دہشت گرد از نویدظفرکیانی

ناکے پر پولیس نے مجھ کو روک لیا
مخبر نے کر دی تھی اطلاع پہلے سے
شہر میں دہشت گردی کا کچھ خطرہ تھا
سو پولیس نے ہر مشکوک کو گھیرا تھا
اور مشکوک تھا مجھ سے بڑھ کر کون بھلا
مشقِ سخن کی خواری سے جو حلیہ تھا
اُس نے مجھ کو جیل سے بھاگا مجرم سا کر رکھا تھا
یوں بھی گزشتہ شب آنکھوں میں کاٹی تھی
سر کے بال تھے ایسے بکھرے بکھرے سے
جیسے کانٹے ہوں سیہہ کے
لالوں لال تھے دیدے
باہر کو نکلے
چہرے پر تھے بارہ بجے
ہینڈ اپ کر کے خوب تلاشی لی پولیس نے پھر میری
مجھ کو سر تا پا الٹایا پلٹایا
اور پھر بالآخر اُن کو
مل ہی گیا تھا میری دہشت گردی کا اک ایویڈینس
میری جیب سے اک سہ غزلے کی صورت

نویدظفرکیانی
 
Top