میں ان دنوں پٹنہ کے ایک گاؤں میں سکول ٹیچر تعینات ہوا تھا ۔ مگر سارا دن مکھیاں مارتا رہتا ۔ وہاں لوگ کچھ بھی کرتے مگر پڑھتے نہ تھے ۔
جب فراغت کی تھکن سے چور، میں اس چوبارے میں واپس لوٹتا تو بھی پاؤں پسار کر سونے کا لطف کبھی نہ ملتا ۔ اس کی دو وجوہات تھیں ۔ اول تو یہ کہ میں جس چوبارے میں ‘‘ پے انگ گیسٹ ‘‘ کی حیثیت سے رہ رہا تھا ۔ اس کی لینڈ لیڈی کی پورے گاؤں میں کسی نہ بنتی تھی ۔ وہ لڑ لڑا کر ‘‘ زیریں ایوان ‘‘ میں لوٹتی تو ایوان بالا ‘‘ آدم بو، آدم بو ‘‘ کو خوفناک و سراسیمہ نعروں سے لرز اٹھتا ۔
‘‘ ٹھاہ ٹھاہ ‘‘ مختلف چیزیں راگ الاپ اٹھتیں اور میں دم دبا کر چوبارے کے ‘‘ ذیلی کنس ‘‘ پر جا ڈھیر ہوتا ۔ یہ کنس دراصل منڈیر کے درمیان بنا ہوا اوپن ‘‘ جھروکہ ‘‘ تھا ۔ مگر مصیبت یہ تھی کہ اس جھروکے میں بیٹھ جانے کے گناہ کی پاداش میں مجھے لال بابو پاسوان کے ‘‘ شیش محل ‘‘ میں جھانکنا پڑ جاتا تھا ۔
میری تھکن کی دوسری اور اصل وجہ یہی پاسوان فیملی تھی ۔
کہنے کو تو لال بابو ‘‘ پاسوان کٹیا ‘‘ کا مالک و مختارتھا ۔ مگر حق ملکیت سے اسے کوئی علاقہ نہ تھا ۔ لے دے کے پورے گھر میں، جو دو جھلنگا چارپائیاں تھیں وہ آٹھ نو نفوس کا بوجھ اٹھاتی تھیں ۔
میں جب بھی جھروکے سے نیچے جھانکتا ۔ لال بابو بڑی ذمہ داری سے کھانسی کا فریضہ انجام دے رہا ہوتا ۔۔۔۔۔۔ میرا خیال ہے اس نے پوری ازدواجی زندگی میں کھانسنےاور بچے پیدا کرنے کے سوا، کوئی دوجا کام نہیں کیا تھا ۔
پٹنہ کے اس گاؤں کی مسموم فضا نے میرے اندر باہر تنفر اور کراہت کا احساس بھر دیا تھا ۔
کہاں میں، پنجاب کے گاؤں میں پلا بڑھا کڑیل نوجوان اور کہاں صوبہ بہار کا وہ مریل سا افلاس گزیدہ گاؤں ۔۔۔۔۔جہاں جا کر، مجھے پہلی دفعہ پتہ چلا کہ پیٹ کے ساتھ ‘‘ پاپی ‘‘ کی صفت کیوں لگائی جاتی ہے؟ اسے نرکھ کہا کیوں جاتا ہے؟ پٹنہ کے اس گاؤں میں، نہ کسی کا پیٹ بھرا ہوتا اور نہ زمین سے بھوک کا جنازہ اٹھتا تھا ۔
کیونکہ فساد جرم کی اصل جڑ ‘‘ پیٹ کا پاپ ‘‘ ہے ۔ شاید میں یہی فلسفہ حیات سیکھنے، بلکہ برتنے یہاں چلا آیا تھا ۔ حالانکہ وہاں میرے لئے دلچسپی نام کی کوئی چیز نہ تھی ۔ ہاں سرفراز نے فلسفے کو میرے اندر ضرور بھر دیا تھا ۔ اس دن بھی میں، مالکہ مکان کا ‘‘ بکواس کھانا ‘‘ زہرمار کر رہا تھا جو ہر ہر نوالے پہ مزید بد مزہ ہوتا جا رہا تھا ۔ اس پر آج سکول سے چھٹی تھی اور میں سارا دن ایک بدترین اور غلیظ وقت گزار گزار کر بری طرح اوب چکا تھا ۔ جب آخری نوالہ حلق میں ٹھونسا تو عین اس وقت لال بابو پاسوان اپنے حلق کی راگنی چھیڑ بیٹھا ۔
میں بدمزگی کی انتہاؤں کو چھونےلگا اور نفرت اور کراہت کی لہر کو سینے میں دبانے کی خاطر اٹھ کر چھت پر ٹہلنے لگا ۔ کئی چکر کاٹ ڈالے مگر وہ منحوس کھانسی ختم نہ ہوئی ۔
پھر یکایک نیچے سے ایک مریل سا غلغلہ اٹھا ۔
