے دھارے مار رہی ہے اور روز بروز معراجِ ترقی پر چڑھتی چلی جاتی ہے۔ ہندوستان کی یہی عام اور ملکی زبان ہے اور یہی شایستہ و مہذب لسان۔ اس میں علمی خزانے ملک ملک سے اُمڈے چلے آ رہے ہیں۔ اور تصنیفاتِ مختلفہ سے بھرپور ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ سچ، مگر انگریزی میں دفاتر ہو جانے سے اسے شاہی یا درباری زبان کا منصب نہیں رہا۔ گو حکامِ وقت پر

دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 35

اصولاً فرض ہے کہ وہ دیسی زبان میں اہل مقدمات کے حالات اور ان کے اظہار انہیں کی زبان سے سنیں تاکہ اصلی اور واقعی کیفیت معلوم ہو مگر کثرت کاراز دیر۔۔۔ قوانین آئے دن کے سرکلر، عدالت العالیہ کے نئے نئے فیصلوں کا مطالعہ انہیں ایک غیر زبان کے الفاظ پر توجہ ڈالنے اور اس کی تہ کو پہنچنے کے واسطے سد سکندر سے کم نہیں۔ اول تو غیر دیس کی زبان کا جلد آ جانا ہی دشوار ہے۔ دوسرے کام کی روز افزوں بیشی اتنی مہلت کب دیتی ہے کہ وہ اوقات پیشی کو چھوڑ کر اس طرف کامل توجہ فرمائیں اور دیسی زبان کی واقفیت سے اپنی معلومات بڑھائیں۔ پس یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی مادری انگریزی زبان میں کاروائی ہونے کو مقدم سمجھا۔ جس سے ہماری زبان کی مستحکم دیواروں میں ایک گونہ دراڑ پڑ گئی۔ اور یہ اندیشہ ہو گیا کہ کہیں پانی مرتے مرتے ایک دن یہ دیوار بیٹھ نہ جائے۔ چونکہ وجود بالا سے ہمارے اہل ملک کو لازم ہوا کہ وہ بھی شاہی زبان یعنی انگلستانی بولی کو اپنا رہبر بنائیں۔ پس وہ لوگ اپنی اصلی زبان کو چھوڑ کر اسقدر انگریزی پر جھک پڑے کہ دیسی زبان کی تصانیف تو کُجا اردو اخبارات کے پڑھے تک کو تصنیع اوقات سمجھنےلگے اور یہاں تک منہمک ہوئے کہ ان کی کوئی بات بھی انگریزی محاورے یا لفظ سے خالی نہیں ہوتی۔ غضب تو یہ کہ جن الفاظ کے مقابل میں ہماری زبان کے عمدہ اور سہل الخروج الفاظ موجود ہیں وہ انہیں یک لخت چھوڑ کر فخریہ انگریزی زبان کے غیر مانوس اور مشکل الفاظ اپنے روزمرہ میں ملائے چلے جاتے ہیں۔ شکریہ کی بجائے تھینکس۔ تعارف کی بجائے انٹروڈیوس۔ غیر حاضر کی بجائے ابسینٹ، حاضر کی بجائے پریزنٹ، چہل قدمی کی بجائے واک ان کی زبان پر سفاکانہ چڑھا ہوا ہے۔ اردو زبان کے حق میں یہی ایک خوفناک امر کہو یا خطرناک مرحلہ۔ گلوگیر ہے جس سے اندیشہ ہے کہ ہماری موجودہ زبان غائب نہ ہو جائے۔ چنانہ اسی خیال نے ہمیں ڈکشنری لکھنے پر آمادہ کیا کہ کسی روز ہمارے پیاری زبان کا بالکل نام و نشان نہ جاتا رہے۔ جن لوگوں نے اسے گودیوں میں کھلا کر پالا اور چونچال بنایا ہے، ان کی محنت اکارت نہ جائے۔ گو ہمکو مدراس، بمبئی، بنگالے کی زبان دیکھ کر گمان گزرتا ہے کہ جس طرح ان ملکوں کا بچہ بچہ انگریزی داں ہو کر اس زبان کو مدرٹنگ بنا دینے کی فکر میں ہے اور ہمارے ملک والوں نے بھی وہی ڈھچر ڈالدیا ہے ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ بھی اپنی زبان کو ہاتھ سے کھو بیٹھیں۔ مگر پھر بھی ہمار دل یہ گواہی نہیں دیتا کہ ہماری اردو زبان ہمارے ملک سے یکبارگی اٹھ جائے گی۔

