دُرِشہوار از : جون اسٹین بیک ترجمہ : ممتاز شیریں

دُرِشہوار ( ناول )
( دی پرل )
مصنف : جون اسٹین بیک
ترجمہ : ممتاز شیریں
پہلا باب

قصبے میں لوگ موتی کی کہانی سُناتے ہیں ۔ وہ موتی ، جو دُرِشہوار تھا ، کس طرح پایا اور کس طرح کھویا گیا ۔ اور لوگ کینو کی کہانی سُناتے ہیں ۔ ماہی گیر کینو اور اُس کی بیوی جوانا اور اُن کے ننھے بچے کویوٹٹو کی داستان !
اور یہ بارہا دُہرائی ہوئی داستان گاؤں والوں کے دِلوں میں گھر کر چکی ہے ، ہر ذہن میں جڑ پکڑ چکی ہے ۔ اور اُن بار بار دُہرائے جانے والے قصوں کی طرح جو لوگوں کے دلوں میں بس گئے ہیں ، اس قصہ میں بھی صرف اچھائی اور بُرائی ہے ، نیکی اور بدی ، سیاہ و سفید ، اور ان دو حدوں کے درمیان ۔۔۔ کچھ نہیں ۔
اگر یہ کہانی تمثیلی حکایت ہے تو شاید ہر شخص اس سے اپنے اپنے معنی اخذ کر سکتا ہے ، اور اس میں اپنی زندگی کا عکس دیکھ سکتا ہے ۔ بہرحال ، قصبے میں لوگ یہ کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔
ابھی اندھیرا چھٹا نہ تھا کہ کینو کی آنکھ کھل گئی ۔ ابھی تک آسمان پر ستارے چمک رہے تھے ۔ دِن کے اُجالے نے صرف نیچے مشرقی اُفق پر دھندلی سی روشنی پھینکی تھی ۔ مرغ بانگ دینے لگے تھے اور سویرے ہی جاگ پڑنے والے سور دال پات اُلٹ پلٹ کر کھانے کے لئے کچھ تلاش کر رہے تھے ۔
آنکھیں کھلتے ہی کینو کی نظر سب سے پہلے دروازے کے چوکھٹے پر پڑی جہاں سے روشنی اندر آ رہی تھی ، اور پھر چھت سے لٹکتے ہوئے اُس گہوارے نما بکس پر ، جس میں ننھا کویوٹٹو سویا ہوا تھا ۔ اور آخر میں سر گھما کر اُس نے اپنی بیوی جوانا کی طرف دیکھا ۔ جوانا اُس کے پہلو میں چٹائی پر سو رہی تھی ۔ اُس نے اپنی نیلی شال اس طرح لپیٹ رکھی تھی کہ اُس کا سینہ ، اُس کی پیٹھ ، حد یہ کہ اُس کی ناک تک ڈھکی ہوئی تھی ۔ جوانا کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں ۔ اور اُن آنکھوں کو کینو نے کبھی بند نہ پایا تھا ۔ کوئی ایسا موقعہ کینو کو یاد نہ تھا جب اپنی آنکھ کھلنے پر اُس نے جوانا کی آنکھوں کو بند پایا ہو ۔ جوانا کی گہری کالی آنکھوں میں ستارے چمک رہے تھے ۔ وہ اُس کی طرف دیکھ رہی تھی ، جیسے وہ ہمیشہ اُس کے جاگنے پر اُس کی طرف دیکھا کرتی تھی ۔
صبح دم ساحلِ سمندر پر امنڈتی ٹکراتی موجوں کی آواز کینو کے کانوں تک پہنچی ۔ شگون اچھا تھا ۔ کینو نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔ وہ اِس موسیقی کو سکون سے سننا چاہتا تھا ۔ شاید یہ اُس کی عادت تھی یا شاید اُس کے قصبے کے سارے لوگ یہی کرتے تھے ۔ اور گیت بنانے میں تو اُن کا جواب نہ تھا ۔ ہر چیز جسے وہ دیکھتے یا جس کے بارے میں سوچتے گیتوں میں ڈھل کر امر ہو جاتی ۔ مگر یہ بہت پہلے کی بات تھی ۔ اب وہ لوگ نہ رہے ، اُن کے گیت باقی رہ گئے تھے ۔ کینو کو یہ گیت یاد تھے ۔ اب ان گیتوں میں کوئی نیا اضافہ نہیں ہوا تھا لیکن کبھی کبھی کسی کے کانوں میں اپنا کوئی خاص ذاتی گیت ضرور گونج اُٹھتا ۔ اس وقت کینو بھی ایک ان لکھے گیت کی کیفیت میں گم تھا ۔ گیت کے سُر بڑے شفاف اور مدھم تھے اور اگر وہ اُسے کوئی نام دے سکتا تو اس گیت کو " گھروندے کا گیت " کہتا ۔
