دیئے گئے لفظ پر شاعری - دوسرا دور

دِل کو حصارِ رنج و اَلم سے نکال بھی
کب سے بِکھر رہا ہوں مجھے اب سنبھال بھی
آہٹ سی اُس حسین کی ہر سُو تھی‘ وہ نہ تھا
ہم کو خوشی کے ساتھ رہا اِک ملال بھی

ملال
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا تیرا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
پروین شاکر

خوشی
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لیے

جس دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئی
ان جلتی بلتی گلیوں میں اب خاک اڑاؤں کس کے لیے
ناصر کاظمی

ٹھنڈک
 
خوشی محسوس کرتا ہوں نہ غم محسوس کرتا ہوں
مگر ہاں دل میں کچھ کچھ زیر و بم محسوس کرتا ہوں
بہزاد لکھنوی

زیر و بم
زہر و بم سے ساز خلقت کے جہاں بنتا گیا
یہ زمیں بنتی گئی یہ آسماں بنتا گیا
داستان جور بے حد خوں سے لکھتا رہا
قطرہ قطرہ اشک غم کا بے کراں بنتا گیا
فراق گورکھپوری

داستان
 
نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لیے

جس دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئی
ان جلتی بلتی گلیوں میں اب خاک اڑاؤں کس کے لیے
ناصر کاظمی

ٹھنڈک
گلوں کو خار کہتے ہیں خلش کو شبنمی ٹھنڈک
اشارہ اور ہی کچھ ہے غزل کی یہ نزاکت ہے

خار
 
ہم کہ منت کشِ صیاد نہیں ہونے کے
وہ جو چاہے بھی تو آزاد نہیں ہونے کے

دیکھ آ کر کبھی ان کو بھی جو تیرے ہاتھوں
ایسے اُجڑے ہیں کہ آباد نہیں ہونے کے

آزاد
سوز غم دے کے مجھے اس نے ارشاد کیا
جا تجھے کشمکش دہر سے آزاد کیا
وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوہ
جن کو تیری نگاہ لطف نے برباد کیا
جوش ملیح آبادی

شکوہ
 

سیما علی

لائبریرین
ہم کہ منت کشِ صیاد نہیں ہونے کے
وہ جو چاہے بھی تو آزاد نہیں ہونے کے

دیکھ آ کر کبھی ان کو بھی جو تیرے ہاتھوں
ایسے اُجڑے ہیں کہ آباد نہیں ہونے کے

آزاد
میری آنکھوں کی التجاؤں کو
آپ شکوہ سمجھ کے بھول گئے

یاد، میری بلا کرے ان کو
وہ مجھے کیا سمجھ کے بھول گئے!

یوں تو غیروں پہ بھی عنایت ہے
مجھ کو اپنا سمجھ کے بھول گئے
شیکب جلالی

عنایت
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
نہ سہی اور پر اتنی تو عنایت کرتے
اپنے مہمان کو ہنستے ہوئے رخصت کرتے
مبہم الفاظ میں ہم نے تجھے کیا لکھا ہے
تو کبھی روبرو آتا تو وضاحت کرتے
ھم نے غم کو بھی محبت کا تسلسل جانا
ہم کوئی تم تھے کہ دنیا سے شکایت کرتے

تسلسل
 
Top