دیارِ حبیب صلی الله علیہ وآلہ وسلم

ام اویس

محفلین
مسجد نبوی کے اہم مقامات:
محرابِ نبوی صلی الله علیہ وسلم
مسجد کے مسجد ہونے کے لیے کوئی مخصوص شکل و وضع لازم نہیں کی گئی، لیکن چند چیزیں مسجد کی مخصوص علامت کی حیثیت میں معروف ہیں، ایک ان میں سے مسجد کی محراب ہے، جو قبلہ کا رُخ متعین کرنے کے لیے تجویز کی گئی ہے۔

حافظ بدرالدین عینی رحمہ اللہ ”عمدۃ القاری“ میں لکھتے ہیں:

ترجمہ:…”اور ابوالبقاء نے ذکر کیا ہے کہ جبریل علیہ السلام نے کعبہ کی سیدھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے محراب بنائی اور کہا گیا ہے کہ یہ معائنہ کے ذریعہ ہوا، یعنی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے پردے ہٹادیے گئے اور صحیح حال آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر منکشف ہوگیا، پس آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کو دیکھ کر اپنی مسجد کا قبلہ رُخ متعین کیا۔“

(عمدة القاري شرح بخاری، الجزء الرابع ص:۱۲۶، طبع دارالفکر، بیروت)

اس سے دو امر واضح ہوتے ہیں۔

اوّل یہ کہ محراب کی ضرورت تعینِ قبلہ کے لیے ہے، تاکہ محراب کو دیکھ کر نمازی اپنا قبلہ رُخ متعین کرسکے۔

دوم یہ کہ جب سے مسجدِ نبوی کی تعمیر ہوئی، اسی وقت سے محراب کا نشان بھی لگادیا گیا، خواہ حضرت جبریل علیہ السلام نے اس کی نشان دہی کی ہو، یا آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بذریعہ کشفِ وحی خود ہی تجویز فرمائی ہو۔

سیرت طیبہ اور اسلامی تاریخ میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کے بعد 16 یا 17 ماہ تک بیت المقدس کا رخ کرکے نمازیں ادا کرتے رہے تھے۔

احادیث کی معتبر ترین کتابوں بخاری اور مسلم شریف میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو 16 یا 17 ماہ تک بیت المقدس کا رخ کرکے نماز ادا کرتے رہے تھے۔ اس وقت امام کے کھڑے ہونے کی جگہ مسجد کے آخر میں باب عثمان کے بالمقابل شمال کی جانب تھی۔
سولہ یا سترہ ماہ بعد قبلہ تبدیل ہوا۔ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کے حکم پر بیت المقدس کے بجائے خانہ کعبہ کا رخ کرکے نماز پڑھنا شروع کردیا۔ اس موقع پر امام کی جائے نماز مسجد نبوی کے شمالی حصے سے جنوبی حصے میں منتقل کردی گئی تھی۔ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے چند روز تک عائشہ صدیقہ رضی الله عنھا کے نام سے منسوب ستون کے پاس نماز کی امامت کرائی تھی۔

البتہ یہ جوف دار (نصف گنبد یا گنبد نما) محراب جو آج کل مساجد میں ”قبلہ رُخ“ ہوا کرتی ہے، اس کی ابتدا خلیفہٴ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اس وقت کی تھی جب وہ ولید بن عبدالملک کے زمانے میں مدینہ طیبہ کے گورنر تھے۔
(وفاء الوفاء ص:۵۲۵ وما بعد)
یہ صحابہ رضوان الله علیھم اجمعین وتابعین ؒ کا دور تھا، اور اس وقت سے آج تک مسجد میں محراب بنانا مسلمانوں کا شعار رہا ہے۔

البحر الرائق میں ہے:
ترجمہ:…”اور قبلہ کا رُخ کسی علامت سے معلوم ہوسکتا ہے، اور شہروں اور آبادیوں میں قبلہ کی علامت وہ محرابیں ہیں جو صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم اجمعین نے بنائیں، پس بنی ہوئی محرابوں میں ہم پر ان کی پیروی لازم ہے۔“

