دیئے گئے لفظ پر شاعری - دوسرا دور

صاد الف

محفلین
آنکھ میں بوند بھر جو پانی ہے
پیار کی ۔،اِک یہی نشانی ہے

دن بدلے مہینوں میں ،مہینے بن گئے آخرسال
نہ آیا اُس کو میرا خیال ، نہ آیا اُس کو میرا خیال

آیا
دیکھا ہلالِ عید تو آیا تیرا خیال ۔۔ ۔۔
وہ آسماں کا چاند ہے تو میرا چاند ہے

ہلال
 
کچھ اور دے نہ پائے زمانہ۔۔کو ہم ہلالؔ
پیغام امن دیں گے اسی شاعری سے ہم
ہلؔال بدایونی کے چند دیگر خوبصورت اشعار
موجود میرے دل میں تمہاری جو یاد ہے
یہ میری ملکیت ہے مری جائیداد ہے​
جب چھوا ہوگا اس نے پھولوں کو
ہوش خوشبو کے اڑ گئے ہوں گے​
شاعری
 
محبت اب نہیں ہوگی یہ کچھ دن بعد میں ہوگی
گزر جائیں گے جب یہ دن یہ ان کی یاد میں ہوگی
منیر نیازی

دن
جس دن کی راہ دیکھی انشا اتنے برسوں آج اور کل
وہ دن آیا اور بیت گیا من پھر بھی رہا بوجھل بوجھل
ابن انشا

آج
 
خوشی جس نے کھوجی وہ دھن لے کے لوٹا
ہنسی جس نے کھوجی
۔۔،چمن لے کے لوٹا
مگر پیارکو کھوجنے جو چلا وہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ من لے کے لوٹا۔۔۔ نہ تن لے کے لوٹا
صبح نہ آئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شام نہ آئی
جس دن تیری یاد نہ آئی
،۔۔،۔۔یاد نہ آئی

آئی
 
ساز ہ
کس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی
جھوم کے آئی گھٹا ٹوٹ کے برسا پانی
آرزو لکھنوی

جھوم
ساز ہستی پہ ابھی جھوم کے گا لے مجھ کو
زندگی سے یہ کہو اور نہ ٹالے مجھ کو
میں نے تو صبح درخشاں کی دعا مانگی تھی
کیوں ملے زرد چراغوں کے اجالے مجھ کو

زندگی
 

سیما علی

لائبریرین
غم نہیں کر مسکرا جینے کا لے لے مزا
نادان ۔یہ زندگی ہے۔ خوبصورت بلا

یہ
یہ شہرِ دل ہے شوق سے رہیے یہاں مگر
اُمیدِ انتظام نہیں آپ سے مجھے

فرصت ہے اور شام بھی گہری ہے کس قدر
اِس وقت کچھ کلام نہیں آپ سے مجھے

ناصر کاظمی

کلام
 
یہ شہرِ دل ہے شوق سے رہیے یہاں مگر
اُمیدِ انتظام نہیں آپ سے مجھے

فرصت ہے اور شام بھی گہری ہے کس قدر
اِس وقت کچھ کلام نہیں آپ سے مجھے

ناصر کاظمی

کلام
ہمیں سے اپنی نوا ہم کلام ہوتی رہی
یہ تیغ اپنے لہو نیام ہوتی رہی
مقابل صف اعدا جسے کیا آغاز
وہ جنگ اپنے ہی دل میں تمام ہوتی رہی
فیض احمد فیض

لہو
 

سیما علی

لائبریرین
دل حزیں کو تمنا ہے مسکرانے کی
یہ رت خوشی کی ہے یا ریت ہے زمانے کی

بنا گئیں اسے پیچیدہ نت نئی شرحیں
کھلی ہوئی تھی حقیقت مرے فسانے کی

حقیقت
 
تردامنی پہ شیخ ۔۔۔ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
کبھی ۔اے۔ حقیقتِ ۔مُنتَظَر۔ نظر ۔آ۔لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں

ہر انسانی آنکھ اپنے رب کو دیکھنے کی مشتاق ہے مگر یہی اِنسان کا امتحان ہے کہ وہ اپنے خالق کو بغیر دیکھے ہی مانے۔۔۔​

ہزاروں
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
مرزا غالب

ارمان
 
Top