اُس نے کمبل ناک پر کھینچ کر اوڑھ رکھا تھا تاکہ رِستی ہوئی مرطوب ہوا سے محفوظ رہ سکے ۔ پہلو میں سرسراہٹ محسوس کرکے اُس کی آنکھیں جھپکیں ۔ جوانا نہایت آہستہ سے اُٹھ رہی تھی ۔ جوانا اُٹھ کر اپنے سخت ننگے پیروں سے چلتی ہوئی اُس لٹکتے ہوئے بکس کے پاس گئی جس میں کویوٹٹو سویا ہوا تھا ۔ اُس نے ننھے بچے پر جھک کر کوئی تسلی بخش لفظ کہا ۔ کویوٹٹو نے آنکھیں کھول کر اپنی ماں کو دیکھا ۔ پھر اُس نے آنکھیں بند کر لیں اور گہری نیند میں ڈوب گیا ۔
پھر جوانا تنور کے پاس گئی ، ایک کوئلہ کُرید کر نکالا اور اُسے پنکھے سے جھلنے لگی ۔ انگارہ سُلگ اُٹھا اور جوانا نے سوکھی ڈالیاں توڑ توڑ کر اُس پر ڈالیں ۔
اب کینو بھی اُٹھ کھڑا ہوا ۔ اُس نے کمبل کو کندھوں پر ، سر پر اور ناک پر لپیٹ لیا ۔ پاؤں چپل میں ڈالے اور باہر چلا آیا تاکہ صبح صادق کی پھوٹتی ہوئی روشنی کا نظارہ کر سکے ۔
دروازے کے باہر وہ اکڑوں ہو بیٹھا اور کمبل کے دونوں سروں کو کھینچ کر گھٹنوں پر لپیٹ لیا ۔ اُس نے دیکھا بادلوں کے ذرے ہوا میں شعلے سے اُڑا رہے ہیں ۔ ایک بکری اُس کے پاس آئی ، اُسے سونگھ کر دیکھا اور اپنی سرد پیلی آنکھوں سے اُسے گھورنے لگی ۔ اُس کے پیچھے جوانا کی سُلگائی ہوئی آگ بھڑک اُٹھی اور گھاس پھوس اور ڈالیوں کی بنی ہوئی دیوار کے سوراخوں میں سے روشنی کے تیز نیزے پھینکنے لگی ۔ اور دروازے کے سامنے روشنی کا ایک چوکھٹا سا بن گیا ۔ ایک آخری پروانہ لپک کر آگ کے پاس آیا ۔
" گھروندے کا گیت " کینو کے پیچھے دھیرے دھیرے گونج اُٹھا اور جوانا کی چکی اس گیت پر تال دینے لگی ۔ جوانا صبح کی روٹیوں کے لیے مکئی پیس رہی تھی ۔
پو پھٹ رہی تھی ۔ روشنی تیزی سے پھیلنے لگی ۔ پہلے ہلکی دُھلی ہوئی دودھیا سی روشنی ، پھر ایک تیز چمک اور پھر اچانک ایک آگ سی لپک اُٹھی ۔ سورج خلیج کے اوپر نکل آیا ۔ کینو نے اپنی نظریں نیچی کر لیں تاکہ سورج کی خیرہ کن تاب سے بچ سکے ۔ وہ اپنے پیچھے روٹیاں تھپکنے کی آواز سُن سکتا تھا اور توے سے اُٹھتی ہوئی پکی ہوئی روٹیوں کی سوندھی بُو سونگھ سکتا تھا ۔ چیونٹیاں زمین پر بڑی مصروفیت سے اِدھر اُدھر پھر رہی تھیں ۔ بڑے بڑے کالے چیونٹے جن کے بدن چمک رہے تھے اور چھوٹی تیز رفتار مٹیالی چیونٹیاں ۔ کینو کسی دیوتا کی معروضیت کے ساتھ ان حقیر چیونٹیوں کو دیکھتا رہا ۔ ایک مٹیالی چیونٹی اس گڑھے سے بچ کر نکلنے کی کوشش کر رہی تھی جسے مورخور نے چیونٹیوں کو پھانسنے کے لیے کھود رکھا تھا ۔
ایک مرجھلا سا کتا پاس آیا اور کینو کی زبان سے کوئی نرم لفظ سُن کر وہیں بیٹھ گیا ، اپنی دُم موڑ کر پاؤں پر رکھ لی اور بڑی نزاکت سے ٹھوڑی ٹیکے لیٹ گیا ۔ کتے کا سارا بدن کالا تھا ، صرف ابرو کے پاس چند سنہری دھبے نظر آ رہے تھے ۔
یہ صبح ایسی ہی تھی جیسے کوئی بھی عام صبح ہوتی ہے ، لیکن تھی بڑی مکمل ۔۔۔ بھرپور ! ۔ کینو نے رسی کے کھنچنے کی آواز سنی ۔ جوانا کویوٹٹو کوگہوارے سے اُٹھا رہی تھی ۔ جوانا نے پہلے بچے کو نہلایا ۔ پھر اپنی شال میں جھولا سا بنا کر سینے کے قریب اُسے لٹا لیا ۔ کینو پیچھے مڑے بغیر ان سب باتوں کو محسوس کر سکتا تھا ۔ جوانا دھیمے سُروں میں ایک پُرانا گیت گنگنانے لگی ۔ اس گیت کے تین ہی سُر تھے اور یہ گیت بھی " گھروندے کے گیت " کا ایک حصہ تھا ۔ کبھی کبھی اس گیت کے سُر اتنے اونچے اُٹھتے کہ گلے کے تار تن جاتے اور اس گیت کی گرمی کے احساس سے ایک مکمل اکائی کا احساس ہونے لگتا ۔ ( جاری ہے )
 