یعنی یہ محرابیں، جو مسلمانوں کی مسجدوں میں صحابہ کرام و تابعینؒ کے زمانے سے چلی آتی ہیں، دراصل قبلہ کا رُخ متعین کرنے کے لیے ہیں، اور اُوپر گزر چکا ہے کہ استقبالِ قبلہ ملتِ اسلامیہ کا شعار ہے، اور محراب جہتِ قبلہ کی علامت کے طور پر مسجد کا شعار ہے، (اور اس سے امام کا وسط میں کھڑا ہونے اور صفوں کا درمیان بھی معلوم ہوتا ہے)۔

محراب لفظ کا استعمال

’’لغت‘‘ کا تعلق سماع سے ہے، یعنی جس لفظ کا معنی اہلِ لغت سے جوسنا گیا ہے وہ اسی معنی میں مستعمل ہوگا، لغت میں قیاس نہیں کیا جاسکتا۔

لفظ ”حرب“ کے مادہ میں تین حروف ہیں، ”ح، ر، ب“ اس مادہ اشتقاق میں تین معنی پائے جاتے ہیں۔

(1) سلب، (2) رینگنے والے کیڑے (3) بعض مجالس، بیٹھک۔

پھر ان تینوں اصول سے مختلف معنوں کے لیے یہ مادہ استعمال ہوتا ہے، جنگ، لڑائی اور بہادری کے لیے ”حرب“ استعمال ہوتا ہے، اور یہ پہلے اشتقاق سے ہے یعنی سلب والے معنی سے، اور کیڑے اور رینگنے والے جانوروں وغیرہ کے لیے اسی مادہ سے ”حرباء“ استعمال ہوتا ہے، اور اس مادہ سے تیسرا لفظ ”محراب“ استعمال ہوتا جو مجالس اور بیٹھک کے معنی میں ہے۔

پھر محراب کے مختلف معنی ہیں، لیکن ان سب میں بیٹھک اور مجلس والا معنی اس کے اندر موجود ہوگا:
محراب کے چند معانی یہ ہیں:

(1)کمرہ (2) بالا خانہ (3) گھر کی اچھی اور معزز جگہ (4) گھر کا صدر مقام یا ابتدائی حصہ جہاں معزز لوگ بیٹھتے ہیں (5) محل ، (6) مسجد یا مکان کی بلند جگہ (7)بادشاہ کی بیٹھک، جہاں وہ تنہا بیٹھتا ہے۔

انہی معنی کے پیشِ نظر امام کے کھڑے ہونے کی جگہ کو ”محراب‘‘ کہتے ہیں، اس لیے کہ وہ مسجد میں سب سے معزز جگہ ہوتی ہے، اور جس طرح بادشاہ جہاں تنہا بیٹھتا ہے اس کو محراب کہتے ہیں، اسی طرح چوں کہ امام وہاں تنہا اور اکیلا ہوتا ہے؛ اس لیے اس کو محراب کہتے ہیں۔

اور اگر اس کو حرب یعنی جنگ کے معنی سے لیں تو بھی بعض علماء نے اس کی یہ توجیہہ ذکر کی ہے کہ محراب میں امام کی شیطان سے جنگ ہوتی ہے، اس لیے اس کو محراب کہتے ہیں۔

مسجدِ نبوی میں مختلف ادوار میں بہت سی محرابیں تعمیر کی گئیں، جن میں سے چند یہ ہیں۔

مسجد نبوی میں ایک محراب 888 سن عیسوی میں سلطان قايتبای کے دور میں تعمیر کی گئی تھی۔

خادم الحرمین الشریفین شاہ فھد بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور 1404ه۔ میں بڑے پیمانے پر اس محراب کی تعمیر ومرمت کا کام سرانجام دیا گیا کیونکہ اس کا سنگ مرمر اور موزیک بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا تھا۔

محراب تہجد رسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلم

محراب تہجد رسول اللہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے جائے نماز کے باہر شمالی کھڑکی کے قریب واقع ہے۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ محراب تہجد 643 ھ کو وفات ابن النجار کے عہد میں موجود تھی۔

