دیئے گئے لفظ پر شاعری - دوسرا دور

شمشاد

لائبریرین
ایک بچہ بھی ملا جھلسے ہوئے افراد میں
پیڑ کے ہمراہ گُل بوٹے جلا دیتی ہے آگ
(انور شعور)
آگ
 

شمشاد

لائبریرین
مزمل بھائی دوسرے مصرعے میں گڑبڑ لگ رہی ہے۔
-------------------------------------------------

کیا وہ نمرود کی خدائی تھی؟
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا
(چچا)

بندگی
 

شمشاد

لائبریرین
زحال بھائی آپ کو ایسا شعر دینا تھا جس میں لفظ "بندگی" ہوتا۔
--------------------------------------------------------------

ایک مزاحیہ شعر بھی سہی :

رات کہتے ہیں تیری زلف گرہ گیر کو لوگ
تُو اگر سر منڈھا دے تو اجالا ہو جائے


زلف
 

زبیر مرزا

محفلین
میں جب تک شعر لکھتا ہوں لفظ ہی تبدیل ہوجاتا ہے:)
------------------------------------------------------
زلف راتوں سی ہے رنگت ہے اُجالوں جیسی
پر عادت ہے وہی بھولنے والوں جیسی

عادت
 

شمشاد

لائبریرین
تو آپ اقتباس لے لیا کریں ناں۔
-------------------------------------------

وہ ریا جس پہ تھے زاہد طعنہ زن​
پہلے عادت پھر عبادت ہو گئی​
(اکبر الہ آبادی)


عبادت
 

مزمل حسین

محفلین
زحال بھائی میں مصروف ہو گیا تھا لیکن It doesn't mean کہ مجھے زلف سے محروم کر دیا جائے
.......
.......
سوتے ہوئے جو زلف گرہ گیر کھل گئ
بستر کی سلوٹوں میں مہکنے لگے گلاب...
(اظہر سعید)
 

شمشاد

لائبریرین
اگلا حرف میں نے "بستر" لے لیا ہے۔
--------------------------------------------------

در پہ رہنے کو کہا، اور کہہ کے کیسا پھر گیا
جتنے عرصے میں مِرا لپٹا ہوا بستر کھلا
(چچا)

در
 

شمشاد

لائبریرین
آغوش خاک میں جسے صدیاں گزر گئیں
وہ پھررہا ہے جگ میں مسافر بنا ہوا
(منصور آفاق)


آغوش
 

شمشاد

لائبریرین
ہم رہے مبتلائے دیر و حرم
وہ دبے پاؤں دل میں آ بیٹھے
(خمار بارہ بنکوی)


دل
 

شمشاد

لائبریرین
اِک رُوح کی فریاد نے چونکا دیا مجھ کو
تُو اب تومجھے جسم کے زنداں سے رہا کر
(محسن نقوی)


رُوح
 

مزمل حسین

محفلین
رکھتا نہ کیوں میں روح و بدن اس کے سامنے؟
وہ یوں بھی تھا طبیب، وہ یوں بھی طبیب تھا...(عبید اللہ علیم)
بدن
 

شمشاد

لائبریرین
سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کےدیکھتے ہیں
(فراز)


پھول
 

شمشاد

لائبریرین
جمع کیا ضدّین کو تم نے، سختی ایسی، نرمی ایسی
موم بدن ہے، دل ہے آہن، ماشاء اللہ! ماشاء اللہ!
(امیر مینائی)

موم
 

عمر سیف

محفلین
آنکھوں میں رہا دل میں اتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا
پتھر مجھے کہتا ہے میرا چاہنے والا
میں موم ہوں اُس نے مجھے چُھو کر نہیں دیکھا

مسافر
 
Top