آخری تدوین:
( گزشتہ سے پیوستہ )

جھاڑیوں کی باڑ سے پرے اور بھی پھونس کی جھونپڑیاں تھیں ۔ دھواں ان گھروں سے بھی نکل رہا تھا ۔ روٹیاں تھپکنے کی آواز آ رہی تھی ۔ ناشتہ کی تیاریاں ہر گھر میں ہو رہی تھیں لیکن ان گھروں کے گیت دوسرے تھے ۔ ان گھر والوں کی بیویاں اور تھیں ۔ اس کی بیوی تو جوانا تھی اور کینو جوان تھا ، تنومند تھا ۔ اس کے گہرے کالے بال اس کی مٹیالی پیشانی پر پڑے ہوئے تھے ۔ اس کی تیز چمکیلی آنکھیں غضب ناک تھیں ۔ اس کی مونچھیں سخت اور باریک تھیں ۔
اس نے اپنی ناک پر سے کمبل ہٹا لیا کیونکہ اب وہ زہریلی ہوا ختم ہو چکی تھی ۔ گھر پر پیلی دھوپ پڑنے لگی تھی ۔ جھاڑیوں کی باڑھ کے پاس دو مرغ گردنیں پھلائے، پنکھ اکڑائے لڑنے کی تیاری کر رہے تھے ۔ لیکن یہ لڑائی کے لیے سدھے ہوئے مرغ نہیں تھے ۔ کینو کچھ دیر تک ان کی بےہنگم سی لڑائی دیکھتا رہا ، پھر اس نے آنکھیں اوپر اٹھائیں ۔ جنگلی فاختاؤں کا ایک غول پہاڑوں کی طرف اڑ رہا تھا ۔
اب ساری دنیا جاگ پڑی تھی ۔ کینو اٹھ کر گھر کے اندر چلا آیا ۔ جیسے ہی وہ دروازے میں داخل ہوا جوانا جلتے تنور کے پاس سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔ اس نے کویوٹٹو کو گہوارے میں سلا دیا ۔ پھر اپنے لانبے کالے بالوں میں کنگھی کی اور انہیں دو چوٹیوں میں گوندھ کر ایک پتلے سے سبز ربن میں باندھ دیا ۔
کینو تنور کے پاس ہی اُکڑوں بیٹھ گیا ۔ مکئی کی ایک گرم روٹی چٹنی سے کھائی، تھوڑی سے میکسیکی شراب پی ۔ یہی اس کا ناشتہ تھا ۔ اس ناشتہ کے سوا اسے کوئی اور ناشتہ نصیب بھی نہیں ہوا تھا بجز تہوار کے دنوں کے ، یا صرف ایک شاندار دعوت کے موقع پر جب وہ لذیز تلی ہوئی چیزیں اتنی زیادہ کھا گیا تھا کہ مرتے مرتے بچا ۔ جب کینو اپنا ناشتہ ختم کر چکا تو جوانا تنور کے پاس آ بیٹھی اور ناشتہ کرنے لگی ۔ اُنہوں نے اس دوران میں صرف ایک دفعہ بات کی ۔ ویسے انہیں باتوں کی ضرورت بھی نہ تھی ۔ کینو نے اطمینان کی سانس لی اور یہی ان کی گفتگو تھی ۔
دھوپ سے گھر میں گرمی ہونے لگی تھی ۔ سورج کی کرنیں سوراخوں میں سے چھن چھن کر اندر آ رہی تھیں ۔ ایک شعاع کویوٹٹو کے گہوارے اور اس کی رسیوں پر پڑ رہی تھی ۔ رسی پر ایک ذرا سی حرکت نے دونوں کی توجہ کھینچ لی ۔ دونوں کی آنکھیں ایک جگہ جم گئیں اور کینو اور جوانا جیسے پتھر ہو کر رہ گئے ۔ گہوارے کی رسی پر آہستہ آہستہ ایک بچھو نیچے اتر رہا تھا ۔ اس کی ڈنک والی دم اوپر اٹھی ہوئی تھی ۔
کینو نے اپنی سانس روک لی ۔ اس کی آنکھوں سے خوف جاتا رہا ۔ اس کے ذہن میں ایک نیا گیت گونجنے لگا ۔ " بدی کا گیت " دشمن کا گیت ، اس کے گھروندے کے دشمن کا گیت ، پراسرار وحشیانہ ، خوفناک نغمہ، جس کے سامنے اس کے گھروندے کا گیت ایک درد بھرا نوحہ بن کر رہ گیا تھا ۔
بچھو نزاکت سے آہستہ آہستہ نیچے اتر رہا تھا ، گہوارے کے قریب سے قریب تر ہو رہا تھا ۔ جوانا اپنی سانس روکے بار بار ایک پرانا منتر دہرا رہی تھی ۔بلاؤں کو دور کرنے والا منتر ، اور ساتھ ہی دانت کچکچائے ایک عیسائی دعا " او مریم " بھی گنگناتی جاتی تھی ۔ لیکن کینو کا جسم متحرک تھا ۔ اس کا جسم کمرے میں آہستہ آہستہ سرک رہا تھا ۔ اس کے دونوں ہاتھ آگے بڑھے ہوئے تھے، ہتھیلیاں نیچے تھیں اور اس کی انکھیں بچھو پر جمی ہوئی تھیں ۔