ان ملکوں میں انگریزی زبان کے زیادہ رواج پانے کا سبب حکومت انگریزی کا وہاں سے شروع ہونا اور اول اول اسی جگہ ڈیرے خیمے ڈالدینا ہے۔ کیونکہ سب سے پہلے انگریز انہیں اطراف میں قرب سمندر کی وجہ سے ورود فرما ہوئے اور وہاں کے باشندوں کو انہیں سے واسطہ پڑا۔ مدراس میں بیشک انگریزی زبان مادری زبان کے قریب قریب ہو گئی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو وہاں عیسائی کثرت سے آباد ہیں۔ بستیاں کی بستیاں، گاؤں کے گاؤں، انہیں لوگوں سے بھرے پُرے ہیں۔ اس کے علاوہ مسلمان وہاں بہت کم اور ہندو بکثرت ہیں۔ جنہیں اس زبان سے کام ہی نہیں پڑتا۔مگر پھر بھی وہاں کی اصل زبانیں تلگو، تامل، کناری، ملیالم ملیامیٹ نہیں ہو گئیں۔ بمبئی میں اول تو وہی آغاز حکومت کی وجہ ہے۔ دوسرے انگریزی تجارت کے باعث سے اس زبان کا زیادہ چرچا ہو گیا۔ تیسرے وہاں کے لوگ بھی قریب قریب عموماً سب تجارت پیشہ، روزبار پیشہ، وکالت پیشہ اور سے کے سب دیسی حکام اسی کو کام میں لاتے ہیں۔ مگر پھر بھی وہاں کے گرد و نواح میں مرہٹی، جنوب میں کناری، خلیج کھمبایت کے آس پاس میں گجراتی بولی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اس زبان میں اکبارات بھی نکلتے ہیں۔

اب رہا بنگالہ۔ بمبئی اور اس کا بلحاظ تجارت و ابتدائے حکومت برطانیہ قریب قریب یکساں حال ہے۔ جسکی وجہ سے عموماً بنگال کے تمامباشندے انگریزی بولنے لگے ہیں۔ مگر اس صورت میں بھی بنگلہ زبان کو جو سنسکرت آمیز ہندی زبان ہے ترک نہیں کیا۔ اس میں بھی سیکڑوں اخبار نکلتے اور ہزاروں تعلیمی کتابیں برابر تصنیف ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ ان بواعث سے ہمیں اردو کی جانب سے مایوس ہو جانا قبل از مرگ واویلا ہے۔ ہر زمانہ میں ہر ایک ملک میں دو 2 زبانیں ضرور رہی ہیں۔ ایک درباری جس سے حضور ۔۔۔۔۔ عمائد، سرکاری ملازموں اور اہلکاروں کو ہر دم واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ دوسری عام جسے اہل ملک اپنے گھروں میں، اپنے خانگی معاملات میں۔ تجارے صنعت و حرفت وغیرہ کے مختلف پیشوں میں استعمال کرتے ہیں۔ اس دلیل سے بھی ہمارے زبان کو زوال نہیں آ سکتا۔ بلکہ اب تو ترقی کا (حف نظر) ایک اور سلسلہ نکل آیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ حضور نظام بادشاہ دکن نے اس کی سرپرسی (۱) اختیار کی ہے۔ جس سے بہت کچھ ترقی کی امید بندھی ہے۔ وہاں کے تمام دفاتر اردو میں کر دئے گئے۔ مگر خاص خاص عالیہ عدالتوں میں انگریزی انتظام کی تقلید اور انگریزی قوم کے ارکان ریاست کی سہولت کی غرض سے انگریزی میں بھی کاروائی ہوئی ہے۔ الغرض ہمارے ہندوستانیوں پر فرض ہے کہ وہ اس شیریں اور سلیس زبان کو جس کی تعریف میں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؂ ہے زباں ایک اور چار مزے – اس کی ہربات میں ہزار مزے۔ بالکل ترک نہ کر دیں۔ دیسی الفاظ کے ہوتے پر دیسی زبان کے الفاظ زبردستی اپنی زبان میں ٹھونس ٹھونس کر نہ بھریں۔ اس زبان کی تصانیف کو قدر کی نگاہ سے دیکھ کر اس کی ترقی کو ہمیشہ مد نظر رکھیں، تاکہ وہ روز بد نہ آئے کہ یہ زبان بھی مردہ زبانوں میں شمار ہونے لگے۔

دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 36

اس میں شبہ نہیں کہ کوئی زبان بھی از ازل تا ابد ایک ہی حالت پر برقرار، قائم اور سالم نہیں رہتی۔ زمانہ کے ساتھ ساتھ اپنا ڈیرہ ڈنڈا اٹھاتی جاتی ہے۔ مگر پھر بھی ہمیں اپنی زبان سے وہی محبت رکھنی چاہیے جو ماں باپ کو اپنے بچوں یا بچوں کو اپنے ماں باپ سے ہوتی ہے۔ کیونکہ زبانوں کا رنگ قرنوں میں بدلا کرتا ہے اور ان حسابوں ہمارے اردو زبان ابھی ابتدائی حالت میں ہے۔ اگرچہ بلحاظ اختلاط ہماری زبان کی بنیاد پڑے ڈھائی ہزار برس کے قریب زمانہ ہو گیا، مگر جب سے اس کا نام شاہجہانی اردو رکھا گیا۔ اس میں ایک خاص روش اور تراش خراش پیدا ہو گئی ہے جسے تین سو 300 برس سے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ لہذا بخیال قدامت پیری کا زمانہ و بلحاظ جدت عین شباب کا عالم ہے۔ اگر ہمارے ملک والوں نے اس کی محافظت نہ کی اور ایسے ہے بے پرواہ ہے تو عین شباب ہی میں ضعیف و ناتواں ہو کر عالم بالا کا رستہ لے گی۔

سبب تالیف

قطعہ

فارح کارِ جاہں نام ہے تیرواں تیرا
قاطع شرک ہے اول ہی سے پیماں تیرا
مایۂ نطق زباں سے سو عطا ہے تیری
کون سے منہ سے ہوں ممدوح ثنا خواں تیرا

میرے معزز دوستو! جانتے ہو؟ مجھے اردو لغات، محاورات، مصطلحات لکھنے کا کیوں شوق پیدا ہوا اور اس کی تدوین میں حاسدان زمانہ کے ہاتھوں سے کیسی کیسی تکلیفیں پہنچیں، کیا کیا مصیبتیں جھیلیں، کیسی کیسی تنگیاں اٹھائیں۔ عمر عزیز کا ایک بڑا حصہ یعنی تیس برس جو بظاہر لکھنے میں دو لفظ اور سننے میں دہ باتیں ہیں، مگر درحقیقت دو بڑے بڑے دن اور بڑی بڑی راتیں ہیں، کس طرح کھپا بیٹھا۔ جب ان دو انچھروں کی ترصیل اور باعث طویل پر نظر ڈالتے ہیں تو یہی ایک بہت بڑی داستان اور تمام عمر کی رام کہانی ہو گی ہے۔ کیونکہ لڑکپن کا کھیل کود میں نے اس کام کو سمجھا۔ ارمان بھری جوانی کا لطف اسے جانا۔ کمانے دھمانے کا فرضی دربار اسے تصور کیا۔ خود نما معترضوں کے اعترض سُنے۔ خود غرض مخالفوں کے اخبار اور رسالے پڑھے۔ جانبین کے طرفدار اخباروں کے مباحثے دیکھے۔ کسی نے منہ چڑایا۔ کسی نے دل دکھایا۔ اس کے سوا کسی کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔ ہماری مسافرت کے ہاتھوں باپ نے بچھڑنا، اولاد نے دنیا سے گزرنا شروع کیا۔ جن آنکھوں کے تاروں سے فروغ و فراغ کی امید تھی ان کے داغ کھائے۔ جوانی نے منہ چھپایا۔ عروسِ پیری نے منہ دکھایا۔ اس کی منہ دکھائی اس کے سوا کیا دیتا کہ تمام طاقت طاق اور توانائی نثار ہو گئی۔ آنکھوں کی بینائی اس کے بجز دوسری چیز کے دیکھنے روادار نہ رہی۔ رفتہ رفتہ اس نے بھی بے وفائی اختیار کر لی۔ ادھر جمع پونجی نے جواب دے دیا۔ ادھر قرضخواہوں نے حساب لیا۔ دوست پرست مطلب کے یاروں نے خود غرضانہ نالشیں کیں۔ ہم نے آہ و نالہ سے ان کا مقابلہ کیا اور فریادیں کیں۔ لیکن اسی کام کو نہ چھوڑا۔ اعضا تھکے مگر ہم نے تھکے۔ ایک ایک کوڑی ادا کی اور جسطرح بنا اپنی حاجت روا کی۔ کبھی صرف مسظلحاتِ اردو کا مجموعہ تیار کیا۔ 1871ء میں انجمن عرب سراے اس کی سرپرستی کو اٹھ کھڑی ہوئی۔ لیکن تھوڑے ہی دنوں میں اس کا چراغ گل ہو کر یہ مجموعہ اندھیر کوٹھری میں جا پڑا۔ انجمن کے رسالوں کی چیخم چاخ کچھ کام نہ آئی۔ کبھی ارمغان دہلی ایک بہت بڑی بسیط لغات مع محاورات و اصطلاحات لکھی۔ اس میں ایک ایک لفظ کی وجہ تسمیہ، زمانۂ تکوین اور اس کے مادوں پر بقدر معلومات و حسب سامان خداداد قلم فرسائی کی۔ کبھی لغات النسا تحریری کی اور اس میں عورتوں کے خاص خاص محاوروں یا اصطلاحوں کے سوا دوسری بات سے کام نہ رکھا۔ البتہ رسموں کی تشریح کر دی۔

