دوست کا دل میں دم غنیمت ہے ٭ راحیلؔ فاروق

دوست کا دل میں دم غنیمت ہے
لوگ سمجھیں تو غم غنیمت ہے

عاشقی میں ستم غنیمت ہے
کعبے میں یہ صنم غنیمت ہے

یہ وجود و عدم غنیمت ہے
کچھ نہ ہو تو بھرم غنیمت ہے

یہ جو لکھتے ہیں ہم غنیمت ہے
سر کے ہوتے قلم غنیمت ہے

چھوڑیے مے حلال ہے کہ حرام
جو بھی ہے محترم غنیمت ہے

عقل نازک ہے ٹھوکروں کے لیے
عشق کا دم قدم غنیمت ہے

نہ سہی تو ترا خیال سہی
تو تو اس سے بھی کم غنیمت ہے

مسجدوں میں کہاں یہ محرابیں
تیرے ابرو کا خم غنیمت ہے

ایک زمزم بہت ہے صحرا کو
ہجر میں چشمِ نم غنیمت ہے

دوستوں نے نہیں کیا نہ سہی
دشمنوں کا کرم غنیمت ہے

تو نے کھائی نہیں وفا کی قسم
یہ بھی تیری قسم غنیمت ہے

ہم کہاں اور خدا کہاں راحیلؔ
ہمیں شیخِ حرم غنیمت ہے

راحیلؔ فاروق​
 
Top