گہوارے میں ننھا معصوم کویوٹٹو ہنس رہا تھا اور ہنس کر اپنا ننھا ہاتھ بچھو کی طرف بڑھا رہا تھا ۔ بچھو نے خطرے کو محسوس کر لیا اور اس وقت جب کہ کینو کے ہاتھ اس تک پہنچ ہی گئے تھے ، بچھو اچانک رک گیا اور اس کی دم فوراً دو ایک جھٹکوں میں تن کر کھڑی ہو گئی اور دم کے سرے پر ڈنک کا کانٹا چمکنے لگا ۔
کینو بالکل ساکت اپنی جگہ کھڑا رہا ۔ اسے اپنے پیچھے جوانا کی آواز سنائی دے رہی تھی جو زیرِ لب کوئی ٹونہ منتر بار بار دہرا رہی تھی ، اور " دشمنی کی موسیقی اس کے کانوں میں گونج رہی تھی ۔ جب تک بچھو نہ ہلے کینو بھی حرکت نہیں کر سکتا تھا ۔ اور بچھو بالکل ساکت تھا ، کیونکہ اسے یہ احساس ہو گیا تھا کہ موت کا ہاتھ اس سے بالکل قریب ہے اور آگے بڑھ رہا ہے ۔ کینو کا ہاتھ بڑی صفائی سے ، بڑی آہستگی سے آگے بڑھ رہا تھا ۔ بچھو کی ڈنک والی دم ایک جھٹکے میں سیدھی تن گئی اور اسی لمحے ہنستے کویوٹٹو نے رسی پکڑ کر ہلائی اور بچھو گر پڑا ۔
کینو کا ہاتھ لپکا لیکن بچھو اس کی گرفت سے چھوٹ کر بچے کے شانہ پر گرا اور فوراً اس نے ڈنک مارا ۔ کینو نے جھلا کر بچھو کو پکڑ لیا اور اسے انگلیوں سے مسل ڈالا ، پھر اسے مکیوں سے مار مار کر فرش کی مٹی میں دبا دیا ۔ گہوارے میں ننھا کویوٹٹو مارے درد کے چیخ اٹھا ۔
کینو پاگل سا ہو کر بچھو کو ایڑیوں سے رگڑنے لگا، حتی ٰ کہ اس جگہ تھوڑی سی نمی کے علاوہ اور کچھ باقی نہ رہا ۔ اس کی آنکھوں میں غیض و غضب کی آگ تھی اور اس کے کانوں میں " دشمن کا گیت " گونج رہا تھا ۔ لیکن جوانا نے بچے کو اپنے بازوؤں میں اٹھا لیا ۔ اس نے دیکھا جس جگہ بچھو نے کاٹ کھایا تھا ، جلد سرخ ہو رہی ہے ۔ اس نے زخم پر اپنے ہونٹ رکھ دیے اور زہر چوس کے تھوک ڈالا ۔ وہ بار بار زخم کو چوستی رہی اور زہر تھوکتی رہی ۔ کویوٹٹو درد سے چلانے لگا ۔
کینو اِدھر اُدھر بےمقصد منڈلاتا رہا ۔وہ بالکل بےبس تھا ، اب کچھ نہیں کر سکتا تھا ۔ بچے کی چیخیں سن کر آس پاس کے گھروں سے ہمسائے جمع ہونا شروع ہوئے ۔ کینو کا بھائی رواں ٹوماس ، اس کی فربہ اندام بیوی اپالونیا اور ان کے چار بچے دروازے کے پاس راستہ روکے کھڑے تھے ، اور ان کے پیچھے دوسرے لوگ جھانک جھانک کر دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ ایک چھوٹا سا لڑکا ٹانگوں میں سے رینگتا ہوا اندر گھس آیا ۔ سامنے کھڑے ہوئے لوگ پیچھے والوں کو بتا رہے تھے کہ اندر کیا ہو رہا ہے ۔ اور یہ بات سرگوشیوں میں آگے سے پیچھے تک پہنچی ۔
" بچھو تھا بچھو ۔ بچے کو کاٹ کھایا ہے "۔
جوانا زخم چوستے چوستے کچھ دیر کے لیے رک گئی ۔ زخم تھوڑا سا کھل گیا تھا ۔ اس کے کنارے چوسنے سے سفید پڑ گئے تھے لیکن اس کے ارد گرد سرخی پھیل رہی تھی ، اور اتنا حصہ سوج کر سخت ہو گیا تھا ۔ اور یہ سب لوگ بچھو کے بارے میں جانتے تھے کہ اس کے کاٹنے بڑا آدمی تو بیمار ہو کر پھر اچھا بھی ہو سکتا ہے لیکن بچہ زہر کے اثر سے شاید مر ہی جائے ۔ وہ جانتے تھے کہ پہلے تو سوجن ہوتی ہے ، پھر آہستہ آہستہ بخار چڑھتا ہے ، گلا تن جاتا ہے اور پھر پیٹ میں مروڑ شروع ہوتا ہے ۔ اگر زہر اندر تک سرایت کر گیا تو کویوٹٹو نہیں بچ سکے گا ۔ لیکن درد آہستہ آہستہ کم ہونے لگا اور بچے کی دلدوز چیخیں ، دھیمی کراہوں میں بدل گئیں ۔
