دوستی کا سفر... روزنِ دیوار سے … عطاء الحق قاسمی

اس روز ہم نے طے کیا کہ علی الصبح بیدار ہونے کی بجائے ہم دیر تک سوئے رہیں گے ، چنانچہ دوپہر بارہ بجے میرے ہوٹل کے کمرے کے فون کی گھنٹیاں بجنے لگیں مگر میں تو سو رہا تھا ۔ مجھے کیا پتہ کیا ہو رہا ہے اس پر حامد میر اور جاوید چودھری نے گھبراہٹ کے عالم میں ہاؤس کیپنگ کے ایک اہلکار کو ساتھ لیا جس نے ماسٹر کی سے میرے کمرے کا دروازہ کھولا، یہ تینوں اندر داخل ہوئے اور انہوں نے یہ دیکھ کر سکھ کا گہرا سانس لیا کہ اس کمرے کا مکین نہ صرف یہ کہ زندہ سلامت ہے بلکہ باآواز بلند خراٹے بھی لے رہا ہے۔ اس کے بعد حامد میر اور جاوید چودھری تاشقند کی سیر کو نکل گئے ۔ میری آنکھ ایک بجے دوپہر کو کھلی اور پھر میں ان دوستوں کے کمروں میں فون کرتا رہا لیکن اب ادھر سے جواب کہاں آنا تھا ؟ چنانچہ میں نے وقت ضائع کرنے کی بجائے اس امر پر غوروفکر شروع کر دیا کہ اس کرہ ارض کی عمر مزید کتنے کھرب سال باقی ہے اور کیا اس مختصر سی مدت میں ، میں اسے درپیش مسائل حل کر سکوں گا ؟ یہ لمحے میرے لئے بہت مسرت انگیز تھے کیونکہ عالمی اور مقامی حکمرانوں کو بھی اس امر کا یقین ہوتا ہے کہ انہوں نے کھربوں سال زندہ رہنا ہے اور یہ فکر بھی کہ کیا اتنی کم مدت میں وہ کیا کر سکیں گے، مجھے ان بڑے لوگوں کے ساتھ اپنی یہ ذہنی اور فکری مماثلت بہت اچھی لگی، غوروفکر کا یہ سلسلہ تقریباً پانچ بجے تک جاری رہا اور یہ اس وقت ٹوٹا جب میرے یہ دوست تاشقندی پلاؤ کے ساتھ میرے کمرے میں داخل ہوئے، میرا ارادہ ان سے گلے شکوے کا تھا، لیکن پلاؤ کھانے کے بعد ایک پنجابی محاورے ”منہ کھائے اور آنکھ شرمائے “ کی وجہ سے میں اپنے ارادے کو عملی جامہ نہ پہنچا سکا !
اب آتے ہیں اصل بات کی طرف ،ہم تینوں حکومت ازبکستان کی دعوت پر تاشقند کے مطالعاتی دورے پر گئے تھے، تاشقند سے ہمیں سمرقند بھی جانا تھا، جہاں امام بخاری کا روضہ اقدس اور امیر تیمور کا مزار ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ چودھری حامد محمود نے ازبک حکومت کے نمائندہ کے طور پر ہماری آؤ بھگت میں کوئی کسر نہ چھوڑی، چودھری صاحب ہمیں ”وصول “ کرنے کے لئے ہم سے پہلے تاشقند پہنچ گئے تھے اور پر کشش شخصیت کا حامل یہ نوجوان تین دن سائے کی طرح ہمارے ساتھ رہا اور ہماری تمام تر خواہش اور کوشش کے باوجود ہمیں شکایت کا کوئی موقع نہیں دیا۔ دراصل ہم صحافیوں کو تنقید کیلئے کچھ نہ کچھ مواد درکار ہوتا ہے جو بدقسمتی سے اس دورے میں ہمیں میسر نہ آ سکا ۔ ایک میزبان ہمارے اور بھی تھے اور ان کی میزبانی رضاکارانہ تھی یہ جماعت اسلامی اٹک کے رہنما رازق داد خان تھے ، جو صوبائی اسمبلی کے پکے پی پی 19سے جماعت کے امیدوار ہیں، تین دنوں میں ،میں نے انہیں ہر طرح ٹھونک بجا کر دیکھا، انکی ایک ایک حرکت پر کڑی نظر رکھی، ان کے عیب تلاش کرنے کی کوشش کی، ایک آخری کوشش یہ بھی کی کہ ان کی نیت کا حال جاننے کی کوشش کروں، مگر افسوس میں اپنی ہر کوشش میں ناکام رہا اور وہ مجھے ایک مخلص انسان لگے، ایک تو رضاکارانہ طور پر وہ ہر جگہ ہمارے ساتھ ہوتے تھے دوسرے ان کی ہمراہی ہماری اپنی ضرورت بھی تھی ،حبیب جالب نے ایک روز رات کے ایک بجے کافی ہاؤس سے نکل کر گھر جاتے ہوئے مولانا عبدالستار خاں نیازی سے کہا کہ ”میرے والد آپ کے بہت زیادہ عقیدت مند ہیں میری خواہش ہے کہ آپ آج رات ہمارے گھر پر قیام فرمائیں“ مولانا رضا مند ہو گئے، جالب نے گھر پہنچ کر گھنٹی بجائی، تو جالب کے والد باہر نکلے، اور مولانا نیازی کو اپنے سامنے پاکر خوشی سے ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے، جالب نے اپنے والد کو مخاطب کیا اور کہا ”آپ روزانہ مجھے کہتے ہیں کہ رات گئے تم کن لفنگوں کے ساتھ گھومتے رہتے ہو، میں نے سوچا آج ان میں سے ایک کی ملاقات آپ سے کرا دوں ، سو جماعت اسلامی کے رہنما رازق داد خان کو بھی ہم بطور ”کریکٹر سرٹیفکیٹ “ اپنے ہر پروگرام میں ساتھ رکھتے تھے !
برا ہو اس گھٹنوں کی تکلیف کا جو تاشقند اور سمرقند میں سینکڑوں سیڑھیاں اترنے چڑھنے اور بہت سے مقامات پر پیدل چلنے کی وجہ سے بڑھ گئی ، یہ امر میرے لئے باعث حیرت تھا کہ بہترین انفراسٹرکچر کے باوجود بہت سے مقامات ایسے تھے جہاں نہ لفٹ تھی اور نہ ایسکیسلیٹر تھے ۔ چنانچہ سمر قند میں امام بخاری  کے روضہ اقدس پر سلام کے لئے گئے، تو باہر سیڑھیوں میں بیٹھ کر میں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے، اسی طرح امیر تیمور کی قبر کا نظارہ بھی دور ہی سے کیا۔ امیر تیمور تاشقند کا بیٹا تھا، اس نے 55ممالک فتح کئے وہ جو ملک فتح کرتا، فقط اس کے عالموں اور دانشوروں کو ”جان کی امان “ ملتی ۔وہ علم وفضل کا دلدادہ تھا اور یوں علماء و فضلاء کا دل سے قدردان اور ان کا بہت بڑا سرپرست تھا ۔ اس نے ابن خلدون کو اپنے دربار میں طلب کیا اور اس سے طویل بحثیں کیں ۔ بالاخر ابن خلدون نے یہ کہہ کر سلسلہ گفتگو ختم کیا کہ ”جہاں پناہ‘ میں نے آپ سے بڑا عالم اور کوئی نہیں دیکھا “چنانچہ امیر تیمور اپنی خود نوشت میں ابن خلدون کا یہ اقبالی بیان اپنے عالم ہونے کی سند کے طور پر بار بار پیش کرتا ہے !
