دوزخ خالی شیطان زمین پر

کعنان

محفلین
دوزخ خالی شیطان زمین پر
17جنوری 2017

انگریزی کے مشہور ادیب میتیھوآرنلڈ نے انیسویں صد ی کے دوسرے نصف میں اپنے دورکے انتشار تذبذب اور بے اطمینانی کوکرب کے ساتھ محسوس کرتے ہوئے کہا تھا ’’ہم لوگ اس وقت دو دنیاؤں کے درمیان سانس لے رہے ہیں ایک تو مرچکی ہے اور دوسری بے سکت ہے۔‘‘ یہ اب سے کم وبیش سوسال پہلے کی آواز ہے، اس وقت زندگی کی نئی ضرورتوں اور بدلتی ہوئی قدروں اور اقدار کا صرف ایک مبہم احساس شروع ہوا تھا اس وقت دنیا مجموعی طورپر قناعت اور اطمینان میں زندگی گزار رہی تھی جو محض بے حسی کی علامتیں ہیں۔

آج فکر وعمل کے ہر شعبے میں جس طرح جان پرکھیل کر انقلابی کوشش کی جا رہی ہیں ان کا تصور بیسویں صدی سے پہلے کیا ہی نہیں جا سکتا تھا۔

لیوکریشیں کہتا تھا کہ ’’اس دنیا کے سوا دوزخ اورکہیں نہیں‘‘
جبکہ شیکسپیئر کہتا ہے، دوزخ خالی پڑی ہے، سارے شیطان زمین پر ہیں۔

تقسیم ہند برصغیر کی تاریخ کاسب سے اہم واقعہ تھا۔ دو قومی نظریے کی بنیاد پر کی گئی اس تقسیم نے اتنے مسائل کو حل نہیں کیے، جتنے نئے مسائل کو جنم دیا۔ ایک کروڑ افراد اپنے صدیوں پرانے گھر و شہر چھوڑ کر اجنبی دیاروں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے، مذہب کے نام لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، عورتوں کی بے حرمتی، بچے زندہ جلا دیے گئے، گھروں کو شعلوں کی نذرکر دیا گیا، تقسیم نے اپنوں کو بیگانہ کر دیا، آدمی سے اس کی انسانیت چھین لی، قتل وغارت و فسادات کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا، جہالت ، تعصب اور نفرت کے شکار لوگ مذہبی جنون میں ایک دوسرے کے خون سے دامن رنگتے رہے، فسادات میں انسان نے جس بربریت کا مظاہرہ کیا اس کی دوسری مثال برصغیر کی تاریخ میں نہیں ملتی۔

قرۃ العین حیدر کا شاہکار ناول آگ کا دریا ہندوستان کی ڈھائی ہزار سالہ تاریخ کو سمیٹے ہوئے ہے۔ ناول ٹی ایس ایلیٹ کی نظم The Waste Land سے شروع ہوتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ وقت ایک آگ کا دریا ہے جس کے آگے انسان ایک بس تنکے کی طرح ہے۔ یہ نظم پہلی جنگ عظیم کے بعد یورپ کی مایوسی، شکست خوردگی ،انسان کی بے وقعتی اور بے سمتی کی عکاس ہے۔


ایلیٹ کے خیال میں اب انسان ایسی بنجر جگہ پر پہنچ چکا ہے جہاں نشوونما کے امکانات ختم ہو چکے ہیں۔ یہ دور بڑے پیمانے پر اقدارکے خاتمے کا دور تھا جن کو فلسفیوں اور مذاہب نے تشکیل دیا جن میں جذبے کی بے لوثی اور روحانیت تھی۔ امکانات سے مایوسی کا یہی کرب آگ کا دریا کا بنیادی موضوع ہے۔ مصنفہ کے سامنے انسان کے ماضی کی طویل ترین تاریخ ہے۔ وقت نے انسان سے ہر دور میں خراج لیا ہے۔ انھوں نے صرف آج کے انسان کو نہیں بلکہ Total Human کو پیش کیا ہے۔


ان کا انسان مجموعی طورپر برا نہیں ہے چونکہ ماضی کے تجربات تلخ ہیں اس لیے ناول میں مایوسی اور ناامیدی کی کیفیت موجود ہے انھوں نے مذہبی، تاریخی، فلسفی، عیش پرست، جنگجو ہر طرح کے قالب میں انسان کو دیکھا ہے اور ایسا انسان پیش کیا ہے جو صدیاں گزار کر آ رہا ہے جوکہ تاریخ ہے اور صدیوں پر محیط وقت کا احاطہ کرتی ہے۔ آگ کا دریا تین تہذیبی ادوار میں تقسیم ہے جو ویدک دور سے شروع ہو کر موریہ خاندان کے دورحکومت، مغلوں کے عہد، سامراجی دور اورآخر میں ملک کی تقسیم کی واقعات کے تاریخی پس منظرکو پیش کرتا ہے ۔ وہ لکھتی ہیں