کینو کو تعجب ہوتا تھا کہ اس کی دبلی پیلی بیوی میں کتنی آہنی قوت تھی ۔ وہ جو اتنی صابر اور فرمانبردار تھی ، صابر ، فرمانبردار اور خوش مزاج وہ درد برداشت کرنے کی اتنی قوت رکھتی تھی کہ بچے کی پیدائش کے موقع پر دردِ زہ سے دُہری ہوتے ہوئے بھی اس کے منہ سے ایک چیخ نہ نکلی تھی ۔ وہ شدید بھوک اور تکان کینو سے کہیں اچھی طرح برداشت کر لیتی تھی ۔ کشتی چلانے میں وہ مردوں کو شرماتی اور اب اس نے یہ کیسی نادر بات کی تھی ۔
" ڈاکٹر ! " جوانا بولی " جاؤ ، ڈاکٹر کو بلا لاؤ "
یہ بات پھر سرگوشیوں میں سارے ہمسایوں تک پہنچی ، جو چھوٹے سے صحن میں ایک دوسرے سے گتھے ہوئے کھڑے تھے اور انہوں نے اسی بات کو آپس میں دہرایا " جوانا ڈاکٹر کو بلانے چاہتی ہے " ۔ یہ عجیب بات تھی ، ایک نادر اور یادگار موقع تھا کہ کسی کے گھر ڈاکٹر کو بلایا جائے ! ان جھونپڑیوں میں کبھی کوئی ڈاکٹر نہ آیا تھا ۔ آتا بھی کیوں ؟ وہ امیر لوگ جو تھے ، اس کا سارا وقت ان لوگوں کی بیماریوں پر توجہ دینے میں صرف ہوتا ، وہ جھونپڑیوں میں نہیں پتھر اور گارے کے پکے گھروں میں اور شہر میں رہا کرتے تھے ۔
صحن میں ہمسایوں نے کہا " ڈاکٹر نہیں آئے گا "۔
پھر دروازے میں کھڑے ہوئے لوگوں نے کہا " وہ نہیں آئے گا "۔
اور کینو کے کانوں تک بھی یہ بات پہنچی ۔ اس نے جوانا سے کہا ۔ " ڈاکٹر نہیں آئے گا "۔
جوانا نے انکھیں اوپر اٹھا کر اپنے شوہر کو دیکھا ۔ اس کی سرد آنکھوں میں کسی شیرنی کی آنکھوں کا عزم تھا ۔ یہ جوانا کا پہلوٹھی کا بچہ تھا ۔ جوانا کی دنیا میں یہ بچہ ہی اس کا سب کچھ تھا ۔ کینو نے جوانا کا عزم دیکھا اور " گھروندے کا گیت " اس کے کانوں میں پھر گونج اٹھا ۔ اب کے اس گیت کے سر بڑے تیز تھے ۔
" ڈاکٹر نہیں آئے گا تو ہم اس کے پاس جائیں گے "۔ جوانا نے کہا ۔ اور ایک ہاتھ سے اس نے اپنی نیلی شال کو سر پر درست کیا ۔اس کے ایک سرے کا جھولا سا بنا کر اس میں کراہتے ہوئے بچے کو لٹا لیا اور دوسرے سرے سے بچے کی آنکھوں پر سایہ کر دیا کہ وہ دھوپ سے بچا رہے ۔
دروازے اور صحن میں کھڑے ہوئے لوگ ایک دوسرے کو پیچھے دھکیل کر جوانا کے لیے راستہ بنانے لگے ۔ پہلے بچے کو لیے ہوئے جوانا ان کے درمیان سے گزری ، پھر اس کے پیچھے پیچھے کینو ۔ جونہی وہ دونوں گیٹ سے باہر نکل کر سڑک پر چلنے لگے سارے ہمسائے ان کے پیچھے ہو لیے ۔ یہ ایک گھر کا نہیں سارے محلہ کا معاملہ بن گیا تھا ۔ ( جاری ہے )
 
(گزشتہ سے پیوستہ )

یہ جلوس ، بڑے دھیمے دھیمے قدموں سے چلتا شہر کے بیچ پہنچ گیا ۔جوانا اور کینو جلوس کے آگے آگے تھے اور ان کے پیچھے رواں ٹوماس اس کی بیوی اپالونیا جو اپنی بڑی توند لیے چلتے چلتے ہانپ رہی تھی ۔ اور ان کے پیچھے سارے پڑوسی اور ان کے بچے جو دائیں بائیں کنارے کنارے چل رہے تھے ۔ پیلا سورج ان سب کے کالے سائے زمین پر پھینک رہا تھا ۔ اور وہ سب اپنے ہی کالے سایوں پر چل رہے تھے ۔