اس محراب میں قايتباي اور پھر المجیدیہ طرز تعمیر کے اندر تجدید کی گئی۔ انھوں نے سرخ پتھر کے ایک ٹکڑے پر آیات تہجد لکھوا کر اس پر سونے کا پانی چڑھوایا۔ یہ محراب آج بھی موجود ہے، تاہم یہ مصحف کے لیے مخصوص ریک کے پیچھے چھپ گئی ہے۔

محراب ’’فاطمہ‘‘

محراب ’’فاطمہ‘‘ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی جائے نماز کے اندر واقع ہے۔ یہ محراب ایک خالی ستون پر مملوکی دور میں تعمیر کی گئی اور اس کی شکل محراب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتی جلتی ہے۔

محراب عثمانی

محراب عثمانی مسجد نبوی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی قبلہ سمت دیوار میں بنائی گئی۔
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہاں مسلمانوں کی امامت کا فریضہ انجام دیتے تھے۔
مسجد نبوی کی توسیع کے بعد الولید بن عبدالملک نے (91ھ) میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی جائے نماز پر ایک محراب تعمیر کر دی کیونکہ حضرت عثمان رضي الله کے دور میں محرابیں نہیں تھیں، پھر سلطان قايتباي نے (888ھ) کو اس میں موجودہ حد تک وسعت دی۔

محراب سلیمانی

مسجد نبوی میں محراب سلیمانی بھی اپنی مثال آپ ہے۔ یہ منبر رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے تیسرے ستون کے پاس محراب نبی کی دائیں جانب واقع ہے۔ نویں صدی ہجری کے اواخر میں اسے طوغان شیخ نے 860ھ میں تعمیر کروایا اور اس میں محمد بن ابراہیم بن احمد الحنفی نامی حنفی امام مقرر کیا، اس نسبت سے اسے الحنفی محراب کہا جاتا ہے۔
بعد ازاں (948ه۔) میں اسے سلطان سلیمان خان المعروف القانونی نے از سر نو بنوایا۔ اس میں سفید اور سیاہ سنگ مرمر لگوائے، جس کے بعد اس کا نام محراب سلیمانی مشہور ہو گیا۔

جمع و ترتیب : نزہت وسیم
 

ام اویس

محفلین
گنبدِ خضرا اور روضہ مبارک کا اندرونی منظر:
سبز گنبد مسجدِ نبوی کی سب سے نمایاں تعمیرات میں سے ایک ہے۔ اسے نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی قبروں کے اوپر بنایا گیا ہے۔

'جو سبز گنبد ہم آج دیکھتے ہیں وہ درحقیقت حضرت عائشہ رضی الله عنھا کے کمرے کے اوپر موجود باہری گنبد ہے۔ اس کے اندر ایک اور گنبد ہے جو اس سے کہیں چھوٹا ہے اور اس پر پیغمبرِ اسلام، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے نام کندہ ہیں۔'

علی بن احمد السمھودی اپنی کتاب وفا الوفا میں لکھتے ہیں کہ پیغمبرِ اسلام کی قبر پر پہلا گنبد 650 سال کے بھی بعد بنایا گیا تھا اور سب سے پہلا گنبد 1279 (678 ہجری) میں سلطان قلاوون نے بنوایا تھا اور یہ لکڑی کا تھا۔

یہ نیچے سے چوکور اور اوپر سے آٹھ کونوں کی ساخت کا حامل تھا۔ جزیرہ انسائیکلوپیڈیا کے مطابق جل جانے کے بعد ایک سے زائد مرتبہ از سرِ نو تعمیر کیا گیا اور عثمانی سلطان غازی محمود نے اسے دوبارہ تعمیر کروایا۔

روضہ اطہر پر بنایا گیا گنبد مملوک سلطان سیف الدین قلاوون کے دور 1279ء بمطابق 678ھ میں تعمیر کروایا گیا۔ اصل ساخت میں لکڑی استعمال کی گئی تھی۔ ہر نئے حکمران کی طرف سے بحالی کے کاموں کے دوران مختلف رنگ کئے جاتے رہے۔ 1481ء میں مسجد نبویؐ میں آگ لگی، جس کے نتیجے میں گنبد بھی جل گیا۔ گنبد کی دوباہ تعمیر کا کام مملوک سلطان قائتبائی نے شروع کیا۔ اس مرتبہ ایسے حادثات سے بچائو کیلئے لکڑی کے بجائے اینٹوں کا ڈھانچہ بنایا گیا اور لکڑی کے گنبد کی حفاظت کیلئے سیسہ کا استعمال کیا گیا۔

