فوزیہ افضل
محفلین
تیری دنیا میں یارب کیا نہیںاگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لا مکاں خالی
خطا کس کی ہے یا رب لا مکاں تیرا ہے یا میرا
یارب
مگر میرے لئے دنیا نہیں ہے
یہ آزار جنوں اچھا نہیں
مگر اس کے سوا چارہ نہیں ہے
جنوں
تیری دنیا میں یارب کیا نہیںاگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لا مکاں خالی
خطا کس کی ہے یا رب لا مکاں تیرا ہے یا میرا
یارب
کشمکشِ حیات ہے‘ سادہ دلوں کی بات ہےتیری دنیا میں یارب کیا نہیں
مگر میرے لئے دنیا نہیں ہے
یہ آزار جنوں اچھا نہیں
مگر اس کے سوا چارہ نہیں ہے
جنوں
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگکشمکشِ حیات ہے‘ سادہ دلوں کی بات ہے
خواہشِ مرگ بھی نہیں ‘ زہرِ سکوں بھی چاہیے
ضربِ خیال سے کہاں ٹوٹ سکیں گی بیڑیاں
فکرِ چمن کے ہم رکاب‘ جوشِ جنوں بھی چاہیے
نغمہِ شوق خوب تھا‘ ایک کمی ہے مُطربہ!
شعلہِ لَب کی خیر ہو‘ سوزِ دُروں بھی چاہیے
شکیب جلالی
سوزِ دُروں
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مُشتِ خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اس دُرج کا دُرِ مکنوں
مکالماتِ افلاطوں نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرارِ افلاطوں
شرار
گُلزارِ ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ |
آیا ہے تو جہاں میں مثالِ شرار دیکھ دَم دے نہ جائے ہستیِ نا پائدار دیکھ |
مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں تُو میرا شوق دیکھ، مرا انتظار دیکھ |
انتظار |
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
گُلزارِ ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ
ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ
آیا ہے تو جہاں میں مثالِ شرار دیکھ
دَم دے نہ جائے ہستیِ نا پائدار دیکھ مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
تُو میرا شوق دیکھ، مرا انتظار دیکھ
انتظار
وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیزباغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
علامہ اقبال
بہشت
یہیں بہشت بھی ہے، حور و جبرئیل بھی ہےباغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
علامہ اقبال
بہشت
تو ہم نفس ہے نہ ہمسفر ہے ،کسے خبر ہے کہ تو کدھر ہےسنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت
مکیں ادھر کے بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں
احمد فراز
مکیں
وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز
سوائے بادۂ گلفام مشک بو کیا ہے
مرزا غال
میں چاہوں میرے دل کا لہو کسی کام آجائےوہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز
سوائے بادۂ گلفام مشک بو کیا ہے
مرزا غالب
گلفام
موسم چاہے چہروں کو گلفام نہ رکھنا
عرفان صدیقی
موسم
ناز کی اس کے لب کی کیا کہیےموسم
نہ مرے زخم کھلے ہیں نہ ترا رنگ حنا
موسم آئے ہی نہیں اب کے گلابوں والے
احمد فراز
گلاب
ناوک ناز سے مشکل ہے بچانا دل کاناز کی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
میر تقی میر
ناز
تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کر لےناوک ناز سے مشکل ہے بچانا دل کا
درد اٹھ اٹھ کے بتاتا ہے ٹھکانا دل کا
امیر مینائی
ٹھکانا
اے شب ہجراں زیادہ پاؤں پھیلاتی ہے کیوںتو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے
ہم تو کل خواب عدم میں شب ہجراں ہوں گے
مومن خاں مومن
شب ہجراں
تھکنے لگے جو پاؤں تو یوں راہ طے ہوئیاے شب ہجراں زیادہ پاؤں پھیلاتی ہے کیوں
بھر گیا جتنا ہماری عمر کا پیمانہ تھا
ناطق گلاوٹھی
پاؤ ں
ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیالتھکنے لگے جو پاؤں تو یوں راہ طے ہوئی
اس انجمن میں اہل وفا سر کے بل گئے
انجمن
حذیفہؔ حشر میں بے بس تلاشِ یار میں ہو گاہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو
مرزا غالب
محشر
یقیناً ہے کوئی ماہ منور پیچھے چلمن کےحذیفہؔ حشر میں بے بس تلاشِ یار میں ہو گا
اسے ماہِ منور تب کہیں چہرہ دکھائیں گے
محمد حذیفہ
ماہ منور
جب خیال آیا مجھے تیرے رخ پر نور کایقیناً ہے کوئی ماہ منور پیچھے چلمن کے
کہ اس کی پتلیوں سے آ رہا ہے نور چھن چھن کے
رنجور عظیم آبادی
نور