دور استبصار ، انقلابِ فرانس اور مختلف فلسفیوں کا کردار۔۔

ملائکہ

محفلین
دور استبصار ، انقلابِ فرانس اور مختلف فلسفیوں کا کردار۔۔

اٹھارویں صدی کے دور استبصار نے مغربی یورپ کے درمیانی طبقے میں ایک نئی سوچ پیدا کی جسکی وجہ سے انقلاب فرانس کے لوگوں نے اپنے سماجی اور سیاسی اداروں کو تبدیلی کی طرف لیکر جانے کی کوشش کی۔ جن اداروں میں بادشاہت، کلیسا اور جاگیرداری کے ادارے شامل ہیں۔
دور استبصار نے انسانیت کو سوچنے کی نئی راہیں متعین کیں۔۔ اس تحریک کے مجوزہ لوگ والٹیئر، ڈیڈوٹ، مونٹیسکیو اور روسو تھے اور انکے خیالات پچھلی صدی کے سائنسی انقلاب سے ہم آہنگ تھے۔ گیلیئو، کیپلز اور نیوٹن نے فیزکس اور علمِ کائنات پر جو تحقیق کی اس نے نئی تحقیق کے لئے لامحدود رائیں کھول دیں۔ اس دور کے فلسفی اس بات پر متفق تھے کہ مختلف مخلوقات کا وجود منطقی عمل کا نتیجہ ہے اور یہ انسان کیلئے ممکن ہے کہ وہ کائنات کے اصولوں کو سمجھ کر اپنی سوسائٹی، سیاست اور اکلاق کو بہتر کرسکے۔ اگر یہ اصول انسان سمجھ لے تو پھر یہ سمجھنا آسان ہوجائے گا کہ ہم ہیں کیا، ہمارا مقصد کیا ہے اور ہمیں کیا کرنا چائیے۔
اس دور کے فلسفیوں کے مطابق، مغربی عیسائی تہذیب، منطقی کے ہم آہنگ نہیں۔ مطلق بادشاہت، امراء کی حکومت اور کلیسا کے ادارے انکی تحقیقات کا حصہ بنے۔ آمر حکمران، جاگیردار اور کلیسا کے پادری انکے طنز کا شکار بنے۔
ان فلسفیوں کے بہت سے بولڈ نظریے سینسر کا شکار ہوئے مگر انھوں نے اپنا پیغام اشاعت کے ذریعے لوگوں تک پہنچایا۔ اس دور میں لکھی گئی ایک مشہور کتاب "انسائیکلوپیڈیا- آرٹ اور سائنس کی منطقی ڈکیشنری" جو کہ ڈینس ڈیڈوٹ نے ایڈٹ کی۔ اسکا پہلا حصہ 1752 میں شائع کیا گیا مگر اسکے بعد 35 اور حصے شائع کئے گئے اور اس کتاب کا آخری حصہ 1780 میں شائع کیا گیا۔ اس کتاب میں نشاتہ ثانیہ سے لیکر اب تک کی مختلف پیش رفت جو کہ مختلف فلسفیوں کی وجہ سے ہوئی اس کے بارے میں معلومات ہیں۔

ان فلسفیوں نے انگریزی تہذیب کو سراہا۔ والٹیئر کی پہلی اہم اشاعت " فلسفیوں کے خطوط " 17 34 میں شائع کی گئی۔ جس میں انھوں نے انگریزوں کو حاصل آزادی کو سراہا۔ انگیزوں کو بغیر جرم کے گرفتار کرنے کی اجازت نہ ہونا، آزادی حق رائے دہی، پریس کی آزادی اور مذھب کی آزادی کو سراہا گیا۔ والٹئیر نے معاشرے میں موجود نا انصافی، طاقت کا بے جا استعمال ، کلیسا کا مذھب کے بارے میں سخت اور ہٹ دھرم ہونا والٹئیر کو سخت ناپسند تھا۔
فلسفیوں نے مذھب کو بھی سیاست کی طرح منطقی نظر سے دیکھا۔ فلسفی اس بات مطفق تھے کہ یہ کائنات بے مقصد وجود میں نہیں آئی اور یہ کائنات کسی ذہین بنانے والے کی زات کا مظہر ہے مگر فلسفی بائبل کی بیان کردہ وجود کا ئنات کی تشریح سے مطفق نہ تھے۔ انکے خیال میں معجزوں اور مختلف واقعات کی عقلی تشریح اور اصول بیان نہیں کئے جاسکتے۔
آزادی کے حامی چارلس ڈی سیکونڈیٹ اور بیرون ڈی مونٹیسکیو (جو کہ انگریزی سیاسی نظام کے حامی تھے) اپنی بہت مشہور کتاب "قوانین کی روح" جو کہ 1748 میں شائع ہوئی، اس میں قانون اورمختلف طرح کی حکومت کا تقابلی جائزہ لیا۔ جس میں انھوں نے محدود بادشاہت کو بہت پسند کیا۔
انھوں نے لکھا کہ محدود بادشاہت سے کئی گنا زیادہ مضبوط اور بہتر نظام ہے

