دہشتگردی کے اسباب - راہ حل

ایس ایم شاہ

محفلین
دہشتگردی کے اسباب ۔۔ راہ حل
تحریر: ایس ایم شاہ
جرائم کا بنیادی سبب عدالت کا فقدان ہے۔ صاحب حق کو اس کا حق ملے۔ غریبوں کی بیت المال سے بھرپور مدد ہو۔ ظالموں کو بروقت سزا دی جائے ۔ مظلوموں کی داد رسی ہو۔ طبقاتی نظام کا خاتمہ ہو تب قتل و غارت گری، چوری ڈاکہ ، اقبال پارک جیسے واقعات اوردوسرے بہت سارے جرائم میں خاطر خواہ کمی آسکتی ہے۔ رفتہ رفتہ پورے ملک سے ہر قسم کے جرائم کا خاتمہ بھی ممکن ہوسکتا ہے۔ حال ہی میں لاہور میں ہونے والے دہشتگردی کے بھیانک واقعے میں اسّی کے لگ بھگ افراد جان سے گئے، سینکڑوں کی تعداد میں لوگ خاک و خون میں لت پت ہوگئے، کتنے بچے یتیم، کتنے والدین بے سہارا، کتنی بہنیں بےآسرا، کتنے مکان مکینوں سے خالی اور کتنےبے گناہ اس وقت موت و حیات کی کشمکش میں ہیں۔ایسے میں ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ دہشگردی کی وجوہات پر تحقیق کرنے کے بعداس کے خاتمے کے لیے جامع حکمت عملی اپنائے۔دہشتگردی کے اسباب، میکانیزم اور اس کے طریقہ کار پر کام صرف مغرب میں ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل، سنگاپور اور اسٹریلیا میں بھی کچھ رمق نظر آتے ہیں۔ جبکہ باقی ساری دنیا اور ہی ہے۔ جیسکا اسٹرن کی کتاب Terror in the name of God: why religious Militants kill" ﴿جس کا ترجمہ سیدہ صالحہ نے اس نام سے کیا ہے﴾خدا کے نام پر دہشت" مذہبی عسکریت کیوں قتل کرتے ہیں؟قابل ذکر ہیں۔(1)اگر دہشگردی کے اسباب کو جانے بغیر اقدامات کئے جائیں تو نہ صرف یہ اقدامات فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتے بلکہ اس کا نتیجہ برعکس بھی نکل سکتا ہے۔ دہشتگردوں کو ضرب عضب آپریشن کے ذریعے سرکوب کرنے کی کوشش اپنی جگہ بہت ہی اہم ہے البتہ ان کے خاتمے کے کافی نہیں۔ لہذا ہماری کوشش ہے کہ اس کی چند اہم وجوہات کی طرف مختصر اشارہ ہو:استعمار اوراسلام دشمن طاقتوں کی سازشیں: اسلام کی حقانیت اور عقلانیت سے اب پوری دنیا آگاہ ہوچکی ہےاور مغربی دنیا میں مسلمانوں میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے۔ استعمار اور اسلام دشمن عناصر کو معلوم ہوگیا ہے کہ اگر مسلمانوں کو ان کے حقیقی اسلامی روح سے آگاہ رکھی جائے تب اس دین میں ایسی چاشنی پائی جاتی ہے جو پرایوں کو بھی اپنا بنادیتی ہے۔ لہذا اسی اسلام کے بعض نام نہاد پیروکاروں کے ذریعے اس کا حقیقی چہرہ مسخ کرکے پیش کیا جائے تاکہ غیر مسلم اس کی طرف توجہ ہی نہ کرے اور وہ اپنے باطل اعتقادات میں مگن رہیں۔ جہالت و نادانی: انسان جب جاہل رہتا ہے تو دوسروں کی قدر و قیمت اور مقام و رتبے کا اسے احساس نہیں ہوتا۔ درنتیجہ وہ دوسروں کے اہداف کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے اور ان جانے میں وہ دوسروں کے خون سے اپنا ہاتھ رنگتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے پاکستان میں میری تحقیق کے مطابق آج تک کسی یونیورسٹی لیول کےطالبعلم کودہشتگردی میں ملوث نہیں پایا بلکہ خام ذہنیت والے جاہل یا کم فہم افراد بالخصوص پندرہ سے پچیس سال کے افراد ایسے واردات میں زیادہ کام آتے ہیں۔قومی تعصبات: قومی تعصبات انسان کے آنکھوں کےسامنے پردے بن جاتے ہیں درنتیجہ وہ حقیقت کو باطل کے لبادے میں دیکھتا ہے۔ ایک جدید نفسیاتی تحقیق کے مطابق انسانی دماغ میں قدرتی طور پر ایک نظام موجود ہوتا ہے جواپنی "انا" کا دفاع کرتا ہے اور تمام حقائق کی نفی کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں دماغ پر اتنا دباؤ پڑتا ہے کہ وہ اسے برداشت نہیں کرسکتا۔ اس کیفیت کو انکاری ﴿( DENIALکیفیت کہا جاتا ہے۔(2)حس دفاع و انتقام جوئی:اللہ تعالی نے انسان کے اندر اس کی اپنی ذات کو خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے دفاع کا جذبہ رکھا ہے۔ جب اس کی صحیح رہنمائی نہیں ہوپاتی تب وہ اس جذبے سے غلط فائدہ اٹھا کر خواہ مخواہ میں کسی کی جان کے درپے ہوجاتا ہے۔ جیسے چھری عام طور پر انسان اپنے ہاتھوں سے نہ کاٹ سکنے والی چیزوں کو کاٹنے کے لیے استفادہ کرتاہےلیکن اگر یہ طاقت کسی کا گلہ کاٹنے کے لیے استعمال ہوتو اس میں اس چھری کی کوئی غلطی نہیں بلکہ اس گلہ کاٹنے والےکی غلطی ہے اسی طرح اللہ تعالی نے اس طاقت کو انسان کی جان بچانے کی خاطر اس کے وجود میں ملادیا لیکن خود انسان اسے انتقام جوئی کی نذر کر دیتا ہے۔ یعنی جب کسی کا کوئی عزیز قتل ہوتا ہے تب اس کے بازمندگان میں اس قاتل سے بدلہ لینے کی حس اپنے کمال کو پہنچتی ہے تب یکے بعد دیگرے اس بھنور میں لوگ پھنستے چلے جاتے ہیں۔ لہذا لوگوں کے اندر ایسی بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ جن کے ذریعے ایسے خرافات سے نجات پاسکیں۔ مذہبی انتہاپسندی: اس وقت سب سے زیادہ دہشتگردی کی راہ میں مؤثر عنصر مذہبی انتہاپسندی ہے۔ جو اسلام نام سے ہی امن و امان اور سلامتی کا پیغام دیتا ہے۔ بعض نام نہاد اسلام کے نام پر لوگوں کے جان لینے کو عین عبادت سمجھتے ہیں اور اس راہ میں مارے جانے کو شہادت کا درجہ اور حوروں کے گود تک پہنچنے کا سبب قرار دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے عام طور پر خام عقل والے ہی ان کے اس دھوکے میں آجاتے ہیں۔ کوئی تعلیم یافتہ، دین شناس اور اسلام کی حقیقت سے آشنا شخص ان کی باتوں کو ہرگز قبول نہیں کرسکتا لہذا یہ لوگ کم عمر بچوں کا "برین واش " کرکے ان کے پیٹ کے ساتھ بم باندھ کر روانہ کر دیتے ہیں۔ تب ایسے لوگ مرنے کو بھی سعادت اور دوسروں کو مارنے کو بھی عبادت سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ لہذا اس مشکل کا حل یہ ہے کہ مذہبی شدت پسندی اور تکفیری سوچ رکھنے والے افراد کو خواہ وہ جس مکتب فکر سے بھی تعلق رکھتا ہو اسے اپنے انجام تک پہنچا کر ان کی جگہ اچھے اسلام شناس کو معین کیا جائے۔ نام نہاد دینی مدارس میں غلط تربیت:ابھی تک جتنے واقعات رونما ہوئے ہیں ان میں سے اکثر دینی مدارس سے تربیت یافتہ افراد ہوتے ہیں۔ بعض دینی مدارس میں اسلام ناب کی تعلیم دینے کی بجائے تعصب، نفرت، دشمنی اور قتل و غارت گری کی تعلیم دی جاتی ہے۔ جہاد کے نام پر موجود آیتوں کی غلط تفسیریں پیش کرکے ان کو دہشتگردی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جس قرآن نے رسول اللہ ؐ کو کفار پر سخت گیر اور مسلمانوں کے لیے رحم دل قرار دیا تھا۔ آج ا سی قرآن کے نام نہاد پیرو ایسی آیتوں کے برعکس سمت حرکت کررہے ہیں یعنی مسلمانوں کے لیے سخت اور کفار و مشرکین کے لیے نرم گوشہ۔ لہذا ایسے مدارس کو خواہ جس مذہب کے بھی ہوں ان میں نصاب تعلیم کو حکومتی زیر نگرانی تبدیل کرکے محبت، اخوت، باہمی رواداری اور امن و امان کی تشویق پر مشتمل نصاب تعلیم متعارف کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ دینی طلبہ اسلام کی حقیقی روح سے آشنائی حاصل کرکے ایک دیندار اور مفید مسلمان اور شہری بن سکیں۔ دھوکہ بازی: بہت سارے افراد دھوکے میں آکر ایسے جرائم کا مرتکب ہوتے ہیں۔ دہشتگرد عناصر ایسے سبز باغ انھیں دکھاتے ہیں کہ بعد میں جب بہت سارے افراد کی جان لے لیتے ہیں تب متوجہ ہوجاتے ہیں کہ میں نے کتنا بڑ اجرم انجام دیا ہے۔ لہذا ایسے دہشتگردانہ سوچ رکھنے والے عناصر کی طرف خصوصی توجہ رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ عام شہریوں کو ایسے افراد سے بچایا جاسکے۔دین کی صحیح شناخت کا نہ ہونا: پورے ملک میں تمام مکاتب فکر کے لیے قابل قبول ایک ایسا نظام تعلیم متعارف کرانے کی ضرورت ہے جس میں تمام اسلامی مشترکات واضح انداز سے بیان ہوں اور آپس کے اختلافات کو ہوا دینے والی باتوں کو حذف کیا جائے۔ جوانوں کے جذبات سے سوء استفادہ کرنا:عام طور پر نوجوانی اور جوانی میں انسان کی ہر طاقت اپنے عروج پر ہوتی ہے لہذا ان کے جذبات بھی اسی دورانیے میں آسمان چہارم کو چھو رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں اگر ان کی درست رہنمائی ہوجائے تب ہمیشہ کے لیے معاشرے اور ملک کے لیے مفید شہری قرار پاتے ہیں۔اس کے برخلاف اگر ان کے جذبات کی آگ کو غلط سمت پر بڑھکایا جائےتو یہ آگ کے شعلے پوری قوم کو لپیٹ میں بھی لے سکتی ہیں۔اسی اثنا میں موقع کی تاک میں بیٹھے افراد اور تنظیمیں ان کے مذہبی جذبات کو یرغمال بناکر اپنے ناپاک مقاصد کی خاطر ان کو بروئے کار لاتے ہیں۔بنابریں اس عفریت سے مقابلے کے لیے ضروری ہے کہ ہر معاشرے میں ایک ایسی فرہنگ و ثقافت ایجاد کی جائے جہاں ان کے جذبات کو خدمت انسانی اور حقیقی اسلام کی آبیاری کے لیے خرچ کیے جاسکیں۔فقرو تنگدستی: بعض سادہ لوح افراد جو زندگی کے لوازمات سے محروم ہونے کے باعث ان کی زندگی اجیرن بن چکی ہوتی ہے۔ ایسے وقت میں مذہبی انتہا پسند حلقوں کو اپنے حصے کا ثواب سمیٹنے کا موقع فراہم ہوتا ہے۔ جب تنگدست افرادسختی اور تنگدستی کے ساتھ زندہ رہنے کے مقابلے میں مرنے کو ترجیح دے رہے ہوتے ہیں تب مال و زر کی فراوانی کی آفر ان کو آسانی سے فریب دے سکتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اس وقت داعش کے ہر فرد کو ماہانہ تین ہزار ڈالر تنخواہ ملتی ہے ۔(3)جو ہمارے پاکستانی روپے کے حساب سے تقریبا سواتین لاکھ بنتے ہیں۔تب ایسے افراد یقینا ان کے ہتھے چڑھ جائیں گے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم کو عام کیاجائے، لوگوں کی مالی حالت اور سطح زندگی کو بہتر بنایا جائے، دہشتگرد عناصر سے ہر شہری کو آگاہ رکھنے اور ان کے حقیقی چہرے کو لوگوں کے سامنے واضح کرنے کے لیے ایک منظم کوشش کی جائے۔ہر صوبے میں دہشتگردی کے اسباب اور سدباب سے متعلق تحقیق کے لیے سرکاری سطح پر مستقل ادارے تشکیل دئیے جائیں، طبقاتی نظام کا خاتمہ کرکے عوام کو سستا انصاف ان کی دہلیز پر فراہم کیا جائے اور معاشرے میں ظلم و ناانصافی کے خاتمے اور عدل و انصاف برقرار کرنے کے لیے ایک صاف شفاف اسلامی ثقافت کے فروغ کے لیے پروگرامینگ کی جائے تو اس عفریت سے نجات پانے میں کافی مدد مل سکتی ہے۔
1. ڈان نیوز، ۹نومبر۲۰۱۳
2. ڈان نیوز، ایضا
3. چینل ۱، ایران
 
Top