’’ہندوستان کی طرح پاکستان میں بھی قومی تعمیر نو کا کام تیزی سے شروع ہو چکا تھا نئے نئے خود کفیل ادارے قائم کیے جا رہے تھے۔ مہاجرین کو بسانے کے منصوبے لاگو کیے جا رہے تھے۔ اعلیٰ تعلیم کے وظائف بانٹے جا رہے تھے نئے معاشرے میں دولت اور خوش حالی ہی اعلیٰ نسبی کا معیار تھی چنانچہ ہر شخص جھوٹے سچے کلیم داخل کر کے کوٹھیاں، زمینیں و کارخانے ہتھیانے میں لگا تھا کیونکہ اس معاشرے کی بنیاد روپے پر قائم ہے ہندوستان پوری کوشش کر کے یہ ثابت کرنے میں مصروف ہے کہ تقسیم غلط ہے اور ملک دراصل ایک ہے اور اس کی تہذیب ناقابل تقسیم، پاکستان ثابت کرنے پر بضد ہے کہ تقسیم بالکل صحیح تھی اور یہاں کا کلچر بے حد مختلف ہے اور اسی علیحدہ قومیت کی بنا پر یہ ملک حاصل کیا گیا۔ مجموعی طورپر نئے پاکستان کی سوسائٹی ریکٹس کی سوسائٹی ہے سیاست، ادب، تاریخ اور مذہب کے ریکٹ نئے پاکستان میں چلائے جا رہے ہیں۔ ان میں سب سے جاندار ریکٹ اسلام کا ہے۔‘‘

’’اسلام‘‘ اس لفظ کی جوگت بنی ہے (کرکٹ میچ میں پاکستانی ٹیم ہارنے لگے تو سمجھو اسلام خطرے میں ہے) دنیا کے ہر مسئلے کی تان آخر میں آ کر اسی لفظ پر ٹوٹتی ہے دوسرے مسلمان ملک اس بات پر خوب چڑتے ہیں کہ ساری دنیا کی طرف سے اسلام کا ٹھیکہ اس وقت ان لوگوں نے لے رکھا ہے ہر چیز پرتنگ نظری کا غلاف چڑھا ہوا ہے موسیقی، آرٹ، تہذیب ، علم و ادب سب کو ملا کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے اسلام جو ایک چڑھتے ہوئے دریا کی طرح انگنت معاون ندی نالوں کو اپنے دھارے میں لپیٹ کر ایک عظیم آبشار کی صورت میں رواں تھا اب وہ سمٹ کر ایک مٹیالے نالے میں تبدیل کیا جا رہا ہے لطیفہ یہ کہ اسلام کا نعرہ لگانے والوں کو صرف اتنا معلوم ہے کہ مسلمانوں نے آٹھ سو سال عیسائی اسپین پر حکومت کی ایک ہزار سال تک ہندو بھارت پر حکمرانی کی عثمانیوں نے 5 صدیوں تک مشرقی یورپ کو تابع رکھا امپیریلزم کے علاوہ اسلام کی جو عظیم انسان پرستی کی روایات ہیں ان کا تذکرہ نہیں کیا جاتا۔‘‘ قرۃ العین حیدر نے یہ ناول 1957ء میں لکھا آج ہم جب 2017ء میں پاکستانی سماج پر نظر دوڑاتے ہیں تو کم و بیش اسی صورتحال کا آج بھی ہمیں سامنا ہے جس صورتحال کا اس ناول میں ذکر ہے ہم سالوں بعد بھی اسی مقام پرکھڑے ہیں جہاں سے ہم نے سفر شروع کیا تھا۔

آج بھی روپیہ، پیسہ ہمارے سماج میں عزت واحترام کا سب سے بڑاپیمانہ ہے۔ آج بھی لوگ جائز وناجائز طریقے سے پیسے کمانے کی دوڑ میں شامل ہیں، آج بھی معاشرے کی بنیاد روپے پر قائم ہے آج بھی چند لوگوں کی ہوس کی وجہ سے کروڑوں انسانوں کی زندگی جہنم سے زیادہ بدتر ہو چکی ہے۔ دنیا نے اپنے آپ کو بالکل بدل لیا ہے لیکن ہم بالکل نہیں بدلے آج بھی ذرہ ذرہ سی بات پر اسلام خطرے میں پڑ جاتا ہے اگر اپنے فائد ے کی بات ہو تو ہر بات حلال ہے اور وہی بات دوسرے کی ہو تو حرام ہے۔

آج بھی تمام اسلامی ممالک کا درد ہمارے دلوں میں لہرے مارتا پھر رہا ہے، بس کسی اسلامی ملک میں کوئی نا خوشگوار واقعہ تو ہو جائے ہم ان سے پہلے مظاہرے، احتجاج اور ہڑتالیں شروع کر دیتے ہیں پوری دنیا میں اسلام کا ہم سے بڑا ٹھیکیدار کوئی ہے اور نہ ہی کوئی ہو سکتا ہے۔ ہمیں اپنے بدترین حالات سے کوئی سروکار اوردلچسپی نہیں اور نہ ہی ہم انھیں صحیح کرنے کی فکر میں ہیں لیکن ہم تمام اسلامی ممالک کے اندرونی حالات پر دور بین لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔ لکھنے پڑھنے سے ہمیں چڑ ہے، سوچنے سے حد درجہ نفرت ہے، اسلام کی حقیقی روح کے مطابق عمل کرنے کی بات پر ہمارا چہرہ غصے سے لال پیلا ہوجاتا ہے۔ ہمیں زندگی کے ہر مسئلے کو کفر واسلام کی روشنی میں دیکھنے کی عادت پڑگئی ہے یقینا میتھیوآرنلڈ نے یہ بات کہ ’’ہم لوگ اس وقت دودنیاؤں کے درمیان سانس لے رہے ہیں ایک تو مر چکی ہے اور دوسری اتنی بے سکت ہے کہ کسی طرح پیدا نہیں ہو پاتی‘‘ ہمارے لیے ہی کہی ہے۔

(شکریہ آفتاب احمد خانزادہ)

ح
 
آخری تدوین:
Top