دھندلی ہوتی ہوئی یادیں ۔ کراچی سے وابستہ چند یادیں

صاد الف

محفلین
نوٹ: میں کوئی باقاعدہ لکھاری نہیں ہوں، بس لفظوں کو جیسے تیسے جوڑ لیتا ہوں لہٰذا تحریر میں کسی قسم کا جھول، املا کی غلطی یا بے روانی وغیرہ کے لئے پیشگی معذرت۔ (صغیر احمد)
(پہلی قسط) :میرا کراچی میں قیام کبھی طویل عرصہ تک نہیں رہا بلکہ چند برس کے مختلف وقفوں پر محیط ہے لیکن اس کے باوجود شہرِ قائد اور خصوصاً ماڈل کالونی سےعجیب سی انسیت اور چاؤ کا تعلق ہے جو بیان نہیں کر سکتا۔ کراچی کو سب سے پہلا سفر انیس سو ستریا اکہتر کے موسم گرما میں بذریعہ ریل گاڑی تقریباً دس سال کی عمر میں والدین اور بہن بھائیوں کے ہمراہ کیا۔ میرے سب سے بڑے بھائی جان پی آئی کے شعبہ انجنئیرنگ میں ائیرپورٹ پر انیس سو چونسٹھ سے ملازم تھے۔ ان سے چھوٹے ڈالر انک کمپنی کے اکاؤنٹس کے شعبہ میں علاقہ صدر میں کام کرتے تھے۔ ہمارے آنے سے قبل دونوں بھائی ماڈل کالونی میں ڈھینگرہ بلڈنگ کے ایک فلیٹ میں رہائش پذیر تھے جو ہم سب کے رہنےکے لئے بہت چھوٹا تھا لہٰذا انھوں نے ملیرہالٹ کے قریب رفاع عام یا رفاہ عام سوسائٹی میں ایک بڑا مکان کرایہ پر لیا۔ سڑک کا نام مجھے یاد نہیں لیکن مکان کا نمبر 35اے تھا اور مالک مکان واسطی صاحب تھے۔ تھوڑی مدت بعد وہ مکان کرایہ پہنچ سے باہر ہونے کی وجہ سے چھوڑنا پڑا اور ماڈل کالونی کے علاقہ عباسی مارکیٹ کے قریب ٹھیکیدار فاضل صاحب کےملکیتی ایک مکان میں رہنے لگے۔ وہاں جا کر دونوں علاقوں کا فرق یوں محسوس ہوا کہ اولذکر میں بہت کم ہمسائے ایک دوسرے کو جانتے تھے، اکثر اپنے آپ میں مگن رہتے جبکہ ثانی الذکر میں ہر ہمسایہ ایک دوسرے کو جانتا اور دکھ سکھ میں شریک ہوتے۔ چند ماہ بعد والدین کو پنجاب کے اپنے بہن بھائیوں اور قریبی رشتہ داروں کی یاد ستانے لگی تو بھائیوں سے ان کی اداسی برداشت نہ ہوئی اور یوں ہم تقریباً چار پانچ ماہ کراچی میں گزارنے کے بعد پنجاب واپس چلےگئے۔ اس عرصہ کے دوران کراچی کی چند اور جگہوں کو بھی دیکھا جن میں ظاہر ہے مزارِقائد، کلفٹن اور صدر وغیرہ شامل تھے۔ صدر کے علاقہ میں ٹرام پر بھی مختصر سا سفر کیا۔ رفاع عام قیام کے دوران ایک دن ماڈل کالونی کی ڈھینگرہ بلڈنگ کے رہائشی سابقہ ہمسائے دو بھائی جن کے نام عارف اور حسینی تھے، بڑے بھائیوں سے ملنے آئے اور کہا کہ ہماری امی آپ کو بہت یاد کرتی ہیں لیکن بیماری کی وجہ سے یہاں آنہیں سکتیں تو ہمیں آپ کی خیریت معلوم کرنے بھیجا ہے۔ اس پر ہم چار بھائی ان کے ساتھ ہی ان کے فلیٹ میں گئے تو ان کی والدہ محترمہ نہایت خوش ہوئیں اور ڈھیروں دعاؤں سے نوازا۔ ڈھینگرہ بلڈنگ پیلے رنگ کی دیواروں والی تین منزلہ عمارت تھی جس میں غالباًدس بارہ چھوٹے فلیٹ تھے۔ گیٹ سے داخل ہوتے ہی چھوٹی چار دیواری کے اندر کھلا صحن تھا اور عمارت کی دونوں جانب سیڑھیاں تھیں۔ اس قسم کی عمارت کچھ عرصہ قبل ایک ہندوستانی ٹی وی پروگرام (غالباً تارک مہتہ) میں بھی نظر آئی۔ (جاری ہے۔۔۔)
 