لیکن جب روپے نے خاطر خواہ ہمارا ساتھ نہ دیا تو ارمغان کا خلاصہ کیا ہندوستانی اردو لغات کے نام سے رسالے نکالے۔ کئی برس تک یہی شغل رکھا۔ اس موقع پر تصنیف کے اچکوں نے سا نقصان پہنچایا ؂

کر کے ٹکڑے بیچنا گوہر شہیدی ظلم ہے
مشتری کم ماید تھے میرا سخن مٹی ہوا

غرض ان منتروں سے بھی دولت کا سانپ کسی کے خزانہ سے نہ ہٹا اور دولتمندوں کا دل ذرا نہ پسیجا۔ اخراجات سے تنگ کرتے چلے گئے۔ مگر جوں توں کر کے اس لنگڑے گولے دیو کو حرف سین کے آغاز تک پہنچا دیا۔ 1888ء کا زمانہ تھا کہ ایک فرشہ غیب دکھنی لباس میں شملہ پر ورود فرما ہوا۔ محمد مظہر الدین خاں اپنا نام اور سر آسماں جاہ اپنا خطاب بتایا۔ میں نے اس آسمان شوکت کو مظہر قدرت اور اپنی لغات کا پورا پورا سر پرست پایا۔ اس کے ساتھ بڑے برے عالم مبتحر، ادیب لاجواب، ہر فن اور ہر زبان کے مستند استادوں یعنی علوم مغربی اور مشرقی کے چمکتے ہوئے ستاروں کا جھرمٹ تھا۔ اس کے دم قدم کی روشنی ایسی پھیلی کہ ہماری تقدیر کا لکھا کسی روک ٹوک بغیر ان کی نظر سے گزر گیا۔ خود بھی غائر نظر سے دیکھا اور ہمراہی مبصروں کو بھی جانچ پڑتال کرنے کا حکم دیا۔ اب کیا تھا گویا برباد شدہ گھر از سر نو آباد ہوا۔ یعنی اس وقت سے ہماری نا مکمل زبان کے دن پھرے اور قالب موجدہ میں فرہنگ آصفیہ کی بھٹکتی ہوئی روح نے حلول کیا۔ اگر اس وقت کی مفصل کیفیت دیکھی منظور ہو تو جلد چہارم کے آخر میں جو گذارش موسوم بہ پیکر خیال ہے اسے ملاحظہ فرمائیے اور ایک طرح کا نیا لطف اٹھائیے۔ اس لغات کا رونا تو بہت سا تھا۔ جسے کچھ تو جلد چہارم کے آخر میں ہم نے رویا اور کچھ تقاریظ وغیرہ میں ہمارے دوستوں نے اس طرح

دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 37

وہ محاورے میں اور جو کسی مثال سے تعلق رکھتی ہے وہ مثال میں لکھ دی ہے۔ ہر ایک محاورے کی مثالیں انہیں لوگوں کی بول چال میں دی ہیں جن سے وہ متعلق ہے۔ بچوں کے کھلانے کے فقرے، لوریاں کھیل وغیرہ بھی کہیں مثال میں کہیں ترتیب میں جہاں جیسا مناسب وا ہے لکھے گئے ہیں۔ عورتوں کے مہینے بھی بھی مع وجہ تسمیہ اور وقت رواج داخل کئے گئے ہیں۔ بھنگڑ اس میں دھرے ہیں۔ شرابی اس میں ہنگار رہے ہیں۔ ضلع، علجگت، چھند، مرہ:ٹی، ہارے، انملیاں، دو سخنے کہہ مکرنیاں جو کچھ چاہو اس میں نکال سکتے ہو۔ صرف خلو لجی ہی نہیں بلکہ فلاسفی سے بھی اس میں بہت کچھ مدد لی ہے۔ اور جو محاورے آیندہ رواج پانے کے قابل ہیں۔ ان پر بھی لحاظ کیا ہے۔