آخر وہ سب اس جگہ پہنچ گئے جہاں جھونپڑیاں ختم ہوتی تھیں اور پتھر اور گارے کے پکے گھروں کی قطار شروع ہوتی تھی ۔ یہ شہر تھا جہاں باہر کی دیواریں سخت تھیں اور اندر باغ اور چمن ٹھنڈے تھے ۔دیواروں پر بوگن ویلیا کی بیلیں چڑھی ہوئی تھیں جن میں کاسنی ، سرخ اور سفید پھول لگے تھے ۔ ان " پراسرار " باغوں میں پنجروں میں بند چڑیاں گا رہی تھیں ۔ ان پرندوں کی گانے کی آواز ان کے کانوں میں آ رہی تھی ۔ اور پتھروں پر فواروں کے ٹھنڈے پانی کے جھپکوں کی آواز ۔
جلوس پلازا پر سے ہوتا ہوا گرجے کے سامنے سے گزرا ۔ جلوس میں اب پہلے سے زیادہ لوگوں کا ہجوم تھا ۔اطراف کی بستیوں میں جہاں سے وہ گزرتے تھے ، لوگ ان کے ساتھ ہو لیتے تھے ۔اور پھر ان نوواردوں کو سرگوشیوں میں سنایا جاتا کہ بچے کو بچھو نے کاٹ کھایا ہے اور بچے کے ماں باپ اسے ڈاکٹر کے پاس لے جا رہے ہیں ۔
گرجے کے سامنے بیٹھنے والے بھک منگے بھی جلوس میں شامل ہو لیے۔ یہ گداگر کسی کی مالی حالت کا جائزہ لینے میں بڑے ماہر تھے ۔ اُنہوں نے جوانا کے پرانے سائے کو دیکھا ، اس کی نیلی شال کے پھٹے ہوئے حصوں کا جائزہ لیا ۔ اس کی چوٹیوں سے بندھے ہوئے سبز ربن کی قیمت جانچی، پھر کینو کے کمبل کی بوسیدگی دیکھ کر یہ اندازہ لگایا کہ اسے استعمال کرتے کتنے برس گزرے ہوں گے ۔اس کے ہزار بار دھلے کپڑوں کو دیکھا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ بہت غریب ہیں ۔ پھر بھی وہ ساتھ ہو لیے کہ دیکھیں کیا عجیب ڈرامہ کھیلا جائے گا ۔
گرجے کے سامنے کے یہ چاروں بھک منگے شہر کے سارے معاملات سے واقف تھے ۔ وہ ان نوجوان عورتوں کے چہروں پر جذبات کے اظہار کا مطالعہ کرتے تھے جو اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے کے لیے گرجا گھر آتی تھیں ۔ پھر پادری کے سامنے اعتراف کر چکنے کے بعد انہیں باہر نکلتے دیکھ کر یہ گداگر پہچان لیتے تھے کہ ان سے کیا گناہ سرزد ہوا ہوگا ۔ وہ شہر کے ہر " اسکینڈل " کی کھوج میں رہتے تھے ، اور بڑے بڑے جرائم تک کا انہیں علم تھا ۔ وہ گرجے کے سائے میں رہتے تھے اور دن رات تاک لگائے رہتے تھے ۔ ان کی نظر سے بچ کر کوئی آدمی اپنے قلب و روح کی تسکین کے لیے گرجے میں تھوڑا سا وقت تنہائی میں نہیں گزار سکتا تھا ۔
اور یہ گداگر ڈاکٹر کے بارے میں بھی جانتے تھے ۔ اس کی جہالت ، اس کی بےدردی ، اس کی حرص اور لالچ اس کی نفسانی خواہشات ، اس کے گناہ ، کوئی چیز ان سے پوشیدہ نہ تھی ۔وہ جانتے تھے کی ڈاکٹر کتنی بےاحتیاطی سے عورتوں کے حمل گراتا تھا ۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اس کے ہاتھوں کتنی موتیں ہوئی تھیں اور کتنی لاشیں دفن ہونے کے لیے گرجا گھر لائی جاتی تھیں ۔ ڈاکٹر کبھی کبھی انہیں تانبے کے پیسے بھیک میں دیا کرتا تھا ۔
گرجا گھر میں عشائے ربانی ختم ہو چکی تھی اور فی الحال انہیں بھیک ملنے کی کوئی امید نہ تھی لہٰذہ یہ گداگر جلوس کے ساتھ ہو لیے ، یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ موٹا ، کاہل ڈاکٹر اس غریب بچے کے لیے کیا کرتا ہے ، لوگوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی انہیں مسلسل کھوج تھی ۔
جلوس چھوٹے چھوٹے قدموں سے آگے بڑھتا ہوا آخر ڈاکٹر کی کوٹھی پر پہنچ گیا اور بڑے گیٹ کے باہر رک گیا ۔ اندر سے پانی کے جھپکوں کی آواز آ رہی تھی ،پنجروں میں قید چڑیاں گا رہی تھیں اور لمبی لمبی جھاڑنوں سے صفائی ہو رہی تھی ۔ ڈاکٹر کے باورچی خانے سے تلے ہوئے گوشت کی سوندھی بو اُٹھ رہی تھی ۔