جہاں تک امام بخاری  کے روضہ اقدس کا تعلق ہے میں اس کی جدید شکل دیکھ کر حیران ہو گیا اور میرے اندر مسرت کی ایک لہر جاگ اٹھی ، آج سے پندرہ برس قبل پاکستانی ادیبوں کے ایک وفد کو وہاں کی رائٹرز یونین نے ازبکستان میں مدعو کیا تھا جس کا ایک رکن میں بھی تھا ان دنوں امام بخاری  کا روضہ ”کوئی ویرانی سی ویرانی ہے “ کا نقشہ پیش کر رہا تھا، ایک چھوٹی سی عمارت اس کے سامنے ایک باغیجہ جس میں ایک بلند قامت درخت کھڑا تھا اور اس کے پہلو میں ایک مسجد جس میں سے ایک نمازی باہر نکل رہا تھا اب یہ روضہ وسیع وعریض قطعہ زمین پر عظیم الشان عمارت کے ساتھ موجود ہے ۔ یہاں زائرین اور سیاح بھی خاصی کثیر تعداد میں موجود تھے، اس سے ملحق مسجد بھی نمازیوں سے بھری ہوئی تھی ، روس سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سے ازبکستان اور دوسری ریاستوں نے مذہب پر عائد پابندیاں ختم کر دی ہیں ۔ البتہ کچھ پابندیاں برقرار ہیں ۔ کاش ان کا اطلاق پاکستان پر بھی ہو، مثلاً امام صاحب خطبہ جمعہ لاؤڈ سپیکر پر دیتے ہیں لیکن آواز کا والیم صرف اتنا ہے کہ مسجد کے احاطے سے باہر سنائی نہ دے جبکہ ہمارے ہاں چاروں طرف لاؤڈ سپیکر نصب کئے گئے ہوتے ہیں بلکہ ایک لاؤڈ سپیکر کا رخ تو آسمان کی طرف بھی ہوتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرکے کہا جا رہا ہوکہ یارب العالمین آپ سے معذرت کے ساتھ ،لیکن اصل اسلام تو یہ ہے کہ جس کی تشریح ہم کر رہے ہیں ۔
تاشقند کے سفر کے دوران حامد میر، جاوید چودھری اور راقم الحروف ہر وقت جیب میں لاکھوں روپے لیکر پھرتے تھے کیونکہ ہمارا ایک سو روپیہ ان کے ڈھائی ہزار ”سن “کے برابر ہے، تفنن برطرف، ازبکستان میں جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں یہاں قوانین بہت سخت ہیں اور ان پر عمل بھی ہوتا ہے ۔ ازبک حکومت سکیورٹی پر کسی قسم کا کمپرومائز نہیں کرتی، چنانچہ دو تین عشروں سے یہاں دہشت گرد کوئی کارروائی نہیں کر سکے، چیزیں خالص ملتی ہیں اور عوام کو جان ومال کا تحفظ حاصل ہے اس سارے سفر کے دوران میں سوچتا رہا کہ ہم سات سمندر پار دوستیاں لگاتے ہیں ،اور جو ملک صرف دو گھنٹوں کی مسافت پر ہے ان سے اتنی دوریاں کیوں ہیں ۔ کیا ہمارے ارباب اختیار کبھی اس بارے میں بھی کچھ سوچنے کی زحمت گوارا کریں گے ؟اور ہاں میں نے حضرت عمر فاروق  کے قول کو تمام سفر کے دوران یاد رکھا کہ کسی ایسے شخص کے بارے میں کوئی حتمی رائے نہ دو جس کے ساتھ تم نے سفر نہ کیا ہو ۔ اب میں حامد میر اور جاوید چودھری کا کیا کروں جن سے میں اس سفر سے پہلے بھی محبت کرتا تھا اور انہوں نے سفر کے دوران بھی بہترین ہم سفر ہونے کا ثبوت دیا ان سے مجھے صرف یہ شکایت رہی کہ وہ مجھے ”بزرگ “ کہتے رہے چنانچہ ایک روز مجھے انہیں ٹوکنا پڑا، میں نے انہیں مخاطب کیا اور کہا ”جس روز میں بزرگی کے مقام کو پہنچا ،میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آپ کو بتا دوں گا !“

بہ شکریہ روزنامہ جنگ
 
Top