غرض اکثر ضروری عربہ الفاظ کے ساتھ عربی مادے، ہندی کے ساتھ ہندی، ترکی کے ساتھ ترکی، انگریزی کے ساتھ انگریزی لکھے ہیں۔ اور جہاں تک ہماری عقل، ہمارے تجربے، ہمارے واقفیت نے کام دیا ہے، وہاں تک ہم نے اصطلاحوں کی وجہ تسمیہ اور اکثر لغت کے مخرج اور ہر ایک فعل کے اشتقاق کو بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا ہے۔ اور چُک کی جو پوچھو تو انسان کی سرزت میں پڑی ہوئی ہے۔ اعتراض سے تو آجتک کوئی دنیا میں بچا ہے نہ بچے گا۔ لوگوں کلام الٰہی اور احادیث و پیغمبران الٰہی کو نہ چھوڑا تو ہماری کیا اصل و حقیقت ہے۔

؂ میں ہوں بشر کلام بشر ہے مرا کلام
حاسد کو اعتراض ہو حق کے کلام پر

اگر ان باتوں سے ڈرا کریں تو کوئی کام بھی دنیا میں نہ کر سکیں۔ بارہا ایسا ہوا ہے کہ جن باتوں پر ابتدا میں لوگوں نے اعتراض جڑا ہے اخیر کو تجربے کے بعد وہی ماننی پڑی ہیں۔ اب تو

؂ جس روش میں کی خرامش خواہ نیک و خواہ بد
اس میں جد و جہد تا سر حدِ امکاں چاہیے

ہاں اگر افسوس آتا ہے تو اس پات پر آتا ہے۔

؂ جو ایک عیب ہو دیکھیں ہزار غور سے یار
ستم ہے لاکھ ہنر پر نظر کسی کو نہ ہو

قصہ مختصر، ہم نے نہ عیب چینوں کا خوف کیا، نہ خردہ بینوں کی پروا۔ جیسی بری یا بھلی اپنی پیاری مادری زبان کی خدمت بن پڑی وہ کر دی۔ آیندہ جو اس کام کے اہل اور سچے خیر خواہ ہوں گے وہ ترقی دے لیں گے۔

قطعہ

اے اہل خیر کچھ تو ادھر بھ کہ بیٹھے ہیں
کب سے دعائے خیر کے امیدوار ہم
جو کچھ بنا کسی سے وہی چھوڑا بہر یاد
اپنی لغات چھوڑ چلے یادگار ہم

سید احمد دہلوی، مؤلفِ فرہنگ آصفیہ، دہلی کوچۂ پنڈت۔ اگست 1908ء

شکریہ

سرپرستان و معاونان فرہنگ آصفیہ

کیا ایسے دریا دلوں، حاتم سے بڑھکر سخیوں،کریم النفس علم دوست، ہنر پورو بادشاہوں کے احسان کا دل باؤل ہمارے اور ہمارے ملک والوں کے سروں پر چھایا ہوا نہیں ہے؟ جنہوں نے ہندوستان کی عام اور نامکمل، خاص ٹکسالی زبانوں کو ناقص رہ جانے کے داغ سے بال بال بچا لیا۔ جس بات کی کمی تھی جامع لغات کو مدد دیکر پورا کرا دیا۔ شعر

بِن سخاوت انہیں قرار کہاں
کہ ہے عادت طبیعتِ ثانی

کیا ایسے وازرت مآب و ارکان فلاطوں انتساب کا شکریہ واجب نہیں؟ کہ جنہوں نے اپنی توجہ دلی، ہمت عالی اور فراغ حوصلگی سے فرہنگ آصفیہ جیسی مبسوط لغات کی اشاعت کا سامان بہم پہنچا دیا۔ شعر

قدر ہنر کو چاہیے عقل و تمیز و درک و فہم
دست کشادہ دل فراغ منعمہ و تونگری

کیا ایسے بڑے محققوں، علم اللسان کے ماہروں، قوم اور ملک کے قابل فخر فاضلوں کا شکر گزار ہونا لازم نہیں؟
 
شکریہ شمشاد بھائی۔ جلد ہی اسے بھی شائع کریں گے۔ اس سے قبل جلیل مانک پوری کے لغت کا مقدمہ بھی شائع کیا جا چکا ہے۔
 
Top