آخری تدوین:

صاد الف

محفلین
(دوسری قسط): کراچی کے لئے دوسرا سفر 1975 میں میٹرک کے امتحان کے بعد اپنے سے ایک درجہ بڑے بھائی جان کے ساتھ کیا۔ اس وقت ہم سےدونوں بڑے بھائی عباسی مارکیٹ کے ہی قریب تین بیڈروم کے ایک اور مکان میں کرایہ پر رہائش پذیر تھے۔ گلی کا نام یاد نہیں رہا لیکن مکان نمبر 212/6اے تھا۔ وہ مکان گلی کے شروع کے مکانوں میں سے تھا۔ گلی کے سرے پر ایک کھلا میدان تھا، جس پر ایک کرکٹ پچ بھی تھی اور میدان کے آخر پر کانٹے دار جھاڑیوں کے پار ایک گوٹھ تھی۔ شام کو اس میدان میں چند خواتین بچوں کے ہمراہ چہل قدمی کرتیں اور لڑکے کرکٹ یافٹ بال کھیلتے۔
پہلے سفرمیں چونکہ میری نو یا دس سال عمر تھی، علاوہ ازیں قیام مختصر تھا لہٰذا اس علاقہ کو پوری طرح نہ جان سکا لیکن اس بار تین چار ماہ میں قدرے زیادہ جاننے کا موقع ملا۔ ائیرپورٹ کی جانب سے جناح ایونیو سے ایک سڑک، ہاشم رضا روڈ، ماڈل کالونی اسٹیشن تک جاتی ہے جس کےایک چوک پر عباسی مارکیٹ تھی۔ اس سڑک سے ذرا ہٹ کر ایک گتہ فیکٹری تھی جس کے باہر زمین پر کارڈ بورڈ کے لمبے ٹکڑے غالباً سُکھانے کے لئے رکھے ہوتے۔ فیکٹری سے تھوڑا آگے گلزار سینما تھا جس میں ایک درجہ بڑے بھائی صاحب کےساتھ ندیم شبنم کی فلم اناڑی دیکھی۔ اسٹیشن کی لائین پار کرکے دوسری جانب سعود آباد مارکیٹ ہے جہاں سے ہفتہ بھر کا راشن لے کر آتے۔ وہاں ایک بہت بڑی دوکان تھی جس کا نام ماموں بھانجے کی ہٹی تھا۔ اس دوکان کے قریب ایک ریسٹورینٹ تھاجس کے باہر ایک باغیچہ نما زمین پر کرسیاں میز اور ایک دیوار پر بلیک اینڈ وہائٹ ٹی وی نصب تھا، شام کو لوگ چائے پیتے ہوئے ٹی وی دیکھ رہے ہوتے۔ گھر کے قریب عباسی مارکیٹ میں مختلف دوکانیں تھیں جن میں ایک ڈھابہ نما تنور کی دوکان بھی تھی جہاں مزدور پیشہ دوپہر اور شام کا کھانا کھاتے کہ دوکاندار نےایک بڑا پتیلا بھی رکھا ہوتا جس میں روزانہ نئی لیکن ایک قسم کا سالن پکا ہوا ہوتا۔ میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا لہٰذا میری ڈیوٹی اس تنور سے روٹیاں پکوا کر لانے کی تھی، گھر سے گوندھا ہوا آٹا لے کر جاتا اور قلیل معاوضہ کے عوض روٹیاں تیار کروا کر لاتا۔
کراچی میں میرا یہ قیام تین یا چار ماہ کا تھا کہ میٹرک کے نتائج جاننے اور آئندہ تعلیم بارے منصوبہ بندی کے لئے پنجاب واپس جانا پڑا۔ (جاری ہے۔۔۔)
 