‘‘ باپو کو کچھ ہو گیا مائی!‘‘یہ بابو کے دس سالہ بیٹے گنیش کی آواز تھی ۔
جب فراغت کی تھکن سے چور، میں اس چوبارے میں واپس لوٹتا تو بھی پاؤں پسار کر سونے کا لطف کبھی نہ ملتا ۔ اس کی دو وجوہات تھیں ۔ اول تو یہ کہ میں جس چوبارے میں ‘‘ پے انگ گیسٹ ‘‘ کی حیثیت سے رہ رہا تھا ۔ اس کی لینڈ لیڈی کی پورے گاؤں میں کسی نہ بنتی تھی ۔ وہ لڑ لڑا کر ‘‘ زیریں ایوان ‘‘ میں لوٹتی تو ایوان بالا ‘‘ آدم بو، آدم بو ‘‘ کو خوفناک و سراسیمہ نعروں سے لرز اٹھتا ۔
‘‘ ٹھاہ ٹھاہ ‘‘ مختلف چیزیں راگ الاپ اٹھتیں اور میں دم دبا کر چوبارے کے ‘‘ ذیلی کنس ‘‘ پر جا ڈھیر ہوتا ۔ یہ کنس دراصل منڈیر کے درمیان بنا ہوا اوپن ‘‘ جھروکہ ‘‘ تھا ۔ مگر مصیبت یہ تھی کہ اس جھروکے میں بیٹھ جانے کے گناہ کی پاداش میں مجھے لال بابو پاسوان کے ‘‘ شیش محل ‘‘ میں جھانکنا پڑ جاتا تھا ۔
میری تھکن کی دوسری اور اصل وجہ یہی پاسوان فیملی تھی ۔
کہنے کو تو لال بابو ‘‘ پاسوان کٹیا ‘‘ کا مالک و مختارتھا ۔ مگر حق ملکیت سے اسے کوئی علاقہ نہ تھا ۔ لے دے کے پورے گھر میں، جو دو جھلنگا چارپائیاں تھیں وہ آٹھ نو نفوس کا بوجھ اٹھاتی تھیں ۔
میں جب بھی جھروکے سے نیچے جھانکتا ۔ لال بابو بڑی ذمہ داری سے کھانسی کا فریضہ انجام دے رہا ہوتا ۔۔۔۔۔۔ میرا خیال ہے اس نے پوری ازدواجی زندگی میں کھانسنےاور بچے پیدا کرنے کے سوا، کوئی دوجا کام نہیں کیا تھا ۔
پٹنہ کے اس گاؤں کی مسموم فضا نے میرے اندر باہر تنفر اور کراہت کا احساس بھر دیا تھا ۔
کہاں میں، پنجاب کے گاؤں میں پلا بڑھا کڑیل نوجوان اور کہاں صوبہ بہار کا وہ مریل سا افلاس گزیدہ گاؤں ۔۔۔۔۔جہاں جا کر، مجھے پہلی دفعہ پتہ چلا کہ پیٹ کے ساتھ ‘‘ پاپی ‘‘ کی صفت کیوں لگائی جاتی ہے؟ اسے نرکھ کہا کیوں جاتا ہے؟ پٹنہ کے اس گاؤں میں، نہ کسی کا پیٹ بھرا ہوتا اور نہ زمین سے بھوک کا جنازہ اٹھتا تھا ۔
کیونکہ فساد جرم کی اصل جڑ ‘‘ پیٹ کا پاپ ‘‘ ہے ۔ شاید میں یہی فلسفہ حیات سیکھنے، بلکہ برتنے یہاں چلا آیا تھا ۔ حالانکہ وہاں میرے لئے دلچسپی نام کی کوئی چیز نہ تھی ۔ ہاں سرفراز نے فلسفے کو میرے اندر ضرور بھر دیا تھا ۔ اس دن بھی میں، مالکہ مکان کا ‘‘ بکواس کھانا ‘‘ زہرمار کر رہا تھا جو ہر ہر نوالے پہ مزید بد مزہ ہوتا جا رہا تھا ۔ اس پر آج سکول سے چھٹی تھی اور میں سارا دن ایک بدترین اور غلیظ وقت گزار گزار کر بری طرح اوب چکا تھا ۔ جب آخری نوالہ حلق میں ٹھونسا تو عین اس وقت لال بابو پاسوان اپنے حلق کی راگنی چھیڑ بیٹھا ۔
میں بدمزگی کی انتہاؤں کو چھونےلگا اور نفرت اور کراہت کی لہر کو سینے میں دبانے کی خاطر اٹھ کر چھت پر ٹہلنے لگا ۔ کئی چکر کاٹ ڈالے مگر وہ منحوس کھانسی ختم نہ ہوئی ۔
پھر یکایک نیچے سے ایک مریل سا غلغلہ اٹھا ۔
‘‘ باپو کو کچھ ہو گیا مائی!‘‘یہ بابو کے دس سالہ بیٹے گنیش کی آواز تھی ۔