دُریاں

عینی خیال

محفلین
اب ہمارے درمیاں نہ فاصلے نہ دُریاں
ختم دیکھا ہوگئیں نہ عشق کی مجبوریاں

چل رہا ہے ساتھ ساتھ قافلہ بھی ہم سفر
روشنی میں ڈھل گئیں ہیں وقت کی بے نوریاں

وہ زمانے اور تھے جب مجنووں کے دور تھے
اب رہیں نہ سوہنیاں اور نہ رہیں قسطوریاں

پیار میں ڈوبا ہوا پیکر نہیں میں بھولتی
ذھن سے جاتی نہیں ہیں وہ نگاہیں بھوریاں

اپنے ہاتھوں سے کھلائیں تھیں جو تم نے اے خیال
یاد آتیں ہیں مجھے ہائے وہ تیری چُوریاں
 
Top