صاد الف

محفلین
(تیسری قسط):کراچی کا تیسرا سفر چار جولائی انیس سو ستتر کو کیا۔ یہ تاریخ اس وجہ سے یاد ہے کہ پانچ جولائی کو ریل گاڑی جب ملتان پہنچی تو ایک مسافر کے ریڈیو پر اعلان ہوا کہ ملک کا نظم و نسق فوج نے سنبھال لیا ہے۔ 1975میں میرے دونوں بڑے بھائی صاحبان نے ماڈل کالونی کے ہاشم رضا روڈ کی ایک ذیلی گلی، لیاقت ایوینیو، میں ایک قطعہ اراضی خریدا اور 1977 تک مرحلہ وار اس پر اپنا مکان تعمیر کروایا چنانچہ اس مرتبہ حصولِ روزگار کی خاطر میرا اس مکان پر اگست 1978 تک قیام رہا۔ ائیرپورٹ کے قریب اس علاقہ کے مکینوں کی اکثریت پی آئی اے کے ملازمین پر مشتمل تھی۔ موسمِ گرما کی شاموں کو چند ہم پیشہ ہمسائے چائےکے دور پر گپ شپ کے لئے جمع ہوتے تو گوناگوں موضوعات زیرِ بحث آتے۔ اس وقت کے کچھ ہمسائیوں کے جو نام یاد رہ گئے ہیں ان میں جہانگیر صاحب، شفیق صاحب، جلال صاحب، جمیل صاحب اور اختر صاحب شامل ہیں۔ شفیق صاحب بنگلہ دیش کے قیام کے بعد مشرقی پاکستان سے ہجرت کرکے آئے تھے، وہ نہایت نفیس اور ہمدرد انسان تھے۔ ایک اور عمر رسیدہ جوڑا بھی ہماری گلی میں وہاں سے ہجرت کرکے آیا تھا، ان کی دو بیٹیاں تھیں اور وہ بھی بہت اچھے لوگ تھے۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ وہ بزرگ ہر بات اور ہر کام زوجہ محترمہ سے پوچھ کر کرتے تھے کہ وہ ان کی ہر بات کو ویٹو کر دیتی تھیں۔
گھر سے چند قدم پر ہاشم رضا روڈ پر زیدی صاحب کی کریانہ کی دوکان تھی، اسی سڑک کے آخر پر ریلوے لائن سے پہلےایک بیکری اور بیکری کے سامنے شبیر صاحب کی راشن شاپ تھی جہاں سے علاقہ مکین راشن کارڈ دکھا کر اور اس پر باقاعدہ اندراج کے بعد آٹا اور خصوصاً چینی خریدتے کہ چینی کی قلت تھی۔ ریلوے لائن کے قریب ہی بھینسوں کا باڑا تھا جس سے میں ہرروز شام کوتازہ دوہا ہوا دودھ لاتا۔ عباسی مارکیٹ کے سامنے حبیب بینک کی شاخ کے پہلو میں ٹی وی مرمت کی دوکان تھی جسے وہ صاحب شام کو کھولا کرتے کہ دن کو پی آئی اے میں کام کرتے تھے۔ اس زمانہ میں روسی ساختہ سستے ٹی وی سیٹ مقبول تھے لیکن زیادہ تر جلد خراب ہوجاتے لہٰذا ان صاحب کے دوکان کھولنے سے قبل ہی کبھی کبھار چند لوگ اپنے سیٹ لئے انتظار میں ہوتے۔ قدرے بھاری جسم، چھوٹے قد اور گہری رنگت کے مالک وہ کم گو صاحب نہایت معقول معاوضہ میں کم وقت میں ٹی وی مرمت کر دیتے۔ اکثر اوقات وہ گھروں میں جا کر بھی ٹی وی کے معمولی نقص اضافی معاوضہ کے بغیر دور کر دیتے۔
اس زمانہ میں کراچی کی سرکلر ریلوے جسے لوکل ٹرین کہا جاتا تھا، شہر کا سستا اور مقبول ترین ذریعۂ سفر تھا۔ گھر کے قریب ہی ماڈل کالونی اسٹیشن تھا لہٰذا لوکل ٹرین پر بارہا سفر کیا۔صدر جانا ہوتا تو کراچی کینٹ تک لوکل ٹرین پکڑتا اور وہاں سے پیدل صدر تک جاتا۔ کئی مرتبہ واپسی پر لانڈھی کی جانب جانے والی لوکل سے ملیر ہالٹ جنکشن پر اتر کر ملیرکینٹ کو جانے والی لوکل کے ذریعہ ماڈل کالونی اسٹیشن تک جاتا۔ اخبار میں روزانہ لوکل ٹرینوں کے اوقاتِ کار شائع ہوتے اور اکثر لوگ اخبار کا اتنا حصہ کاٹ کر گھر کی دیوار پر چسپاں کرلیتے۔ شہر کو سفر کا دوسرا مقبول لیکن تیز ذریعہ سفر ویگن تھا۔ سعودٓباد ٹینکی کے اسٹاپ سے Rویگن صدر ایمپرس مارکیٹ تک جاتی تھی۔
اگست 1978 میں کراچی کو خیرباد کہنا پڑا کہ کوہاٹ میں نوکری مل گئی لیکن وہاں ایک سال گزارنے کے بعد اگست 1979 میں واپس کراچی کا رخ کیا اور 1982 تک اس شہرِخوباں میں ایک اور دور گزارا۔ (جاری ہے۔۔۔)
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
نوٹ: میں کوئی باقاعدہ لکھاری نہیں ہوں، بس لفظوں کو جیسے تیسے جوڑ لیتا ہوں لہٰذا تحریر میں کسی قسم کا جھول، املا کی غلطی یا بے روانی وغیرہ کے لئے پیشگی معذرت۔ (صغیر احمد)
آپ بہت اچھا لکھتے ہیں بے قاعدہ لکھاری صاحب۔ :)
 

