دِن نکلتا ہے، رات ڈھلتی ہے غزل نمبر 175 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین سر یاسر شاہ
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
دِن نکلتا ہے، رات ڈھلتی ہے
ایسے ہی کائنات چلتی ہے

غم ،خوشی آتے جاتے رہتے ہیں
زِندگی کروٹیں بدلتی ہے

جیسے بدلیں مِزاج یار ترے
رُت بھی کب اِس طرح بدلتی ہے؟

اے خُدا! میں بھی رِزق چاہتا ہوں
تیرے ٹُکڑوں پہ خلق پلتی ہے

یہ کرم تیرا ہے مرے مولیٰ
آئی آفت ہمیشہ ٹلتی ہے

پِھر رُلاتی ہے تیری یاد مُجھے
جب طبیعت ذرا سنبھلتی ہے

کوئی اس کو نہیں ہرا پایا
موت کے آگے کِس کی چلتی ہے

جان نکلے گی جِسم سے لیکن
آرزُو دِل سے کب نکلتی ہے؟

اِس کی قِسمت میں لکھا ہے بُجھنا
زِندگی مِثلِ شمع جلتی ہے

زِندگی ایسی برف ہے
شارؔق
دِھیرے دِھیرے سے جو پِگھلتی ہے
 

الف عین

لائبریرین
اے خُدا! میں بھی رِزق چاہتا ہوں
تیرے ٹُکڑوں پہ خلق پلتی ہے
تیرے ٹُکڑوں.. اچھا نہیں لگ رہا، وہ بھی خدا کےلئے!
جان نکلے گی جِسم سے لیکن
آرزُو دِل سے کب نکلتی ہے؟
ایک ہی صیغہ ہو دونوں مصرعوں میں تو بہتر
جاں نکلتی ہے جسم سے، لیکن
 

امین شارق

محفلین
بہت شکریہ الف عین سر یہ اشعار آپ کی اصلاح کے مطابق کردئے ہیں۔۔
اے خُدا! میں بھی رِزق چاہتا ہوں
تیری روزی پہ خلق پلتی ہے

جاں نکلتی ہے جسم سے، لیکن
آرزُو دِل سے کب نکلتی ہے؟
 
Top