رفعت پاشا کی ڈائریاں، جلد اول، صفحہ 464 سے 465 کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر اختر بتاتے ہیں کہ 1837 میں سبز پینٹ کیے جانے سے قبل اسے طویل ترین عرصے تک سفید اور بعد میں بینگنی نیلے رنگ سے پینٹ کیا گیا تھا۔

سولہویں صدی میں عثمانی سلطان سلیمان اعظم نے گنبد کو سیسے کی چادروں کے ساتھ مڑھوایا۔ پھر 1818ء میں عثمانی سلطان محمود بن عبدالحمیدؒ نے اسے سبز رنگ کروایا۔ اس کے بعد سے یہ ایسا ہی ہے۔ اسی سبز رنگ کی وجہ سے اسے ’’گنبد خضرا‘‘ اور ’’القبۃ الخضرا‘‘ (Green Dome) کہا جاتا ہے۔ یہ گنبد فن تعمیر کا ایک شاہکار ہونے کے ساتھ مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن ہے۔
1925ء میں جب آل سعود نے مدینہ منورہ کو فتح کیا تو مقامی علما کے حکم پر جنت البقیع میں قبور پر بنے تمام گنبد گرا دیئے گئے۔ کیونکہ شرعاً قبروں پر گنبد وغیرہ بنانا جائز نہیں ہے۔ پھر انہوں نے گنبد خضرا کے بھی انہدام کا ارادہ کیا۔ جس سے دنیا بھر کے مسلمانوں میں بے چینی پھیل گئی۔ مختلف ممالک کے علما نے انہیں منع کیا تو انہوں نے مناظرے کا چیلنج دیا۔ اس دوران ہندوستان سے بھی علما کا ایک وفد سعودی عرب پہنچا۔ شامی، عراقی اور ترک علما پہلے سے موجود تھے۔ تمام علما نے مناظرے کیلئے ہندوستانی وفد کے رکن علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کو آگے کر دیا۔ انہوں نے ناقابل تردید دلائل سے عرب علما کو قائل کرلیا کہ گنبد خضرا کو نہیں گرایا جا سکتا۔ یوں گنبد خضرا کے انہدام کا ارادہ ملتوی کر دیا گیا۔

گنبد خضریٰ کے نیچے دو حجرے موجود ہیں ایک حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور دوسرا حجرا مبارک حضرت فاطمہ الزاھرا رضی اللہ عنہا کا ہے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حجرا مبارک کے اندر محراب بھی موجود ہے۔

دونوں حجرات کے اندر مختلف دیواریں ہیں جو کہ مختلف ادوار میں مسلم رہنماؤں کی جانب سے تعمیر کی گئی ، ان دیواروں سے آگے جانے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ ان دیواروں سے آگے قباۃ النور(گنبد نور)موجود ہے جو کہ گنبد خضریٰ کے بالکل نیچے موجود ہے۔ جس میں گنبد خضریٰ کے جیسی ایک کھڑکی موجود ہے کہا جاتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی قبر انور تک جانے کا بس یہی ایک راستہ ہے ۔

قباۃ النور کی کھڑکی کو کھولا جائے تو اس کے بعد سامنے وہی چھت نظر آتی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانے سے کھجور کے پتوں اور اونٹ کی کھال سے بنائی گئی ہے اور اس چھت مبارک کے نیچے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی قبر انور موجود ہے جہاں تک جانے کی کسی کو اجازت نہیں۔ قبر انور کو آخری دفعہ کنگ عبداللہ کے دور میں خدمت کیلئے کھولا گیا تھا۔