کینو ایک لمحہ کے لیے جھجکا ۔ یہ ڈاکٹر اس کے اپنے لوگوں میں سے نہیں تھا ۔ ڈاکٹر اس نسل سے تعلق رکھتا تھا جس نے تقریباؐ چار سو سال تک اس کی اپنی نسل کے لوگوں کا حق چھینا تھا ، انہیں بھوکا مارا تھا ، انہیں تحقیر کی نظر سے دیکھا تھا اور خوف دلا کر انہیں یوں دبائے رکھا تھا کہ ان کے گھروں میں غربت و عسرت بس گئی تھی۔ کینو جب کبھی اس نسل والوں میں سے کسی کے سامنے پہنچتا تھا تو وہ اپنے آپ کو کمزور محسوس کرتا تھا ۔ کمزور ، بےبس اور خوف زدہ۔ لیکن ساتھ ہی وہ اندر ہی اندر غصہ سے پیچ و تاب کھاتا رہتا تھا ۔ غصہ اور ہیبت ساتھ ساتھ اس کے سینے میں بیدار ہوتے تھے ۔ وہ ڈاکٹر کو جان سے مار سکتا تھا لیکن اس سے بات نہیں کر سکتا تھا ۔ کیونکہ ڈاکٹر کی نسل والے اس کی نسل والوں سے یوں بات کرتے تھے جیسے وہ انسان نہ ہوں، بےسمجھ جانور ہوں ۔
اور جب دروازہ کھٹکھٹانے کے لیے کینو نے اپنا ہاتھ اُٹھایا ، اس کے سینے میں غیض کا ایک طوفان اُمڈ آیا ۔ " غنیم کی گرج دار موسیقی " سے اس کے کان پھٹنے لگے ۔ اس کے ہونٹ سختی سے بھنچ گئے ۔ لیکن اپنے بائیں ہاتھ سے اس نے احتراماؐ ٹوپی اتار لی اور ڈاکٹر کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگا ۔ جوانا کے بازوؤں میں ننھا کویوٹٹو آہستہ سے کراہا ۔ اور جوانا نے بچے کو پچکار کر خاموش کیا ۔ ہجوم اور قریب آگیا کہ اب جو کچھ ہوگا اُسے اچھی طرح دیکھ اور سن سکے ۔
ایک لمحے کے بعد بڑے گیٹ کے کواڑ ذرا سے کھلے ۔ کینو کو اندر ہرا بھرا ٹھنڈا چمن نظر آیا ۔ اور چمن کے درمیان ایک فوارہ ۔ جس آدمی نے دروازہ کھولا تھا ، وہ اس کی اپنی نسل کا آدمی تھا ۔ کینو نے اس سے اپنی قدیم زبان میں کہا ۔ " ننھا بچہ ، میرا پہلوٹھی کا بچہ ، اسے بچھو کا زہر چڑھ گیا ہے ۔"
دروازہ پھر تھوڑا سا بند ہو گیا ۔ ڈاکٹر کے نوکر نے اپنی قدیم زبان میں جواب کسرِشان سمجھا اور اپنے آقاؤں کی زبان میں کہا ۔ " ذرا دیر رکنا ۔ میں خود اندر جا کر اطلاع دیتا ہوں ۔"۔
اُس نےدروازہ بند کرکے چٹخنی لگا دی ۔ تپتے سورج نے ہجوم کے کالے سایوں کو کوٹھی کی سفید دیوار پر پھیلا دیا ۔ اپنی خوابگاہ میں ڈاکٹر ایک اونچی مسہری پر ، بچھونے میں بیٹھا تھا ۔ اس نے سرخ ریشمی ڈریسنگ گاؤن پہن رکھا تھا ، جو پیرس سے آیا تھا ۔ یہ ڈریسنگ گاؤن اب اس کے سینے پر سے تنگ ہو گیا تھا ۔ اس کی گود میں چاندی کا ایک ٹرے رکھا ہوا تھا جس میں چاکلیٹ سے بھری چاندی کی کیتلی رکھی تھی اور ایک ننھا سا بڑا ہی نازک چینی کا پیا لہ ۔ اتنا نازک کہ وہ ڈاکٹر کے موٹے ، اور بھدے ہاتھ میں بڑا عجیب سا لگتا تھا ۔ ڈاکٹر احمقانہ انداز میں پیالے کو صرف ایک انگلی اور انگوٹھے سے پکڑ کر اپنے اُٹھے ہوئے منہ تک لے جاتا تھا ۔ ڈاکٹر کا منہ بیزاری سے اُترا ہوا تھا اور اس کی آنکھیں گوشت کے لوتھڑوں میں دھنسی ہوئی تھیں ۔ وہ بےحد موٹا ہوا جا رہا تھا یہاں تک کہ گلے میں چربی کے دباؤ سے آواز بیٹھ گئی تھی۔ اُس کے پاس ہی ایک میز پر ایک چھوٹی سی گھنٹی رکھی ہوئی تھی اور سگریٹوں کا ایک کٹورا سا ۔ گھر کا فرنیچر پرانا ، وزنی اور گہرے رنگ کا تھا ، تصویریں ساری مذہبی موضوعات سے متعلق تھیں اور بڑی سے رنگین تصویر اس کی بیوی کی تھی جو مر چکی تھی ۔ ایصالِ ثواب کے لیے گرجا گھر میں جو دعائیں پڑھوائی گئیں اور جن دعاؤں کے اخراجات مرحوم و مغفور بیوی کی اپنی پس ماندہ رقم سے ادا کیے گئے، کوئی اثر رکھتی تھیں تو غالباً وہ اس وقت جنت میں تھی ۔