سیما علی

لائبریرین
بہت اچھا لکھا ہے
جلدی سے لکھیے بڑی خوشی ہوئی کہ آپکی انسیت کراچی سے اسقدر ہے اور یاداشت میں محفوظ یادیں جلدی لکھیں بہت شکریہ ۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
علاقہ مکین راشن کارڈ دکھا کر اور اس پر باقاعدہ اندراج کے بعد آٹا اور خصوصاً چینی خریدتے کہ چینی کی قلت تھی۔
کیا یاد دلایا آپ نے راشن کارڈ چینی کی واقعی شدید قلت تھی اماں ہماری بھائیوں پر غصہ کیا کرتیں کہ شکر کا نے زیادہ ڈالی دوددھ میں ۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
سرکلر ریلوے جسے لوکل ٹرین کہا جاتا تھا، شہر کا سستا اور مقبول ترین ذریعۂ سفر تھا۔ گھر کے قریب ہی ماڈل کالونی اسٹیشن تھا لہٰذا لوکل ٹرین پر بارہا سفر کیا۔
ہم کچھ عرصہ گرین ٹاؤن میں رکھے تو سرکلر ریلوے میں سفر کیا پورے مہینے کا پاس
گیارہ روپے میں بنتا تھا ہم سٹی اسٹیشن تک آتے تھے گرین ٹاؤن سے
 

سیما علی

لائبریرین
اگست 1979 میں واپس کراچی کا رخ کیا اور 1982 تک اس شہرِخوباں میں ایک اور دور گزارا
کیا پرسکون سال تھے کراچی کے تمام سیاسی برُائیوں کے باوجود
ایسا بے ہنگم نہ تھا کراچی جیسے آج ہوگیا ہے ۔۔🥲🥲🥲🥲🥲
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
ائیرپورٹ کے قریب اس علاقہ کے مکینوں کی اکثریت پی آئی اے کے ملازمین پر مشتمل تھی۔
اب تک یہ آبادی کچھ بہتر ہے کسی سے تھوڑے دنوں پہلے ہی بات ہورہی تھی کسی جاننے والوں سے جن کی رہائش اُس علاقے میں ہے۔ ورنہ تجاوزات نے کراچی کا حسن برباد کردیا ہے
کراچی میں تجاوزات کے خلاف آئے دن آپریشنز کئے جاتے پھر رشوت کا بازار گرم کرنے والے آجاتے ہیں اور پھر ویسے کا ویسا ہو جاتا ہے ۔۔۔
 
آخری تدوین:

صاد الف

محفلین
کیا پرسکون سال تھے کراچی کے تماسیاسی برُائیوں کے باوجود
ایسا بے ہنگم نہ تھا کراچی جیسے آج ہوگیا ہے ۔۔🥲🥲🥲🥲🥲
امن وامان کی مثالی صورتحال کے علاوہ 1970 کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں اپنے لڑکپن اور نوجوانی کے دور کے کراچی، خصوصاً سٹی اور صدر کے علاقوں، کی صفائی اور ترتیب ذہن پر ابھی تک نقش ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
خصوصاً سٹی اور صدر کے علاقوں، کی صفائی اور ترتیب ذہن پر ابھی تک نقش ہے۔
اب دیکھیں گے تو بہت دُکھ ہوگا ۔۔۔ہمارا تو کالج اور اسکول دونوں صدر میں تھا سینٹ جوزف کانوئینٹ
زیادہ آبادی کرسچن اور پارسی ہوا کرتی تھی صدر میں ۔
اب تو بے ہنگم ہجوم ویسے تھوڑی یہ شہر درالخلافہ تھا پھر کچھ مفاد پرستوں نے کہا یہاں احتجاج بہت ہوتا ہے تو پرسکون جگہ پر لے جایا جائے اب پُر سکون جگہ بھی سنبھل نہیں رہی ۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
اس دوکان کے قریب ایک ریسٹورینٹ تھاجس کے باہر ایک باغیچہ نما زمین پر کرسیاں میز اور ایک دیوار پر بلیک اینڈ وہائٹ ٹی وی نصب تھا، شام کو لوگ چائے پیتے ہوئے ٹی وی دیکھ رہے ہوتے۔
کیا نظم و ضبط اس شہر کا خاصہ تھا آپس میں مل جل کے رہتے تھے کیسا سکون تھا لوگوں میں کیسے ایک دوسرے کا خیال کرتے اب باہر بیٹھے لوگ جو چائے پیتے ہوتے انکے چہروں پر عجب بیچینی چھائی ہوتی ہے اور ایک عجیب دوڑ ہے جس میں بھاگے چلے جارہے ہیں ۔۔۔۔
 
Top