گنبد خضریٰ کا ماڈل متحف دارالمدینہ نامی میوزیم میں رکھا گیا ہے۔ جس طرح عام طور پر تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوجاتی ہیں کہ قبر انور پر عمامہ شریف رکھا گیا ہے وہ تمام تصاویر حقیقت سے دور ہیں۔ مسجد نبوی کا وہ حجرہ شریف جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دو اصحاب رضی اللہ عنہما کی قبریں ہیں، اس کے ارد گرد چہار دیواری ہے اسی سے متصل ایک اور دیوار ہے جو پانچ دیواروں پر مشتمل ہے۔ یہ پانچ کونوں والی دیوار حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے بنوائی تھی۔ اور اس کے پانچ کونے رکھنے کا مقصد اسے خانہ کعبہ کی مشابہت سے بچانا تھا۔ اس پنج دیواری کے گرد ایک اور پانچ دیواروں والی فصیل ہے۔ اس پانچ کونوں والی فصیل پر ایک بڑا سا پردہ یا غلاف ڈالا گیا ہے۔ یہ سب دیواریں بغیر دروازے کے ہیں،لہذا کسی کے ان دیواروں کے اندر جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔روضہ رسولؐ کی اندر سے زیارت کرنے والے بھی اس پانچ کونوں والی دیوار پر پڑے پردے تک ہی جا سکتے ہیں۔
روضہ رسولؐ پر سلام عرض کرنے والے عام زائرین جب سنہری جالیوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو جالیوں کے سوراخوں سے انہیں بس وہ پردہ ہی نظر آ سکتا ہے، جو حجرہ شریف کی پنج دیواری پر پڑا ہوا ہے۔اس طرح سلام پیش کرنے والے زائرین اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قبر اطہر کے درمیان گو کہ چند گز کا فاصلہ ہوتا ہے لیکن درمیان میں کل چار دیواریں حائل ہوتی ہیں۔
ایک سنہری جالیوں والی دیوار، دوسری پانچ کونوں والی دیوار، تیسری ایک اور پنج دیواری، اور چوتھی وہ چار دیواری جو کہ اصل حجرے کی دیوار تھی۔گزشتہ تیرہ سو سال سے اس پنج دیواری حجرے کے اندر بھی کوئی نہیں جا سکا ہے سوائے دو مواقع کے۔ ایک بار 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ کے دور میں ان کا غلام اور دوسری بار 881 ہجری میں معروف مورخ علامہ نور الدین ابو الحسن السمہودی کے بیان کے مطابق وہ خود۔
مسجد نبوی میں قبلہ کا رخ جنوب کی جانب ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا روضہ مبارک ایک بڑے ہال کمرے میں ہے۔ بڑے ہال کمرے کے اندر جانے کا دروازہ مشرقی جانب ہے یعنی جنت البقیع کی سمت۔یہ دروازہ صرف خاص شخصیات کے لیے کھولا جاتا ہے۔ اس دروازے سے اندر داخل ہوں تو بائیں جانب حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالی عنہا کی محراب ہے۔ اس کے پیچھے ان کی چارپائی (سریر) ہے۔
العربیہ ویب سائٹ نے محقق محی الدین الہاشمی کے حوالے سے بتایا کہ ہال کمرے میں روضہ مبارک کی طرف جائیں تو سبز غلاف سے ڈھکی ہوئی ایک دیوار نظر آتی ہے۔ 1406 ہجری میں شاہ فہد کے دور میں اس غلاف کو تبدیل کیا گیا۔اس سے قبل ڈھانپا جانے والا پردہ 1370 ہجری میں شاہ عبد العزیز آل سعود کے زمانے میں تیار کیا گیا تھا۔ مذکورہ دیوار 881 ہجری میں اُس دیوار کے اطراف تعمیر کی گئی جو 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے تعمیر کی تھی۔ اس بند دیوار میں کوئی دروازہ نہیں ہے۔ قبلے کی سمت اس کی لمبائی 8 میٹر، مشرق اور مغرب کی سمت 6.5 میٹر اور شمال کی جانب دونوں دیواروں کی لمبائی ملا کر 14 میٹر ہے۔
آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک کی کوئی تصویر دنیا میں موجود نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 91 ہجری سے لے کر 881 ہجری تک تقریباً آٹھ صدیاں کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قبر مبارک کو نہیں دیکھ پایا۔ اس کے بعد 881 ہجری میں حجرہ مبارک کی دیواروں کے بوسیدہ ہو جانے کے باعث ان کی تعمیر نو کرنا پڑی۔ اس وقت نامور مورخ اور فقیہ علّامہ نور الدین ابو الحسن السمہودی مدینہ منورہ میں موجود تھے، جنہیں ان دیواروں کی تعمیر نو کے کام میں حصہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں 14 شعبان 881 ھ کو پانچ دیواری مکمل طور پر ڈھا دی گئی۔ دیکھا تو اندرونی چار دیواری میں بھی دراڑیں پڑی ہوئی تھیں، چنانچہ وہ بھی ڈھا دی گئی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اب مقدس حجرہ تھا۔ مجھے داخلے کی سعادت ملی۔ میں شمالی سمت سے داخل ہوا۔ خوشبو کی ایسی لپٹ آئی جو زندگی میں کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ میں نے رسول اللہ اور آپ کے دونوں خلفاء کی خدمت میں ادب سے سلام پیش کیا۔ مقدس حجرہ مربع شکل کا تھا۔ اس کی چار دیواری سیاہ رنگ کے پتھروں سے بنی تھی، جیسے خانہ کعبہ کی دیواروں میں استعمال ہوئے ہیں۔ چار دیواری میں کوئی دروازہ نہ تھا۔میری پوری توجہ تین قبروں پر مرکوز تھی۔ تینوں سطح زمین کے تقریباً برابر تھیں۔ صرف ایک جگہ ذرا سا ابھار تھا۔ یہ شاید حضرت عمر کی قبر تھی۔ قبروں پر عام سی مٹی پڑی تھی۔ اس بات کو پانچ صدیاں بیت چکی ہیں، جن کے دوران کوئی انسان ان مہر بند اور مستحکم دیواروں کے اندر داخل نہیں ہوا۔
علامہ نور الدین ابو الحسن علی بن احمد سمہودی نے اپنی کتاب وفاءالوفاء میں حجرہ نبوی کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ”اس کا فرش سرخ رنگ کی ریت پر مبنی ہے۔ حجرہ نبوی کا فرش مسجد نبوی کے فرش سے تقریبا 60 سینٹی میٹر نیچے ہے۔اس دوران حجرے پر موجود چھت کو ختم کر کے اس کی جگہ ٹیک کی لکڑی کی چھت نصب کی گئی جو دیکھنے میں حجرے پر لگی مربع جالیوں کی طرح ہے۔ اس لکڑی کے اوپر ایک چھوٹا سا گنبد تعمیر کیا گیا جس کی اونچائی 8 میٹر ہے اور یہ گنبد خضراء کے عین نیچے واقع ہے“۔یہ ساری معلومات معروف کتاب ”وفاء الوفاء با اخبار دار المصطفی“مؤلفہ علی بن احمد السمہودی میں درج کی ہے-

حجرے کی جالیاں
سب سے پہلے 668 ہجری میں جس شخصیت نے حجرے کی جالیاں تعمیر کرائیں وہ مملوک سلطنت کا پہلا نامور حکم راں رکن الدین بیبرس تھا۔ اس نے دیواروں کے چاروں طرف فولادی جالیوں کو نصب کروایا۔
یہ فولادی جال 13 رمضان 886 ہجری کو حرمِ نبوی میں دوسری آگ لگنے کے واقعے سے پہلے تک موجود رہا۔ اس کے بعد پرانے جال کو ہٹا دیا گیا اور اس کی جگہ 88 ہجری میں سنہری جالیاں نصب کی گئیں۔ ان پر سلطان قایتبای کا نام لکھا ہوا ہے.. اس نے روضہ مبارک میں موجود محراب پر وہ ہی عبارت تحریر کرائی۔ اس کے علاوہ گنبد خضراء کی تعمیر کرائی جو پہلے سفید رنگ کا تھا اور اُس وقت " گنبدِ فیحاء" کے نام سے معروف تھا۔
جمع و ترتیب: نزہت وسیم
 
Top