ڈاکٹر کسی زمانے میں تھوڑی مدت کے باہر کی دنیا میں گھوم آیا تھا اور اس کی ساری یادیں ، حسرتیں اور تمنائیں فرانس سے وابستہ تھیں۔ ڈاکٹر کہا کرتا۔ " مہذب زندگی تو وہاں بسر کی جا سکتی ہے ۔" مہذب زندگی سے اس کا مطلب تھا کہ وہاں وہ قلیل آمدنی میں ریستورانوں میں کھانا کھا سکتا تھا اور ایک داشتہ بھی رکھ سکتا تھا ۔ اس نے چاکلیٹ کا دوسرا کپ پیا اور ایک میٹھا بسکٹ انگلیوں میں توڑا۔ اس کا نوکر خواب گاہ کے کھلے دروازے کے پاس آکھڑ ہوا اور انتظار کرتا رہا کہ ڈاکٹر کی توجہ اس کی طرف مبذول ہو ۔
" کیا بات ہے ؟" ڈاکٹر نے پوچھا ۔
"ایک چھوٹا دیسی آدمی بچے کے ساتھ آیا ہے ۔ کہتا ہے کہ بچے کو بچھو نے کاٹا ہے "۔
ڈاکٹر نے آہستہ سے اپنا نازک پیالہ طشتری میں رکھا۔ "کیا میرے پاس اور کوئی بہتر کام کرنے کو نہیں جو میں کیڑوں کے کاٹے کا علاج کروں اور وہ بھی دیسی آدمیوں کے لیے! میں ڈاکٹر ہوں ، مویشیوں اور جانوروں کا معالج نہیں ۔"
" بالکل درست سرکار" نوکر نے ہاں میں ہاں ملائی۔
" کیا اس کے پاس پیسے ہیں ؟ ڈاکٹر نے پوچھا ۔ " نہیں ان کے پاس کبھی پیسے نہیں ہوتے ۔ اور مجھ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ میں مفت علاج کروں ۔ میں تنگ ا گیا ہوں ۔ جاؤ ، دیکھو ، اس کے پاس پیسے ہیں کہ نہیں ۔"
گیٹ کے پاس آکر نوکر نے کواڑ ذرا سے کھولے، جھانک کر منتظر ہجوم کو دیکھا اور اب کے اپنی قدیم زبان میں کہا ۔ " کیا علاج کے لیے تمہارے پاس پیسے ہیں ؟"
کینو نے کمبل کے اندر ہاتھ ڈالا اور کسی مخفی گوشہ سے ایک مڑا تڑا کئی تہوں میں لپٹا ہوا کاغذ نکالا ۔ تہ بہ تہ کھولنے پر آخر اُس میں سے چند چھوٹے تخم سے موتی نکلے، بدنما، بھورے رنگ کے ، بالکل چپٹے، جن کی کوئی قیمت ہی نہ تھی۔ ملازم نے کینو کے ہاتھ سے وہ کاغذ لیا اور پھر دروازہ بند کردیا ۔ اور اب کے اُسے واپس آنے میں دیر نہیں لگی ۔ اس نے کواڑ کو بس اتنا سا کھولا کہ اس میں سے کاغذ نکل سکےاور کاغذ کینو کے ہاتھ میں واپس دے کر کہا ۔ " ڈاکٹر صاحب باہر گئے ہوئے ہیں ۔ اُنہیں ایک ضروری کیس کے لیے ابھی بلایا گیا تھا ۔"
اس سفید جھوٹ پر اسے خود ہی شرم آئی اور اس نے جلدی سے کواڑ بند کرکے اپنا منہ چھپا لیا ۔
غیرت اور شرم کی ایک لہر سارے مجمع میں دوڑ گئی ۔ اور مجمع آہستہ آہستہ چھٹنے لگا ۔ بھک منگے گرجا گھر کی سیڑھیوں پر جاکر بیٹھ رہے ۔ بعد میں آئے ہوئے اجنبی اپنی اپنی راہ ہو لیے اور ہمسائے بھی ہٹ گئے تاکہ کینو کو سب کے سامنے بےعزت ہونے کا احساس نہ ہو ۔
کینو بہت دیر تک گیٹ کے سامنے کھڑارہا ۔ جوانا بھی اس کےپہلو میں کھڑی تھی ۔ آہستہ سے اُس نے ٹوپی سر پر پہن لی اور پھر اچانک مٹھی بھینچ کر گیٹ کے آہنی کواڑ پر ایک زوردار مکہ مارا پھر تعجب سے اپنے ہاتھ کو دیکھنے لگا جس کی پوروں کے جوڑ پھٹ کر انگلیوں کے درمیان خون بہنے لگا تھا ۔ (جاری ہے )
 
Top