انقلاب فرانس ایسے واقعات کا سلسلہ ہے جن کے ذریعے سماجی برابری، لوگوں کی آزادی اور قوم کی بقاء فراہم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس انقلاب کے ذریعے ایک ایسی نئی طرز حکومت کی تشکیل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس انقلاب کے ذریعے ایک ایسی نئی طرز حکومت کی تشکیل کرنے کی کوشش کی گئی جو کہ جمہوری ریاست کا قیام عمل میں لاسکے۔
نشاتہ ثانیہ کے فلسفیوں نے جو بھی خیالات پیش کئے وہ خیالات بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر معاشرے کے سماجی اور سیاسی حالات پر اثرانداز ہوئے۔ بہت سے فرانسیسی فلسفی اور عالموں کو ملک بدر کردیا گیا اور کچھ جو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ جبکہ انکے لکھے گئے مضمونوں اور کتابوں پر پابندی لگا دی گئی۔
لیکن اس نئی لہر کو روکنا بہت مشکل ثابت ہوا۔ اگر کسی فلسفی کو کلیسا یا حکومت پکڑنے کا حکم جاری کرتی اور پولیس اسے پکڑ لیتی تو کہیں نا کہیں سے اسکے لئے مدد پہنچ جاتی۔ اس فلسفی کو یا تو کسی محفوظ مقام پر منتقل کردیا جاتا یا اسے باحفاظت کسی دعسرے ملک پہنچا دیا جاتا۔ اگر فرانس میں کسی کتاب پر پابندی لگا دی جاتی تو اسے ایمسٹرڈیم میں چھاپ دیا جاتا۔ سینسر کو دھوکا دینے کے لئے کبھی یہ بھی کیا جاتا کہ کتاب کے سرورق پر ایمسٹرڈیم کا نام لکھوا دیا جاتا جبکہ کتاب پیرس میں پی چھپتی۔
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ان فلسفیوں نے ایک ایسے نثام کی بنیاد رکھی جو کہ آگت چل کر انیسوں صدی کی آزاد خیالی کی تحریک کی بنیاد بنی۔ فرانس کے فلسفی مذھبی رواداری، عام فراد کی آذادی مختلف طبقوں میں برابری اور منطقی فلسفے کی آزادی کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ انکے نئے خیالات موجودہ معاشرے کے ہر پہلو پر اثرانداز ہوئے۔ انکے خیالات علمی طبقوں میں بہت مشہور ہوئے۔ بہت سے امیر جاگیردار اور بااثر پادریوں نے بھی ان نئے نظریوں کو تسلیم کیا اور ان پر مختلف اوقات میں دلچسی ظاہر کی۔

روسو:
rousseau-jj.jpg

روسو عام لوگوں سے مختلف انسان تھا۔ بہت کم لوگ اسکے دوست بن پاتے تھے وہ اکثر اپنے ساتھیوں سے لڑ پڑتا تھا مگر پھر بھی بہت سے کاؤنٹ، ڈیوک، بااثر خواتین اور سفیر روسو کو ہاتھوں ہاتھ لیتے اور مشکل وقت میں محفوظ مقامات فراہم کرتے۔
لوہی 15 نے کوشش کی کہ روسو کو کورٹ میں بلا کر اسے ایک مناسب رقم بطور پیشن کے دی جائے مگر ایسا نا ہوا۔ اسکی لکھی گئی کتابوں کو پڑھ کر اکثر لوگ آبدیدہ ہوجاتے اور مختلف جگہوں پر اسکی کتابوں پر بحث کی جاتی۔
روسو اپنی کتاب "سماجی معاہدہ" میں لکھتا ہے:

"حکومت کو لوگوں کی بھلائی کے لئے تشکیل دیا جاتا ہے۔ حکومت کو اس برح کے کام کرنے چائیے کہ معاشرے میں بھلائی پیدا ہو۔ جبکہ یہ حکومت ظالمانہ رویہ اختیار کرچکی ہے اس حکومت کے بنائے گئے سخت قوانین ، بےشمار ٹیکس، پولیس، آرمی اور آفیسرز نے مل کر ایک عام آدمی کی آزادی چھین لی ہے اور اسے غلام بنا دیا ہے۔ اس بری حکومت کی وجہ سے انسان بھلائی سے دور ہوگیا ہے۔ اسکا حل یہ ہے کہ ایک نئی اور بہتر حکومت تشکیل کی جائے جو کہ عام عوام کی خواہش کا مظہر ہو۔"
حوالاجات:
History of Europe by Carlton J.H. Hayes, Marshall Whithed Baldwin and Charles Woolsey Cole​
The French Revoultion, voices from a momentous epoch 1789-1795 by Richard Cobb.​
کنول خورشید​
 

حسان خان

لائبریرین
معلوماتی پوسٹ کے لیے شکریہ ملائکہ صاحبہ۔ :)

ذرا 'استبصار' کا اصطلاحی مطلب بھی بتا دیجئے، کیونکہ یہ 'دورِ استبصار' میں پہلی بار دیکھ رہا ہوں لہذا اس کا مطلب سمجھ پانے سے قاصر ہوں۔ :)
 

ملائکہ

محفلین
معلوماتی پوسٹ کے لیے شکریہ ملائکہ صاحبہ۔ :)

ذرا 'استبصار' کا اصطلاحی مطلب بھی بتا دیجئے، کیونکہ یہ 'دورِ استبصار' میں پہلی بار دیکھ رہا ہوں لہذا اس کا مطلب سمجھ پانے سے قاصر ہوں۔ :)
Age of Enlightenment مجھے تو خود نہیں پتہ تھا۔۔۔ میں نے سرچ کیا۔۔۔۔
 

ملائکہ

محفلین
اصل میں میں Industrial Revolution کہنا چاہ رہا تھا۔

:cautious: معاف کیجئے گا میں سیریس معاملات میں ہنسی مذاق اتنا پسند نہیں کرتی۔۔۔ جہاں علم کی بات ہو انسان کو میچوریٹی ظاہر کرنی چائیے ویسے کہیں اور آپ جتنا مذاق کریں میں آپ سے آگے ہونگی لیکن کچھ معاملات میں مجھے مذاق بالکل پسند نہیں۔۔۔
 

سید ذیشان

محفلین
:cautious: معاف کیجئے گا میں سیریس معاملات میں ہنسی مذاق اتنا پسند نہیں کرتی۔۔۔ جہاں علم کی بات ہو انسان کو میچوریٹی ظاہر کرنی چائیے ویسے کہیں اور آپ جتنا مذاق کریں میں آپ سے آگے ہونگی لیکن کچھ معاملات میں مجھے مذاق بالکل پسند نہیں۔۔۔

نو پرابلیمو :)
 

تلمیذ

لائبریرین
ایک عمدہ معلوماتی مضمون ہے۔ پوسٹ کرنے کےلئے شکریہ، جزاک اللہ!
کسی تحریر کو پوسٹ کرنے سے پہلے براہ کرم دوبارہ ایک نظر ڈال لیا کریں، اس طرح کمپوزنگ میں جو اغلاط ہوتی ہیں وہ درست ہو جاتی ہیں اور قاری کو پڑھتے وقت گراں نہیں گزرتیں۔
 

ملائکہ

محفلین
ایک عمدہ معلوماتی مضمون ہے۔ پوسٹ کرنے کےلئے شکریہ، جزاک اللہ!
کسی تحریر کو پوسٹ کرنے سے پہلے براہ کرم دوبارہ ایک نظر ڈال لیا کریں، اس طرح کمپوزنگ میں جو اغلاط ہوتی ہیں وہ درست ہو جاتی ہیں اور قاری کو پڑھتے وقت گراں نہیں گزرتیں۔
میں لکھتے لکھتے تھک گئی تھی نا۔۔۔۔۔
 
Top